Mireekh se eik pegham- مریخ سے ایک پیغام

Mireekh                                         مریخ سے ایک پیغام

          صدیوں سے زمینی سائنسدان اس کھوج میں ہیں کہ سیارہ مریخ پر زندگی کے آثار ملیں ، کوئی تہذیب دریافت ہو، یا کم از کم کوئی اشارہ ملے ، کوئی پیغام موصول ہو جائے اور پھر اُنہیں ایک پیغام موصول ہو ہی گیا ۔

          ’’ ہرُ رے ……….. ! ‘‘ ناسا کے خلائی اسٹیشن پر موجود ایک سائنسدان خوشی سے چلایا !

                   ’’ آخر ہم کامیاب ہو ہی گئے ۔ آخر آج وہ پیغام موصول ہو ہی گیا ، جس کا ہمیں برسوں سے انتظار تھا ۔ ‘‘ وہاں پر موجود سائنسدانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔

          یہ تصور انسانوں کے لیے ہمیشہ ہی بڑا پرکشش رہا ہے کہ آیا نظام شمسی میں موجود باقی سیاروں پر بھی کوئی تہذیب ہے ، یا اس کہکشاں میں موجود دیگر ہزاروں سیاروں پر بھی زندگی کے آثار موجود ہیں ۔ آخر کہیں پر ، کبھی نہ کبھی ، کوئی نہ کوئی ثبوت تو ملے گا ہی ۔

          اسی جستجو میں دنیا بھر کے سائنسدان برس ہا برس سے اربوں روپے خرچ کرچکے ہیں اور ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی تھی ۔ سائنسدانوں کے مطابق چونکہ ہمارا نظامِ شمسی چار ارب سال پہلے وجود میں آیا ، لہٰذا جس طرح اس زمین پر انسان پیدا ہوا ، اسی طرح دوسرے سیاروں پر بھی زندگی پروان چڑھ سکتی ہے اور حیات فروغ پاسکتی ہے اور اگر کوئی تہذیب ہم سے دس ہزار سال بعد پیدا ہوئی ہوگی تو اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہوگی ۔ لیکن اگر کوئی تہذیب ہم سے بھی پہلے وجود میں آچکی ہوگی ، تو پھر وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہوگی اور یقیناً ہماری زمین کا دورہ بھی کرچکی ہوگی ، کیونکہ وہ بھی ہماری طرح نظامِ شمسی کی چھان بین کر رہے ہوں گے اور کسی نئی دنیا کی تلاش میں وہ ہم تک پہنچ چکے ہوں گے ۔

          سائنسدانوں کے مطابق دوسری تہذیبوں سے رابطے کے لیے ہمیں ایک ایسا طریقۂ کار درکار تھا جو بین الستارہ بھی ہو اور بین السیارہ بھی ، یعنی جو دو ستاروں اور دو سیاروں کے درمیان رابطہ پیدا کرسکے ۔

          ایسے رابطے کے لیے ریڈیائی سگنلز کا تجزیہ کیا گیا اور اس کام کے لیے ایک بہت بڑا اینٹینا (Antenna)  لگایا گیا جس میں لاکھوں چینلز ہیں ، اور ان چینلز پر قابل توجہ اشارے تلاش اور پھر نوٹ کیے جاتے ہیں ۔ ان سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس طرح ہمیں کسی نہ کسی دن ضرور کوئی ایسا پیغام موصول ہوجائے گا ، جس سے ہمیں کسی اور سیارے پر بھی زندگی کا وجود مل جائے گا ، کیونکہ جس طرح ہم ان سے رابطے کے لیے کوشاں ہیں ، وہ بھی یقیناً ہم سے رابطہ کرنا چاہتے ہوں گے ، لیکن اس کے لیے ان کو اپنے پیغامات آسان بنانا ہوں گے تاکہ ہم آسانی سے سمجھ سکیں اور یہ عام فہم زبان سائنس اور ریاضی کی زبان ہے ، جو ہر ترقی یافتہ تہذیب سمجھ سکتی ہے ، کیونکہ قوانین قدرت ہر جگہ ایک جیسے ہیں ۔ جیسے دور دراز ستاروں اور کہکشائوں کے نقوش ایک جیسے ہیں ، روشنیاں اور رنگ ایک جیسے ہیں ۔

          اب جبکہ جنوری 2004 ء میں یہ بھی دریافت ہوچکا تھا کہ مریخ کے قطب شمالی پر برف ہے تو سائنسدانوں کا عقیدہ اور پختہ ہو گیا کہ مریخ پر زندگی ہوسکتی ہے ۔ سیارے کی سطح کو رنگ بدلتے ہوئے بھی دیکھا گیا ، جس سے اندازہ ہوا کہ وہاں موسموں کا بھی وجود ہے ۔ پانی کے علاوہ وہاں پر کاربن اور می تھین گیس کے آثار بھی ملے جو زندگی کے لیے ضروری ہیں ۔

          اس کھوج میں مریخ پر ’’ لینڈر 2 ‘‘ اور ’’ بیگل 2  ‘‘ بھیجے گئے ۔ اس کے بعد ’’ اپر چونٹی روور ‘‘ اور ’’ اسپرٹ ‘‘ بھی بھیجے گئے ، جن میں سے کچھ تباہ بھی ہوگئے لیکن کھوج کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔

          اور اب آخرکار وہ دن آہی گیا جس کا ہر سائنسدان کو شدت سے انتظار تھا ۔ یعنی ان کو سیارہ مریخ سے کوئی پیغام موصول ہو رہا تھا ، سگنل مل رہے تھے جس سے ان کو لگ رہا تھا کہ مسلسل کوئی رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن واضح کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا ۔ ریڈیو پر بھی کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو چیختی چنگھاڑتی برفانی ہوائوں سے مشابہہ تھیں ، لیکن سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا ۔ یہ ان کے لیے بڑا صبر آزما لمحہ تھا کہ سگنل موصول ہو رہے ہیں اور پتا کچھ بھی نہیں چل رہا ، شاید رابطہ منقطع ہو رہا تھا ۔

          کئی گھنٹوں کی لگاتار کوششوں کے بعد ٹیلی ویژن اسکرین پر انگریزی میں ایک پیغام لکھا ہوا آیا ، ’’ ہماری مدد کرو‘‘ (Help Us)  یہ پیغام پڑھ کر وہاں موجود تمام سائنسدان حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے کہ مریخ کی مخلوق بھی انگریزی بولتی ہے ۔ جب بار بار یہی پیغام موصول ہوتا رہا تو انہوں نے جگہ کا تعین کرنے کی کوشش کی کہ یہ پیغام کس علاقے سے ہے تاکہ ان کی مدد کا سوچا جائے ، جبکہ ابھی تو انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور انہیں کس قسم کی مدد چاہیے ، آیا وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہیں ، کسی نے ان پر حملہ کردیا ہے ، یا پھر کسی قدرتی آفت کا سامنا ہے ۔

          کچھ واضح تو نہ ہوسکا ، پھر بھی انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر کچھ کمانڈوز کی ایک ٹیم وہاں بھیجنے کا فیصلہ کیا ، تاکہ وہ جاکر صحیح صورت حال معلوم کرسکیں اور باقی ٹیم کو بھی تیار رہنے کو کہا تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کو بھی بھیجا جاسکے ۔ یہ سائنسدانوں کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی کہ برس ہا برس کی بلکہ صدیوں کی محنت اور انتظار کے بعد آخر انہیں دوسری دنیا سے نہ صرف پیغام موصول ہوا بلکہ ان کو مدد کے لیے بلایا جارہا تھا ۔

          اب انہوں نے ’’ اپر چونٹی روور 3 ‘‘ مریخ پر بھیجا اور کمانڈوز کو تاکید کی کہ پہلے دور سے ہی معائنہ کیا جائے کہ کیا صورت حال ہے ، پھر کوئی قدم اُٹھایا جائے ۔

          کچھ گھنٹوں بعد اپرچونٹی روور 3  ‘‘ مریخ کے مدار میں داخل ہوچکا تھا ۔ پھر        وہ اس جگہ پہنچے جس کی پیغام میں نشاندہی کی گئی تھی ۔ یہ جگہ مریخ کے قطب شمالی میں تھی ، جہاں ہر طرف برف ہی برف تھی ۔ کمانڈوز نے پہلے اوپر سے ہی معائنہ کرنا شروع کیا ، لیکن وہاں تو انہیں کچھ بھی نظر نہ آیا ، کوئی جاندار چیز ، کوئی مخلوق ، کوئی چرند پرند کچھ بھی نہ تھا ، تا حدِ نظر برف ہی برف تھی ، تیز طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ انہوں نے سوچا شاید ہم غلط جگہ پر آگئے یا وہ پیغام ہی غلط تھا ، شاید کسی کی شرارت تھی۔ وہ گھنٹہ بھر ٹھہر کر واپس جانے ہی والے تھے کہ ان کی نظر ایک برف سے ڈھکے پہاڑ پر پڑی جس کی اوٹ میں دو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور نظر آئیں جن میں کچھ حرکت محسوس ہوئی ۔ اُنہیں حیرت ہوئی اور وہ رک کر دیکھنے لگے تو وہ برفانی تودے پہاڑ کی اوٹ سے نکل کر سامنے آگئے وہ کچھ چلنے اور کچھ اُڑنے کے انداز میں حرکت کر رہے تھے ۔ اُنہیں مزید حیرت اس وقت ہوئی جب ان برفانی تودوں نے اپنے ہاتھ اوپر اُٹھا کر ہلانے شروع کیے ، اُنہوں نے ہاتھوں میں کچھ پکڑا ہوا تھا جو صاف نظرنہیں آرہا تھا ۔

          ’’ دوربین نکال کر دیکھو ، ‘‘ کمانڈر نے اپنے ایک ساتھی کو آڈرکیا ۔

                   ایک نہایت طاقتور دوربین نکال کر دیکھا گیا تو اندازہ ہوا کہ اُنہوں نے ہاتھوں میں تختیاں پکڑی ہوئی ہیں جن پر کچھ لکھا ہے ۔ وہ تحریری تو نہ پڑھی جاسکی البتہ اُنہیں یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ مخلوق خطرناک نہیں ہے ، نہ ان کے پاس کوئی ہتھیار ہے ، لہٰذا صورتِ حال کا اندازہ کرنے کے لیے خلائی جہاز کو نیچے اُتار لیا گیا لیکن پھر بھی بغیر کسی تعارف کے کمانڈر جہاز سے باہر نکلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ اسی طرح وہ مخلوق بھی جہاز کے نزدیک آنے سے ڈر رہی تھی ۔ کمانڈر نے جہاز کی  سبز روشنیاں آن کردیں جس سے اس مخلوق کو اندازہ ہوگیا کہ اُدھر بھی کوئی خطرہ نہیں بلکہ وہ بھی دوست ہیں ۔ اُن کا ڈر کچھ کم ہوا تو جہاز کے قریب آگئے ۔ چلنے سے جب اُن برفانی تودوں پر سے برف جھڑی تو وہ کچھ کچھ انسانوں جیسی مخلوق محسوس ہوئی۔

          اُنہوں نے اپنے نہتے ہونے کا ثبوت تو پہلے ہی دے دیا تھا پھر اُنہوں نے اشارے سے کہا کہ ہمیں جہاز کے اندر آنے دو ، شاید اس لیے کہ باہر بہت شدید طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں اور وہ کچھ بھی بتانے سے قاصر تھے ۔ مگر کچھ بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کمانڈر نے مناسب سمجھا کہ خلائی اسٹیشن رابطہ کرکے اُنہیں سب کچھ بتا دیا جائے ۔ لہٰذا اُس نے اُنہیں تمام صورتِ حال سے آگاہ کردیا ۔ وہاں سے جواب آیا کہ  اگر وہ لوگ صرف دو ہیں اور خالی ہاتھ ہیں تو اُنہیں اندر بلا لیا جائے مگر پھر بھی ہوشیار رہا جائے ۔

          اُنہیں جہاز کے اندر بلا تو لیا مگر وہ پھر بھی اُس اجنبی مخلوق سے خوفزدہ تھے ۔ وہ اجنبی جہاز کے اندر داخل ہوگئے۔ اندر کا درجہء حرارت نارمل ہونے کی وجہ سے ان کے اوپر سے برف پگھلنے لگی تو ان کے لباس نظر آنے لگے، اور جب اُنہوں نے اپنے چہروں پر سے ہیلمٹ اُتارا تو وہاں پر موجود لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔

          اُنہوں نے خلائی اسٹیشن پیغام بھیجا کہ ہم ان مریخی مہمانوں کو لے کر زمین پر آرہے ہیں ۔ اُدھر سے اشارہ ملتے ہی اُنہوں نے جہاز اسٹارٹ کردیا ۔

          ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹی ۔ وی اور ریڈیو کے ذریعے تمام دنیا میں خبر پھیل چکی تھی کہ مریخ کی مخلوق زمین والوں کو شرفِ میزبانی بخشنے والی ہے ۔ لوگوں کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔

          چند گھنٹوں بعد ہی وہ سب زمین پرتھے ۔ ان مریخی مہمانوں کے استقبال کے لیے بہت لوگ خلائی اسٹیشن پر موجود تھے ۔ سب سے آگے کیمرہ مین اور رپورٹر تھے ۔ بہت سے سیکیورٹی اور پولیس کے لوگ بھی خفیہ لباس میں موجود تھے کیونکہ یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں ان مریخیوں نے ہمارے لوگوں کو یرغمال نہ بنا رکھا ہو ، ان سے کچھ بعید نہ تھا ، آخر کو مریخ ایک جنگجو سیارہ ہے ۔

          بالآخر لوگوں کا انتظار ختم ہوا اور وہ سب لوگ خلائی جہاز سے باہر آگئے ۔ وہاں موجود سب لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ تو بالکل انسانوں جیسی مخلوق ہے اور بالکل ہمارے جیسے خلائی سوٹ بھی پہن رکھے تھے اور جب انہوں نے نزدیک پہنچ کر اپنے چہروں سے ہیلمٹ اتارے تو لوگ حیرت کے ساتھ شرمندگی بھی محسوس کر رہے تھے ۔

ہیں !  ………… یہ کیا ؟ یہ تو اپنے ہی آدمی نکلے ۔ اپنے دو خلاباز جن کا جہاز دو ماہ پہلے تباہ ہوگیا تھا ، یا شایدرابطہ منقطع ہوجانے کے باعث ایسا سمجھ لیا گیا تھا ۔ اسی لیے کوئی ان کی تلاش میں نہ گیا ۔

          بہرحال اب جہاں مریخیوں کے نہ آنے کا دکھ تھا وہاں اپنے لوگوں کے زندہ سلامت بچ آنے کی خوشی بھی تھی ۔ خاص طور پر ان کے عزیز و اقارب بے حد خوش تھے ۔ جواب تک ان کو صبر بھی کرچکے تھے ۔

          پھر اُنہوں نے اپنے مریخ پر گزارے ہوئے دو ماہ کی روداد سنائی اور بتایا   ’’ جب ہمارا خلائی جہاز مریخ پر پہنچا تو قطب شمالی پر سخت برفانی طوفان کاسامنا کرناپڑا ، اور ہمارے جہاز کا کمیپوٹر سسٹم خراب ہوگیا ، اس کو بار بار ری بوٹ (Reboot) کرنا پڑتا ۔ پھر کمپیوٹر کی فلیش میموری اور اسے کنٹرول کرنے والے سوفٹ ویئر میں گڑبڑ ہوگئی جس کی وجہ سے ہمارا رابطہ بالکل ٹوٹ گیا اور سسٹم میں خرابی کے باعث ہم جہاز کو بھی دوبارہ اسٹارٹ نہ کرسکے ، جہاز کچھ ہی دنوں میں برفانی پہاڑی کی صورت اختیار کرگیا ۔ ہمیں لگا کہ اب تو ہمیں یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے ، اسی لیے ہم اپنے خوراک اور پانی کو بہت کم مقدار میں استعمال کرتے حتیٰ کہ کئی کئی دن بھوکے بھی رہتے ۔ ہم اپنے جہاز کو چھوڑ کر کہیں اور جاتے تو ٹھنڈ سے ہی مرجاتے ، اور اتنے دن بھی ہمارے اس خلائی لباس نے ہمیں ٹھنڈ سے محفوظ رکھا ۔ آخر اب دو ماہ بعد جب ہماری خوراک بالکل ختم ہوگئی اور ہمیں موت نظر آنے لگی تو ہم نے کمپیوٹر سسٹم ٹھیک کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دی اور آخرکار ہم اپنی دنیا سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔ جہاز تو کھڑے کھڑے برف کاپہاڑ بن گیا تھا ، اس کو تو اسٹارٹ کرنے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے بس ہم دروازے کے آگے سے برف ہٹاتے رہتے تھے تاکہ باہر جانے اور آنے کا راستہ کھلا رہے۔ پھر جب یہ لوگ آئے تو ہمیں ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ ہمیں کوئی اور مخلوق سمجھ کر شوٹ نہ کردیں ، لیکن شکر ہے کہ ہماری دعائیں کام آگئیں اور ہمیں اپنی دنیا میں واپس آنا نصیب ہوا ۔ ‘‘

          ’’ کیا آپ مریخیوں کی جانب سے کوئی پیغام دینا پسند کریں گے ؟ ‘‘  ایک صحافی نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔

          ’’ جی ہاں ، ہم یہی کہنا چاہیںگے کہ اس دنیاکے سائنسدانوں کو چاہیے کہ بلا وجہ دوسری دنیائوں کی خاک نہ چھانیں، اور نہ وہاں گندگی کے ڈھیرپھیلاکر وہاں کی آب و ہوا خراب کریں ۔ اپنی دنیا کو تو انہوں نے اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا ، لیکن خدارا ہمیں بخش دیں ۔ ‘‘ ایک خلاباز سنجیدگی سے بولا تو سب لوگوں کے چہروں پر شرمندہ سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.