Jungle Mein Mungle

جنگل میں منگل

Animals

( ایسے ننھے بچے کی کہانی جو شہر کی پولوشن سے گھبرا کر جنگل میں گھر بنا کر رہنا اور جانوروں سے دوستی کرنا چاہتا تھا)

’’ پاپا ، میرا دل چاہتا ہے…..  کہ ہمارا گھر…..  کسی بہت اچھی جگہ پر ہو ‘‘  ننھا سعدی کچھ سوچتے ہوئے بولا ۔
’’ مگر بیٹا ہمارا گھر تو پہلے ہی شہر کے بہترین علاقے میں ہے۔ اس سے بہتر جگہ اور کیا ہوسکتی ہے؟ ‘‘ پاپا نے جواب دیا
’’ نہیں ی ی ی …..  پاپا میرا مطلب ہے کہ…..  ‘‘ ننھا سعدی اُلجھتے ہوئے بولا ، ’’ جہاں بہت سے ٹریز ہوں ، جن پر بہت سے برڈز ہوں، جو مجھ سے باتیں کریں، ایک پیاری سی لیک بھی ہو، جہاں اینیمل پانی پینے آتے ہوں، ان سب کی مجھ سے دوستی ہو۔ پاپا سیم ویسا ہی جیسا میری ’’ جنگل بُک ‘‘ میں ہے…..  ہاں، بالکل ویسا۔ ‘‘ سعدی نے مثال دیتے ہوئے پاپا کو سمجھایا۔
’’ لیکن …..  بیٹا ، ایسی جگہ پر گھر بنانا بہت مشکل ہوتا ہے جہاں انسان نہ ہوں۔ انسان تو شہروں میں ہی رہتے ہیں نا، جنگلوں میں تھوڑا ہی رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ لیکن پاپا شہروں میں تو پولوشن بھی ہوتی ہے، ڈسٹ بھی بہت ہوتی ہے جس سے مجھے الرجی ہوجاتی ہے۔ پھر مجھے اتنی ساری میڈیسنز کھانی پڑتی ہیں۔ اس سے تو اچھا ہے کہ ہم کسی ایسی جگہ پر جاکر رہ لیں جہاں پولوشن اور ڈسٹ نہ ہو اور میری پسند کی چیزیں بھی ہوں۔ ‘‘ سعدی بولا۔ پاپا نے بیٹے کی اس حیرت انگیز فرمائش پر ممی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولیں:
’’ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے، شہروں میں سوائے دھوئیں، ڈسٹ اور گندگی کے رکھا کیا ہے؟ اور چوری ڈاکے کا الگ خطرہ رہتا ہے۔ ایسی عذاب والی زندگی جینے سے تو بہتر ہے کہ انسان کسی جنگل ہی میں جاکر رہ لے۔ وہاں تو صرف جنگلی جانوروں ہی کا ڈر ہوتا ہے نا۔ لیکن اگر ان سے محبت سے پیش آیا جائے تو وہ انسانوں سے کہیں زیادہ اچھے دوست ثابت ہوتے ہیں۔‘‘ ممی نے بیٹے کی بھرپور تائید کی۔
’’ کیا بات ہے، آج ماں بیٹے کو جنگل بہت یاد آرہا ہے۔ وہاں سے کوئی پرانا تعلق لگتا ہے! ‘‘ پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا …..
’’ ویری فنی …..  ! ‘‘ ممی ناراض ہوتے ہوئے بولیں، ’’ ویسے ڈارون کی تھیوری کے مطابق تو ہر انسان کا تعلق جنگل ہی سے بنتا ہے۔ اب کچھ لوگ شہر میں آکر اپنی اصلیت بھول جائیں تو وہ اور بات ہے۔ ‘‘ ممی نے بھی طنز کیا۔
’’ کر لیجیے آپ بھی طنز ۔ بھئی وہ خاتون ہی کیا جو بات کا جواب دیے بغیر رہ جائیں۔ اچھا یہ بتائیے کہ اب تو آپ بیٹے کی حمایت میں اتنا بول رہی ہیں، اگر جنگل میں سچ مچ رہنا پڑا تو آپ لوگ رہ لیں گے؟ ‘‘
’’ کیوں نہیں مجھے تو بہت شوق ہے، بلکہ میری تو بچپن کی آرزو ہے کہ ہمارا جنگل میں ایک پیارا سا گھر ہوتا۔ لیکن تب میرے بھائی میرا اسی طرح مذاق اُڑاتے تھے اور اب آپ اُڑا رہے ہیں لیکن دیکھا جائے تو ہمارے لیے یہ کوئی ناممکن بات نہیںہے، ہماری زمینیں جس گائوں میں ہیں، وہاں سے تو جنگل بالکل نزدیک ہے۔‘‘
ننھا سعدی کبھی ممی کے منہ کو دیکھتا کبھی پاپا کے، کہ میری بات چھوڑ کر ان دونوں نے بحث شروع کردی ہے۔ لیکن چونکہ بات تو بہرحال سعدی کے مطلب کی تھی اس لیے وہ چپ کرکے سن رہا تھا کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ سعدی سات سال کا تھا اور شہر کے سب سے اچھے انگلش اسکول میں کلاس ٹو میں پڑھتا تھا ، اور اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی صحت کا اور خوشی کا  خیال بھی تو رکھنا تھا نا۔ لہٰذا پاپا بولے !
’’ اچھا بھئی اگر تم دونوں ماں بیٹے کی خوشی اسی میں ہے تو پھر مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔‘‘
’’ تھینک یو …..  پاپا، آپ کتنے اچھے ہیں!‘‘ سعدی نے خوشی سے پاپا کے گلے میں باہیں ڈال دیں۔
’’ آپ اتنی آسانی سے مان کیسے گئے؟ ‘‘ ممی نے مشکوک نظروں سے دیکھا۔ اُنہیں اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔
’’ کمال ہے بھئی ! آپ لوگوں کی بات نہ مانوں تب بھی ناراض اور مان لوں تب بھی مشکل ! ‘‘ پاپا بھی خفا ہو کر بولے! ’’ بات دراصل یہ ہے کہ مجھے بہت عرصے سے دور دراز جنگلوں میں اُسی سائیڈ پر جہاں ہمارا گائوں ہے، ایک پروجیکٹ ملا ہوا تھا لیکن میں آپ دونوں کی پریشانی کی وجہ سے ٹال رہا تھا۔ اب اگر آپ لوگ جنگل میں جاکر رہنے میں خوش ہیں تو پھر میں بھی اس پروجیکٹ کو منظور کرلیتا ہوں۔ ‘‘
’’ فوراً منظور کرلیجیے ، میں اسی خوشی میں آپ کے لیے کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ ممی جلدی سے اُٹھ کر کچن کی طرف چل دیں۔
’’ دیکھا سعدی بیٹا! آپ کی ممی آپ سے کتنی محبت کرتی ہیں۔ اگر میں یہ بات نہ مانتا تو گویا آج ہمیں کھانا ہی نہ ملتا ! ‘‘ پاپا شکائتی انداز میں بولے۔
سعدی میاں کی تو خود خوشی سے بانچھیں کھلی ہوئی تھیں، اُنہیں بھی یقین نہ تھا کہ پاپا اتنی آسانی سے مان جائیں گے ۔
’’ تو پاپا …..  کیا میں تیاری شروع کردوں ؟ اور اپنے سب دوستوں کو بھی بتا دوں کہ ہم سچ مچ جنگل میں رہیں گے؟ وہ تو میرا مذاق اُڑاتے تھے۔‘‘
’’ ہاں بیٹا، بالکل بتا دو…..  سب کو بتا دو کہ اب جبکہ ساری دنیا دیہات سے آ آ کر شہروں میں آباد ہو رہی ہے تو ہم جنگل میں اپنا گھر بنانے جارہے ہیں۔‘‘
’’ پاپا ! کیا آپ خوش نہیں ہیں؟ ‘‘ سعدی پاپا کے طنز کو سمجھ گیا تھا۔
’’ نہیں بیٹا، میں تو مذاق کر رہا تھا۔ میری خوشی بھی اسی میں ہے جس میں آپ لوگوں کی۔ ‘‘ پاپا سعدی کو پیار کرتے ہوئے بولے۔
******
آخر وہ دن بھی آگیا جب سعدی کے پاپا نے اپنے گائوں سے کچھ فاصلے پر واقع گھنے جنگل میں اپنا ایک پیارا سا مگر کچا گھر بنوا لیا ۔ وہ گھر اینٹوں اور گارے سے بنایا گیا تھا، تاکہ گرمیوں میں بھی پنکھوں اور اے سی کی ضرورت نہ پڑے اور جنگل کا قدرتی ماحول بھی متاثر نہ ہو۔ ویسے بھی وہاں تو اتنی پیاری ہوا چلتی تھی کہ پنکھوں کی ضرورت ہی نہ تھی اور پھر مصنوعی پنکھے لگانا تو جنگل کی شان کے بھی خلاف تھا۔ اس کے علاوہ گھر میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ گھر کے بڑے سے صحن میں ممی پاپا نے ہر طرح کی سبزیاں اور پھلوں کے درخت لگائے تھے اور باہر لان میں ہر رنگ کے خوبصورت پھول لگائے گئے تھے جو جنگل کے ماحول کی خوبصورتی کو دوبالا کر رہے تھے۔ اپنا پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے سعدی کے پاپا نے چھٹیاں لے لی تھیں تاکہ تسلی سے گھر بنوا سکیں۔
اب گھر بھی مکمل ہوگیا تھا اور پاپا کی چھٹیاں بھی ختم ہوگئی تھیں۔ اسکولوں میں بھی چھٹیاں ختم ہوگئی تھیں اور اب سعدی کا داخلہ بھی کرانا تھا۔ گائوں کے گورنمنٹ اسکول میں، جہاں ان کی زمینیں بھی تھیں اور سعدی کے چچا بھی رہتے تھے۔ سعدی کا داخلہ کرا دیا گیا اور اس اسکول میں سعدی کی ممی نے بھی جاب کرلی تھی۔ وہ ایم ایس سی پاس تھیں لہٰذا اُنہیں فوراً جاب مل گئی۔ جس پر سعدی بہت خوش تھا اور سب سے زیادہ تو سعدی کے چچا اور ان کے بچے خوش تھے کہ چلو اب سب ایک ہی اسکول جایا کریں گے۔ وہ دونوں ماں بیٹا روزانہ خوشی خوشی اسکول جاتے ۔ سعدی کی ممی کی یہ بڑی خواہش تھی کہ وہ گائوں کے بچوں کو تعلیم دیں۔ اس طرح سے ان کی خواہش بھی پوری ہوگئی اور وہ سعدی کا خیال بھی رکھ سکتی تھیں۔ پاپا صبح آفس جاتے وقت اُنہیں اسکول چھوڑ جاتے اور دوپہر کو واپسی پر لے آتے۔
نئے گھر کی خوشی میں اُنہوں نے چچا اور ماموں کی دعوت بھی کی تھی۔ چچا اور ان کی فیملی تو نزدیک تھے، اس لیے آگئے اور نیا گھر دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ لیکن ماموں بہت دور رہتے تھے لہٰذا وہ آ تو نہ سکے، لبتہ ان سے فون پر بات ہوئی ۔ اُنہوں نے اگلی چھٹیوں میں آنے کا کہا اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ سعدی کو وہاں گائوں کے ایک سرکاری اسکول میں داخل کروایا گیا ہے تو وہ بہت ناراض ہوئے اور بولے :
’’اگر جنگل میں رہنا اتنا ہی ضروری تھا تو سعدی کو میرے پاس چھوڑ دیا ہوتا، یہاں میرے بچوں کے ساتھ پڑھ لیتا۔ کم از کم بچے کا مستقبل تو خراب نہ ہوتا۔ اب بھی وقت ہے، اسے میرے پاس بھیج دو ۔ ‘‘
نہیں بھائی جان اب خدا نہ خواستہ ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ جس سے ہمارے بچے کا مستقبل خراب ہوجائے۔ سرکاری اسکولوں میں بڑے بڑے لوگ بھی پڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور ساری بات تو ماں باپ اور اساتذہ کی محنت کی ہوتی ہے، اسکول چاہے سرکاری ہو، چاہے پرائیویٹ۔ اور پھر اپنے بیٹے کو تو میں خود ہی محنت کراتی ہوں۔ آپ دیکھیے گا کہ وہ انگلش اسکولوں کے بچوں سے بھی زیادہ نمبر لے گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگل میں رہنے کی خواہش بھی اصل میں سعدی ہی کی تھی ۔ لہٰذا وہ جنگل کی رہائش اور سرکاری اسکول دونوں سے بہت خوش ہے۔‘‘ ممی نے تفصیل سے بتایا۔
’’ چلو تم دونوں تو کم عقل ہو مگر یہ سعدی کے باپ کی عقل کو کیا ہوگیا تھا جو جنگل میں گھر بسانے چلا گیا۔ خیر چھوڑو اس بحث کو ، دیکھو بچوں کی اگلی چھٹیوں میں آنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘ ماموں نے یہ کہہ کر فون بند کردیا۔
سعدی کی پڑھائی زور شور سے جاری تھی کیونکہ اب وہ کلاس تھری میں ہوگیا تھا، پھر نیا اسکول اور نیا ماحول تھا۔ اس کو سیٹ ہونے میں تھوڑا ٹائم تو لگنا تھا لیکن زیادہ اطمینان اس بات کا تھا کہ ممی ساتھ تھیں۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ سعدی اپنے گھر کے آس پاس جانور اور پرندے بھی تلاش کرتا رہتا تھا جن سے وہ دوستی کرسکے، کیونکہ زیادہ تر جانور اور پرندے اپنے جنگل میں ایک گھر بنتے دیکھ کر دور دور بھاگ گئے تھے۔ اُنہیں عجیب لگ رہا تھا کہ ہمارے جنگل کے پر سکون ماحول میں یہ کون لوگ آگئے ہیں، اور پھر گھر بنانے کے لیے تو کافی جگہ چاہیے ہوتی ہے۔ اس لیے بہت سی جگہ کو صاف بھی کرنا پڑا تھا جس سے بہت سے جانوروں کے گھر ختم ہوگئے تھے، جس کا سعدی کو علم نہیں تھا ۔
جب بھی سعدی جنگل میں جانوروں سے دوستی کرنے کے لیے اُن کی تلاش میں نکلتا تو سب جانور اس کو دیکھ کر چھپ جاتے تھے۔ اسے بڑی پریشانی تھی کہ یہاں تو کوئی جانور یا پرندہ ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آتا۔ پاپا نے غلط جگہ پر گھر بنا لیا۔ لیکن سعدی نے اپنی تلاش جاری رکھی کیونکہ دوستوںکے بغیر تو یہاں رہنا ہی بیکار لگتا تھا۔
سعدی اپنا ہوم ورک بھی جنگل میں کسی گھنے درخت کی چھائوں میں بیٹھ کر کرتا تھا اور سبق بھی وہیں ٹہل ٹہل کر یاد کرتا تھا۔ کافی دن اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن سعدی بڑے انہماک سے اپنا ہوم ورک کر رہا تھا کہ اسے اپنے آس پاس کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی۔ اس نے چونک کر اپنے اردگرد دیکھا تو بے حد حیران ہوا اور اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے دیکھا کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے جانور اور پرندے اس کے گرد جمع ہیں اور اسے بڑی حیرت سے کام کرتے دیکھ رہے ہیں۔ سعدی آہستہ آہستہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور غور سے سب کو دیکھنے لگا۔ وہ سمجھا کہ شاید میرا وہم ہے ورنہ یہاں جانور کہاں ہیں۔
’’ ہیلو …..  ! ‘‘ سعدی نے خوشی سے کہا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آیا یہ جانور اس سے ڈر کر بھاگتے ہیں یا اس سے دوستی کرنے آئے ہیں۔
’’ ہیلو …..  پیارے بچے! ‘‘ ایک مینا نے اسے خوش دلی سے ہیلو کہا تو وہ منہ میں انگلی دبا کر حیرت سے مینا کو دیکھنے لگا۔ وہ ایک بولنے والی مینا تھی اور روزانہ سعدی کا سبق سن سن کر اس نے بہت کچھ بولنا سیکھ لیا تھا۔
’’ میرا نام سعدی ہے۔ میں بھی تمہارا پڑوسی ہوں، یہاں اپنے ممی پاپا  کے ساتھ رہتا ہوں اور تم سب سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ مگر تم سب کہاں رہتے ہو؟ مجھے تو نظر نہیں آتے، میں تو روز تمہیں ڈھونڈتا تھا۔ ‘‘
’’ ہم سب یہیں رہتے ہیں، تمہارے پڑوس میں۔ مگر پہلے ہم ڈرتے تھے کہ کہیں تم ہمیں مارو نا۔ اسی لیے ہم چھپ چھپ کر تمہیں دیکھتے تھے، اب ہمیں اطمینان ہوگیا ہے کہ تم بہت اچھے بچے ہو۔ اسی لیے ہم تم سے دوستی کرنے آئے ہیں۔ ‘‘ ایک طوطا بولا۔
’’ اچھا تو پھر دوستی پکی!‘‘ سعدی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا…..   اور سارے پرندے اس کے ہاتھوں پر آکر بیٹھ گئے، کچھ کندھوں پر، اور کوئی سر پر ، جس کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔ اور چھوٹے خرگوش کے بچے اور گلہریاں اس کے پیروں میں گھس گئے، کوئی اس کی گود میں بیٹھ گیا اور ایک آدھ تو اس کے بیگ میں بھی گھس گیا۔
سعدی بے حد حیران اور بہت خوش تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ سب کے سب اتنی جلدی اس کے دوست بن گئے تھے۔ سعدی نے اپنا بیگ بند کیا اور ان کے ساتھ کھیلنے لگا۔ وہ بڑی دیر تک کھیلتے رہے اور ٹائم کا احساس ہی نہ ہوا۔ جب شام ہونے کو آئی اور سعدی کی ممی اس کو ڈھونڈتی ہوئی اُدھر آئیں تو وہ بھی سعدی کے جانور دوستوں کو دیکھ کر حیران ہوگئیں۔ مگر وہ سب ممی کو دیکھ کر بھاگ گئے اور اپنے اپنے بلوں اور گھونسلوں میں چھپ گئے ۔ ان سب کی مائوں نے بھی شکر کیا کہ بچے گھر تو آئے۔
اب تو روزانہ کا یہ معمول بن گیا کہ سعدی اسکول سے آکر کھانا کھاتا، تھوڑی دیر آرام کرتا اور پھر اپنا بیگ اُٹھا کر جنگل میں نکل جاتا۔ وہاں بیٹھ کر پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرتا پھر زور زور سے سبق یاد کرتا۔ اس طرح سے بولنے والے پرندوں کو بھی سعدی سے بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا۔ وہ بھی سبق کو ذہن نشین کرتے رہتے، کیونکہ ان کی یادداشت بھی بچوں کی طرح بہت اچھی ہوتی ہے، اس لیے ان کو فوراً یاد ہوجاتا تھا اور اگر سعدی کہیں اٹکنے لگتا تو وہ جلدی سے اسے بتا دیتے تھے۔
سعدی کے دوستوں میں تو روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا۔ اسی دوران میں کہیں سے  دو خوبصورت ہرن بھی گھومتے گھامتے اُدھر آ نکلے اور ان کو سعدی اور اس کے دوست اتنے پسند آئے کہ اُنہوں نے بھی ادھر ہی اپنا گھر بنا لیا تھا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ وہ یہ کہ سعدی کے گھر کے نزدیک ایک پیاری سی چھوٹی سی جھیل تھی اور جانور ہمیشہ پانی کے نزدیک ہی گھر بناتے ہیں تاکہ پانی پینے کے لیے اُنہیں دور نہ جانا پڑے۔ پانی کی تلاش میں وہاں بہت سے جانور آتے رہتے تھے۔ کچھ تو پانی پی کر واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے، کچھ سعدی اور اس کے دوستوں کو کھیلتا دیکھ کر وہیں بیٹھ جاتے تھے۔
******
سعدی کے دوستوں کے علاوہ جھیل کے اندر بھی بہت سے جانور رہتے تھے، جیسے کچھوے ، رنگ برنگی مچھلیاں، چھوٹے بڑے مینڈک اور بہت سے چھوٹے چھوٹے جاندار جو ہمیں نظر بھی نہیں آتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ پانی کے اندر اتنی مخلوق رہتی ہے جس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ مخلوق اگر زمین پر پھیل جائے تو شاید انسانوں کے رہنے کے لیے جگہ ہی نہ بچے۔
ہم لوگ اپنے گھروں میں جو پانی استعمال کرتے ہیں،اسے ہم سب لوگ اتنا ضائع کرتے ہیں جس کی کوئی حد اور حساب ہی نہیں۔ اگر ہم پانی اسی طرح ضائع کرتے رہے تو ہمارے پینے کے لیے ایک دن پانی ختم ہوجائے گا اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ پانی اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی ہر نعمت کا حساب لے گا اور ان نعمتوں کو خوامخواہ ضائع کرنے سے گناہ بھی بہت ہوتا ہے اور ہم یہ گناہ ہر وقت کرتے ہیں جس کا ہمیں احسا س بھی نہیں ہوتا۔
سعدی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ پانی ضائع کرنے کے کیا نقصانات ہیں۔ وہ روزانہ جب برش کرتا، منہ ہاتھ دھوتا یا نہاتا تو بس نل فل کھول لیتا اور پھر بند کرنا بھول جاتا تھا۔ جب اس کی ممی کہتیں کہ آئو سعدی میں نہلا دوں تو وہ کہتا نہیں اب میں بڑا ہوگیا ہوں، خود نہا سکتاہوں حالانکہ اگر اس کی ممی نہلاتیں تو پانی کم ضائع ہوتا۔ مگر ابھی ان باتوں کا سعدی کو علم نہیں تھا۔ اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ ان کے گھر جو پانی آتا ہے وہ اسی چھوٹی سی جھیل سے آتا ہے جہاں اس کے دوست رہتے ہیں۔
’’ سعدی بیٹا! جلدی سے برش کرکے نہا لو، میں نے تمہارے کپڑے واش روم میں ٹانگ دیے ہیں ۔ تمہارے چچا اور ان کی فیملی آنے والی ہے۔ آج ویک اینڈ ہے۔ اس لیے وہ ایک دن ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔ ‘‘ ممی سعدی کے کمرے سے جاتے جاتے بولیں۔
’’ واہ …..  پھر تو مزہ آجائے گا!‘‘ سعدی صوفے سے چھلانگ لگا کر کھڑا ہوگیا اور واش روم میں جاکر سب سے پہلے نل فل کھول دیا پھر سوچا کہ کیا کرنا تھا…..  ہاں پہلے دانت برش کرنے ہیں…..  اس نے برش گیلا کیا، اس پر پیسٹ لگایا اور دانتوں پر پھیرنے لگا …..  پھر اسے خیال آیا کہ وہ تو کارٹون دیکھ رہا تھا اور ابھی اس کے پسندیدہ کارٹون ختم نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا وہ نل اسی طرح کھلا چھوڑ کر کمرے میں چلا گیا۔ وہاں کارٹون دیکھنے میں اتنا منہمک ہوا کہ یہ بھی یاد نہ رہا کہ اس کے دانتوں میں برش دبا ہوا ہے۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد سعدی کو اپنی کھڑکی کے باہر شور سنائی دیا تو وہ چونکا اور کھڑکی سے باہر دیکھے لگا۔ اس نے دیکھا اس کے سارے دوست جمع ہیں، جن میں کچھوے اور مینڈک بھی ہیں۔ دراصل بات اتنی اہم تھی کہ اگر مچھلیاں پانی سے باہر آسکتیں تو وہ بھی آجاتیں۔
سعدی ان سب کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت حیران ہوا، کیونکہ وہ سب کبھی اس طرح سعدی کے گھر پر جمع نہیں ہوئے تھے۔
کیا بات ہے دوستو ؟ آپ سب بہت پریشان لگ رہے ہیں۔ خیریت تو ہے؟ ‘‘
’’ خیریت ہی تو نہیں ہے …..  آپ ہم پر یہ کیا ظلم کر رہے ہیں!‘‘ بی مینا سب کی طرف سے بولی ، کیونکہ اسے بولنا آتا تھا۔
’’ مگر میں تو برش کر رہا ہوں، ظلم کیسے کرسکتا ہوں…..  ؟ وہ بھی اپنے اتنے پیارے دوستوں پر ۔‘‘ سعدی اور بھی حیران ہوا۔
’’ آپ نے اپنے واش روم کا نل کھلا چھوڑ دیا ہے؟ ‘‘ مینا نے پوچھا۔
’’ ہاں تو کیا ہوا…..  ؟ وہ تو میں روز ہی کھلا رکھتا ہوں۔ اس طرح مجھے بار بار نہیں کھولنا پڑتا۔‘‘ سعدی معصومیت سے بولا۔
’’ آئے ہائے …..  ‘‘ مینا سر پر اپنا پر مار کر بولی، ’’ یہی تو آپ ظلم کرتے ہیں ہم سب پر۔ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کے گھر میں جو پانی آتا ہے، وہ ہماری اس چھوٹی سی جھیل سے آتا ہے اور آپ جب نل کھول کر پانی ضائع کرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں تو ہماری جھیل کا پانی تیزی سے کم ہونے لگتا ہے اور جھیل میں رہنے والے ان جانوروں اور مچھلیوں کا دم گُھٹنے لگتا ہے اور یہ بیچارے کسی سے شکایت بھی نہیں کرسکتے۔ آپ ہمارے دوست ہیں، اسی لیے ہم آپ سے شکایت کرنے آگئے۔ ‘‘
’’ بھئی دوستو …..  میں آپ سے معافی چاہتا ہوں، مجھے تو اس بات کا بالکل علم نہیں تھا ۔ میں ابھی جا کر نل بند کر دیتا ہوں اور آئندہ اس بات کا خیال رکھوں گا۔‘‘
’’ شکریہ …..  سعدی میاں، آپ بہت اچھے دوست ہیں۔‘‘ وہ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ پیچھے سے ممی بھی آگئیں۔ وہ بولیں :
’’ حد ہوگئی سعدی بیٹا …..  آپ ابھی تک نہائے نہیں؟ آپ کے چچا آ بھی گئے …..  اور وہاں کھڑکی میں کھڑے آپ کیا کر رہے تھے؟ ‘‘
’’ ممی …..  بس دو منٹ میں نہا کر آیا۔ ‘‘ یہ کہہ کر سعدی جلدی سے واش روم میں گھس گیا۔
******
سعدی اپنے چچا چچی اور ان کے بیٹوں سے مل کر بہت خوش ہو رہا تھا۔ چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر وہ اپنے چاروں کزنز عارف ، احسن، عمیر اور عظیم کو جنگل میں گھمانے کے لیے لے گیا۔ اس کے سب دوست جو جنگل میں اس کے منتظر تھے، سعدی کے ساتھ اجنبی لوگوں کو دیکھ کر چھپ گئے۔ پھر سعدی نے سب کو بتایا کہ بھئی یہ میرے کزنز ہیں۔ یہ بہت اچھے ہیں، آپ لوگ ان سے ڈریں نہیں ۔ مگر وہ پھر بھی نہ نکلے اور چھپ چھپ کر ان کو دیکھتے رہے۔ سعدی اپنے کزنز کو جھیل پر بھی لے گیا اور اپنے جھیل کے دوستوں کو آواز دی لیکن وہ بھی ڈر کر چھپ گئے۔
سعدی اپنے کزنز کے ساتھ جھیل کے کنارے بہت دیر تک کھیلتا رہا، حتیٰ کہ سورج غروب ہونے لگا تو اُنہیں گھر جانے کا خیال آیا۔
سعدی کے یہ چاروں کزنز بہت شریف اور اچھے بچے تھے۔ چونکہ وہ خود بھی گائوں کے رہنے والے تھے، اس لیے جنگل میں رہنے کے آداب سے بھی واقف تھے۔ نہ تو اُنہوں نے پودوں اور بیل بوٹوں کو خراب کیا ، نہ بلا وجہ پھول توڑے، نہ شریر بچوں کی طرح کسی پرندے کے گھونسلے کو چھیڑا اور نہ کسی جانور کو تنگ کرنے کی ترکیبیں سوچیں۔ بس جھیل کے کنارے آپس میں کھیلتے رہے اور شام ہوتے ہی گھر واپس ہو لیے ۔ جانور چُھپے ہوئے سب باتیں نوٹ کرتے رہے تھے اور اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ یہ بھی سعدی کی طرح بہت اچھے اور جانور دوست بچے ہیں۔
گھر جاکر سب لوگوں نے کھانا کھایا، تھوڑی دیر ٹی وی دیکھا اور جلد ہی سو گئے کیونکہ گائوں میں سب لوگ جلدی سونے اور جلدی اُٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ سعدی اور اس کے ممی پاپا بھی اِسی روٹین کے پابند تھے۔ رات کو چونکہ جلدی سوئے تھے، اس لیے صبح بھی سب لوگ بہت جلدی اُٹھ گئے اور نماز پڑھی ۔ پھر سعدی اپنے کزنز کو لے کر صبح کی سیر کو نکل گیا۔
ایسا خوبصورت منظر دیکھ کر سبھی کا دل بہت خوش ہوا۔ ایک تو صبح صبح کا وقت اور پھر جنگل کا ماحول، جو اس وقت جنت کا ماحول لگ رہا تھا۔ پہلے سب نے مل کر ورزش کی، پھر خوب لمبے لمبے سانس لے کر اپنے پھیپھڑوں میں تازہ آکسیجن بھری۔ اتنے میں ناشتہ بھی تیار ہوگیا تھا اور وہ سب ناشتہ کرنے کے لیے گھر چلے گئے۔ ناشتے سے فارغ ہوکر سب لوگ کھیلنے کے لیے دوبارہ جنگل میں آگئے۔ اتنے میں سعدی کے جنگل کے سب دوست بھی نکل نکل کر آگئے اور ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ سعدی اور اس کے کزنز یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
’’سعدی میاں، کیا اپنے دوستوں سے ہمیں نہیں ملوائیں گے؟‘‘  مینا بولی۔
’’ کیوں نہیں بی مینا؟ یہ سب تو تم لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔‘‘ سعدی نے اپنے کزنز کا سب سے تعارف کرایا۔ اتنے میں ہرنی بھی اپنے دونوں بچوں سمیت آگئی جو اپنی ماں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اور اپنی موٹی موٹی چمکدار آنکھوں سے سب کو خیریت سے دیکھ رہے تھے۔ پھر سب مل کر کھیلنے لگے۔ کھیل کھیل میں وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔ جب سعدی کے پاپا سب کو دوپہر کے کھانے کے لیے بلانے آئے، تب وقت کا احساس ہوا اور سب اپنے دوستوں کو خدا حافظ کہہ کر گھر کی طرف ہو لیے۔ سعدی کے کزنز سعدی کے دوستوں سے مل کر بے حد خوش تھے۔ اُنہوں نے گھر آکر اپنے امی ابو کو بھی ان کے بارے میں بتایا۔ وہ بھی سن کر بہت خوش ہوئے اور بولے کہ اگلی دفعہ جب آئیں گے تو ہم بھی سعدی کے دوستوں سے ملیں گے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد چچا جان نے جانے کی اجازت چاہی تاکہ سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ جائیں۔
******
سعدی کے امتحانات شروع ہوچکے تھے۔ یوں تو وہ بہت محنتی بچہ تھا، روز کا کام روز کرنے کا عادی تھا۔ اس کا تمام سبق نہ صرف اسے بلکہ اس کے جنگل کے دوستوں کو بھی یاد ہوتا تھا کیونکہ وہ گھر سے باہر جا کر زور زور سے یاد کرتا تھا۔ لہٰذا یہ قدرتی بات ہے کہ سعدی کے پیپرز بہت اچھے ہوئے تھے اور وہ بہت اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا تھا اور پورے اسکول میں سب سے زیادہ نمبرز لینے کا ریکارڈ توڑا تھا۔ اس کارنامے پر سعدی اس کے ممی پاپا اس سے بے حد خوش تھے۔ اس خوشی میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب پتہ چلا کہ سعدی کے ماموں بھی اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں منانے آرہے ہیں۔
رزلٹ کے کچھ ہی عرصہ بعد گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوگئیں اور چھٹیوں کے ساتھ ہی سعدی نے اپنے ماموں اور ان کے بچوں کا بے چینی سے انتظار کرنا شروع کردیا۔ اس نے اپنے جنگل کے سب دوستوں کو بھی بتا دیا کہ شہر سے میرے کزنز آرہے ہیں اور تم ان سے ڈرنا نہیں ہے۔
سعدی کے ساتھ اس کے سب دوست بھی اس کے کزنز کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی اس کے پہلے کزنز کی طرح اچھے اور شریف بچے ہوں گے ۔
آخر سعدی اور اس کے دوستوں کا انتظار ختم ہوا۔ ماموں اور ان کی فیملی آگئی تھی۔ سعدی اور اس کے ممی پاپا نے ان کو اپنا سارا گھر دکھایا ۔ وہ لوگ گھر اور جنگل کا ماحول دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
’’بھئی آپ لوگ تو جنگل میں منگل منا رہے ہیں!‘‘ ماموں حیران ہوتے ہوئے بولے۔
’’ ماموں جان یہ جنگل میں منگل کیا ہوتا ہے؟ آج تو اتوار ہے!‘‘ سعدی معصومیت سے بولا
’’ بیٹا! دراصل جنگل تو ویسے ہی بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور اگر بیل بوٹے پھل پھول لگا کر جنگل کی رونق کو اور بڑھا دیا جائے تب یہ کہا جاتا ہے کہ آپ نے تو جنگل میں منگل کردیا ، جس طرح آپ لوگوں نے جنگل میں رونق لگا رکھی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ جنگل کے سب جانور اور پرندے بھی آپ کے دوست ہیں۔ ‘‘ ماموں نے تفصیل سے سمجھایا تو سعدی کو فوراً سمجھ میں آگیا۔
’’ جی ہاں ماموں جان، اب تو رات ہوگئی۔ سب سونے چلے گئے۔ صبح صبح آئیں گے، تب آپ کو اپنے دوستوں سے ملوائوں گا۔ ‘‘
’’ مگر سعدی ہم سب تو دس بجے سے پہلے نہیں اُٹھیں گے!‘‘ عمر بولا۔
’’ ہاں ، چھٹیاں ہیں۔ خوب عیش کریں گے۔ صبح جلدی اُٹھنا کتنا مصیبت لگتا ہے۔‘‘ علی بولا
’’علی بھائی کیا آپ سب اسی طرح دیر سے اُٹھتے ہیں؟ میں تو بور ہوجائوں گا اتنی دیر تک سو سو کر!‘‘ سعدی پریشان ہو کر بولا
’’ نہیں سعدی میں اُٹھتی ہوں نا جلدی، ‘‘ سارہ بولی ! ’’ ہم صبح کی سیر کیا کریں گے۔ ‘‘
’’ ہاں، اسے شوق ہے تمہاری طرح صبح صبح اُٹھ کر پھرنے لگتی ہے۔ ہمیں بھی پریشان کرتی ہے۔‘‘ عمر بولا
’’ عمر بھائی پریشان میں کرتی ہوں یا آپ لوگ مجھے پریشان کرتے ہیں؟ رات کو دو دو بجے تک ٹی وی دیکھتے ہیں۔ میں سو بھی نہیں سکتی۔‘‘ سارہ نے شکایت کی ۔
’’ اور صبح ممی پاپا سے ہماری شکایت کون کرتا ہے؟ ہم تو تمہاری وجہ سے ٹی وی بھی نہیں دیکھ سکتے ‘‘ علی بولا۔
’’ اچھا چلیں اب آپ لوگ لڑیں نہ۔ آج سے سارہ آپی میرے ساتھ میرے کمرے میں سوئیں گی ، ٹھیک ہے نا؟ ‘‘ سعدی نے مسئلہ حل کیا۔
’’ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ کچھ دن تو ہم سکون سے لیٹ نائٹ موویز دیکھیں گے اور اپنی مرضی سے سوئیں گے۔ ‘‘ وہ دونوں خوش ہوگئے اور سارہ بھی خوش ہوگئی کہ چلو کوئی تو ہے اس کے ساتھ صبح اُٹھنے والا ۔
رات کا کھانا کھا کر ممی پاپا اور ماموں ممانی تو باتوں میں لگ گئے۔ سعدی عمر ، علی اور سارہ کو اپنے کمرے میں لے گیا۔ سارہ سعدی کا کمرہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ پچھلی کھڑکی جو جھیل کی طرف کھلتی تھی، وہاں سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔ یہ کھڑکی خاص طور پر سارہ کو بہت پسند آئی۔ عمر اور علی چونکہ سعدی سے کافی بڑے تھے، لہٰذا وہاں اُن کے مطلب کی کوئی چیز نہ تھی ۔ اس لیے تھوڑی ہی دیر بعد وہ ٹی وی لائونج میں چلے گئے۔
سعدی حسبِ عادت صبح صبح اُٹھ گیا تھا۔ پھر اس نے سارہ آپی کو اُٹھایا۔ گو وہ سفر کی وجہ سے تھکی ہوئی تھی پھر بھی فوراً اُٹھ بیٹھی۔ صبح کی نماز پڑھ کر دونوں باہر آگئے اور سیر کرنے لگے ۔ سعدی کے دوست بھی نکل آئے کیونکہ سعدی نے اُنہیں تاکید کی تھی کہ میرے کزنز سے ڈرنا نہیں ہے۔ سعدی کی پیاری سی آپی کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور اُنہوں نے سارہ سے فوراً دوستی کرلی۔ وہ دونوں ان کے ساتھ بہت دیر تک کھیلتے رہے۔ دس گیارہ بجے کہیں جاکر عمر، علی اور ان کے ممی پاپا اُٹھے۔ پھر ناشتہ کیا گیا۔ ناشتے پر سارہ نے سب کو سعدی کے دوستوں سے ملاقات کا حال سنایا۔ ممی پاپا نے تو دلچسپی سے سنا لیکن عمر اور علی ہنستے رہے۔ اُن کو ایسی سب  باتیں احمقانہ لگتی تھیں۔
شام کی چائے کے بعد کہیں جاکر ان کی سستی اُتری۔ تب ان کا باہر جانے کا موڈ ہوا۔ وہ سب سعدی کے ساتھ جنگل کی سیر کو نکلے، مگر اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر سعدی کے دوست باہر نہ نکلے۔ عمر اور علی تو ویسے بھی بہت شرارتیں کر رہے تھے، کبھی پھولوں کو نوچتے کبھی درخت کی شاخوں کو کھینچتے، کوئی پرندہ کہیں بیٹھا نظر آجاتا تو اس کو پتھر کھینچ کر مارتے۔ سعدی اور سارہ ان کو منع کرتے رہ جاتے اور وہ ہنستے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ ان کی شرارتوں کو دیکھ کر سعدی کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں اس کے دوست ناراض نہ ہوجائیں کیونکہ وہ چھپ کر سب کچھ دیکھتے رہتے تھے۔
اب ان سب کا یہی معمول تھا کہ شام کی چائے کے بعد وہ گھومنے کے لیے نکل جاتے اور شام کو کوئی بھی جانور نہ نکلتا تھا کیونکہ ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ بہت شرارتی لڑکے ہیں، انہیں بہت تنگ کریں گے ۔ کچھ دن بعد عمر کی سالگرہ بھی آگئی، جو ان سب کو پہلے سے یاد تھی۔ علی اور سارہ تو اس کے لیے تحفے بھی پہلے سے لے کر آئے تھے اور اس کی سالگرہ منانے کے لیے اور بھی بہت سی چیزیں لے کر آئے تھے ۔
’’جھیل پر چل کر منائیں گے سالگرہ ۔ اب ہوگا جنگل میں صحیح منگل!‘‘ علی بولا۔
سب لوگ پکنک کا سامان لے کر جھیل پر چلے گئے ۔ کیک کاٹا گیا، پھر چائے پی گئی ۔ ممی، پاپا اور ماموں، ممانی تو چائے پی کر اُٹھ گئے جبکہ عمر اور علی کا ابھی کچھ اور بھی پروگرام تھا۔
’’ چلو آگ جلا کر بون فائر کرتے ہیں۔ ‘‘ علی بولا
’’ کیا ؟ ‘‘ سعدی حیرت سے بولا
’’ اوہو ! بھی بون فائر نہیں سمجھتے؟ بھول گئے کیا؟ تمہارے اسکول میں بھی تو ہوتا تھا۔ ‘‘ عمر بولا
’’ نہیں، مجھے سب یاد ہے۔ میرایہ مطلب ہے کہ آگ جلانے سے تو گھاس اور پودے جل جائیں گے!‘‘ سعدی پریشان ہوکر بولا
’’ چلو   ….. آگ نہیں جلاتے، اس سے تو گھاس جل جاتی ہے، اچھا پھر میں پٹاخے اور انار وغیرہ نکالتا ہوں اس سے تو تمہاری گھاس نہیں جلے گی نا ۔ ‘‘ علی بولا
’’ لیکن بھائی …..  اس سے تو دھواں بہت پھیلے گا اور شور بھی بہت ہوگا!‘‘ سارہ بولی
’’ ہاں اس شور سے تو میرے دوستوں کی نیند خراب ہوجائے گی اور وہ بے چارے پریشان ہو کر جاگ جائیں گے۔ اور ہرنی کے بچے تو ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ وہ تو ڈر جائیں گے۔ ‘‘ سعدی کو پھر پریشانی لاحق ہوگئی۔
’’ او …..  کم آن، سعدی ! تم تو جنگل میں رہ کر بالکل جنگلی بن گئے ہو۔ ہر وقت ان جنگلی جانوروں ہی کی فکر لگی رہتی ہے۔ اور ہم جو اتنی دور سے تم سے ملنے کے لیے آئے ہیں، ہماری خوشی کا کوئی خیال نہیں! ‘‘ عمر ناراض ہوکر بولا تو سعدی چپ ہو گیا۔
علی اور عمر نے خوب آتش بازی چلائی، بہت خوبصورت منظر تھا۔ ممی پاپا وغیرہ تو گھر بیٹھے ہی دیکھ رہے تھے۔
’’ لگتا ہے بچے خوب انجوائے کر رہے ہیں! ‘‘ ماموں بولے
’’ ہاں ، علی اور عمر تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ اس دفعہ سالگرہ جنگل میں منائیں گے تو بہت مزہ آئے گا۔ ‘‘ ممانی بولیں۔
آتش بازی چلانے سے خوب شور ہوا، بہت دھواں پھیلا۔ سعدی کبھی ایک دوست کے گھونسلے کی طرف دیکھتا تو کبھی دوسرے دوست کے بِل کی طرف نظر دوڑاتا۔ سبھی اس شور سے گھبرا کر اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ اُنھیں لگا شاید قیامت آگئی ہے۔ مگر جب اُنہوں نے دیکھا کہ یہ تو سعدی کے کزنز کی حرکت ہے تو وہ سب اور پریشان ہوگئے کہ یہ نجانے ہمارے علاقے میں کیا دہشت گردی کر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک درخت کے اوپر بڑے زور سے پھڑپھڑاہٹ ہوئی اور پھر جھیل کے کنارے دھڑام سے کسی بھاری چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ سعدی کے کان تو انہی سب چیزوں کی طرف لگے ہوئے تھے۔ وہ بھاگ کر جھیل کے کنارے گیا، وہاں اس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک خوبصورت پری جھیل کے کنارے بیٹھی اپنے پروں پر پانی ڈال رہی تھی ۔
’’تم …..  کون ہو ؟ اور یہ کیا کر رہی ہو؟ ‘‘ سعدی حیرت سے بولا۔
’’ سعدی میاں …..  میں ایک پری ہوں اور یہاں اپنے جلے ہوئے پروں پر پانی ڈال رہی ہوں۔ ‘‘ پری ناراض ہوتے ہوئے بولی، ’’ میں نے تو سارے جنگل سے تمہاری بہت تعریفیں سنی تھیں۔ اسی لیے آج اس طرف نکل آئی تھی ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنے خطرناک کام بھی کرتے ہو۔ وہ تو شکر ہے کہ کچھ بچت ہوگئی ورنہ میں تو اُڑ بھی نہ سکتی ۔ اُف …..  آسمان پر ایسی آگ ، دھواں اور شور …..  میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’ میں بہت معذرت چاہتا ہوں اچھی پری۔ لیکن یہ میرا نہیں میرے اُن کزنز کا کام ہے جو شہر سے میرے پاس آئے ہوئے ہیں۔ میں نے تو اسی ڈر سے اُنہیں بہت روکا تھا مگر وہ نہیں مانے۔ ‘‘ سعدی بہت شرمندہ ہو رہا تھا
’’ اچھا تو یہ اُن کا کام ہے۔ میں ان کو ابھی اس کا مزہ چکھاتی ہوں۔‘‘ پری غصے میں اٹھی ، ’’ اپنے شہر تو انہوں نے خراب کردیے، اب یہ ہمارا جنگل بھی خراب کرنے چلے آئے۔‘‘
’’ رہنے دو اچھی پری…..  وہ تو مہمان ہیں۔ میں ان کی طرف سے معافی مانگ رہا ہوں نا۔ تم ان کے بدلے مجھے سزا دے لو۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ سب میرا ہی قصور ہے۔ اصل میں تو شہر چھوڑ کر جنگل میں رہنے کی ضد میں نے ہی کی تھی۔ یہ خیال نہیں رہا کہ ہم یہاں رہیں گے تو ہمارے رشتہ دار بھی ملنے کے لیے آئیں گے، اور پھر جب جنگل میں انسان آنا شروع کردیں گے تو وہ اس پیارے جنگل کا ماحول بھی خراب کرنا شروع کردیں گے۔‘‘
’’ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے، اس لیے تمہیں معاف کر رہی ہوں، ورنہ تو مجھے اتنی تکلیف ہو رہی ہے کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے، اس کی گردن مروڑ دوں۔ آج تک کسی کو …..  حتیٰ کہ کالوجن تک کو اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ مجھے اتنی تکلیف پہنچا سکے جو میرا جانی دشمن ہے۔ مگر تم انسان …..  ! پتا نہیں تم کس مٹی کے بنے ہو؟ دنیا میں بس اپنا ہی راج سمجھتے ہو، دندناتے ہوئے ہر جگہ پہنچ جاتے ہو اور کسی کو بھی نہیں چھوڑتے۔ میں نے بھلا تمہارا کیا بگاڑا تھا۔ ‘‘ پری کو بہت سخت غصہ آرہا تھا اور بالکل ٹھیک آرہا تھا۔ اسی لیے سعدی کان دبائے اس کی باتیں اور صلواتیں سن رہا تھا۔
’’ ایک بات تو بتائو …..  ‘‘ پری پھر بولی ، ’’ تم انسانوں کو اپنی دنیا سے اتنی نفرت کیوں ہے؟ تم لوگ اپنے شہر اور گائوں خوبصورت بنانے کے بجائے اُنہیں خراب کرکے وہاں سے نکل بھاگتے ہو اور دوسری جگہ جاکر رہنے لگتے ہو ، اور جب وہ بھی خراب ہوجاتی ہے تو پھر اسے بھی گندا کہہ کر چھوڑ دیتے ہو۔ ایسا کیوں ہے؟ حالانکہ میں نے تو اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ االلہ تعالیٰ نے انسان کو سب مخلوقات میں افضل بنایا ہے جسے اشرف المخلوقات کہتے ہیں، کیونکہ اس کو عقل سب سے زیادہ دی گئی ہے۔ لیکن انسانوں کی حرکتیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اُن میں عقل نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ‘‘
’’ اچھی پری…..  اس کا جواب تو مجھے نہیں معلوم کیونکہ میں ابھی بہت چھوٹا ہوں۔ ہاں تم کہو تو میں اپنے پاپا سے پوچھ کر بتا سکتا ہوں۔‘‘ سعدی پری کے اتنے مشکل سوالوں سے پریشان ہوگیا تھا۔ اتنے میں عمر ، علی اور سارہ اس کو ڈھونڈتے ہوئے وہیں پہنچ گئے تھے۔ ان کو دیکھ کر پری تو فوراً اُڑ گئی ، جبکہ سعدی کو بولتے ہوئے انہوں نے سن لیا تھا اور وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ وہاں تو کوئی بھی نہ تھا۔ اُنھیں سعدی کی عقل پر شک ہونے لگا، وہ سمجھے کہ شاید اکیلا رہتا ہے، اسی لیے ہوائوں سے باتیں کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔
******
وہ سب سالگرہ خوب انجوائے کرکے گھر آگئے تھے اور بہت تھک گئے تھے۔ اتنے میں کھانا بھی لگ گیا۔ سب نے مل کر رات کا کھانا کھایا۔ عمر اور علی آتش بازی کے مظاہرے کا قصہ سناتے رہے جس کو ان کے ممی پاپا بڑے شوق سے سنتے رہے، جبکہ سعدی اور سارہ بالکل خاموش تھے۔
’’ کیا بات ہے سعدی بیٹا، آپ اتنے خاموش کیوں ہیں؟ کیا آپ کو مزہ نہیں آیا؟ ‘‘ پاپا نے اندازہ لگالیا تھا کہ ضرور کوئی بات ہوئی ہے۔
’’ پاپا …..  میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہیے!‘‘ سعدی بڑے فکرمندانہ انداز میں بولا۔
’’ ہاں …..  اب کی ہے نا سعدی بیٹے نے عقل مندوں والی بات، ‘‘ پاپا سے پہلے ہی ماموں بول پڑے، ’’ میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ شہروں میں رہنے والے لوگ بھلا کب تک اس جنگل میں جانوروں کے درمیان رہ سکتے ہیں۔ بس بہت ہوگیا۔ اب تم سامان سمیٹو اور ہمارے ساتھ ہی نکل لو اور یہ موقع اچھا ہے کیونکہ سعدی کی بھی چھٹیاں ہیں۔ اس کے بعد اسکولوں میں  داخلے شروع ہوجائیں گے، اور تمہیں تو پتا ہی ہے کہ اچھے اسکولوں میں کتنی مشکل سے داخلے ہوتے ہیں۔ لیکن میں کوشش کروں گا تو ہوجائے گا سعدی کا داخلہ ۔ ورنہ ایک دیہاتی اسکول سے آئے بچے کو کون انگلش اسکول میں داخلہ دے گا۔ دیکھو اس بچے کی شخصیت پر بھی کتنا برا اثر پڑا ہے دیہاتی اسکول اور اس جنگل کے ماحول کا۔ ‘‘
’’ نہیں ماموں …..  میں اپنی وجہ سے نہیں کہہ رہا،‘‘ سعدی بولا، ’’ میں تو اب بھی یہاں رہنے میں خوش ہوں لیکن ہماری وجہ سے اس جنگل کا ماحول جو خراب ہو رہا ہے، مجھے اس کی فکر ہے۔ ہماری اس آتش بازی سے پورا جنگل پریشان ہوا ہے اور ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم اپنی تھوڑی سی خوشی کی خاطر ہزاروں لوگوں کا سکون برباد کریں۔ پتا نہیں ہمیں عقل کیوں نہیں آتی۔ حتیٰ کہ جانور اور دوسری مخلوق بھی ہم پر ہنستی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم کیسے اشرف المخلوقات ہیں ، جو اپنے ہی گھر میں آگ لگا کر خوش ہوتے ہیں؟ ‘‘
’’ بائی دا وے …..  یہ دوسری مخلوق کون ہے؟ اس کا کس سیارے سے تعلق ہے؟‘‘ عمر نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے پوچھا۔
’’ یہ بھی ہماری زمین کی مخلوق ہے، جیسے جنات اور پریاں وغیرہ۔‘‘ سعدی نے سنجیدگی سے بتایا تو سب نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اور ماموں ممی پاپا کی طرف دیکھ کر بولے!
’’ کر دیا نا اپنے اکلوتے بچے کا ستیاناس….. مجھے تو پہلے ہی شک تھا…..  جنگلوں میں اکیلا پھرتا ہے ضرور کوئی اثر وثر ہوگیا ہے بچے کو!‘‘
’’ آئے ہائے…..  کیسا پیارا اور ذہین بچہ تھا! تم دونوں کی عقل کہاں گئی جو اپنے اکلوتے بچے کو اس طرح جنگل میں چھوڑے رکھتے ہو؟‘‘ ممانی بھی افسوس کیے بغیر نہ رہ سکیں، ‘‘ بس اب اگر تمہیں اس بچے کی زندگی چاہیے تو فوراً یہاں سے نکلنے کی کرو۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم نے تمہارا وہ شہر والا گھر بیچا نہیں تھا ورنہ تم لوگ تو کشتیاں جلا کر چلے تھے وہاں سے۔ ‘‘
’’ نہیں ماموں جان اور ممانی…..  شہر والے گھر میں تو ہم اب بھی نہیں جا
ئیں گے۔ ہم اپنے گائوں والے گھر میں چچا جان کے ساتھ رہیں گے۔ دیہات بھی تو ہمارے ملک کا حصہ ہیں۔ آپ لوگ دیہات کو اتنا بُرا اور گھٹیا کیوں سمجھتے ہیں؟ ان کو اچھا بنانا بھی تو ہمارا ہی کام ہے نا۔ آپ دیکھیے گا میں بڑا ہوکر اپنے اس گائوں کو اتنا اچھا بنائوں گا کہ وہ شہر سے بھی اچھا ہوجائے گا، پھر آپ لوگ بھی اس گائوں میں آکر خوش ہوں گے اور میں اب بھی اُسی گائوں والے اسکول میں پڑھو ں گا۔ وہ بہت اچھا اسکول ہے۔‘‘ سعدی مزید سنجیدگی سے بولا ۔
ماموں اور ممانی نے حیرت سے ممی پاپا کی طرف دیکھا تو وہ خود اپنے بیٹے کی باتوں پر حیران ہو رہے تھے۔ اُنہیں اپنے چھوٹے سے بیٹے کے منہ سے اتنی سمجھداری والی باتیں سن کر بہت خوشی ہورہی تھی۔ وہ دونوں مسکرا رہے تھے۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.