Bionic old lady – بایونک بُڑھیا

Bionic-old-lady

بایونک بُڑھیا

( ایک بُڑھیا کی کہانی جس کے مشینی اعضاء لگا دیے گئے تھے)

          وہ بُڑھیا تقریباً روزانہ میرے ساتھ چوک کراس کیا کرتی تھی۔ صبح آٹھ بجے جانے اور دوپہر دو بجے آنے کے اوقات اس کے بھی وہی تھے جو میرے تھے۔ وہ خاصی بوڑھی تھی ، پینسٹھ اور ستر کے درمیان تو ضرور ہوگی۔ اس کی نظر بہت کمزور تھی ۔ موٹی عینک لگا کر بھی راستہ اس کو بمشکل نظر آتا تھا۔ غالباً گنٹھیا کی مریض تھی، اس لیے چھڑی لے کر بھی بڑی مشکل سے چلتی تھی ۔ پھر بھی نہ جانے روزانہ کہاں جاتی تھی ……  شاید کہیں محنت مزدوری کرتی تھی۔ تبھی اتنی پابندی سے دفتری اوقات میں جا اور آرہی ہوتی تھی، شاید کوئی آگے پیچھے نہ تھا۔ تبھی تو بے چاری کو اس عمر میں بھی کانپتے ہاتھوں پیروں سے کام کے لیے جانا پڑتا تھا۔

          اس کے بڑھاپے کا خیال کرکے میں اور مجھ جیسے اکثر نوجوان جو خود بھی سڑک کراس کرنے کے لیے ٹریفک رکنے کے انتظار میں کھڑے ہوتے تھے۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اپنے ساتھ سڑک کراس کرا دیتے تھے جس پر وہ خوش ہوکر ڈھیروں دعائیں دیتی تھی ۔ سچ پوچھو تو میں تو ہمیشہ دعائوں کے لالچ ہی میں اسے سڑک پار کرایا کرتا تھا، کیونکہ میں ایم بی بی ایس کے پہلے سال میں پڑھتا تھا اور محنت کے ساتھ ساتھ دعائوں کی افادیت سے بھی واقف تھا۔ مجھے دعائیں دینے والی میری اپنی امی فوت ہوچکی تھیں۔ اس لیے مجھے اس بوڑھی خاتون کی دعائیں بہت اچھی اور اہم لگتی تھیں ۔

          سردی ہو، گرمی ہو یا برسات ، وہ ہمیشہ وقت کی پابندی کرتی تھی۔ شاید بوڑھے لوگوں کو وقت کی زیادہ قدر ہوتی ہے۔ اس کو دیکھ کر اکثر لوگ اپنی گھڑیاں درست کیا کرتے تھے۔ ویسے تو وہ مجھے اور میں اسے اچھی طرح پہچانتے تھے اور روزانہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مُسکراتے بھی تھے لیکن اس سے زیادہ جاننے کی نہ کبھی اُسے فرصت ہوتی تھی، نہ میرے پاس ٹائم ہوتا تھا۔

          جون کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ لہٰذا تمام طالب علموں کو گرمیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔ مجھے بھی امتحانات کے بعد چھٹیاں تھیں اور میں بھی اپنے والد کے پاس گوجرانوالہ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس دن میں آخری دفعہ کالج جا رہا تھا کیونکہ مجھے اپنے ایک دوست سے کچھ کام تھا۔ اس دن چونکہ مجھے کوئی کلاس تو اٹینڈ نہیں کرنی تھی۔ لہٰذا میں معمول سے دس پندرہ منٹ لیٹ تھا۔ مجھے اس بڑھیا کا خیال تو آیا تھا لیکن میں نے سوچا کہ اب تک کسی نہ کسی نے تو سڑک پار کرا ہی دی ہوگی ۔ لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ سڑک سنسان پڑی تھی ۔ ایک تو چھٹیاں ہوچکی تھیں ، دوسرا بلا کی گرمی تھی ۔ اس لیے جنہیں چھٹیاں نہیں تھیں، انہوں نے بھی چھٹی کر لی تھی ۔

          ابھی میں چوک سے خاصی دور تھا کہ میری نظر بڑھیا پر پڑی جو غالباً کوئی سہارا نہ ملنے پر وقت ضائع کیے بغیر خود ہی سڑک پار کرنے کے لیے گاڑیوں کے اُس سمندر میں کود پڑی تھی۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہ اپنی سست رفتاری کی وجہ سے ابھی سڑک پار بھی نہ کر پائی تھی کہ سگنل کھل گیا۔ وہ پیچھے سے آتی ایک انتہائی تیز رفتار گاڑی کی زد میں آگئی جس نے اسے اُٹھا کر کئی فٹ دور فٹ پاتھ سے بھی پرے دے مارا ۔ گو مجھے اس حادثے کا پہلے سے ڈر تھا اور میں اس لیے بڑھیا کی طرف تیز تیز چلنے لگا تھا پھر بھی اتنا خطرناک حادثہ دیکھ کر میرے توحواس ہی کھو گئے۔ میں فوری طور پر اس طرف پہنچ بھی نہیں سکتا تھاکیونکہ سگنل کھلا تھا اور گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ اس گاڑی والے نے تو رکنے کی بھی زحمت نہ کی۔ ویسے وہ رک بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ٹریفک کا اس قدر اژدہام تھا اور گاڑیاں اتنی تیز رفتاری سے گزر رہی تھیں کہ اگر وہ رکنے کی کوشش کرتا تو پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کی وجہ سے اور بھی بہت سے حادثے ہوسکتے تھے۔

          بہرحال، جب تک سگنل دوبارہ بند ہوا اور میں وہاں پہنچا تو غالباً کوئی ریسکیو کی ایمبولینس اس کو لے جا چکی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا حادثہ پہلی بار دیکھا تھا۔ میرا دل بہت خراب ہوا اور میں دوست سے ملے بغیر ہی واپس گھر کی طرف چل پڑا ۔ مجھے رہ رہ کر وہ بڑھیا اور اس کی دی ہوئی لمبی عمر کی دُعائیں یاد آرہیں تھیں۔ بے چاری دوسروں کو لمبی عمر کی دُعائیں دیتے دیتے خود ہی چل بسی تھی۔ ظاہر ہے اتنا خوفناک حادثہ اور وہ ستر سالہ بڑھیا …..  بھلا وہ بچ کیسے سکتی تھی ؟

          میں اسی کیفیت سے دوچار اپنے والد کے پاس گوجرانوالہ پہنچ گیا۔ ان کو بھی جاکر اس حادثے کے متعلق بتایا۔ انہیں بھی بہت افسوس ہوا۔ کافی دنوں تک میرا دل بہت اداس رہا۔ وہ تو شکر ہوا کہ چھٹیاں تھیں اور میں اپنے والد اور رشتہ داروں کے پاس تھا۔ ورنہ تو شاید میں پڑھائی بھی ٹھیک سے نہ کر پاتا اور اس راستے سے کالج بھی نہ جا پاتا۔

          دو ڈھائی ماہ کی چھٹیوں میں میرا دل کافی حد تک سنبھل چکا تھا۔ اب ایک ہلکی سی یاد ہی باقی تھی۔ وہ بھی اس بُڑھیا کی ماں جیسی دُعائوں کے لیے۔ اب میں واپس لاہور آچکا تھا اور باقاعدگی سے کالج جانا شروع کردیا تھا۔ لیکن حسب عادت نظریں اُسی بڑھیا کو ڈھونڈتیں کہ شاید ابھی کہیں سے نکل آئے اور مسکرا کر مجھے دیکھے اور میں اسے حسب عادت ہاتھ پکڑ کر راستہ پار کرائوں۔ انسان لا شعوری طور پر کتنی ساری باتوں کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔ احساس اُس چیز کے چلے جانے کے بعد ہوتا ہے اور جب کوئی چیز بہت عرصے تک آنکھوں کے سامنے نہ آئے تو پھر اس کی عادت ختم بھی ہوجاتی ہے، اسی طرح آہستہ آہستہ یہ عادت بھی ختم ہوتی گئی ۔

          اس بات کو سات آٹھ ماہ گزر گئے اور میں سب باتیں بالکل بھول چکا تھا، لیکن شاید پھر بھی دماغ کے کسی گوشے میں اس بڑھیا کی شکل محفوظ۔ تبھی ایک دن سڑک کراس کرتے ہوئے میں نے لا شعوری طور پر یونہی پیچھے مُڑ کر دیکھا تو مجھے بڑھیا کی شکل دکھائی دی۔ چند لمحے میں نے غور کیا کہ آیا جو کچھ میں نے دیکھا وہ واقعی حقیقت ہے یا میرا وہم۔ زیادہ حیرت کی وجہ یہ تھی کہ وہ بڑھیا مجھے بڑی صحت مند اور چاق و چوبند محسوس ہو رہی تھی۔ اسی خیال سے میں نے دوبارہ مُڑ کر دیکھنا چاہا تو اچانک ٹریفک سگنل کھل گیا اور گاڑیاں ہارن پہ ہارن بجانے لگیں جس سے میں اور بھی حواس باختہ ہوگیا۔ عین ممکن تھا کہ میں بھی کسی گاڑی کے نیچے آجاتا کہ مجھے پیچھے سے کسی نے زور دار دھکا دیا اور میں فٹ پاتھ پر جا گرا۔ چوٹ تو آئی لیکن جان بچ گئی۔ پھر مجھے کسی مضبوط ہاتھ نے ایک جھٹکے سے اُٹھا کر کھڑا کردیا، وہ جھٹکا بھی اتنا زوردار تھا کہ میں سمجھا کوئی غیر انسانی طاقت ہے کہ جس نے مجھے حادثے سے بھی بچایا اور یوں اُٹھا کہ کھڑا بھی کردیا۔ جب میں نے مُڑ کر اس طاقت کو دیکھنا چاہا تو میرے منہ سے حیرت میں ڈوبی ہوئی ایک چیخ نکلی ، کیونکہ یہ وہی بڑھیا تھی!

          مجھے دیکھ کر بڑھیا کے چہرے پر وہی شناسا سی مسکراہٹ پھیل گئی جبکہ اسے دیکھ کر میری حیرتوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اس نے میری کیفیت کو بھانپتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر مجھے فٹ پاتھ پر بنے ایک قریبی بینچ پر بٹھایا اور اپنے دوپٹے سے مجھے ہوا جھلنے لگی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید اُس ممکنہ حادثے اور شدید گرمی سے میرا یہ حال ہوا ہے، جبکہ میں برابر اسے حیرت سے تکتے جارہا تھا۔ آخر میری حیرت کو الفاظ مل گئے اور میں نے اس سے پوچھ ہی لیا :

’’ اماں …..  کیا تم …..  وہی اماں ہو …..  جسے …..  میں سڑک پار …..  کرایا …..  کرتا …..  تھا ؟ ‘‘

          اماں نے یہ سن کر زور دار قہقہہ لگایا پھر میرے کندھے پر اپنا طاقت ور ہاتھ مار کر بولی!

          ’’ لے پُتر حد کردی …..  تو نے مجھے ابھی تک پہچانا نہیں، میں نے تو تجھے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا ، یہ تو حال ہے آج کل کے نوجوانوں کا۔ ‘‘ اور میں اماں کی نظر پر حیران ہو رہا تھا کہ کبھی تو یہ حال تھا کہ بہت موٹی عینک کے باوجود بھی سڑک صاف نظر نہیں آتی تھی اور اب یہ صورتِ حال ہے کہ بغیر عینک کے بھی مجھے اتنی دور سے پہچان لیا اور اُلٹا میری نظر پر طنز کر رہی ہے۔ اس کی ہر ہر بات مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ توڑ رہی تھی اور میرا شک یقین میں بدلنے لگا تھا کہ یہ وہ اماں نہیں ، بلکہ اُسکی روح ہے۔

          ’’ اماں ناراض نہ ہو …..  تو ایک …..  ایک بات پوچھوں ؟ ‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

          ’’ ہاں بیٹا …..  ضرور پوچھو ، بے شک پوچھو …..  میں تمہاری ماں کی طرح ہوں۔ ‘‘ بڑھیا پیار سے بولی۔

          ’’ ماں…..   کی …..   طرح ، وہ بھی تو …..   مرحوم ہے ! میں نے دل میں سوچا اور بڑھیا سے ذرا دور کھسک گیا۔ پھر ہمت کرکے پوچھا !

          ’’ مگر اماں تمہارا تو بڑا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا تھا، یہیں اِسی چوک پر …..  پھر تم …..   میرا مطلب ہے کہ اب تو تم پہلے سے بھی زیادہ صحت مند اور اچھی ہوگئی ہو …..   یہ سب کیسے ہوا ؟ ‘‘

          ’’ بس بیٹا …..   سب اللہ کا کام ہے۔ اُسی نے یہ نئی زندگی دی ہے، ورنہ میں تو مرنے سے بھی بدتر ہوگئی تھی۔ یہ سب ڈاکٹر صاحب کی مہربانی ہے اور اس انگریز ڈاکٹر کی محنت ہے جو میں ایسی صحت مند ہوگئی ہوں۔ اُس نے میرے اندر ایسے پُرزے لگائے کہ میں تو بھاگنے دوڑنے لگی اور نظر ایسی کہ اُڑتی چڑیا کے پر گِن لوں ۔ ‘‘

          ’’ مگر اماں …..   یہاںایسا کون سا ڈاکٹر ہے ؟مجھے بھی تو بتائو ….. آخر میں بھی تو ڈاکٹر بن رہا ہوں ‘‘

          ’’ اچھا میرا پُتر…. ؟ توں بھی ڈاکٹر بن رہا ہے؟ چل پھر میرے ساتھ چل میں تجھے اُس نیک ڈاکٹر سے ملوائوں ، ‘‘ اماں نے اُٹھ کر میرا ہاتھ پکڑ کر ایسے اُٹھایا جیسے کوئی ہلکی پھلکی چیز اٹھائی ہو، اور ایک طرف کو چل پڑی، اور چلتے چلتے بولی ’’ قریب ہی ڈاکٹر صاحب کا گھر ہے۔ ابھی وہ گھر پر ہی ہوں گے۔ بہت نیک انسان ہیں۔ میں ان کے گھر پر ہی تو کام کرتی تھی جب میرا حادثہ ہوا تھا۔ میں اُن کی بوڑھی ماں کی خدمت کرتی تھی۔ اللہ بخشے مجھ سے بھی کوئی دس پندرہ سال بڑی تھی اور مجھے بزرگوں کی خدمت کا بہت شوق ہے۔ پھر اللہ بھی تو خوش ہوتا ہے۔ بس سمجھ لو یہ جو مجھے صحت اور نئی زندگی ملی ہے، اُسی خدمت کا صلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ سب کو اس کے کیے کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ میں جاہل ، کم عقل، کمزور اور بوڑھی عورت ذات ، جس کو نہ دکھائی دیتا تھا، نہ ہاتھ پیر کام کرتے تھے، جو دو وقت کی روٹی کے لیے ڈاکٹر صاحب کے آسرے پر پڑی تھی اور اُن کی ماں کی تھوڑی بہت خدمت کردیتی تھی، اللہ نے دیکھو اس کا کتنا بڑا صلہ دیا۔ حالانکہ میں اس قابل کہاں تھی؟ اگر میں مر بھی جاتی تو کوئی پیچھے آنسو بہانے والا بھی نہیں تھا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ اماں اب تو تمہارے ہاتھ پیر چلنے لگے ہیں۔ کوئی اچھا کام دلا دوں، مگر میں نے کہا ! لو جی، ابھی تو میں ماں جی کی صحیح خدمت کرنے کے لائق ہوئی ہوں تو اب آپ مجھے اس سعادت سے محروم کرنا چاہتے ہو۔ پچھلے ماہ ہی ماں جی کا انتقال ہوا ہے۔ ‘‘

          ’’ لو بھئی ! ڈاکٹر صاحب کا گھر آگیا! ‘‘ اماں بولی۔

          ’’ اور تمہاری باتیں بھی ختم ہوگئیں! ‘‘ میں نے کہا تو اماں نے ایک اور زور دار قہقہہ لگایا۔ قہقہوں کا بھی شاید صحت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا، اس لیے پہلے ہر وقت غمزدہ آہیں بھرنے والی یہ بوڑھی اب بات بات پر قہقہے لگا رہی تھی ۔

          اپنے شاندار اور وسیع و عریض بنگلے کی لائبریری میں بیٹھے ڈاکٹر صاحب چائے پی رہے تھے اور اخبار پڑھ رہے تھے۔

          ’’ ڈاکٹر صاحب کیا آج آپ کو ہسپتال نہیں جانا ؟ ‘‘ اماں نے ڈاکٹر صاحب کو یوں بے فکری سے لائبریری میں بیٹھے دیکھ کر پوچھا تو اُنہوں نے چونک کر ہماری طرف دیکھا پھر مسکرا کر بولے’’ آئو اماں آئو …..   دراصل آج میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی، اس لیے دل نہیں چاہا جانے کو ۔‘‘

          ’’ یہ تو آپ نے بہت ہی نیک کام کیا ہے صاحب ، آپ کام بھی تو بہت کرتے ہیں اور جب سے ماں جی فوت ہوئی ہیں، آپ کو آرام بالکل ہی نہیں ملا، میں آپ کا سر دبا دوں ! ‘‘ اماں نے ہاتھ ان کے سر کی طرف بڑھایا تو وہ گھبرا کر بولے ’’ نہیں نہیں …..   اماں رہنے دو اب اتنی بھی طبیعت خراب نہیں ہے ! ‘‘ پھر میری طرف دیکھ کر بولے ! ’’ یہ نوجوان کون ہے ؟ ‘‘

          ’’اوہو …..   دیکھا ! ‘‘ اماں ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی ! ’’ میں بھی کتنی بے وقوف ہوں۔ یہ بے چارہ کب سے کھڑا ہے! آئو آئو پتر یہاں بیٹھو۔ ڈاکٹر صاحب یہ بڑا ای چنگا مُنڈا ہے۔ یہ مجھے حادثے سے پہلے روز میرا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرایا کرتا تھا۔ یہ بھی ڈاکٹر بن رہا ہے۔ آج مجھے بڑے دنوں بعد ملا اور آج یہ خود گاڑی کے نیچے آنے لگا تھا تو میں نے اسے بچایا۔ مجھے دیکھ کر تو اس کی سِٹّی گم ہوگئی تھی۔ شاید مجھے زندہ اور صحیح ہاتھ پیروں کے ساتھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ پھر میں نے بتایا کہ یہ سب تو ڈاکٹر صاحب کا کمال ہے تو اس نے کہا مجھے بھی ان ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے تومیں نے کہا جی سو بسم اللہ، ابھی چلو ، ڈاکٹر صاحب تو بڑے اچھے انسان ہیں، اب آپ اس کی باتیں سنو، میں ذرا اندر بیگم صاحبہ جی سے کام پوچھ لوں۔ ‘‘

          ’’ ہاں ہاں …..   جائو اور ان کے لیے بھی اچھی سی چائے لے کر آئو، اور یہ دروازہ بھی بند کردینا ۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا اور پھر مسکرا کر میری طرف متوجہ ہوگئے۔

          ’’ جی جناب ! آپ کے آنے کا مقصد تو کچھ کچھ میں سمجھ ہی گیا ہوں لیکن پہلے آپ اپنا تعارف کرائیے! ‘‘

          ’’ جی میرا نام محمد علی ہے۔ میرا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور یہاں ایک میڈیکل کالج میں دوسرے سال کا طالب علم ہوں۔ میں بھی روز اسی چوک سے گزر کر کالج جاتا ہوں جہاں سے یہ بوڑھی خاتون گزرا کرتی تھیں۔ اسی لیے میں ان کو بھی سڑک کراس کرایا کرتا تھا۔ یہ چونکہ بہت زیادہ دعائیں دیا کرتی تھیں۔ اس لیے مجھے ان سے کافی اُنسیت محسوس ہونے لگی تھی۔ میری کوشش یہی ہوتی تھی کہ روزانہ میں ہی ان کو سڑک پار کرائوں تاکہ دعائیں بھی مجھے ہی ملیں۔ ایک دن مجھے ذرا دیر ہوئی تو یہ خود سڑک پار کرنے کی کوشش کرنے لگیں اور اس خوفناک حادثے کا شکار ہوگئیں۔ وہ حادثہ میری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا جس کو میں بہت عرصے تک بھلا نہیں سکا۔ میری اپنی امی فوت ہوچکی ہیں اس لیے مجھے ان اماں کے فوت ہونے کا بہت دکھ رہا۔ پھر آج اچانک ہی سڑک پار کرتے ہوئے میری نظر اماں پر پڑی تو مجھے بالکل یقین نہ آیا اور اس شش و پنج میں میں خود بھی حادثے کا شکار ہونے لگا تھا اور اس حادثے سے مجھے اِنھی اماں نے بچایا۔ ان کا جوانوں جیسا جوش اور مردوں سے بھی زیادہ طاقت دیکھ کر میں بہت حیران ہوا اور میں نے اس کرشمے کا راز پوچھا تو وہ مجھے آپ کے پاس لے آئیں۔‘‘

          ’’ کرشمے کا راز ! ہاں تم نے بالکل ٹھیک کہا ۔ ہم پاکستانیوں کے لیے تو یہ ایک کرشمہ ہی ہے جس کو ہم نے ابھی تک راز ہی رکھا ہے۔ لیکن تم چونکہ ڈاکٹر ہو، اس لیے تمہیں بتانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ دراصل میرے کچھ امریکی دوست ڈاکٹرز جو برکلے کی ’’ کیلی فورنیا یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیقی کام بھی کرتے ہیں، ان کی کچھ ایجادات ایسی تھیں جو میڈیکل کی دنیا میں ایک نیا انقلاب ثابت ہوئی تھیں اور میری خواہش تھی کہ ہمارے یہاں بھی یہ چیزیں متعارف ہوں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جس کے لواحقین کو اس تجربے پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اتفاق سے ان اماں کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور ہماری ضرورت بھی کوئی بوڑھا شخص تھا جس کے اعضاء پہلے سے بہت کمزور ہوں تاکہ ہمیں اپنے لگائے گئے مشینی اعضاء کی طاقت کا اندازہ ہوسکے۔ لہٰذا یہ ہمارے لیے بہت مناسب تھیں لیکن ان سے بھی اجازت لینی ضروری تھی ۔ جب ان کو ہوش آیا تو ان کی حالت یہ تھی کہ ہاتھوں پیروں اور پسلیوں کی ہڈیاں بالکل ٹوٹ چکی تھیں جو تھوڑی بہت بینائی تھی، وہ سر پر چوٹ آنے سے بالکل ختم ہوگئی تھی۔ بس ایک سانس کی ڈور تھی جو نہیں ٹوٹی تھی، نہ جانے کہاں اٹکی ہوئی تھی ۔ شاید اللہ تعالیٰ نے ابھی ان سے کوئی کام لینا تھا جو انہیں اس حال میں بھی زندہ رکھا ۔ خیر کچھ ماہ بعد جب اماں کے زخم وغیرہ بھر گئے اور یہ کچھ سننے اور سمجھنے کے قابل ہوگئیں تو پھر ہم نے ان سے مشورہ کیا کہ آیا ہم ان کو مصنوعی اعضاء لگا دیں تاکہ یہ چلنے پھرنے اور اپنے کام انجام دینے کے قابل ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو آپ مناسب سمجھیں کریں میںتو ایک زندہ لاش ہوں۔

          ’’ان کو اس حالت میں لانا انھی امریکی ڈاکٹروں کا کمال ہے۔ ہم انہیں اپنے ساتھ امریکہ لے گئے، جہاں ان کے ہزارہا ٹیسٹ اور ایکسریز ہوئے۔ جن کی مدد سے ان کے لیے مشینی اعضاء تیار کیے گئے۔ برکلے کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہمایوں نے کچھ عرصہ قبل مشینی ہاتھ اور پائوں ایجاد کیے تھے، جو پہلے روبوٹس میں لگائے جاچکے تھے۔ پھر ان کا تجربہ انسانوں پر بھی کامیاب رہا اور وہ لوگ ان مصنوعی ہاتھوں سے اپنی ہمت سے بھی بہت زیادہ وزن بغیر کوئی بوجھ محسوس کیے اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ اعضا پہلے جنگوں میں ہاتھ پیر سے محروم ہونے والے فوجیوں کو لگائے جاتے تھے۔

          ’’یہ مشینی بازو لگانے کے لیے پورے کندھے پر اس کا فریم فٹ کیا جاتا ہے اور اس کے تار انسانی نسوں کے ساتھ جوڑ دیے جاتے ہیں۔ جب انسان کا دماغ نسوں کو پیغام دیتا ہے کہ بازو حرکت کرے تو پہلے نسیں حرکت میں آتی ہیں پھر نسوں سے جُڑے تار حرکت میں آتے ہیں اور پھر بازو حرکت کرتا ہے۔ اسی طرح جب ٹانگیں جوڑی جاتی ہیں تو ان کا فریم کمر کے گرد فٹ کیا جاتا ہے اور اس کی تاریں بھی اسی طرح کمر کی نسوں کے ساتھ جوڑ دی جاتی ہیں۔ یہ نقلی ہاتھ پیر اصلی کا نعم البدل تو نہیں ہوسکتے مگر انسان چلنے پھرنے اور اپنے روزمرہ کے کام خود انجام دینے کے قابل ہوجاتا ہے اور ایک عبرت ناک زندگی سے بچ جاتا ہے، البتہ یہ ہے کہ ان مصنوعی بازوئوں سے انسان اپنی ہمت سے کئی گنا زیادہ وزنی چیز بغیر تکلیف کے اٹھا سکتا ہے، اس کے علاوہ بہت بوڑھے لوگوں کو جو اکثر گر جانے سے فریکچر وغیرہ کا خطرہ رہتا ہے وہ بھی نہیں رہتا ۔ اس کے علاوہ ٹوٹی ہوئی پسلیوں کی جگہ اسٹیل کی پسلیاں لگائی گئیں۔

          ’’اس کے بعد جو اہم کام کیا گیا، وہ آنکھوں کا آپریشن تھا۔ بینائی ختم کرنے والی آنکھوں کی بیماریاں جیسے ’’ ڈی جینیریٹوریٹینل ڈیزیز اور ریٹینائیٹس پِگمینٹوسا‘‘ کے لیے کیلی فورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیل پلانکر نے ایک علاج دریافت کیا تھا جو اس نے پہلے چوہے اور خرگوش پر آزمایا تھا اور کامیاب رہا۔ اس نے اپنی ایجاد کردہ اس آنکھوں کو ’’ بایونک آئی ‘‘ ( گو کہ شروع میںاس کا مذاق اڑایا گیا تھا( بعد میں یہ تجربہ انسانوں پر بھی کامیاب رہا ۔ اس کے لیے اس نے آنکھ کے ’’ ریٹینا ‘‘ پر ایک بہت چھوٹی سی چِپ لگائی جو 3mm  کی تھی، یہ ایک خیالی عینک کی طرح ہے جس میں ایک کیمرہ ہوتا ہے۔ یہ وڈیو کیمرہ اصلی تصویر کی فلم بنا کر پیچھے پردے پر اس کا انفراریڈ عکس بناتا ہے۔ پھر وہ عکس منعکس ہو کر واپس ریٹینا پر موجود چِپ پر پڑتا ہے جس میں روشنی جذب کرنے والے پِکسل موجود ہوتے ہیں جو اس انفراریڈ لائٹ کو الیکٹرک کرنٹ میں تبدیل کردیتے ہیں اور یہ کرنٹ توانائی کی شکل میں ریٹینا کے خلیوں کو متحرک کردیتا ہے۔ اس طرح انسانی آنکھ دیکھنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ گو کہ اس طریقے سے بینائی بالکل نارمل یعنی 20/20 تو نہیں ہوتی لیکن ڈاکٹر پلانکر کے مطابق 20/80  تک ہوجاتی ہے جوکہ اندھے پن سے تو بہرحال بہتر ہے۔

          اس کام میں کئی مہینے اور کئی لاکھ روپے لگ گئے، جس کے لیے کچھ ہماری حکومت نے ، کچھ میں نے خرچ برداشت کیا اور باقی سب انہوں نے کیا۔ فی الحال تو ہم ایک تجربہ کرنا چاہتے تھے تاکہ اگر یہ کامیاب رہا تو ہم بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنے ملک میں عام کرنے کی کوشش کریں گے۔ تجربہ تو سو فیصد کامیاب رہا ۔ لیکن یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں آنے میں کافی عرصہ لگے گا، کیونکہ اس پر اخراجات بہت آتے ہیں۔ اب یہ اماں ایک چلتا پھرتا معجزہ ہی ہیں۔ جن کو ’’ سِکس مِلین ڈالر وومین ‘‘ کہا جاسکتا ہے، اب یہ بوڑھی اماں بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔

          ’’ کس قسم کے اعضاء لگے ہیں ان کو؟ کچھ دکھائی تو نہیں دیتا ، بظاہر تو بالکل نارمل انسان دکھائی دیتی ہیں۔

          ’’ ہاں ! اس کام پر ہمیں اضافی خرچہ کرنا پڑا ہے اور ان کے مشینی پُرزوں پر کاسمیٹک سرجری کے ذریعے اصلی کھال چڑھانی پڑی ہے تاکہ کوئی عام انسان ان کی حالت دیکھ کر ڈر نہ جائے، ورنہ تو کم از کم پاکستان میں تو ان کا تماشہ بن جاتا، باہر والے تو پھر بھی اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ اور معذور انسانوں کا اتنا مذاق نہیں بناتے جتنا کہ ہم پاکستانی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ۔

          میں بہت دیر تک حیران ہوتا رہا ۔ پاکستانیوں کے لیے تو یقیناً یہ ایک حیرت انگیز ایجاد تھی اور اماں کو دیکھ کر کوئی انسان یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ ان کے اندر کیسے کیسے مشینی پُرزے لگے ہوئے ہیں، انہیں تو بس یہ پتا تھا کہ وہ چلنے پھرنے اور دیکھنے کے قابل ہوگئی ہیں۔

          ’’ ڈاکٹر صاحب اماں تو اب ’’ سائیبورگ‘‘ (Cyborg)  ( آدھی انسان ، آدھی مشین ) بن گئیں! ‘‘

          ’’ ہاں وہ امریکی تو انہیں ’’ بایونک بُڑھیا ‘‘ کہا کرتے تھے ۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب بھی ہنستے ہوئے بولے۔

          ’’ ڈاکٹر صاحب اب مجھے اجازت دیں۔ میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا ہے، آپ کی طبیعت پہلے ہی خراب ہے۔ لیکن آپ سے مل کر آج مجھے بے حد اہم باتیں معلوم ہوئی ہیں۔ اس بات کی مجھے بہت خوشی ہے، کیا میں ان کا ذکر کسی اور سے کروں۔ میں نے کھڑے ہوتے ہوئے اجازت طلب کی ۔

          ’’ نہیں بھئی ! ابھی کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا ۔ پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں دوسروں کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے اور کچھ سیکھنے کے بجائے اُلٹا بات کا مذاق بنا لیتے ہیں اور ہاں ابھی تو بیٹھو نا۔ اماں چائے لے کر آتی ہوں گی۔‘‘

          ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ کچن کی طرف سے ایک شور اُٹھا اور ’’چور! چور‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ اماں کی آواز تھی۔ ڈاکٹر صاحب اُٹھ کر کچن کی طرف بھاگے اور میں نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے پہلے اپنے سیل سے پولیس کو اطلاع کی پھر میں بھی کچن میں پہنچ گیا تو دیکھا کہ اماں نے ایک ہٹے کٹے آدمی کو بڑی مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے، اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مجھے چھوڑو۔ میں تو تمہیں ایک کمزور بُڑھیا سمجھ کر آیا تھا مگر تم تو سُپرمین کی بھی اماں لگتی ہو۔

          ’’ڈاکٹر صاحب ! پولیس کو فون کریں! ‘‘ اماں بولیں، ’’ یہ تو سمجھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب تو ہسپتال ہوں گے اور گھر میں دو کمزور عورتیں ہوں گی جن پر یہ آسانی سے قابو پا لے گا۔ ’’میں کہتی ہوں تجھے ایک ڈاکٹر ، ایک مسیحا کے گھر میں چوری کی نیت سے گھسنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ آپ بُلائیں پولیس کو میں نے اسے قابو کر رکھا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب اور مجھے چور کی بے بسی پر بہت ہنسی آرہی تھی۔ اتنے میں پولیس بھی آگئی۔

          پولیس آفیسر ڈاکٹر صاحب کے دوست تھے۔ وہ بھی اماں کی بہادری پر بہت حیران ہو رہے تھے۔ انہوں نے اماں کی اس طاقت کا راز پوچھا۔ جب پولیس چور کو لے گئی تو ڈاکٹر صاحب نے ان آفیسر کو بھی یہ راز بتایا جس سے وہ بھی میری طرح بہت حیران ہوئے۔ لیکن ان کے دماغ میں  ایک بڑا اچھا آئیڈیا آیا۔ اُنہوں نے کہا:

          ’’ ڈاکٹر صاحب کیوں نہ ہم اماں کی اتنی زبردست طاقت کا فائدہ اٹھائیں اور ان کو پولیس فورس میں شامل کرلیں۔ یہ سادہ لباس میں خفیہ پولیس کے فرائض بخوبی انجام دے سکتی ہیں، چور اور سمگلر ان کی عمر دیکھ کر دھوکہ کھا جائیں گے۔ اس طرح بآسانی پکڑے جائیں گے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘

          ’’ آئیڈیا تو بہت زبردست ے لیکن اماں سے پوچھ لو۔ وہ یہ کام کرلیں گی؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اماں کی طرف دیکھ کر پوچھا تو وہ جھٹ بولیں!

          ’’ لو بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے، یہ تو بڑا نیکی کا کام ہے۔ اس عمر میں بھی اگر میں اپنے وطن کے کسی کام آسکوں تو میرے لیے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوگی۔ ‘‘ اماں بڑے جوش سے بولیں:

          ’’ چلو بھئی یہ تو طے ہوگیا کہ اماں آج سے خفیہ پولیس فورس کے لیے کام کریں گی، مگر اماں، آپ رہتی کہاں ہیں؟ ‘‘ آفیسر نے پوچھا

          ’’ پہلے تو میری رہائش شہر کی کچی آبادی میں تھی، مگر میرے حادثے کے بعد قبضہ گروپ نے کچی آبادی ختم کرکے اپنی دکانیں بنالیں ، تب سے یہیں ڈاکٹر صاحب کے پاس رہتی ہوں۔‘‘

          ’’ اوہو …..  ! پھر تو گڑبڑ ہوجائے گی ! ڈاکٹر صاحب تو خود ایک معروف شخصیت ہیں۔ تمہارا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا کرو، اماں، کہ ایسی جگہ پر گھر لے لو جو پولیس اسٹیشن کے نزدیک بھی ہو اور غیر معروف بھی ہو تاکہ تم پر کسی کو شک نہ ہو اور تم تسلی سے اپنا کام بھی کرسکو۔‘‘

          ’’ اچھا پھر میں کوئی بندوبست کرتا ہوں، صبح ہی اماں کے لیے کوئی ایسا گھر تلاش کرتے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب بولے ۔

          ’’ ارے ڈاکٹر صاحب! گھر تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میرا گھر ہے نا! وہ بالکل ایسی ہی جگہ پر ہے جیسی ابھی انسپیکٹر صاحب نے بتائی ہے اور میں اکیلا ہی رہتا ہوں ۔‘‘

          ’’ ویری گُڈ ! مگر تم ہو کون ؟ ‘‘ انسپیکٹر صاحب نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا جو ابھی تک میری موجودگی سے بے خبر اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے ۔

          ’’ انسپیکٹر صاحب! یہ بالکل میرے بیٹوں جیسا ہے، اس نے مجھے بڑے عرصے تک ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرائی ہے۔ ‘‘ اماں نے بتایا ۔

          ’’ تم نے بتایا کہ تم اکیلے رہتے ہو ! تمہارے گھر والے کہاں ہیں؟ انہیں تو کوئی اعتراض نہ ہوگا اماں کو ساتھ رکھنے پر ؟ ‘‘ انسپیکٹر نے مجھ سے پوچھا ۔

          ’’ جی میری امی تو فوت ہوچکی ہیں، میرے والد گوجرانوالہ میں بزنس کرتے ہیں۔ میں یہاں میڈیکل کالج میں پڑھتا ہوں۔ یہاں میں نے ایک چھوٹا سا فلیٹ لے رکھا ہے جہاں میں اکیلا رہتا ہوں۔ میرے والد کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اماں کے بارے میں میں نے انہیں بتایا تھا۔ اماں میرے ساتھ رہیں گی۔ دن رات مجھے دُعائیں دیں گی۔ مجھے ایک دُعا دینے والی ماں مل جائے گی۔ اس سے اچھی اور کیا بات ہوگی؟‘‘

          ’’ شاباش اے پتر! جیوندا رہو ۔ مجھے بھی تیرے جیسا سعادت مند پتر مل گیا۔ مجھے اور کیا چاہیے۔ ‘‘ اماں کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔

          ’’ چلو بھئی ! بیٹے کو ماں مل گئی، ماں کو بیٹا مل گیا اور پولس کو ایک اچھا کارندہ مل گیا اور ہم تو ایک اچھی اماں سے محروم ہوگئے۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب شکایتی انداز میں بولے۔

          ’’ ڈاکٹر صاحب! آپ فکر نہ کریں، آپ کا پیچھا میں نہیں چھوڑوں گی۔ صبح پہلے میں آپ کے گھر کا کام کروں گی پھر کہیں اور جائوں گی اور یہ میرا پتر مجھے اسی طرح روز سڑک پار کرایا کرے گا تاکہ کسی کو مجھ پر شک نہ ہو۔ ‘‘

          ’’ واہ اماں! تم نے تو کمال ہی کردیا۔ ابھی سے پولیس والوں جیسی باتیں کرنی شروع کردیں۔ ہم نے تو ایسا سوچا بھی نہیں تھا! ‘‘ انسپیکٹر صاحب اور ڈاکٹر صاحب حیران ہو کر بولے۔

          ’’ آخر ’’ بایونک بڑھیا ‘‘ ہوں کوئی مذاق نہیں!‘‘ اماں نے پوز بنا کر قہقہہ لگایا تو سبھی بے ساختہ ہنس پڑے۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.