غیر معمولی راکٹ

                      شہزادے کی شادی تھی لہٰذا پورے ملک میں خوشی منائی جا رہی تھی۔اُس نے پورا سال دلہن کا انتظار کیا تھا۔۔۔اور اب وہ آرہی تھی۔وہ ایک روسی شہزادی تھی اور فِن لینڈ سے اپنی برف گاڑی پر آ رہی تھی جس کو چھہ بڑے ہرن کھینچ رہے تھے۔

                وہ برف گاڑی سنہری ہنس کی شکل کی تھی اور اس کے سنہری پروں کے درمیان شہزادی لیٹی ہوئی تھی۔۔۔۔اس کا ریشمی لباس پیروں سے نیچے لٹک رہا تھا،سر پر ایک چھوٹی سی سنہری ٹوپی رکھی تھی۔شہزادی کا رنگ اتنا سفید تھا جیسے برف کا محل جس میں وہ رہتی تھی۔اور جب شہزادی شہر کی گلیوں سے گزر رہی تھی تو لوگ اس کا اتنا سفید رنگ دیکھ کر حیران رہ گئے

                ’’بالکل سفید گلاب جیسی ہے۔۔۔!‘‘ وہ کہہ رہے تھے اور اوپر اپنی بالکنیوں سے شہزادی پر گلاب پھینک رہے تھے۔

                                شہزادہ قلعے کے گیٹ پر شہزادی کے استقبال کے لئے کھڑا تھا،اس کے بال سنہری اور خوابیدہ آنکھیں جامنی رنگ کی تھیں۔جب اس نے شہزادی کو دیکھا تو جھک کر آداب بجا لایا، شہزادی کا ہاتھ چومااور بولا؛

                ’’تمہاری تصویر بہت خوبصورت تھی،لیکن تم اپنی تصویر سے بھی زیادہ خوبصورت ہو۔۔۔!‘‘ شہزادی شرما کر سرخ ہو گئی

                ’’ پہلے شہزادی سفید گلاب لگ رہی تھی اور اب سرخ گلاب لگ رہی ہے۔۔۔!‘‘ پیچھے کھڑا ایک ملازم بولا تو سب لوگ بہت محظوظ ہوئے اور بادشاہ نے اس ملازم کی تنخواہ ڈبل کر دی،حالانکہ اس کو تنخواہ نہیں ملتی تھی پھر بھی یہ بڑے اعزاز کی بات تھی،سب لوگوں نے اس کو مبارکباد دی۔

                تین دن بعد شادی تھی،یہ ایک شاندار تقریب تھی۔۔۔!دلہا دلہن جامنی مخمل کی چھتری کے نیچے آ کر بیٹھ گئے جس پر جواہرات جڑے ہوئے تھے۔نکاح کے بعد شاہی دعوت تھی جو پانچ گھنٹے جاری رہی۔دعوت کے بعد ڈانس شروع ہوا۔دلہا دلہن نے بھی ڈانس کیا،بادشاہ نے بانسری بجانے کا وعدہ کیا تھا،اس نے بہت بری بانسری بجائی لیکن کسی نے اعتراض کرنے کی جرات نہیں کی بلکہ سب نے داد دی ۔۔۔ بہت واہ وا ہوئی۔

                اس دعوت کے آخری حصہ میں آتش بازی کا بہت بڑا مظاہرہ تھا جو کہ عین آدھی رات کے وقت شروع ہونا تھا۔شہزادی نے کبھی

آتش بازی نہیں دیکھی تھی لہٰذا بادشاہ نے اس کے شاندار مظا ہرے کا خصوصی آرڈر دیا ہوا تھاجس کے لئے شاہی ماہرین کو بلایا ہوا تھا

                ’’یہ آتش بازی کیسی ہوتی ہے۔۔۔؟‘‘شہزادی نے شہزادے سے پوچھا

                ’’یہ بالکل شمالی قطبی روشنی جیسی ہوتی ہے۔۔۔۔لگتا ہے صبح ہورہی ہے۔‘‘ بادشاہ نے جواب دیا۔بادشاہ کی عادت تھی کہ سوال کسی سے بھی کیا گیا ہو جواب وہی دیتا تھا۔

                شاہی باغ کے ایک سرے پر بہت بڑاسٹینڈ لگایا گیا اور ماہرین کی نگرانی میں آتش بازی کا سامان لاکر رکھا گیا۔آتش بازی کے سامان نے آپس میں باتیں کرنی شروع کر دیں۔

                ’’دنیا واقعی کتنی خوبصورت ہے۔۔۔!‘‘ہوائی بولا؛’’ان پیلے ٹیولپ کے پھولوں کو دیکھو۔۔!مجھے خوشی ہے کہ میں نے سفر کیا،سفر کرنے سے دماغی صلاحیتیں بڑھتی ہیںاور ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘

                ’’بادشاہ کا باغ دنیا نہیں ہے بیوقوف ہوائی۔۔۔!‘‘موٹی رومی موم بتی بولی؛’’دنیا تو بہت بڑی جگہ ہے،اس کو پورا دیکھنے میں تین دن لگتے ہیں۔۔۔!‘‘

                ’’جو جگہ بھی تمہیں اچھی لگتی ہے وہ تمہارے لئے پوری دنیا ہوتی ہے ۔۔۔!‘‘ کیتھرین چکر خوشی سے بولی

                ’’کھوں کھوں۔۔۔!‘‘ اچانک خشک زوردار کھانسی کی آواز آئی اور سب چیزیں اس جانب متوجہ ہوگئیں۔یہ ایک پتلا،لمبا ،مغرور اور نک چڑھا سا راکٹ تھا جو ایک سائڈ سے ایک لمبی چھڑی سے بندھا ہوا تھا،وہ ہمیشہ اپنی بات کہنے کے لئے پہلے کھنکھارتا تھاتا کہ لوگ اس کی جانب متوجہ ہو جائیں۔

                ’’ آرڈر آرڈر۔۔۔۔!‘‘ ایک کریکر بولاتاکہ سب لوگ چپ ہو جائیں،یہ کریکر ایک سیاسی قسم کا بندہ تھا اورہر چیز پر نظر رکھتا تھا۔

راکٹ دوبارہ کھنکھارا اور نمایاں آواز میں بولنا شروع کیا؛

                ’’شہزادہ بہت خوش قسمت ہے کہ آج ا س کی شادی ہے،کیونکہ آج میںیہاں آیا ہوں،اگر میرے آنے سے پہلے شہزادے کی شادی ہوجاتی تو یہ اس کے لئے اچھا نہ ہوتا۔

                ’’ مگر میرے خیال میں ہم سب یہاں شہزادے کی شادی کی خوشی منانے کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں!‘‘ہوائی راکٹ سے معذرت چاہتے ہوئے بولا۔

                ’’ تم یہاں اسی لئے آئے ہونگے۔۔۔۔لیکن میری با ت اور ہے۔۔۔!میں ایک غیر معمولی راکٹ ہوں ،میرے والدین بھی بہت خاص تھے۔میری ماں اپنے وقت کی بہت مشہور کیتھرین چکر تھی۔۔۔ بہت اچھا ڈانس کرتی ہوئی اوپر جاتی تھی اور روشنی پھیلاتی تھی،وہ بہت اعلیٰ بارود سے بنی تھی اور فضا میں 19 چکر لگاتی تھی اور ہر دفعہ سات گلابی ستارے آسمان پر چھوڑتی تھی،وہ تین فٹ لمبی تھیں،اور میرا باپ میری طرح فرانس سے آیا تھا،وہ اتنا اونچا اڑتا تھا کہ لوگ ڈر جاتے تھے کہ اب یہ شاید کبھی واپس نہیں آئے گا ۔۔۔۔لیکن وہ بہت خوبصورت سنہری بارش کی صورت میں واپس آتا تھا، اخباورں میں اس کی مہارت اور خوبصورتی کی خبریں چھپتی تھیں۔میں اتنے شاندار خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے یہاں میرا استقبال بھی بہت شاندار طریقے سے ہونا چاہیئے تھا۔۔۔!لیکن یہاں مجھے کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور عام لوگوں کی طرح تم لوگوں کے ساتھ رکھ د یا گیا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر راکٹ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

                ’’فی ا لحال تو سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمہیں خشک رہنا چاہیئے،اگر تم آنسوؤں سے بھیگ گئے تو چلو گے کیسے۔۔۔؟‘‘بینگل لائٹ اس کو روتا دیکھ کر ہمدردی میں بولی

                ’’ہاں مجھے خشک رہنا چاہیئے۔۔۔۔۔لیکن یہاں میرے جذبا ت کا کسے احساس ہے۔۔۔؟‘‘راکٹ آنسو پونچھتا ہوا بولا

                ’’یہاں تمہارے جذبات کہاں سے آگئے۔۔۔؟‘‘ایک چھوٹا فائر بیلون بولا؛’’یہاں ہم سب شہزادے کی شادی کی خوشی میں شریک ہونے کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں،اتنا اہم موقع ہے ہمیں خوش ہونا چاہیئے۔میں تو جب اوپر جاؤں گاتو ستاروں کو بھی شہزادے کی شادی کے بارے میں بتاؤںگااور اتنی خوبصورت دلہن کے بارے میں سن کر ستاروں کی چمک اور بڑھ جائے گی۔‘‘

                ’’ کتنی فضول بات ہے۔۔!‘‘راکٹ بولا؛’’مگر مجھے تم لوگوں سے یہی امید تھی،تم لوگ اندر سے بالکل کھوکھلے ہو ۔لیکن میری ساتھ جو یہاں سلوک ہو رہا ہے دیکھنا شہزادہ بھی کبھی خوش نہیں رہ سکے گا۔اب جبکہ شہزادے کی شادی ہوچکی ہے،ہو سکتا ہے شہزادہ شہزادی کسی ایسے ملک میں جا کر رہیں جہاں ایک گہرا دریا بہتا ہو۔۔۔۔۔۔ہو سکتا شہزادے کا ایک بیٹا بھی ہو جس کی آنکھیں شہزادے کی طرح جامنی اور بال سنہری ہوں۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کسی دن اس کی آیا اس کو دریا کی سیر پر لے جائے اور خود کسی درخت کے نیچے تھک کر سو جائے اور چھوٹا بچہ اس گہرے دریا میں ڈوب جائے۔۔۔۔!کتنی افسوس ناک بات ہوگی کہ ان کا اکلوتا بچہ ڈوب کر مر جائے۔۔۔۔میں اس واقعہ کو کبھی نہیں بھولوں گا۔

                ’’ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ان کا اکلوتا بچہ ڈوب کر مر جائے۔۔۔۔آخر ایسا برا واقعہ ان کے ساتھ کیوں پیش آئے گا۔۔۔؟‘‘ رومی موم بتی بولی

                ’’میں نے یہ تو نہیں کہا کہ ایسا ہی ہو۔۔۔۔مگر ایسا ہو بھی تو سکتا ہے۔‘‘ راکٹ بولا

                ’’ان سب باتوں کو چھوڑو۔۔۔۔۔فی الحال تو یہ بات اہم ہے کہ ہم خود کو خشک رکھیں، گیلا ہونے سے بچائیں۔‘‘فائر بیلون بولا

                ’’تمہارے لئے یہ بات اہم ہوگی۔۔۔۔۔‘‘راکٹ بولا؛’’مگر میں جب چاہے رو سکتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگااور

اس کے نیچے بیٹھے دو کیڑے اس کے آنسوؤں میں بھیگ گئے جو اپنا گھر بنانے کے لئے خشک جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔

                ’’یہ راکٹ واقعی بہت حساس طبیعت کا ہے!‘‘کیتھرین چکر بولی،یہ تو اس وقت بھی رونے لگتا ہے جب کوئی رونے کی بات ہی نہ ہو۔‘‘ راکٹ بھیگ چکا تھا لیکن وہ ہر صورت خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنا چاہتا تھا۔

                اسی وقت آسمان پر ایک خوبصورت چاند نمودار ہوا اور محل سے تیز موسیقی کی آواز آنے لگی،وہاں ڈانس شروع ہوچکا تھا۔سب سے آگے آگے شہزادہ اور شہزادی تھے ،وہ اتنا اچھا ڈانس کر رہے تھے کہ سفید کنول کے پھول بھی کھڑکی سے جھانک جھانک کر ان کو دیکھ رہے تھے اور سرخ پوپی کے پھول اپنا سر دھن رہے تھے۔اسی طرح آدھی رات ہوگئی اور سب لوگ آتش بازی دیکھنے کے لئے ٹیرس پر آگئے۔

                ’’آتش بازی شروع کی جائے۔۔۔!‘‘ بادشاہ نے حکم دیا

                                وِز ۔وِز کر کے سب سے پہلے کیتھرین چکر نے فضا میں چکر لگائے،اس کے بعد بوم۔ بوم کر کے رومی موم بتی چلی،پھر ہوائی نے اپنے ڈانس کا مظاہرہ کیا،بینگل لائٹ سے ہر چیز روشن ہوگئی۔’’گڈ بائی۔۔۔‘‘ فائر بیلون چلایا اور فضا میں تیرتے ہوئے نیلے نیلے ستارے چھوڑنے لگا،پھر بینگ۔بینگ کرتا ہوا کریکر چلا۔۔۔۔!

                سبھی نے خوشی خوشی اور کامیابی کے ساتھ اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا،سوائے ’’غیر معمولی راکٹ‘‘ کے،وہ رونے کی وجہ سے گیلا ہوچکا تھا لہٰذا اس کو چلایا ہی نہیں جا سکا۔

                ’’میرا خیال ہے کہ مجھے کسی اور بڑی دعوت کے لئے سنبھال کر رکھا گیا ہے۔۔۔!‘‘ یہ سو چ کر راکٹ کا سینہ فخر سے پھول گیا

                                اگلے دن نوکر چا کر کوڑا سمیٹنے آئے تودیگرگند گی کے ساتھ راکٹ کو بھی اٹھالیا،اس نے سوچا شاید اسے کسی اور جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔کسی بہتر جگہ،اس نے اپنی ناک اونچی کر کے نوکروں کی طرف رعب سے دیکھا،مگر انہوں نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا؛

                ’’اوہ کتنا گندا راکٹ ہے۔۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر ایک نوکر نے اس کو اٹھا کر دیوار کے پیچھے گندے پانی کے جوہڑ میںپھینک دیا،راکٹ نے سوچا شاید مجھے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے،اس کا مطلب تھا کہ کتنا شاندار راکٹ ہے۔۔۔۔!یہ سوچتے سوچتے راکٹ کیچڑ میں جا گرا۔

                ’’ اوہ کتنی گندی جگہ ہے۔۔۔۔! یہاں بالکل آرام نہیں ۔‘‘راکٹ نے ناک چڑھا کر کہا؛’’یہ ضرور کوئی نئے فیشن کا جدید علاقہ ہے،ہو سکتا ہے یہاں بھیج کر میرا امتحان لیا جا رہا ہو۔۔۔!اوہ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔۔۔۔۔مجھے آرام کی ضرورت ہے۔‘‘

                تبھی وہاںایک چمکتی آنکھوں والا مینڈک نکل آیا اور راکٹ کو دیکھ کر بولا؛

                ’’آہا۔۔۔۔۔ایک نیا مہمان نظر آرہا ہے یہاں۔۔۔۔!ہاں بھئی کیوں نہیں ۔۔۔۔۔آخر یہ جگہ ہی اتنی شاندار ہے۔ایک جوہڑ ہو اور بارش ہو۔۔۔ اس سے زیادہ شاندار جگہ اور کیا ہو سکتی ہے۔۔۔؟‘‘

                ’’آہم۔۔۔۔آہم۔۔۔۔!‘‘ راکٹ نے کھنکھارنا شروع کیا

                ’’واہ وا۔۔۔۔تمہاری آواز کتنی پیاری ہے۔۔۔!‘‘مینڈک بولا؛’’بالکل میری کروک کی طرح۔۔۔!مینڈک کی کروک سے زیادہ موسیقیت بھلا اور کسی آواز میں ہو سکتی ہے۔۔؟ایسی پیاری آواز دنیا میں کہیں نہیں ہے۔رات کو ہمارا جشن ہے،تم ہمارا راگ سننا،ہم رات کو بطخوں والے جو ہڑ میں جمع ہوںگے جو کسان کے گھر کے قریب ہے۔جیسے ہی چاند نکلتا ہے ہم اپنا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں ۔ہمارا گانا ایسا وجد طاری کر دیتا ہے کہ لوگ سوتے سے بھی اٹھ جاتے ہیں ۔میں نے کل ہی کسان کی بیوی کو اپنی ماں سے کہتے سنا کہ میں ان مینڈکوں کی وجہ سے ایک منٹ نہیں سو سکی۔۔۔۔!یہ سنکر بہت خوشی ہوئی کہ ہم اتنے مشہور ہیں کہ ہماری وجہ سے لوگ رات بھر جاگتے ہیں۔۔۔! ‘‘   

                ’’آہم۔۔۔۔۔آہم‘‘ راکٹ پھر کھنکھارا،وہ بہت غصے میں تھا کیونکہ وہ ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بول پایا تھا۔

                ’’واقعی۔۔۔ کتنی اچھی آواز ہے۔۔۔۔!‘‘ مینڈک پھر بول پڑا؛’’مجھے امید ہے کہ تم رات کو پرانے جوہڑ میں ضرور آؤگے۔دراصل میں

گھر میں اپنی بیٹیوں کو اکیلا چھوڑ کر آیا ہوں ، میری چھہ خوبصورت بیٹیاں ہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی دشمن انکا ناشتہ نہ کر لے،لہٰذا اب میں چلتا ہوں تم سے باتیں کر کے واقعی بہت مزہ آیا،اچھاا خدا حافظ۔‘‘

                ’’باتیں۔۔۔۔؟اچھا!‘‘راکٹ بولا،’’تم اپنے آپ ہی بولتے رہے ہو اس کو باتیں کرنا نہیں کہتے،کسی کو سننا بھی چاہیئے۔۔۔!‘‘

                ’’میں خود بولنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔‘‘ مینڈک بولا؛’’اس طرح ٹائم بھی بچتا ہے اور بحث بھی نہیں ہوتی۔‘‘

                ’’ لیکن میں بحث کرنا پسند کرتا ہوں۔‘‘راکٹ بولا

                ’’مگر میرا خیال ہے بحث کرنا بہت بری بات ہے۔۔۔!اچھے معاشرے میں سب کی ایک ہی رائے ہونی چاہیئے۔اچھا ایک بار پھر خدا حافظ،مجھے اپنی بیٹیوں کے پاس پہنچنا ہے ۔‘‘یہ کہہ کر مینڈک تیرتا ہوا پرے چلا گیا۔

                ’’تم بہت فضول آدمی ہو۔۔۔!‘‘ راکٹ چلایا؛’’ مجھے ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو صرف اپنی باتیں کرتے ہیں جبکہ کوئی دوسرا اپنے بارے میں بھی بتانا چاہ رہا ہو،جیسے میں۔ میرے جیسے اچھے اور رحمدل انسان کے ساتھ اس طرح پیش آنا بہت خود غرضی ہے۔تمہیں ایک اچھا چانس مل رہا ہے کہ تم مجھ سے کچھ سیکھ لو پھر تو میں محل میں واپس چلا جاؤنگا جہاں کل ہی شہزادے کی شادی ہوئی ہے۔یہ شادی اس نے میرے اعزاز میں کی تھی،لیکن تمہیں کیا پتہ ۔۔۔۔تم تو جوہڑکی مخلوق ہو۔۔۔!‘‘

                ’’اس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ جا چکا ہے۔۔۔!‘‘ایک ڈریگن فلائی بولی جو نزدیک ہی ایک پودے پر بیٹھی اس کی باتیں سن رہی تھی۔

                ’’چلو نہیں سنا تو میرا کیا ہے ۔۔۔۔اس کا اپنا نقصان ہے۔۔۔!‘‘راکٹ بولا ؛’’میں تو اپنی باتیں خود سن کر بھی خوش ہو لیتا ہوں،میں تو اکثر اپنے آپ سے بہت لمبی لمبی گفتگو کرتا ہوں ،اور چونکہ میں بہت عقلمند ہوں اس لئے کبھی کبھی مجھے خود بھی اپنی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘

                ’’ اس کا مطلب ہے کہ تم فلسفیانہ باتیں کرتے ہو۔۔؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ڈریگن فلائی بھی اڑ گئی

                ’’یہ بھی چلی گئی۔۔۔۔؟بہت بیوقوف ہے اس نے بھی مجھ سے اچھی اچھی باتیں سیکھنے کا موقع گنوا دیا۔دراصل انہیں میری قابلیت کا پتہ ہی نہیں ہے،چلو مجھے کیا ایک نہ ایک دن یہ لوگ میری قابلیت کا اعتراف کر ہی لیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر راکٹ کیچڑ میں اندر کو دھنس کر لیٹ گیا۔ اتنے میں ایک سفید بطخ کوویک کوویک کرتی اس کے اوپر سے تیرتی ہوئی گزر گئی،پھر پلٹ کر بولی؛

                ’’اوہ کتنی مضحکہ خیز شکل ہے تمہاری۔۔۔!کیا تم پیدائشی ایسے ہویا کسی حادثے کی وجہ سے ایسے ہوگئی ہو۔۔۔؟‘‘

                ’’دراصل تم کبھی اس جوہڑ سے باہر نہیں نکلیں نا۔۔۔۔ورنہ تم مجھے ضرور جانتیں،خیر میں تمہیں اس نادانی کے لئے معاف کیے دیتا ہوں   لیکن دوسروں پر اس طرح کے جملے کسنا بہت بری بات ہوتی ہے۔تم یقینا یہ سن کر حیران ہو ں گی کہ میں آسمان پر بہت اونچا اڑ سکتا ہوں ،اور پھر سنہری بارش کی صورت میں واپس آتا ہوں۔۔!‘‘راکٹ نے اپنی اہمیت جتائی

                ’’میرا خیال ہے یہ تو کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔اس کا کیا فائدہ ہے۔۔۔؟ فائدے والی بات تو جب ہوتی کہ تم ایک بیل کی طرح ہل چلا سکو یاگھوڑے کی طرح گاڑی کھینچ سکو۔۔۔۔۔یا پھر کتے کی طرح بھیڑوں کی رکھوالی کر سکو۔۔۔!‘‘بطخ بولی

                ’’اوہ میرے خدا۔۔۔۔!‘‘راکٹ غصے سے چلایا؛’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ایک گھٹیا قسم کی بطخ ہو۔میرے جیسے رتبے کا آدمی کبھی بیکار نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔!ہم کوئی عام کام نہیں کرتے،ہمارا کام بہت اعلیٰ قسم کا ہے جسے تم نہیں سمجھ سکتیں۔بیل اور گھوڑے کی طرح مزدوری وہ لوگ کرتے ہیں جن میں کوئی ہُنر نہیں ہوتا ۔‘‘

                ’’اچھا اچھاٹھیک ہے۔۔۔ہمیں بحث نہیں کرنی چاہیئے،ہر کسی کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے۔‘‘بطخ نے بحث ختم کرنا چاہی؛’’مجھے لگتا ہے کہ تم یہیں اپنا مستقل گھر بنانا چاہ رہے ہو۔۔۔؟‘‘

                ’’اوہ اللہ نہ کرے۔۔۔۔!‘‘راکٹ گھبرا کر بولا؛’’میں تو یہاں صرف مہمان ہوں۔۔۔۔بہت خاص مہمان۔دراصل یہ بہت فضول سی جگہ ہے،جہاں نہ تو اچھا ماحول ہے نہ ہی تنہائی ہے،لہٰذا میں نے سوچا ہے کہ واپس محل میں چلا جاؤں۔مجھے یقین ہے کہ میں بہت اہم کام کرنے کے لئے دنیا میں آیا ہوں۔‘‘

                ’’اوہ مجھے یاد آیا۔۔۔۔۔مجھے تو بہت سخت بھوک لگی تھی میں جاتی ہوں۔‘‘بطخ کوویک کوویک کرتی ہوئی وہاں سے چلی گئی،اور راکٹ پھر سے کیچڑ میں دھنس کر لیٹ گیا۔

                                تھوڑی دیر میں دو لڑکے وہاں جوہڑ کے کنارے آکھڑے ہوئے،ان کے ہاتھ میں ایک کیتلی اور کچھ سوکھی لکڑیاں تھیں۔ وہ جوہڑ میں ایک راکٹ پڑا دیکھ کر حیران ہوگئے۔

                ’’حیرت ہے یہ پرانی چھڑی یہاں پانی میں کہاں سے آگئی۔۔۔؟‘‘ایک لڑکا بولا

                ’’پرانی چھڑی۔۔۔۔۔؟ ناممکن،‘‘راکٹ بولا؛’’ اس نے ضرور سنہری چھڑی کہا ہوگا۔‘‘

                ’’میرے خیال میں اس چھڑی کو بھی آگ جلانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے!‘‘ایک لڑکاکیچڑ سے راکٹ کو نکالتے ہوئے بولا

                ’’اتنے پانی گرم ہو ہمیں کچھ دیر سو جانا چاہیئے۔۔۔!‘‘انہوں نے آگ جلا کر سوکھی لکڑیوں پر راکٹ کو بھی رکھ دیا ،پھر آگ پر کیتلی رکھ کر ایک طرف لیٹ کر سو گئے۔

                                جیسے جیسے آگ جلی گیلا راکٹ بھی سوکھنے لگا،وہ اس بات سے بہت خوش ہوا،وہ بولا

                ’’آخر وہ وقت آ ہی گیاجس کا مجھے انتظار تھا،اب میں اُڑونگا۔۔۔۔۔بہت اونچا اُڑونگا،اتنا اونچا کہ چاند سورج ستاروں سے بھی اونچا۔۔۔ ساری دنیا دیکھے گی۔‘‘

                تھوڑی دیر میں فِز فِز کر کے راکٹ اُڑ گیا

                ’’واہ کیا بات ہے۔۔۔۔! ‘‘ راکٹ چلایا؛’’میں کامیاب ہوگیا۔۔۔۔!‘‘

                                وہ اُڑنے میں کامیاب ہوگیا تھا،مگر اس غیر معمولی راکٹ کو اُڑتے ہوئے کسی نے بھی نہ دیکھا،حتیٰ کہ وہ دونوں لڑکے بھی

گہری نیند سو رہے تھے۔راکٹ اُڑ گیا اور اس کی چھڑی نیچے آگِری اور نیچے سے گزرتی ہوئی بطخ کو لگی، وہ گھبرا کر پانی میں گھس گئی کہ شاید آج آسمان سے چھڑیاں برسیں گیں۔

                                                                                                               

                                                                                                                                ترجمہ؛آسکر وائلڈ کی کہانیریمارک ایبل راکٹ

                                                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

               

               

                 

 

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.

9 Replies to “غیر معمولی راکٹ

  1. I would like to thnkx for the efforts you have put in writing this website. I am hoping the same high-grade website post from you in the future as well. Actually your creative writing skills has encouraged me to get my own website going now. Actually blogging is spreading its wings and growing quickly. Your write up is a great example. Alverta Dirk Britton

  2. I have read several just right stuff here. Definitely value bookmarking for revisiting. I surprise how so much attemptyou set to make such a wonderful informative web site. Margi Glenden Ianteen

  3. You should take part in a contest for one of the greatest blogs on the web. I am going to recommend this site! Bari Henri Ellynn

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *