Posy Aur Electra – پوزی اور الیکٹرا

Science-fiction

پوزی اور الیکٹرا

( ایسے بچوں کی کہانی جو ماضی میں جاکر اپنی دادی سے ملتے ہیں اور ان کی سوچ بدل جاتی ہے )

                امریکہ ،  2030  :   رات کے دس بج چکے تھے ۔ پوزی اور الیکٹرا سونے کی کوشش کر رہے تھے ۔ دونوں کی عمر تقریباً بارہ برس تھی ، وہ جڑواں بہن بھائی تھے ۔

                ان کے والدین بہت نامی گرامی سائنسدان تھے جنہوں نے سائنس کی دنیا میں بہت سے نمایاں کام انجام دیے، جس کے لیے ان کو حکومت کی طرف سے بہت سے اعزازات سے بھی نوازاگیا ہے ۔

                آج بھی وہ ایسی ہی ایک تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے ۔ ان کا ملازم ’ روبو ‘ پوزی اور الیکٹرا کو دودھ پلا کر بستروں پر لٹا کر جا چکا تھا ۔ الیکٹرا تو تقریباً سو چکی تھی لیکن پوزی ابھی جاگ رہا تھا ۔ وہ کھڑکی سے نظر آنے والے چاند کو دیکھ رہا تھا ۔ آج چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ، اور پوزی کو ایسے چاند میں بڑی کشش محسوس ہوتی تھی ، شاید وہ ہی اس کے مستقبل کی پناہ گاہ تھی ۔ چاند کو دیکھتے دیکھتے اس کی بھی آنکھ لگ گئی ۔

                تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ اچانک دھماکے سے پوزی کی آنکھ کھل گئی کیونکہ اس کا بستر کھڑکی کے قریب ہی تھا۔ اس نے دیکھا کہ چاند ان کے گھر کے بالکل اوپر آگیا ہے اور اس کارنگ بدل کر سرخ ہوگیا ہے ، اس میںسے آتش بازی سی پھوٹ رہی جس کے دھماکوں سے پوزی کی آنکھ کھلی تھی ۔

                چاند کی سرخی آہستہ آہستہ ان کے ان پر پھیل رہی تھی ۔ پوزی نے الیکٹرا کو اُٹھایا ، یہ منظر دیکھ کر الیکٹرا کی بھی نیند ہوا ہوگئی ۔ اتنے میں ان کا ملازم روبو کمرے میں داخل ہوا اور بولا  !

’’ بچولگتا ہے ، مریخ نے ہم پر حملہ کردیا ہے ۔ میں نے باس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اُدھر سے بھی کوئی جواب نہیں آرہا ہے لہٰذا ہمیں خود ہی کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا ۔ ‘‘

                پوزی کو یاد آیا کہ ان کے والد ’ پروفیسر گاٹ ‘ نے اُنہیں ایک ایک رسٹ کومپو دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ اگر کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے ، جس کا کہ پورا امکان تھا ، تو انہیں استعمال کرنا ۔ کیونکہ دنیا تباہی دے دہانے پر کھڑی تھی ، مریخ کی جانب سے بھی حملے کا خطرہ تھا ۔ پوزی اور الیکٹرا سمجھ گئے کہ ان کے والدین نے شاید اُنہیں اسی حادثے کے لیے تیار رہنے کو کہا تھا ۔ چھوٹے موٹے حادثے تو ہوتے رہتے تھے لیکن آج تو ان کا اپنا گھر تباہ ہونے جا رہا تھا جوکہ انتہائی محفوظ جگہ پر تھا اور اس کی بہت حفاظت کی جاتی تھی ۔

                وہ سمجھ گئے کہ جب خطرہ ان کے گھر تک آپہنچا ہے تو باقی دنیا کا کیا حال ہوا ہوگا اور اب وہ انتہائی قدم اٹھانے کا وقت آگیا ہے ۔ اپنے والدین کی زندگیوں سے بھی وہ مایوس ہوچکے تھے ۔ دونوں نے جلدی سے اپنے رسٹ کومپو نکال کر کلائی پر باندھ لیے اور اپنی لیب کی طرف دوڑے ۔

                روبو ان کے ساتھ تھا ۔ وہ جلدی سے کمپیوٹر کی طرف بڑھے جس کے ذریعے پہلے بھی کئی بار سفر کرچکے تھے ، لیکن روبو نے اُنہیں روک لیا کیونکہ اب تک تو اس پر بھی وائرس کا حملہ ہوچکا ہوگا ۔ سارے گھر میں بھگدڑ سی مچی ہوئی تھی ۔ شاید وہ لوگ انہیں ہی تلاش کر رہے تھے ، لیکن یہ لیب گھر کے تہہ خانے میں بہت محفوظ جگہ پر تھی ، پھر بھی روبو کو ڈر تھا کہ کسی بھی وقت یہ لیب دھماکے سے اُڑ سکتی ہے کیونکہ اس میں بہت حساس آلات نصب تھے ۔

                روبو کو اپنی پروا نہ تھی ، اس کی زندگی کا مقصد صرف بچوں کی حفاظت کرنا تھا کیونکہ وہ ایک روبوٹ تھا اور اس جیسے بہت سے روبوٹ اسٹور روم میں موجود تھے ۔

                روبو نے ان دونوں کو کالٹیک مشین (Caltech Machine)  پر کھڑا کیا اور بولا کہ ایک ساتھ اپنی رسٹ کومپو آن کرلو ۔ رسٹ کومپو کا آن کرنا تھا کہ وہ دونوں ایک ایٹم سے بھی چھوٹے ذرے میں تبدیل ہوگئے ، کالٹیک مشین سے شعاعیں نکلیں اور غائب ہوگئے ۔ روبو کو تسلی ہوگئی کہ وہ کسی محفوظ مقام پر پہنچ گئے ہوں گے۔ بچے ایک مائکرو سیکنڈ میں ہی ’کوزمک اسٹرنگ ‘ کے ذریعے ’ بلیک ہول ‘ کے دوسرے سرے پر پہنچ چکے تھے ، جو اُنہیں ماضی کی طرف لے گیا تھا ۔

                بچوں پر غنودگی سی طاری تھی ، ان کا جسم ان کے دماغ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا ، لیکن جلد ہی اُنہوں نے اپنے حواسوں پر قابو پالیا ۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو ایک انتہائی پر سکون جگہ پر پایا  پہلے تو وہ سمجھے کہ شاید وہ چاند کی سرزمین پر پہنچ گئے ہیں لیکن جب اُنہوں نے اپنے ارد گرد انسانوں کو گھومتے پھرتے دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ دنیا ہی ہے جو شاید تباہی سے بچ گئی ہوگی ۔ پھر اُنہیں خیال آیا کہ بلیک ہول کے ذریعے تو وہ صرف ماضی میں ہی سفر کرسکتے ہیں ، اگر یہ ماضی ہے تو پھر یہ کونسا سنہ ہے ۔ پوزی نے اپنے رسٹ کومپو پر نظر ڈالی تو پتا چلا کہ یہ سنہ 1980 ء ہے ، یعنی وہ پچاس سال پیچھے پہنچ گئے تھے ۔ وہ ایک مائکروسکنڈ سے زیادہ نوری حالت میں نہیں رہ سکتے تھے لہٰذا اب وہ انسانی شکل میں آچکے تھے ۔ آتے جاتے ہوئے لوگ اُنہیں دیکھ ضرور رہے تھے لیکن یہ سوچ کر نظر انداز کر رہے تھے کہ شاید شہر سے کسی کے مہمان آئے ہیں ۔

                یہ غالباً کوئی قصبہ یا گائوں تھا ۔ پوزی اور الیکٹرا سامنے بنے ہوئے مکانوں کی قطار کی طرف بڑھ گئے اور مکانوں پر لگی ناموں کی تختیاں پڑھنے لگے ، اچانک اُنہیں ایک مانوس سا نام نظر آیا ، لکھا تھا ’’ کین نیلسن ، ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ اسکول ‘‘ ، پوزی رک گیا اور قریب آکر بولا ، ’’ یہ نام تو کچھ جانا پہچانا سا لگتا ہے ‘‘ ، الیکٹرا نے ذہن پر زور ڈالا تو اسے یاد آگیا وہ بولی !  ’’ ارے یہ تو ہمارے دادا جان کا نام بھی ہے نا  ! ‘‘

                نہ جانے کیوں ان کا دل چاہا کہ اپنے دادا کے اس ہم نام سے ملا جائے ۔ اُنہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو تیس بتیس سال کی ایک خوبصورت سی خاتون نے دروازہ کھولا ، بچوں کو دیکھ کر مسکرائیں ، پھر حیرت سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں لیکن جلد ہی وہ اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے بولیں !  ’’ آپ کو کس سے ملنا ہے !  ‘‘ پھر وہ خود ہی بولیں ، ’’ یقیناً آپ کو گاٹ سے ملنا ہوگا  ! ‘‘

                گاٹ کا نام سن کر بچے بھی چونک پڑے پھر جلدی سے اثبات میں سر ہلا دیا ۔وہ خاتون بچوں کو اندر لے گئیں اور اونچی آواز سے بولیں ، ’’ بیٹا گاٹ ، دیکھو یہ پیارے سے بچے تم سے ملنے آئے ہیں ۔ ‘‘

                گاٹ اپنے کمرے سے باہر نکلا تو بچوں کو خاتون کی حیرت کی وجہ سمجھ میں آگئی جو بچوں کو پہلی بار دیکھ کر ان کے چہرے پر آگئی تھی ۔ گاٹ ایک دس سالہ لڑکا تھا جس کی شکل ہو بہو پوزی اور الیکٹرا سے ملتی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ دراصل اپنے دادا جان کے گھر پہنچ گئے تھے اور یہ لڑکا ہی ان کا والد ، مستقبل کا پروفیسر گاٹ ہے ۔

                گاٹ ذرا بددماغ اور انتہائی پسند لڑکا تھا ، وہ ناگوری سے بولا !  ’’ کون ہیں آپ لوگ اور مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں ‘‘ ؟

وہ دونوں اس سوال پر بوکھلا گئے ، پھر پوزی اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے ان خاتون سے مخاطب ہوکر بولا ، !  ’’ محترم خاتون، دراصل ہم لوگ اپنی کار پر اس قصبے سے گزر رہے تھے کہ ہماری کار خراب ہوگئی ، ڈرائیور ہمیں یہاں چھوڑ کر کسی مکینک کی تلاش میں چلا گیا اور ہم نے جب آپ کے گھر کے باہر نام کی تختی پڑھی تو ہم ہیڈماسٹر صاحب سے ملنے چلے آئے۔ آپ نے برا تو نہیں منایا ؟ ‘‘

                خاتون ایک دم اداس ہوتے ہوئے بولیں !  ’’ مجھے افسوس ہے کہ آپ ہیڈماسٹر صاحب سے نہیں مل سکتے کیونکہ ان کا تو پچھلے سال انتقال ہوگیا تھا ، اب یہاں میں اور میرا بیٹا رہتے ہیں ، اور وہ اسکول بھی اب میں ہی چلا رہی ہوں کیونکہ اس قصبے میں اور کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں ہے ۔ آپ لوگوں کے یہاں آنے کا میں نے بالکل برا نہیں منایا ، بلکہ مجھے خوشی ہے کہ آپ کے دل میں اُستاد کی اتنی عزت ہے کہ آپ نام پڑھ کر ان سے ملنے چلے آئے ۔ جب تک آپ کا ڈرائیور نہیں آتا ، تم لوگ یہاں اطمینان سے رہو اور اس کو اپنا ہی گھر سمجھو ۔ ‘‘

بچوں کو اس بات کا بہت دکھ ہوا کہ وہ اپنے دادا جان سے نہیں ملے سکے ۔ اسی اثناء میں گاٹ اپنے کمرے میں واپس جا چکا تھا۔

                ’’ معاف کرنا بچو ، میرا بیٹا اجنبی لوگوں سے نہیں ملتا ۔ اس کی وجہ شاید اس کا اکیلا پن ہے کیونکہ میں بھی سارا دن اپنے کاموں میں مصروف رہتی ہوں ۔ ویسے یہ ہے بہت ذہین ، بہت پڑھاکو ہے ، سائنس سے بہت دلچسپی ہے ۔ کہتا ہے بڑا ہو کر سائنس دان بنوں گا ۔ ‘‘

’’ جی ہاں ، ہمیں معلوم ہے ۔ ‘‘ اچانک پوزی کے منہ سے نکلا ، پھر وہ اپنی بات سنبھالتے ہوئے بولا ، ’’ میرا مطلب ہے کہ ان کی مصروفیت سے ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ بڑے ہوکر ضرور کوئی بڑا کام کریں گے ۔ ‘‘

                ’’ بچو ، تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو ۔ تھوڑی دیر آرام کرلو ، میں اتنے میں کھانا بناتی ہوں ۔ ہوسکتا ہے اتنی دیر میں آپ کا ڈرائیور بھی آجائے ۔ ‘‘

’’ نہیں محترم خاتون ، ‘‘ الیکٹرا بولی ، ’’ ہم تو آپ سے بہت سی باتیں کرنا چاہتے ہیں ، ویسے بھی ہمیں زیادہ سونے کی عادت نہیں ہے ، ہمارے پاس جتنا بھی وقت ہے وہ ہم آپ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں ۔ ہم نے آپ جیسی محبت کرنے والی خاتون آج تک نہیں دیکھی ، پھر پتا نہیں آپ سے ملاقات ہو یا نہ ہو ۔ ‘‘

                مسز نیلسن بچوں کی اس محبت پر مسکرائیں اور کچن میں جاکر کام کرنے لگیں ۔ بچے باہر بیٹھ کر ان کو دیکھتے اور باتیں کرتے رہے ۔ اتنے میں ایک نو دس سال کی پیاری سی بچی گھر میں داخل ہوئی اور سیدھی کچن میں چلی گئی ۔ مسز نیلسن نے اس لڑکی کا تعارف کرایا !

’’ بچو ، اس سے ملو ، یہ پنکی ہے ۔ ہمارے پڑوس میں رہتی ہے اور گاٹ کی بہت اچھی دوست ہے ۔ جب یہ فارغ ہوتی ہے تو کام میں میرا ہاتھ بٹاتی ہے ۔ ‘‘ اور بچے سوچ رہے تھے کہ کیا گاٹ جیسے بددماغ لڑکے کی بھی کوئی دوست ہوسکتی ہے ؟

                پنکی کافی شرمیلی سی لڑکی تھی وہ مسز نیلسن کے ساتھ کام کراتی رہی پھر اپنے گھر چلی گئی ۔ پوزی اور الیکٹرا اس کو دیکھ کر یہ سوچ رہے تھے کہ کاش ہمارے ڈیڈ مسٹر گاٹ پنکی سے ہی شادی کرتے اور اسی قصبے میں رہتے تو آج ہماری زندگی کتنی مختلف اور پرسکون ہوتی اور ہم یہاں اپنی دادی جان کے ساتھ رہ رہے ہوتے ۔

                کھانے کی میز پر گاٹ بھی آگیا تھا لیکن وہ بہت کم بول رہا تھا ، اور ان دونوں کو متجسس اور تنقیدی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ وہ کھانا کھا کر پھر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ کھانے کے بعد مسز نیلسن ان دونوں اور پنکی کو ساتھ لے کر سیر کرنے گئیں ۔ ان کو اپنا قصبہ دکھایا ، اپنا اسکول دکھایا ۔وہ سب کچھ بہت خوشی اور حیرانی سے دیکھ رہے تھے ۔ اس طرح کھلی اور آزاد فضا میں گھومنے کا اُنہیں پہلی بار موقع ملا تھا ۔ وہ رہٹ چلتا دیکھتے اور سوچتے رہے ٹھنڈے پانی میں پیر ڈال کر ۔

                پوزی اور الیکٹرا کو شام کی چائے پر بھی دیکھ کر گاٹ بولا !  ’’ لگتا ہے ان کا ڈرائیور ان کو یہیں بھول کر چلا گیا ہے !‘‘ وہ دونوں شرمندہ ہوگئے ، پھر پوزی بولا !  ’’لگتا ہے آپ ہر وقت پڑھتے ہی رہتے ہیں ۔ وہ تھوڑی دیر ہمارے پاس بیٹھ جائیں نا ۔ ‘‘

گاٹ کو اس بات پر غصہ آگیا وہ بولا  ! ’’ اور لگتا ہے تم لوگوں کو پڑھنے کا بالکل شوق نہیں ہے ، اپنا وقت یونہی ضائع کرتے رہتے ہو ۔ تمہیں کیا پتہ سائنس پڑھنا کتنا مشکل کام ہے ۔ ‘‘

                ’’ ایسی بات نہیں ہے ، ہم بھی بہت لائق ہیں اور جتنی سائنس ہم نے پڑھ رکھی ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔‘‘ پوزی بولا تو گاٹ یہ تنقید برداشت نہ کرسکا اور پیر پٹختا ہوا واپس اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ اچانک پوزی کو احساس ہوا کہ یہ اس نے کیا کہہ دیا ۔ اب گاٹ میں شہر جاکر پڑھنے کی لگن پیدا ہوگی ۔ اب اس کو ماں کی محبت بھی نہ روک سکے گی اور اس کی پیاری ماں اس کے غم میں رو رو کر مر جائے گی اور یہ بے حس شخص پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے گا ۔ لیکن اس کو روکنا پوزی کے بس میں نہ تھا کیونکہ یہ کام تو ماضی میں ہوچکا تھا ۔

پوزی کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر مسز نیلسن بولیں ، ’’ بیٹا تم گاٹ کی وجہ سے پریشان نہ ہو ۔ یہ تو اس کی عادت ہے ، آپ لوگ مجھ سے باتیں کرو ، اور جب تک آپ کا ڈرائیور نہ آجائے تم بے فکر ہوکر یہاں رہو ۔ تمہاری وجہ سے میرا وقت بھی اچھا گزرے گا ۔ ‘‘

پوزی اور الیکٹرا نے ان کی اس مہربانی کا شکریہ ادا کیا ، کیونکہ اس طرح اُنہیں ھی ایک ٹھکانا مل گیا تھا ورنہ معلوم نہیں وہ کہاں بھٹک رہے ہوتے ۔

                وہ تینوں ابھی باتیں کرہی رہے تھے کہ پوزی اور الیکٹرا کے رسٹ کومپو کی سرخ لائٹ آن ہوگئی ، یعنی کہ ان کو اپنے گھر سے کوئی پیغام آرہا تھا وہ دونوں خوشی اور حیرت سے اُچھل پڑے ۔ اُنہوں نے رسٹ کومپو پر آنے ولا پیغام پڑھ لیا تھا ۔

                ’’ بچو ، یہ کیا ہے ؟ ‘‘ مسز نیلسن حیرت سے بولیں تو اُنہوں نے جلدی سے اپنے رسٹ کومپو پیچھے کرلیے اور بولے ، ’’ کچھ نہیں ، کچھ بھی نہیں !   یہ تو گھڑی ہسے اس پر ہمارے ڈرائیور کا پیغام آیا تھا کہ وہ ایک گھنٹے تک پہنچ جائے گا۔‘‘ بچے اپنی بوکھلاہٹ کو چھپا نہ سکے ۔

’’ لیکن یہ کیسی گھڑی ہے ؟ ‘‘ مسز نیلسن مشکوک ہوتے ہوئے بولیں ، ’’ جس پر پیغام بھی آتا ہے !   لگتا ہے تم لوگ مجھے سے کچھ چھپا رہے ہو ؟ ‘‘ بچوں کا دل چاہا کہ وہ اپنی دادی جان کو سب کچھ بتا دیں ، پھر تو کبھی ان سے ملاقات نہ ہوگی ۔

’’ محترم خاتون ، ہم آپ کو کچھ بتانا چاہتے ہیں ، اگر آپ یقین کرلیں تو ۔ ‘‘ پوزی بولا ۔

’’ میں ضرور یقین کروں گی اگر تم سچ بولو گے ۔ ‘‘ مسز نیلسن بولیں ۔ ’’ ویسے بھی میں نے محسوس کیا ہے کہ تم بہت غیر معمولی قسم کے بچے ہو ۔ ‘‘

                بچوں نے اُنہیں سب کچھ بتا دیا ۔ مسز نیلسن کو یقین تو نہیں آرہا تھا مگر بچوں کی گاٹ سے غیر معمولی مشابہت اور خود ان کو جو بچوں سے اُنسیت محسوس ہوئی تھی ، اس سے اُنہیں یقین کرنا ہی پڑا ۔

’’ کیا ہم آپ کو دادی جان کہہ سکتے ہیں ؟ ‘‘ دونوں بچے بیک وقت بولے تو مسز نیلسن نے اُٹھ کر اُنہیں گلے لگا لیا ۔ مسز نیلسن کو لگا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہیں ، اُنہیں اب بھی یقین آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ۔

’’ کیا میں تمہارے والدین سے مل سکتی ہوں ؟ ‘‘ مسز نیلسن بولیں ۔

’’ نہیں دادی جان آپ سے ہمارا ملنا تو محض اتفاق ہے ، ‘‘ پوزی بولا ، ’’ ویسے بھی مسز گاٹ تو آپ کے پاس ہی ہیں ۔ اب سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے ۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت E =mc2  کو عملی جامہ پہنایا جاچکا ہے اور ہمارے ڈیڈ یعنی مسٹر گاٹ نے ’ کالٹیک مشین ‘ بھی ایجاد کرلی ہے ، جس پر آج ہم نے پہلی بار سفر کیا تھا اور آپ تک پہنچ گئے ۔ لیکن ہمارے ممی ڈیڈی عام انسان ہیں ۔ اس لیے وہ اس مشین پر سفر نہیں کرسکتے ۔ کوئی بھی عام چیز ’ بلیک ہول ‘ کا دبائو برداشت نہیں کرسکتی ، کیونکہ اس کا دبائو ہر چیز کو کچل کر ختم کردیتا ہے ۔ ہم تو بہت خاص قسم کے انسان ہیں ، یہ سمجھ لیں کہ ہم تو آرڈر پر تیار ہوئے ہیں ۔ ہمارے والدین نے ہمیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا ہے ، ہمارے اندر جنیٹک کو ڈنگ کے ذریعے تبدیلیاں لائی گئی ہیں ، ہم بہت طاقت ور اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ ہیں ۔ ہم پر الیکٹران اور پوزیٹران کے تجربات بھی آزمائے گئے ہیں۔ اسی حساب سے ہمارے نام بھی رکھے گئے ہیں ۔ ہماری کمیونٹی کے سب سائنس دان اپنے بچوں پر وہ تمام تجربات آزما رہے ہیں جو پہلے چوہوں اور بھیڑ بکریوں پر آزمائے جاتے تھے ۔ جس میں سب سے زیادہ کامیابی ہمارے والدین کو ہی ملی ہے ۔ وہ ہمیں یونیورسل سولجر بنانا چاہتے ہیں تاکہ ہم دوسرے سیاروں کی مخلوق سے بھی مقابلہ کرسکیں۔ ‘‘

’’ یہ ساری باتیں تمہارے والدین نے تمہیں بتائی ہیں ؟ ‘‘ مسز نیلسن نے پوچھا جو اب تک غیر یقینی کے عالم میں ان کی ساری گفتگو سن رہی تھیں ۔ ‘‘

’’ نہیں ، ‘‘ الیکٹرا بولی ، ’’ اُنہیں ہم سے بات کرنے کی فرصت ہی کہاں ہے ۔ یہ تفصیلات تو ہم نے اپنی فائلوں میں پڑھی تھیں ، وہیں سے ہمیں دادا جان کا نام بھی معلوم ہوا تھا ، جسے باہر نام کی تختی پر پڑھ کر ہمیں ان سے ملنے کا شوق ہوا ۔ ‘‘

’’ ممی ڈیڈی نے کبھی ہمیں آپ لوگوں کے بارے میں نہیں بتایا ۔ نہ ہی آپ کی طرح پیار دیا ، ‘‘ پوزی بولا ، ’’ ان کا خیال ہے کہ بچے پیار کرنے سے جذباتی ہوجاتے ہیں ، اور وہ ہمیں بہت مضبوط اور ہر قسم کے جذبات سے عاری دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ ہمیں کوئی روبوٹ سمجھتے ہیں جن پر وہ اپنے تجربات آزماتے رہیں ۔ حالانکہ خدا نے تو ہمیں انسان بنایا ہے ۔ ہمارا بھی دل ہے ۔ پیار کا احساس ہمیں آپ کو دیکھ کر ہوا ہے ‘‘

’’ کاش ! ہماری ممی سائنسدان نہ ہوتیں ، بلکہ آپ کی طرح ہوتیں ۔ ‘‘ الیکٹرا دکھ سے بولی ۔

’’ ہمیں کبھی اپنی کمیونٹی سے باہر نہیں جانے دیا گیا ۔ ہماری پرورش روبو نے کی ۔ اور ایجوکیشن پلانیٹ کے ذریعے ہم نے تعلیم حاصل کی ۔ ‘‘

’’ یہ روبو کون ہے ؟ ‘‘ مسز نیلسن نے پوچھا ۔

’’ یہ ہمارا نوکر ہے ، ایک روبو ہے ۔ یہ اور اس جیسے بہت سے روبوٹ ہمارے ڈیڈ نے کلوننگ کے ذریعے بنائے ہیں جو بظاہر انسان لگتے ہیں لیکن ان کے دماغ مشینی ہیں ۔ ‘‘ پوزی نے وضاحت کی تو مسز نیلسن نے گھبرا کر جلدی سے اپنے سینے پر صلیب بنائی ، کیونکہ اس دور میں تو یہی سچ تھا کہ انسان بنانا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے ، اُنہیں کیا کعلوم تھا کہ ان کا بیٹا ہی قدرت کے کاموں میں دخل اندازی شروع کردے گا ۔ اُنہیں بہت افسوس ہو رہا تھا ۔

’’ ہمارے دماغ بھی ہمارے جسموں کی طرح طاقت ور ہیں ، ‘‘ پوزی نے مزید وضاحت کی ، ’’ ہم اپنے ممی ڈیڈی سے سو گنا آگے کی بات بھی سوچ لیتے ہیں ، مگر وہ پھر بھی ہمیں بچہ ہی سمجھتے ہیں ۔ ہم سے کسی مسئلے پر بھی بات نہیں کرتے حالانکہ ہم ان کو زیادہ بہتر مشورہ دے سکتے ہیں ۔ ہم کئی بار مریخ اور چاند پر بھی جا چکے ہیں ۔ کچھ عرصے بعد وہاں ہماری باقاعدہ فوجی ٹریننگ شروع ہوجائے گی ۔ ‘‘ دونوں بچوں نے عام روائتی بچوں کی طرح دادی جان کو دیکھ کر اپنے ممی ڈیڈی کی شکایتیں شروع کردی تھیں ۔

’’ کیا تمہاری دنیا کے تمام بچے تمہاری طرح کے ہیں ؟ ‘‘ مسز نیلسن نے تجسس سے پوچھا ۔ بچوں کی ہر بات ان کی حیرت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔

’’ نہیں ، ‘‘ الیکٹرا بولی ، ’’ صرف ہماری کمیونٹی کے بچے ہی ایسے ہیں ۔ وہاں صرف اہم سائنسدان ہی رہتے ہیں جو جنیٹکس اور ہائی انرجی فزکس پر تحقیقات کر رہے ہیں اور نئی نئی ایجادات کر رہے ہیں ۔ ہمارے جیسے چند بچوں کو خاص طور پر تیار کیا گیا ہے ۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو ہمارے جیسے اور بچے تیار کیے جائیں گے ۔ ‘‘

’’ یہ بات ہمیں بھی ابھی معلوم ہوئی ہے کہ ہم سب سے زیادہ اہم بچے ہیں ‘‘ پوزی بولا ، ’’ جب ہمیں ہماری رسٹ کامپو پر ڈیڈ کا پیغام موصول ہوا تھا ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہم جس حملے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھے اور یہاں آگئے تھے وہ دراصل اسرائیل نے ہمیں اغوا کرنے کے لیے کرایا تھا کیونکہ وہ ہم جیسے بچے تیار کرنے میں ناکام رہے تھے ۔ ڈیڈ ہمارے اس اقدام سے بہت خوش تھے کہ ہم ان کے ہاتھ نہیں لگے ۔ ہماری لیب کو کافی نقصان پہنچا ۔ اُنہوں نے روبو کو بھی مار دیا جس کا ہمیں بہت افسوس ہے ، کیونکہ وہی تو ایک ہمارا دوست تھا ۔ اب وہاں پر سب کچھ ٹھیک ہے اور اب ہمیں واپس جانا ہوگا ۔ ‘‘

’’ اور اگر میں تمہیں نہ جانے دوں تو ! ‘‘ مسز نیلسن جذباتی ہوتے ہوئے بولیں ۔

’’ دل تو ہمارا بھی یہی چاہتا ہے دادی جان کہ ہم یہیں آپ کے پاس رہ جائیں ، ‘‘ الیکٹرانی جذباتی ہو کر بولی ، ’’ ہم ماضی میں آ تو سکتے ہیں مگر اس میں رہ نہیں سکتے نہ ہی اس کو بدل سکتے ، ہم تاریخ بدلنے پر قادر نہیں ہیں ، ہم تو اپنا حال بھی نہیں بدل سکتے۔ ہم محض ایک کھلونا ہمیں جن کو ہمارے ممی ڈیڈی اپنے بچائو اور بقا کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ موت اور زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ کسی دن مریخ پر سے کوئی مخلوق آئے گی اور اچانک دنیا پر حملہ کردے گی ، دنیا تباہ ہوجائے گی تو ہم کسی اور سیارے پر جا بسیں گے ۔ حالانکہ دنیا پر تباہی ہمیشہ ان کی اپنی غلطیوں اور نا اتفاقیوں سے آتی ہے ۔ تمام سپر پاورز ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں میں لگی ہیں ، ایٹمی ہتھیار اور ہمارے جیسے طاقتور انسان وہ اپنے جیسے انسانوں کو ہی تباہ و برباد کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ بھلا کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ بلا وجہ کسی دوسری دنیا سے آ کر ہم پر حملہ کرے ، یہ دخل در معقولات کی عادت تو صرف انسانوں کو ہی ہے ۔ اور یہ دوسری دنیا کی مخلوق کے حملے کی افواہیں محض سائنسدانوں کے ڈرامے ہیں تاکہ انسان خوامخواہ ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں ۔

’’ اوہ خدایا ، اس دنیا کا کیا بنے گا ، تو اس پر اپنا رحم فرما ، ‘‘ مسز نیلسن پریشان ہو کر بولیں ۔

’’ بنے گا کیا دادی جان ، اب تو بچا ہی کچھ نہیں ۔ ‘‘ پوزی بولا ، ’’ ہمارے امریکہ جیسی سپر پاوراقوام سمجھتی ہیں کہ جب ان کے تجربات کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ دنیا بالکل تباہ ہوجائے گی تو وہ لوگ چاند کی سرزمین پر جابسیں گے ، جس کے لیے وہ انتظامات بھی کر رہے ہیں ۔ ‘‘

’’ کیا تم لوگ بھی چاند پر چلے جائو گے ؟ ‘‘ مسز نیلسن نے خوفزدہ ہوتے ہوئے پوچھا ۔

’’ ہاں ، مجبوری ہے دادی جان ، ‘‘ پوزی بولا ، ’’ اس وقت اپنی جان بچانے کے لیے ہمیں بھی چاند پر جانا پڑے گا ۔ لیکن کوئی آئے یا نہ آئے ہم اپنی اس پیاری دنیا میں واپس ضرور آئیں گے اور اس کو ایک ایسی دنیا بنائیں گے جو بہت پر سکون ہوگی ، بالکل خالص ، ہر طرح کی بناوٹ سے اور سائنسی ایجادات سے پاک دنیا ، جہاں صرف پیار ، محبت اور بھائی چارہ ہوگا ۔ ‘‘

                پوزی اپنی خیالات کی دنیا میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک رسٹ کومپو کی سرخ لائٹ پھر سے جل اُٹھی ، جس پر فوراً واپس آنے کا اآرڈر موصول ہو رہا تھا ۔

’’ اچھا ، دادی جان اب ہمیں جانا ہوگا ، ‘‘ بچے اداسی سے بولے ۔

’’ کیا تم اپنے والدین سے میرا ذکر کرو گے ؟ ‘‘ مسز نیلسن تجسس سے بولیں ۔

’’ نہیں دادی جان ، ‘‘ الیکٹرا دکھ سے بولی ، ’’ اُنہیں آپ کے ذکر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی ، ہمارا بس چلتا تو ہم آپ کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتے ۔ ‘‘ الیکٹرا مسز نیلسن سے لپٹ گئی ۔

                ’’ ہمیں علم نہیں تھا دادی جان ، ‘‘ پوزی بھی جذباتی ہوئے بولا ، ’’ اور آپ سے نہ ملتے تو شاید ساری عمر پتا نہ چلتا کہ انسانی جذبات کیا ہوتے ہیں، انسانیت کیا ہوتی ہے ، ماں باپ کا پیار کیسا ہوتا ہے ، ان چند گھنٹوں میں ہم نے جو کچھ سیکھا ہے وہ ہماری کئی سال کی تربیت پر بھاری ہے ۔ شاید یہ تبدیلی ہمارے ممی ڈیڈی کو ناگوار گزرے مگر ہمارے لیے بہت قیمتی ہے ۔ ‘‘ مسز نیلسن نے بڑھ کر دونوں کو گلے لگا لیا ۔

                اتنے میں رسٹ کومپو کی سرخ لائٹ پھر جل اُٹھی اور وہ دونوں اداسی کے ساتھ اپنی اپنی رسٹ کومپو کا بٹن دباتے ہوئے غائب ہوگئے ۔ اور مسز نیلسن ….. جن پر ابھی تک خواب کی سی کیفیت طاری تھی بار بار اپنی آنکھوں کو مل رہی تھیں ۔

                امریکہ ، 2030 :  پوزی اور الیکٹرا کا لٹیک مشین کے ذریعے ماضی سے اپنے وقت میں واپس آچکے تھے۔اُنہوں نے دیکھا وہاں ان کی کمیونٹی کے بے شمار لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود ہیں اورسب سے آگے اُن کے ممی ڈیڈی ہیں۔

                پوزی اور الیکٹرا تازہ تازہ اپنی دادی جان سے مل کر آرہے تھے جن سے وہ محبت اور خلوص کا نیا سبق سیکھ کر آئے تھے ، ا س لیے ممی ڈیڈی کو سامنے پا کر وہ دونوں دوڑ کر اُن سے لپٹ گئے۔

                ’’ممی ڈیڈی !ہم تو سمجھے تھے کہ آپ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی لیے ہم نے وہ انتہائی قدم اُٹھایا تھا،شکر ہے کہ آپ لوگ بالکل ٹھیک ہیں۔‘‘الیکٹرا بولی۔

                ’’ہاں بیٹا ہم بھی بہت پریشان تھے،شکر ہے کہ آپ لوگ بھی خیریت سے ہو،‘‘ممی الیکٹرا کو خود سے الگ کرتے ہوئے بولیں۔

                باقی سب لوگ یہ جذباتی منظر بڑی حیرت سے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ سب تو اس طرح کے جذبات سے کب کے عاری ہو چکے تھے اور ان کے بچے جن میں نوجوان بھی شامل تھے ، خاص طور پر حیرت زدہ تھے کہ اس طرح بھی ماں باپ کی ساتھ محبت کا اظہار کیا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے نہ تو کبھی اپنے والدین سے اس طرح کی محبت پائی تھی ، نہ انہیں خود کبھی محسوس ہوئی تھی۔لیکن یہ سب کرامت تو پوزی اور الیکٹرا کی دادی جان کی بخشی ہوئی تھی ۔ ورنہ وہ بیچارے تو کل تک خود اس جذبے سے نا آشنا تھے۔

                 ان دونوںکے استقبال کے لیے سب لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں اور انہیں خراجِ تحسین پیش کیا کہ انہوں نے اتنا مشکل بلکہ عام حالات میں نا ممکن سفر کرلیااور خیریت سے واپس بھی آگئے ۔وہ سب لوگ ان کے سفر کا حال جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ اس انوکھے سفر کا تجربہ کیسا رہا ا ور آج اسی لیے پہلی دفعہ وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے تاکہ وہ بھی پوزی اور الیکٹرا جیسے با ہمت بچوں سے کچھ سیکھ سکیں،اور ان کے تجربے سے فائدہ اُٹھائیں۔

                ’’ ڈیڈی کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم ماضی میں کس شخصیت سے مل کر آ رہے ہیں؟‘‘ پوزی نے بڑے سسپنس سے پوچھااور الیکٹرا کے بھی چہرے سے خوشی جھلکنے لگی۔

                ’’ ہوں۔۔۔۔ضرورماضی کی کسی بہت بڑی شخصیت سے مل کر آرہے ہیں ہمارے بچے ، تبھی اتنے خوش ہیں۔‘‘ ممی بولیں

                ’’ غالبا ً آئن سٹائن سے ؟‘‘ ڈیڈی نے بوجھا۔

                ’’نہیں وہ ایک خاتون تھیں،‘‘ الیکٹرا بولی۔حاضرین بھی یہ پہیلی بوجھنے کے لیے بے تاب تھے۔

                ’’وہ عظیم خاتون ضرور’ ’مادام کیوری‘‘ہوں گی؟‘‘ ایک صاحب بولے۔

                ’’یقینا ان سے زیادہ عظیم خاتون ہمارے لیے اور کون ہو سکتی ہیں!‘‘ ممی نے بھی ان کی تائید کی۔

                ’’ جی نہیں! ‘‘ پوزی بولا!’’ چلیے آپ سب کو اس پریشانی سے بچانے کے لیے میں خود ہی بتا ئے دیتا ہوں کہ وہ عظیم خاتون تھیں’ ’  مسز نیلسن‘‘ یعنی ہماری دادی جان۔‘‘

                ’’کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ حاضرین کا تمام جوش اور سسپنس خاک میں مل گیا۔

                ممی ڈیڈی کے چہرے شرمندگی اور مایوسی سے جھک گئے ۔اُنہیں اپنے بچوں سے اتنی بڑی حماقت کی توقع نہ تھی۔اگر وہ اپنی دادی سے مل بھی لیے تھے تو اس طرح سب کے سامنے سسپنس پھیلانے کی کیا ضرورت تھی وہ کون سی اہم خاتون تھیں جو ان لوگوں کو اُن سے دلچسپی ہوتی۔سب لوگ پوزی اور الیکٹرا کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ وہ بہت احمق انسان ہوں۔تب پوزی بولا :

                ’’سوری!شاید آپ لوگوں کو اس بات سے مایو سی ہوئی،لیکن ہمارے لیے ہماری دادی جان دنیا کی سب سے عظیم خا تون ہیں۔ہمارا مقصد اپنے والدین کو شرمندہ کرانا نہیں تھا۔ان کے مایوسی اور شرمندگی سے جھکے سر دیکھ کرمجھے دکھ ہورہا ہے ۔ میں آپ سب سے بہت معذ رت خواہ ہوں۔ہمارا مقصد تو صرف آپ سب کے ساتھ اپنے اس نئے تجربے کو شیئر کرنا تھا۔آپ سب حضرات تو شاید اس جذبے سے قدرے آشنا ہوں لیکن آپ کی اولاد اس سے بالکل نا آشنا ہے،جیسا کہ کل تک ہم بھی تھے ۔لیکن آج ہم وہ نہیں رہے جوکل تھے۔ہماری زندگی میں انقلاب آچکا ہے۔کل تک ہم ایک روبوٹ جیسی زندگی گزار رہے تھے لیکن آج ہم اپنے آپ کو انسان محسوس کرتے ہیں۔‘‘

                تمام حاضرین اور ان کے بچے پوزی اور الیکٹرا سے ان کا ہر تجربہ سننے کے لیے بے چین تھے،گوکہ وہ تو کالٹیک مشین کے ذریعے ان کے ماضی میں سفرکی حیرت انگیز روداد سننے آئے تھے لیکن انہوں نے کچھ اور ہی داستان شروع کردی تھی۔بہر حال چونکہ وہ سب سائنس دان تھے اور سائنس دانوں کے لیے ہر قسم کا تجربہ کشش اور اہمیت رکھتا ہے ، اس لیے سب ان کا تجربہ سننے کے لیے ہمہ تن گوش تھے۔اور پھر یہ تو روبوٹ سے انسان بننے کا تجربہ بتانا چاہ رہے تھے۔البتہ ان کے ممی ڈیڈی کو دال میں کچھ کالا نظر آرہا تھا،وہ بچے جو کل تک ان کے لیے ایک ’’گِنی پِگ‘‘ (ایسے چوہے جن پر سائنس دان اپنے تجربات آزماتے ہیں)کی حیثیت رکھتے تھے ، آج وہ اپنے اولادہونے کا حق مانگتے نظر آرہے تھے۔

                ’’ بیٹا ، یہ باتیں پھر کبھی سہی ۔آپ لوگ بہت تھک گئے ہوں گے ،چلویہ پارٹی انجوائے کرتے ہیں جو ہم نے خاص طور پر آپ دونوں کے اعزاز میں دی ہے۔‘‘ڈیڈی خوشامدی انداز میں بولے،کیونکہ بچوں کے تیور کچھ زیادہ ہی خطرناک نظر آرہے تھے۔

                ’’نہیں ڈیڈی،مجھے کہنے دیجیے، اس نئی نسل کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ بھی یہ سب کچھ جان جائیں جو ہمیں معلوم ہوا ہے۔ ‘‘ پوزی پھر شروع ہوگیا۔

                ’’میں آپ سب حضرات سے معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوںکہ یہ تمام بچے جو اس وقت یہاں موجود ہیں، امریکہ کے عظیم سائنس دانوں کے بچے، جو خود بھی مستقبل کے سائنس دان ہوں گے، مجھے یہ سب گِنی پِگ نظر آرہے ہیں۔خدا نے انہیں انسان بنایا ہے لیکن یہ حق آپ نے ان سے چھین لیا ہے اور انہیں ایک روبوٹ جیسی زندگی عطا کی ہے ۔ آپ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیںلیکن اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ انسان اور انسان کے بیچ،والدین اور اولاد کے بیچ جو سب سے مضبوط رشتہ ہو تا ہے وہ پیار، محبت اور خلوص کا رشتہ ہوتا ہے ۔یہ قدرتی عطیہ آپ نے ان سے چھین کر خود اپنے پیر پر کلہاڑی ماری ہے۔ اگر درمیان میں پیار محبت کا رشتہ نہ ہو تو پھر نفرت کارشتہ ہوتا ہے، کیا آپ یہ برداشت کریں گے کہ کل کو یہ روبوٹ بچے آپ کے ساتھ بھی بیگانگی اور نفرت کا سلوک کریں ؟اب بھی وقت ہے ، اپنے بچوں کو انسان کا بچہ سمجھتے ہوئے ان کووہ محبت دیں جو ان کا پیدائشی حق ہے۔‘‘

                سب لوگ ناگواری سے ادھر اُدھر دیکھنے لگے،جبکہ ان کے بچے حیرت سے منہ کھولے ان کی باتیں سن رہے تھے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

                ’’ پوزی بھائی ، وہا ں آپ کس سے ملے تھے جنہوں نے آپ کو یہ ساری باتیں سکھائی ہیں ‘‘،ایک بچہ معصومیت سے بولا۔

                ’’ہمیں وہاں ہماری گرینڈ موم ملی تھیں،یعنی ہمارے ان ڈیڈ کی ممی، اُنہوں نے ہمیں اتنا پیار دیا جو ہمیں کبھی اپنے ممی ڈیڈی سے بھی نہیں ملا‘‘،پوزی نے جواب دیا،اور ممی ڈیڈی کے چہرے پر نا گواری کے تاثرات اور بھی واضح ہو گئے۔

                ’’ممی ڈیڈی ،ہم اب بھی آپ کے وہی بچے ہیںجو کل تھے ، بلکہ اب ہم آپ لوگوں سے پہلے سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں، کیونکہ اب ہمیں صحیح معنوں میں دالدین کا احترام کرنا آ گیا ہے ۔ آپ پلیز ہماری طرف سے اپنا دل خراب نہ کریں ۔ ہم نے وہاں کوئی غلط بات نہیں سیکھی۔‘‘ اپنے والدین کے تاثرات دیکھ کر الیکٹرا بولی،’’ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ آپ سب اپنے بچوں سے وہ سلوک کریں جن کے وہ حقدار ہیں ،  اپنی اولاد کو روبوٹ بننے سے بچائیں ورنہ نقصان آپ ہی کا ہوگا ۔ایسا نقصان جس کا ابھی آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ،صرف ہم کر سکتے ہیں کیونکہ ہم آپ سے بہتر سوچ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ لوگوں نے جنیٹک کوڈنگ کے ذریعے ہمار ے د ماغ اور ہماری سوچ کو اپنے سے کئی گنا زیادہ بہتر بنادیا ہے ، پتہ نہیں آپ نے اچھا کیا یا بُرا کیا لیکن جو کچھ ہو چکا اُسے اب آپ کو بھی تسلیم کر لینا چاہیے۔‘‘

                 یہ کہہ کر پوزی اور الیکٹرا اپنے کمرے میں چلے گئے کیونکہ اس نام نہاد پارٹی سے اُنہیں کوئی دلچسپی نہ تھی، اور اب تو باقی لوگوں کو بھی نہیں رہی تھی۔ لگتا تھا کہ پوزی اور الیکٹرا کی باتوں کا بڑوں پر تو کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ سبھی اپنی اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے تھے ،لیکن ان حضرات کی اولاد جن میں بچے اور نو جوان شامل تھے،ان سبھی کے دماغ میں ہلچل سی تھی۔ اُنہیں اندازہ ہو رہا تھا کہ واقعی ان کے والدین کا رویہ ان کے ساتھ محبت اور خلوص کا نہیں بلکہ عظیم سائنس دان اور گِنی پِگز کا ہی تھا۔اُ نہیں پو زی کی تمام باتوں سے اتفاق تھا۔

                 جب تمام مہمان چلے گئے اور ان کی ممی بھی سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئیں توڈیڈی بڑی آہستگی سے پوزی اور الیکڑا کے کمرے میں داخل ہوئے ، الیکٹرا تو سو چکی تھی ، پوزی ابھی جاگ رہا تھا ۔نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ کھڑکی میں کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر پوزی نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور زندگی میں پہلی بار ڈیڈی کو اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہو گیا،بولا!

                ’’ڈیڈی آپ ! یہاں ہمارے کمرے میں ؟ خیریت تو ہے؟‘‘

                ’’ ہاں بیٹا،سب خیریت ہے ،یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا دیکھوں آپ لوگ سو گئے یا جاگ رہے ہو!‘‘ ڈیڈی نے بے تُکا سا بہانہ بنایا،پھر ہچکچاتے ہوئے بولے !

                ’’ بیٹا، وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسی تھیں ؟ وہ خاتون کیسی تھیں جن سے آپ لوگ مل کرآرہے ہو؟‘‘

                ’’وہ خاتون ۔۔۔۔۔۔۔؟ ڈیڈی ! وہ آپ کی ممی تھیں ،کیا آپ کو اُنہیں ممی کہتے شرم آتی ہے؟‘‘ پوزی نے اُلٹا ان سے سوال کردیا تو وہ حیرت سے اس کا منہ تکنے لگے،اُ نہیں لگا کہ آج انکا بیٹا بہت بڑا ہو گیا ہے ،اُن سے بھی بڑا۔

                ’’ میرا مطلب ہے تم نے اُ نہیں اور اُ نہوں نے تمہیں کیسے پہچانا؟‘‘ ڈیڈی نے اپنی بے چینی چھپاتے ہوئے پوچھا۔

                ’’ہم نے تو اُنہیں اس نام سے پہچا نا تھا جو گھرکے باہرنام کی تختی پر لکھاتھا،’’کین نیلسن ، ہیڈماسٹر گورنمنٹ اسکول‘‘، یہ نام پہلے ہم نے اپنی فائل میں پڑھا تھا ا س لیے جانتے تھے کہ یہ ہمارے دادا جان کا نام ہے ۔جب ہم ا ن سے ملنے اُن کے گھر گئے تو دادی جان نے ہی دروازہ کھولا۔ اُنہوں نے بتایا کہ دادا جان کا تو انتقال ہو چکا ہے، وہاں ایک دس سالہ لڑکا ’گاٹ‘ بھی موجود تھا، جس کی شکل ہو بہو ہم سے ملتی تھی اس لیے ہم سمجھ گئے کہ ہم اپنے دادا جان کے گھر پہنچ گئے ہیں۔ گاٹ نے تو ہم سے بات کرنا بھی پسند نہیں کی۔آپ نے اُس وقت بھی ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا جو آج کرتے ہیں۔ جبکہ دادی جان ہم سے بے حد محبت اور خلوص سے پیش آئیں ،جو ہمارے لیے بالکل نئی بات تھی۔ اسی چیز نے ہمیں مجبور کردیا کہ ہم بھی اُنہیں اپنی شناخت کرا دیں ،اُ نہوں نے ہمیں اس لیے پہچان لیا کہ ہماری شکل اُن کے بیٹے سے بہت ملتی تھی،اور وہ اتنی اعلیٰ ظرف خاتون تھیں کہ ہماری نا قابلِ یقین کہانی پر بھی اُنہوں نے اعتبار کرلیااور ہمیں اپنا پوتا پوتی مانتے ہوئے ہمیں بہت پیار کیا، ہماری ہر بات کو بہت غور سے سنا اور یقین بھی کیا ۔اُنہوں نے آپ اور ممی سے بھی ملنے کی خواہش ظا ہر کی تو ہم نے اُ نہیں سمجھایا کہ یہ ایک نا ممکن بات ہے،وہ ہمیں اپنے پاس روکنا چاہتی تھیںاور اگر ہمارے لیے ایسا ممکن ہوتا تو ڈیڈی یقین جانیے ہم کبھی آپ کی اس دنیا میں واپس نہ آتے بلکہ جو دکھ آپ نے ان کو چھوڑ کر دیا تھا اُس کا ازالہ کرتے ، ہمیں یہ دکھ سا ری عمر رہے گا کہ ہم اتنے ترقی یافتہ ہوتے ہوئے بھی ان کے لیے کچھ نہ کرسکے۔‘‘

                پوزی بے حد اُ داس تھا اور ڈیڈی کی بھی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔ اتنے میں ممی کمرے میں دا خل ہوئیں،جو شاید ڈیڈی کو ڈھو نڈتی ہوئی اُدھر نکل آئی تھیں!

                 ’’ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟مجھے تو یہ کسی جذباتی ڈرامے کا سین لگ رہا ہے! ‘‘ پھر ڈیڈی سے متوجہ ہوتے ہوئے بولیں،’’ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ میں نے سب جگہ آپ کو تلاش کیا اور آپ بجائے ان لوگوں کو ان کی حماقت پر ڈانٹنے کے خود یہاں ایک شرمندہ انسا ن کی طرح کھڑے ہیں ،وہیں ان کو دو دو ہاتھ رسید کیے ہوتے تو انہیں اپنی اوقات یاد آجاتی، انہیں پتا چلتا کہ والدین کو بھری محفل میں شرمندہ کرنے کی سزا کیا ہوتی ہے۔‘‘

                ’’ممی ہمیں تو اپنی اوقات کا اچھی طرح پتہ چل چکا ہے،لیکن ہم حیران ہیں کہ کیا آپ واقعی ہماری سگی ماں ہیں؟‘‘ الیکٹرا بولی جو ممی کی تیزآواز سن کر اُ ٹھ چکی تھی۔

                ’’ دیکھا ، میں اسی لیے بچو ں کو منہ لگانے کے خلاف ہوں ۔ پھر یہ منہ کو آنے لگتے ہیں۔ لگتا ہے ان کی ’’برین واشنگ‘‘ کرنی پڑے گی۔چلیے۔۔۔۔۔۔۔‘‘

ممی ڈیڈی کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گئیں۔

                کمرے میںآکر پھر ڈیڈی بے چینی سے ٹہلنے لگے۔

                ’’بچوں کی اس باغیانہ سوچ نے بہت پر یشان کر دیا ہے نا۔‘‘ممی غصے سے بولیں۔

                ’’نہیں ، یہ بات نہیں ہے، آج مجھے اپنی امی بہت یاد آ رہی ہیں۔مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے بھی بچوں کے ساتھ ماضی میں سفر کیا ہے۔

                میں نے واقعی اپنی ماں کے ساتھ بہت زیادتی کی تھی۔عقل آتے ہی ان کو چھوڑ کر چلا گیا، پھر شہر کی گہما گہمی میں ایسا کھویا کہ ان کی پلٹ کر خبر بھی نہ لی اور تم سے شادی کے بعد تو سب کچھ ہی بھول گیا۔یہ بھی جاننے کی توفیق نہ ہوئی کہ وہ کب تک زندہ رہیں اور کب فوت ہوئیں۔‘‘

                ’’ اوہ! تو یہ بات ہے؟‘‘ ممی ہونٹ سکیڑ کر بولیں ،’’اب آپ کو ان سب باتوں کا پچھتاوہ ہو رہا ہے۔‘‘

                ’’وہ واقعی بہت صابر اور عظیم عورت تھیں اُنہوں نے کبھی خود بھی میری آزاد زندگی میں دخل دینے کی کوشش نہیں کی ۔میری خوشی میں خوش ہو گئیں۔میں بہت بد قسمت انسان ہوں ، ان کی محبت سے محروم رہا اور میرے بچے کتنے عقلمند ہیں کہ تھوڑی دیر میں ہی ان کی اتنی ساری محبتیں سمیٹ لیں، حالانکہ تم نے تو ہمیشہ اُ نہیں ان چیزوں سے دور رکھنے کی کوشش کی مگر ہونی ہو کر رہتی ہے، ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارے بچے اس طرح ماضی میں سفر کریں گے ،‘‘ ڈیڈی بہت رنجیدہ ہو رہے تھے۔

                ’’ یہ آ پ کو کیا ہو گیا ہے ؟ بالکل جاہل آدمیوں و الی باتیں کر رہے ہیں۔اتنا کمزور میں نے آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔بڑھاپا بھی عجیب چیز ہے انسان کو اس قدر جذ باتی بنا دیتا ہے۔ آپ کو اپنی صلا حتیں یو ں ضایع نہیں کرنی چاہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم کتنے اہم پرا جیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔کاش ہمارے بچے ماضی میں نہ گئے ہوتے ،اس سے تو اچھا تھا کہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں اغوا ہو جاتے، ہم کسی نہ کسی طرح اُنہیں چُھڑا ہی لیتے مگر اس طرح اتنے سارے جذباتی شاکس تو نہ لگتے جن سے اب ہم ساری عمر پیچھا نہ چُھڑا سکیں گے۔اورآپ بھی۔۔۔۔۔۔۔ بجائے بچوں کو ان کی اس حماقت پر ڈانٹنے کے خود بھی اپنی مرحوم ماں کا سوگ منانے لگے۔ میں اسی لیے جذباتیت کے خلاف ہوں ۔ انسان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے ۔اب بھلا جن لوگوں کو مرے ہوئے بھی برس ہا برس ہوگئے ، ان کا سوگ منانے سے فائدہ ؟ ان کی زندگی میں ہی یہ احساس کر لیا ہوتاتو اُنہیں بھی کوئی فائدہ ہوجاتا لیکن اب تو اس ملال کا نہ اُنہیں فائدہ ہے ، نہ ہی آپ کو۔ اب آپ چل کر لیٹ جائیے ۔ میں آپ کے لیے نیند کی گولی لاتی ہوں تاکہ آپ سکون سے سو جائیں اورصبح کام کرنے کے لیے فریش ہوں۔‘‘ ممی ڈیڈی کی رنجیدگی سے گھبرا رہی تھیں ۔

                اگلے دن ہی ممی نے پوزی اور الیکٹرا کو لیبارٹری میں بلا لیا،ڈیڈی ابھی سو رہے تھے۔ ممی اور ڈیڈی سارا دن اسی لیبارٹری میں کام کیا کرتے تھے ۔ اور اگر کوئی کام ہوتا تو پوزی اور الیکٹرا کی حاضری بھی اسی لیبارٹری میں ہی لگتی تھی ورنہ تو شاذونادر ہی ملاقات ہوتی تھی۔

                ’’ جی ممی!‘‘ پوزی اور الیکٹرا ممی کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے لگے تو ممی نے اُ نہیں گھور کر دیکھا،جس پر وہ سنبھل کر سیدھے کھڑے ہوگئے۔

                ’’ تم دونوں اب اپنے دماغوں سے یہ ماضی والا فطور نکال کر پہلے جیسے اچھے بچے بن جائو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہو گا۔جانتے ہو تمہاری ان احمقانہ باتوں سے تمہارے ڈیڈی کو کتنا دُکھ پہنچا ہے ؟ وہ رات سے ڈ پریشن میں مبتلا ہیں۔ ان کے کام کا ہرج ہورہا ہے، لوگ ہمارا مذاق الگ اُڑا رہے ہیں۔وہ سب آپ دونوں سے اتنے متاثر تھے اور آپ کو دنیا کے بہترین بچوں کا خطاب ملنے والا تھا ،مگر آپ دونوں کی حماقت نے ہمیں شرمندہ کر کے رکھ دیا۔ان سب کے بچوں پر بھی بُرا اثر پڑا ہے۔آئندہ کوئی ایسی جذباتی حماقت ہوئی تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔اب تم دونوں کے امتحانات ہونے والے ہیںاور مجھے بہت اچھا رزلٹ چاہیے۔ یہ چند سال آپ لوگوں کے لیے بہت قیمتی ہیں،تعلیم ختم ہو جائے گی تو پھر آپکی فوجی ٹریننگ شروع ہوگی۔اب آپ لوگ جائو اوریاد رکھو کہ مجھے بہت اچھا رزلٹ چاہیے۔ میں آپ لوگوں کو کمیونٹی کے سب بچوں سے آگے دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

                جب ممی اپنی بات ختم کر چکیں تو وہ دونوں لائبریری میں چلے گئے،جہاں ان کا ٹٹوریل شروع ہونے والاتھا۔اس کمیونٹی کے بچوں کا  طریقہء تعلیم باقی دنیا سے مختلف تھا۔بچوں کی جسمانی اور ذہنی حفاظت کے لیے اُنہیں کسی اسکول نہیں بھیجا جاتا تھا بلکہ تمام تعلیم کمپیوٹر کے ذریعے ہوتی تھی۔ کیونکہ جب بچے اسکول جاتے تو اس کمیونٹی کے بچوں کو خاص طور پر ایک تو اغوا ہونے کا خطرہ رہتا تھا ، دوسرے یہ کہ اس طرح بچے ایک دوسرے سے بھی بہت سی با تیں سیکھ لیتے  جن میں اچھی اور بُری سب طرح کی با تیں ہوتیں ،تو پھر بچوں کا دھیان صرف پڑھائی کی طرف نہیں رہتا پھر وہ دوست بھی بناتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملنا بھی چاہتے ہیں جو ان کا حق ہے ، لیکن اس کمیونٹی کے والدین بچوں کے حق والی بات بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کی اس طرح حفاظت کرتے تھے جس طرح کوئی اپنی نئی ایجاد کی منظرِ عام پر آنے سے پہلے حفاظت کرتا ہے کہ کہیں ان کا آئیڈیا چوری نہ ہو جائے ۔ وقتِ مقررہ پر تمام بچے اپنا کمپیوٹر آن کر لیتے تھے اور ان کی عمر اور کلاس کے مطابق ایک ٹیچر آن لائن ہو کر لیکچر دیتا تھا، جس کو سن کر وہ یاد کرلیتے تھے،یاد نہ رہے تو سی ڈیز پر دوبارہ دیکھ لیتے تھے۔ ان لیکچرز کی بھی بچوں کے والدین کڑی نگرانی کرتے تھے۔جب امتحان ہوتے تھے تو بچے کمپیو ٹر پر ہی پیپر حل کر کے ٹیچر کو بھیج دیتے تھے۔

                بچوں کو صرف انجینئرنگ، ہائی انر جی فزکس، ایٹمی اور خلائی سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی ،جو ان کے مستقبل میں کام آناتھا صرف وہی پڑھایا جاتا تھا، جس طرح کوئی اپنے پالتو جانور اپنی ضرورت کے مطا بق سدھاتا ہے ۔

                اسی طرح چار سال گزر گئے۔ پوزی اور الیکٹرا اپنے والدین کی خواہش کے مطابق اچھے رزلٹ حاصل کرتے رہے،لیکن اتنے سال گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے دل و دماغ سے اپنی دادی جان کی باتیں اور یادیں محو نہ کر سکے۔ یہ اور بات ہے کہ اُنہوں نے پھر کبھی کھل کر اس کا اظہار نہ کیا کیونکہ وہ اپنے والدین کی پریشانی میں اور اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔

                بالآخر اُن کی فوجی ٹریننگ بھی شروع ہو گئی۔ کمیونٹی کے سب نوجوانوںکو یہ ٹریننگ دی جانی تھی۔یہاں اُن کی فزیکل ٹریننگ کے ساتھ ساتھ اُ نہیں جدید ترین ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی تربیت ،خلائی جہاز سازی ا ور اس کا استعمال ، خلاء میں جانے اور آنے کی تربیت بھی دی جاتی تھی کیونکہ خلاء میں جانے کے لیے بار بار بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ مریخ پر اسلحہ پہنچانے اور خلاء سے زمین پر ایٹمی میزائل مار کرنے کی تربیت دی جاتی ۔ اُن کی یہ ٹریننگ چار سال میں مکمل ہو گئی ۔

                 اس کے بعد مریخ اور چاند پر رہائشی کالونیاں بنوانے کا کام شروع ہوا۔ سب سے زیادہ کام پوزی اور الیکٹرا ہی کے ذمہ تھا۔کیونکہ وہی سب سے زیادہ ذہین ،لائق ، محنتی اور بہادر نو جوان تھے جن پر ان کے والدین اور اساتذہ کو بجا طور پر فخر تھا۔الیکٹرا جدید ایٹمی اسلحہ سازی کی انچارج تھی اور ایسے ایٹمی میزائل بنائے جا رہے تھے جو پاتال میں بھی گھس کر تباہی مچا سکتے تھے۔

                اس تربیت کے دورا ن چونکہ سب نوجوانوں کو اکٹھی تربیت دی گئی تھی ، لہٰذا ان سب کی اچھی دوستی اور ذہنی ہم آہنگی بھی ہو گئی تھی،تمام نوجوان پوزی کو اپنا گُورو مانتے تھے اور وہ ان سب کا کمانڈر تھا۔ ہر جگہ اُسی کی قابلیت کا چرچہ تھا ۔

                اس ٹریننگ میں جہاں تما م با اثر شخصیات کے بچے شامل تھے ، وہیں امریکہ کے صدر کا بیٹا جیکی بھی شامل تھا۔ ملک کی سب اہم  شخصیات اپنے بچوں کو خلائی سفر کی تربیت دلوانا چاہتی تھیںتاکہ کسی ایمر جنسی کی صورت میں اُنہیں چاند اور مریخ پرجانے میں دِقت نہ ہو ۔ تمام اہم شخصیات کے لیے خلائی جہاز مقرر تھے اور انہیں بھی بے وزنی کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ بھی خلاء میں سفر کرسکیں۔ان سب کا خیال تھا کہ جب دنیا تباہ ہو جائے گی تو وہ سب اہم اور امیر ترین شخصیات جو خلائی سفر کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں ، چاند اور مریخ کی سر زمین پر منتقل ہو جائیں گے جس کے لیے کافی عرصہ سے تیاریاں کی جا رہی تھیں ، پوزی اور الیکٹرا جیسے خاص بچوں کی تیاری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کیونکہ اُنھی کو یہ سب مہمات سر کرنی تھیں ۔لیکن اس بات کی کسی نے وضاحت نہیں کی تھی کہ دنیا کس طرح تباہ ہو جائے گی ۔خود بخود تو ہو نے سے رہی اور اب تک یہ بھی واضح ہو چکا تھا کہ چاند یا مریخ پر کسی قسم کی کوئی مخلوق آباد نہیں ہے جس کی طرف سے دنیا کو حملے کا خطرہ ہو ۔ظاہر ہے اس اطمینان کے بعد ہی وہاں پر رہائشی کالونیاں بنائی گئی تھیں۔پھر انتہائی راز داری سے تمام ایٹمی اسلحہ مریخ کے اسٹوروں میںجمع کیا جا نا تھا جس کے لیے وہاں بہت بڑے بڑے اسٹور ز بنائے گئے تھے،تاکہ وہیں سے دشمن کو نشانہ بنایا جا سکے۔

                امریکہ جیسی سُپر پاور کوآج بھی ایشیائی ممالک سے خطرہ تھا جو اسے کسی طرح چین نہیں لینے دیتا تھا حالانکہ اس نے اپنی ایٹمی طاقت میں اتنا اضافہ کر لیا تھا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔وہ چاہتا تو پوری دنیا کو ایک منٹ میں فنا کر سکتا تھا اس کے با وجود اس کی راتوں کی نیند حرام ہو چکی تھی،شاید جو چور ہوتا ہے اسی کو ا پنی دولت کے لُٹ جانے کی سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے۔

                بر اعظم افریقہ کے بھی بہت سے ممالک ایٹمی طاقت بن چکے تھے ۔ امریکہ کو اس کی بھی پریشانی تھی۔اور ایشیائی ممالک بھی بہت ترقی کرر ہے تھے۔ چین ان میں سب سے آگے تھا جس کا باقی ایشیائی ممالک پر اثرورسوخ بہت بڑھ گیا۔اب و ہ امریکہ کے برابر کی سُپر پاور بن گیا تھا ا وراس کے فیصلوں میں دخل اندازی کرنے لگا تھا ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اصل سُپر پاور تو اب چین ہی تھا،امریکہ کا تو صرف نام ہی تھا۔یہی بات اُس سے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔

                ایک دن ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی جو نہایت اہم اور خفیہ تھی، جس میں تمام فوجی سربراہان شامل تھے، جن میں پوزی اور الیکٹرا کے علاوہ جیکی بھی شامل تھا۔پوزی اور الیکٹرا کے بغیر کوئی بھی اہم فوجی میٹنگ نہ ہو تی تھی کیونکہ ایک تو ذہنی اور جسمانی طور پر وہ دونوں اب تک سب سے آگے تھے اور کوئی ان کا مدِ مقابل نہ تھا دوسرے ان کو یہ اہمیت بھی حاصل تھی کہ انہیں بہت کم عمری میں ہی کالٹیک مشین کے ذریعے سفر کا تجربہ ہو چکا تھا جو کوئی معمولی بات نہ تھی ۔ پوزی خلائی فوج کا سب سے کم عمر سربراہ بن چکا تھا اور اہم معا ملات میں پوزی کے مشوروں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ اب تو سب سے زیادہ اہمیت خلائی فوج کی ہی تھی باقی افواج تو برائے نام ہی تھیں اور جیکی چونکہ صدر کا بیٹا تھا ، اس لیے اس کو بھی اکثر شامل کرنا پڑتا خاص طور پر ایسی میٹنگز میں جس میں صدر نے کوئی خاص آرڈر دیا ہو۔

                آج کی اس ہنگامی میٹنگ کے اغراض و مقا صد سن کر پوزی ،الیکٹرا اور جیکی کے ہوش ہی اُڑ گئے کیونکہ فوجی ہی سہی لیکن نوجوان اتنے سفاک اور سنگدل نہیں ہوتے ،وہ تو صرف اعلیٰ افسران کا آلہ ء کار ہوتے ہیں۔لیکن پوزی کی اتنی اہمیت تھی کہ وہ کسی بھی آرڈر پر اعتراض لگا سکتا تھااور اس کی بات کوئی رد نہیں کرتا تھا ۔

                ’’ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نا ممکن، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا !‘‘پوزی حتمی انداز میں بولا۔

                ’’یہ صدر کا اور تمام سربراہان کا متفقہ فیصلہ ہے۔‘‘ چیف آف ائیر سٹاف بولا۔

                ’’ہوا کرے لیکن میں ایسا نہیں ہونے دونگا ۔‘‘پوزی بولا۔

                ’’تم کیا کرو گے؟ تم اپنی حیثیت مت بھولو ،ہمارا کام صرف اپنی ڈیوٹی پوری کرنا ہے۔‘‘

                ’’ معاف کیجیے گا مسٹر پیٹر ! ایشیائی قوموں کے لیے تو آپ پیٹرِاعظم بننے کی کوشش کرتے رہے ۔ یہاں بھی اپنی اہمیت کو پہچانیے۔ آپ کی ا ور ہم سب کی اتنی حیثیت ہے کہ ہم اپنے صدر کو کسی بھی غلط فیصلے سے رو کیں اور اگر وہ نہ مانیں تو ان کے غلط فیصلے پر سر جھکانے کی بجائے ہم سب مستعفی ہو جائیں ۔ اس طر ح کم از کم ان کو اور تمام قوم کو یہ احساس تو ہو گا کہ وہی غلطی پر ہیں۔‘‘ پوزی نے نہایت معقول دلیل پیش کی۔اندر سے تو سبھی پوزی کی دلیل کے قائل ہو گئے تھے لیکن ان میں صدر کے کسی فیصلے کو رد کرنے کی ہمت نہ تھی۔

                ’’مسڑپوزی ! یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور ہمیں صرف اس پر عمل کرنے کا حکم ملا ہے ،بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ ایک اور فوجی سربراہ قدرے تلخی سے بولا جو اب تک ان کی بحث خاموشی سے سن رہا تھا۔

                ’’ جی ہاں! اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ، اب ہمیں کام کی بات کرنی چاہیے۔جب ہم صدر کی بات سے انحراف کرہی نہیں سکتے تو پھر بحث کا فائدہ ؟‘‘ ایک اورآفیسر بولا۔وہ لوگ تو اس منصوبے پر عمل د رآ مد کے لیے مناسب لائحۂ عمل تیار کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے تھے اور پوزی نے نئی ہی کہانی شروع کردی تھی ،جس پر سب کو حیرت ہو رہی تھی۔

                ’’ مسڑپاول! یہ بے معنی بحث نہیں ہے ۔ اربوں لوگوں کی زندگی کا سوال ہے جسے صدر صاحب نے مذاق سمجھا ہے ۔ اُنہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا اب اُتنی بے وقوف نہیں رہی جتنا وہ سمجھتے ہیں ،اب ہمیںاینٹ کا جواب پتھر سے ملے گا،اور پھر یہ تو ایک سُپر پاور کا معاملہ ہے۔‘‘

                ’’تو پھر تم کیا سمجھتے ہو،تم کہو گے اور صدر صاحب سال ہا سال سے تیار کیے جانے والے ا س منصوبے پر عمل درآمد کو روک دیں گے؟‘‘

                ’’اُنہیں ایسا ہی کرنا ہو گا ،ورنہ اس سے بھی بُرا ہوگا ‘‘۔پوزی اپنی بات پر زور دے کربولا۔

                ’’ہونہہ۔۔۔۔۔نا ممکن ،انتہائی ناممکن، کیا تم اپنے صدر کو نہیں جانتے؟ ‘‘ مسٹر پاول بولے

                ’’ میں اُنہیں اچھی طرح جانتا ہوں ،مگر شاید وہ مجھے نہیں جانتے،میں اس میٹنگ کابائیکاٹ کرتا ہوں۔ کرلیں جو اُنہوں نے کرنا ہے۔‘‘

                پوزی اُٹھ کر جانے لگا،ساتھ ہی الیکٹرا اور جیکی بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔

                ’’مسٹر پوزی یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ پلیز آپ بائیکاٹ مت کیجیے بلکہ صدر صاحب سے آپ خود مل لیجیے ۔ پھر جو فیصلہ ہوگاوہ ہم سب کو منظور ہوگا۔‘‘ چیف آف ایئر سٹاف نے درخواست کی کیونکہ وہ پوزی کی اہمیت سے واقف تھا ۔ اس کے بغیر تو یہ منصوبہ ہی بیکار تھا، سب کچھ اُسی نے کرنا تھا۔اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ پوزی اُن لوگوں میں سے ہے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزارتے ہیں ، اسی لیے وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ جیکی سب کی باتیں حیرت سے سن رہا تھا،وہ بھی پوزی کی بات کو اپنے باپ کی بات سے زیادہ اہمیت دیتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا ملک کا صدر غلطی پر ہو سکتا ہے لیکن پوزی نہیں۔اس میں ایسی خداداد صلاحیتیں ہیں کہ وہ کبھی غلط فیصلہ کر ہی نہیںسکتا۔

                ْْْ’’ہاں بھیٔ پوزی میاں! کیا مسئلہ ہے؟ صدر صاحب خوش دلی سے بولے۔پوزی کو صدر نے طلب کر لیا تھا۔

                ’’جناب میرے ساتھ تو کوئی مسئلہ نہیں،مجھے آپ کے اس خطرناک منصوبے پر اعتراض ہے۔‘‘پوزی نہایت اطمینان سے بولا۔

                ’’میاں اب تو جو منصوبہ بن چکا ہے ، وہ واپس نہیں لیا جا سکتا،یہ کام تو اب تمہیں کرنا ہی پڑے گا۔‘‘صدرصاحب نے دو ٹوک جواب دیا۔

                ’’تو پھر میں معذرت چاہتا ہوں میں یہ کام کرنے کا خود کو اہل نہیں پاتا۔ بہتر ہوگا یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیں۔‘‘   پوزی یہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

                ’’او ہو۔۔۔۔۔۔! بیٹھو میاں، بات توکرو،آخر تمہیں اعتراض کیا ہے؟‘‘صدر صاحب جانتے تھے کہ یہ کام پوزی کے علاوہ دنیا کا کوئی انسان نہیں کرسکتا۔اس لیے چاپلوسی ضروری تھی،ویسے بھی یہ تو صدر صاحب کی عادتِ ثانی تھی ۔

                ’’اعتراض۔۔۔۔۔۔۔۔؟ دنیا کو تباہ آپ کرنا چاہتے ہیں اور اعتراض مجھ سے پوچھ رہے ہیں ۔ آپ تودنیا سے ایٹمی ہتھیار وں اور دہشت گردی کے خاتمے کے سب سے بڑے علم بردار تھے ۔ اسی چکر میں آدھی دنیا تو آپ ختم کرچکے ہیں، اب بھی آپکی تسلی نہیں ہوئی ؟ کوئی ذی ہوش انسان آپ کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرسکتا۔‘ ‘

                ’’ تم کیا کہنا چاہتے ہو ، کیا یہ فیصلہ میں نے ہوش میں نہیں کیا؟  اور وہ جو تمام اعلیٰ حکام میرے سا تھ شامل ہیں، وہ سب ہوش و حواس میں نہیں؟‘‘

                ’’معاف کیجیے گا ،آپ سب کو اقتدار کا نشہ ہے، کسی ہوش مند انسان کی مثال دیجیے۔‘‘پوزی لا پروا ہی سے بولا تو صدر صاحب کا خون کھول گیا،اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے اور پوزی کی ہمت کے قائل ہوتے ہوئے مسکرا کر بولے!

                ’’ تم ابھی بچے ہو،تم نہیں جانتے چین اور روس کی ہمت بہت بڑھ گئی ہے جس کو کچلنا ضروری ہوگیا ہے۔‘‘

                ’’میں بس یہ جانتا ہوں کہ یہ شہ آپ کو اسرائیل نے دی ہے۔ویسے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ امریکہ ہمیشہ ہی اسرائیل کے اشاروں پر ناچتا رہا ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اسرائیل جسے ’’ از ازیل‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا وہ ازل سے ہی دنیا میں امن کا دشمن ہے،  یعنی کام اسرائیل کا ہوتا ہے اور نام امریکہ کا بدنام ہوتا ہے ،اس میں کیا مصلحت ہے ؟ ‘‘ پوزی نے اُلٹا سوال کر دیا۔

                صدر صاحب کو پوزی سے اس قسم کے سوال کی اُمید نہیں تھی،لہٰذا وہ چپ ہی رہے۔

                ’’اس کے پیچھے بھی غالباً اقتدار کی ہوس ہے!‘‘پوزی نے خود ہی جواب دیا،’’امریکہ ہمیشہ سُپر پاور رہے گا اس شرط پر آپ لوگ اسرائیل کی ہر بات بے چون و چراں مان لیتے ہیں ‘‘۔

                ’’ہمیں اپنے موضوع پر ہی رہنا چاہئے،‘‘ صدر صاحب قدرے نا گواری سے بولے، ’’ہم چین اور روس کی بات کر رہے تھے۔‘‘

                ’’چلیے کیجیے،پتہ تو چلے کہ آپ کے ارادے کیاہیں۔‘‘پوزی بھی مطلب کی بات پر آگیا ۔

                ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگ بین السیا رہ ایٹمی میزائل کا تجربہ کرواور مریخ سے زمین پر مار کرو جس کا نشانہ براعظم ایشیا ہو‘‘۔

                ’’ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!  اور کیا وہاں سے کوئی جوابی حملہ نہیں ہو سکتا ؟ وہ بے خبر تو نہیں ہیں۔‘‘

                ’’ وہ یقینا جوابی حملہ کریں گے، اس کی ہم نے تیاری کر لی ہے۔ چاند اور مریخ پر رہائشی کالونیاں کس لیے بنوائی گئی ہیں، ملک کی اہم شخصیات اور وہ صاحبِ حیثیت لوگ جو اخراجات برداشت کر سکتے ہیں ، وہ کچھ عرصے کے لیے وہاں چلے جائیں گے اور جب حالات معمول پر آجائیں گے اور ایشیا کی بڑھتی ہوئی قوتوں کا زور ٹوٹ جائے گا تو ہم واپس اپنی دنیا میں لوٹ آئیں گے‘‘۔

                ’’ واہ کیا پر فیکٹ منصوبہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!  اور ان امریکیوں کا کیا ہو گا جو چاند اور مریخ پر رہائش اختیار نہیں کرسکتے؟‘‘

                ’’وہی جو ہر کمزور کا ہوتا ہے!‘‘ صدر صاحب کندھے اُچکاتے ہوئے بولے۔

                ’’ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘پوزی سوچ میں ڈوبی لمبی سانس کھینچ کر بولا،’’یعنی صدیوں پرانی وہ پیشن گوئی صحیح تھی کہ اسرائیل دجال کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرے گا اور جونہی اس معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے دنیا کی تنزلی count down شروع ہو جائے گی،اور اس دجال کو لوگ دنیا کو بچانے والا سمجھیں گے۔ اور اب ایسا ہی ہورہا ہے ۔ دنیا کو بچانے کا جھانسا دے دے کر آپ اسے تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ ‘‘

                ’’ یہ تم نے کیا فضول باتیں شروع کر دیں،اور کہاں سے سُنیں ہیں یہ لغویات تم نے؟‘‘

                ’’سُنی سُنائی نہیں خود پڑھی ہیں ،دنیا کی کونسی کتاب ہے جو میں نے نہیں پڑھی،آپ شاید مجھے محض ایک کرائے کا ٹٹو سمجھے تھے،میں اس نام نہاد سُپر پاور امریکہ کی تمام تاریخ جانتا ہوں،صرف دو ڈھائی سو سالہ تاریخ کالے کرتوتوں سے بھری پڑی ہے اور مقابلہ کرتے ہیں ہزاروں سال پرمُحیط شاندار ماضی رکھنے والی ایشیائی قوموں کا۔‘‘پوزی فلسفیانہ انداز میں بولا،’’ اور سُنیے! امریکہ نے مسلمان قوموں کو کس کس طرح ذلیل کیا ،اُن کے مقدس مقام ’القُدس‘ پر قبضہ کرنا چاہااور خانہ کعبہ پر بھی حملہ کرنا چاہا مگر خدا نے خود ان مقدس مقامات کی حفاظت کی اور وہ اپنے مذ موم ارادوں میں ناکام رہا۔‘‘(انشاء اللہ تعالیٰ رہے گا)۔پوزی ایسے بول رہا تھا جیسے کسی خیالی کتاب سے پڑھ رہا ہو،’’ہاں تو جب آپ اپنے اُن ناپاک ارادوں میں ناکام رہے تو اب آپ نے بھی اُن پر’ ’دہشت گردوں‘ ‘ والا حربہ آزمایا ہے یعنی خود کُش ایٹمی بم دھماکے، براعظم امریکہ براعظم ایشیا پر حملہ کرے گا،پھر وہ بھی جوابی حملہ کرے گا جس سے امریکہ بھی  تباہ  ہو جائے گا مگر اس دفعہ مجرم خود صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائے گااور اپنی  قوم کو  تباہ ہو نے کے لیے چھوڑ جائے گا، اور جب یہ حضرات دوبارہ اس زمین پر تشریف لائیں گے تو ان  کے سب دشمن ختم ہو چکے ہوں گے اور یہ  پھر سے اپنی مرضی کی دنیا اپنی  شرائط کے مطابق بسائیں گے اور پھر سے ان کی اجاراداری  شروع  ہو  جائے گی۔یہی چاہتے ہیں نا آپ ،صدر صاحب؟‘‘ پوزی نے طنزیہ پوچھا۔

                ’’ ہاں بالکل ایسا ہی چاہتا ہوں!تمہیں اعتراض کرنے کا اختیار نہیں ہے۔‘‘صدر صاحب پوزی کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے غصے سے بولے ،’’ مجھے تو تم اُن ایشیائی لوگوں سے بہت متاثر نظر آتے ہو ، کہیں تم بھی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘

                 ’ ’ اس کی آپ فکر نہ کریں ’’اتنا آسان نہیں ہے مسلماں ہونا‘‘،مگر ہر عقلمند انسان سچ سے ضرور متاثر ہوتا ہے اور سچ کو مان لینا اعلیٰ ظرفی کی علامت ہوتا ہے۔مگر چھوڑیں ان سب سے آپ کا کیا واسطہ!‘‘

                ’’ میں بھی یہ سب کچھ بلا وجہ نہیں کر رہا ہوں ،اس کے پیچھے بھی بہت سے سچ چھپے ہیں،‘‘صدر صاحب نے بھی پوزی والا حربہ اپنایا اور ماضی کے حوالوں کا سہارا لیا ،’’روس ٹوٹ گیا مگر آج بھی اس کی صنعت اور تجارت کا شعبہ اسلحہ سازی ہے،جوکہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے،اور چین جس کے لیے نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ’’یہ ایک اژدھا ہے ، اسے سویا رہنے دو،کیونکہ اگر یہ جاگ گیا تو دنیا کو کھا جائے گا،‘‘ اور اب یہ پوری طرح جاگ گیا ہے۔ ایشیائی ممالک کو تو یہ اپنی عیاری سے نگل چکا ہے اور وہ اسے اپنا سب سے بڑا ہمدرد سمجھتے ہیں۔اب یہ ’’ اینا کونڈا ‘‘ یورپ اور امریکہ کو نگلنے کی فکر میں ہے۔اس سے پہلے ہم ہی اس کو ختم کرکے سب کی جان کیوں نہ چھڑا دیں،تاکہ پھر سے امن قائم ہو جائے۔‘‘

                ’’آپ کس امن کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ امریکہ تو چل ہی ایٹمی طاقت کے بل بوتے پر رہا ہے، دوسری جنگِ عظیم میں بھی یہ آگ دنیا میں پھیلانے میں پہل آپ نے کی(ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر) حالانکہ اس تباہ کُن ایجاد کے خالق ’’آئن سٹائن‘‘ نے خود اس کو بنی نوع انسان کے لیے خطرناک جان کر مسترد کر دیا تھا مگر آپ لوگوں نے فریب سے اس کو حاصل کرلیا،اور اس کو انسانیت کو تباہ کرنے کے لیے نہ صرف استعمال کیابلکہ اُن متاثرہ مجبور انسانوں کے نمونے بھی حاصل کرتے رہے تاکہ ان پر مزید تجربات کرتے رہیں۔اور تو اور ، دوسری جنگ ِعظیم میں جاپان اور جرمنی جیسی زور آور قوموں کو نیچا دکھانے کے لیے آپ لوگوں نے ایک اور پُر فریب حربہ آزمایااور امریکہ کے صدر ٹرومین کی مریخ کے باشندے کے ساتھ ملاقات کی جعلی تصاویر بھی اخبارات میں شائع کردیں ،جس میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ خلائی مخلوق ایشیائی لوگوں سے خوفزد ہ تھی ۔ اسے ڈر تھا کہ اگر ایشیاء یہ جنگ جیت گیاتو کہکشائوں تک جلد رسائی پا لے گا۔اس لیے اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ا س شرط پرامریکہ کی مدد کی کہ وہ خلا ء کو کھنگالنے کے دوران وہاں کی مخلوق کوتنگ نہیں کرے گا۔اس سلسلے میں 20 اپریل1945  ء کو امریکی صدرٹرو مین اور اس لمبوترے سر والی عجیب وغریب مخلوق میں انتہائی خفیہ ملاقات ہوئی،جس میں اس مخلوق نے صدر کو ایٹم بم کا فارمولا اور دیگر جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی فراہم کی۔اس ملاقات کے چند ماہ بعد16  جولائی کونیو میکسیکو میں ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کیا گیا،حتیٰ کہ یہاں تک کہا گیا کہ جس پروفیسر نے ایٹم بم کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اس کوخلائی مخلوق تربیت کے لیے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔یعنی خلائی مخلوق ایشیائی ممالک سے اتنی خوفزدہ تھی کہ ا س نے ان ایشیائیوں سے کہیں زیادہ خطرناک ملک امریکہ کی مدد کی،گویا کہ مریخ  جیسی ذہین اور کا ئیاں مخلوق بھی امریکہ جیسی مکاراور چا ل ساز قوم کو پہچان نہ سکی ،حیرت ہے اس کی ذہانت پر ۔۔۔۔۔؟

                 آپ امریکہ کی امن کوششوں کی تعریف میں اور کیا کیا سُننا چاہتے ہیں صدر صاحب ؟یہ کہ کس کس طرح امن و آشتی کی آڑ میں امریکہ دنیا کے امن و سکو ن کو لو ٹتا رہا ہے،کس طرح اسرا ئیل اور بر طانیہ کے سا تھ مل کر 2001 ء میں آپ لوگوں نے اپنا ٹریڈ سینٹر خود تباہ کیا اور پھر اسلامی ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ لے کر کُچلتے رہے تاکہ اس کے تیل پر قبضہ کیا جاسکے،یعنی چوری بھی اور سینہ زوری بھی۔پھر کس طرح اُن غریبوں میں لسانی ، قومی اور فرقہ وارانہ  بُنیادوںپر فسادات نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کی،اور کس طر ح وہ بے چارے نہ چاہتے ہوئے بھی ا مریکہ کی بے جا شرائط پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے تیسری عالمی جنگ کو چھڑنے سے روکے رہے۔جنگ تو نہ ہو ئی مگر دنیا میں اس سے بھی زیادہ تباہی برپا ہوگئی۔ میں امریکہ کے ایک ایک لمحے کی تاریخ سے واقف ہوں کہ وہ دنیا میں امن پھیلانے میں کتنا مخلص رہا ہے ۔ اتنا تو شاید آپ بھی نہیں جانتے ہوں گے کیونکہ آپ کا علم بہت محدود ہے،آپ صرف اپنے مطلب کی بات سننا اور جاننا چاہتے ہیں ۔ابھی سن لیجیے ۔1953ء میں امریکی صدر آئزن ہاور کا وہ بیان بھی میں نے پڑھا ہے جو اُنہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھاکہ’’میں بہت واضح طور پر اور صاف ذہن کے ساتھ اس بات کا تہہ دل سے قائل ہو چکا ہوں کہ ہماری موجودہ دنیا ایک ایسی دوڑ میں شریک ہے جو بلا شبہ قیامت خیز تباہی پر ختم ہو گی ‘‘۔ گو کہ یہ بات انہوں نے باقی دنیا کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کے لیے کہی تھی،لیکن ا ب آپ ان کی اس پیشن گوئی کو سچ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں۔پتہ نہیں صدر صاحب آپ کا یہ ایٹمی جنگی جنون کیا رنگ لائے گا اور کب ختم ہو گا۔ اس تباہ کن ایجاد کے استعمال کا آغاز بھی امریکہ نے ہی کیا تھا اور کتنی اچھی اور مستقل مزاجی کی بات ہے کہ اس کے ذریعے دنیا کا اختتام بھی امریکہ کے ہاتھوں ہی ہو گا اور جو سب سے مزیدار بات ہے وہ یہ کہ اس بیچ کے سا رے عرصے میں دنیا میںایٹم برائے امن اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے والا سب سے بڑا علم بردار بھی امریکہ ہی بنا رہا۔ واہ کیا سیاست ہے ، سیاست سیاست کھیلنا تو کوئی آپ سے سیکھے ۔ ارے جو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں وہ سوائے اس دنیا کو صفحہء کا ئنات سے مٹانے کے اور کچھ بھی نہیں،ایسا تو فرعون اور شداد نے بھی نہیں کیا تھا ۔ پتہ نہیں لوگ آپ کو کس نام سے یاد کریں گے، مگر آپ ان کو زندہ چھوڑیں گے تو وہ غریب کچھ کہیں گے۔اور یہ بھی آپ بھول جائیں کہ جو کچھ آپ اس دنیا کے ساتھ کر کے جائیں گے اس کے بعد وہ اس قابل بچے گی کہ آپ واپس آکر دوبارہ سے اپنی من پسند زندگی گزار سکیں گے۔ آپ جیسے حکمرا نوں کے کرتوتوں کی وجہ سے تو امریکہ کی تاریخ اس دنیا کے نقشے پر ایک سیاہ دھبہ ہوگی اور دنیا امریکہ کو دریافت کرنے والے شخص کو کوسے گی۔ ‘‘

                ’’ میں امریکہ کے علاوہ دنیا پر کسی اور کی حکمرانی برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس کے لیے مجھے جو بھی کرنا پڑا ، میں کروںگا ۔‘‘صدر صاحب بولے۔

’’مگر یہ بھی تو ایک قدرتی عمل ہے،پرسوں اُن کی بادشاہت تھی،کل ہماری حکو مت تھی،آج اگر وہ پھر سے اپنی ہمت اور محنت کے بل بوتے پر حکومت کرنے لگیں تو ہمیں حسد نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی سے اس کو قبول کرنا چاہیے ۔یہ تو قدرت کا نظام ہے ۔ وہ بھی تو اتنا عرصہ چپ رہے اور آپ کی حکومت برداشت کرتے رہے۔ یہ تو تعلیم یافتہ  قومو ں کا شیوہ نہیں کہ جو آپ کے برابر آجائے ، اُسے صفحہء ہستی سے مٹا دو۔‘‘ پوزی نے پھر دلائل سے کام لے کر صدر صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی۔

                ’’ میں تو تمہیں نہایت عقل مند سمجھا تھا مگر مجھے تو تم خبطی لگتے ہو۔۔۔۔۔! تمہیں کس احمق نے اتنی بڑی ذ مہ داری سونپ دی ؟‘‘صدر صاحب پوزی کی اس منطقی گفتگو سے زچ ہو کر بولے۔

                ’’جناب آپ نے بذاتِ خود مجھے یہ اہم ذمہ داری سونپی تھی اور آپ کے خیال میں مجھ سے زیادہ موزوں انسان اس عہدے کے لیے ہو ہی نہیں سکتا ۔ اسی لیے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ اس اہم منصوبے کی اونچ نیچ سے بھی آپ کو آگاہ کردوں،آگے آپ کی مرضی ہے۔‘‘  پوزی نے جب محسوس کیا کہ صدر صاحب ایسا چکنا گھڑاہیں جن پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے توچپ کر گیا۔ ویسے بھی عقل مند آدمی کو کم عقل سے بحث کرنی ہی نہیں چاہیے اور صدر صاحب تو ڈھیٹ بھی اتنے ہیں کہ اتنی تلخ باتیں سن کر بھی بے مزہ نہیں ہوئے،کوئی اور ہوتا تو ایک ماتحت سے اتنی تلخ باتیں سن کر فوراً ا سے ڈِس ِمس کردیتا،مگر امریکہ کا صدر ہونے کے لیے شاید انسان میں ڈھٹائی اور مطلب پرستی کو ٹ کوٹ کر بھری ہونی ضروری ہوتی ہے اور انہیں ابھی پوزی سے بہت کام لینا تھا ۔ اس لیے اس کی ہر بات برداشت کرتے رہے۔

                ’’ٹھیک ہے ۔ میں نے بھی تمھاری سب اُ ونچ نیچ سن لی ہے اب تم وہی کرو جو تم سے کہا گیا ہے۔تم جا سکتے ہو۔‘‘صدر صاحب نے کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔پوزی بھی فوراً اُ ٹھ کھڑا ہوا اور سیلوٹ کر کے کمرے سے نکل گیا۔اس کا دماغ گھوم رہا تھا،وہ اس منصوبے پر کسی صورت عمل نہیں کرنا چاہتا تھا،وہ صدر صاحب کو قائل کرنے میں ناکام رہا تھا،لیکن وہ جانتا تھا کہ اس منصوبے میں اور بہت سی طاقتیںبھی شامل ہیں ایک صدر صاحب اکیلے کچھ فیصلہ نہیں کرسکتے۔

                بہر حال وہ پوزی ہی کیا جو مشکل پر قابو نہ پا سکے اور برائی سے ہار مان لے۔اس نے جو منصوبہ بنایا وہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اس نے بھی ایک خفیہ میٹنگ بلائی اور اپنے تمام نوجوان فوجی ساتھیوں کو اکٹھا کیااور اپنی تقریر میں اپنے سوچے ہوئے منصوبے کی وضاحت کی۔ وہ بولا!

                ’’میرے پیارے ساتھیو! میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ لوگ مجھ پر اعتماد کرتے ہواور میری بات کو اہمیت دیتے ہو۔ صدر صاحب کا جو خفیہ ورلڈ آرڈر ہمیں ملا ہے ، اس سے بھی آپ سب واقف ہیںگوکہ ایک فوجی ہونے کے ناطے ہمیں ان کے اس آرڈر پر فوراً عمل درآمد شروع کر دینا چاہیے لیکن ایک فوجی ہونے سے پہلے ہم ایک با شعور انسان ہیںاور اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے شعور کو استعمال میں لاتے ہوئے صحیح فیصلہ کریں ۔ ایسا فیصلہ جو تمام انسانیت کے حق میں ہو۔یاد رکھو ! ایک فوجی کا کام صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتاہے ، چاہے اس کے لیے اس کی جان بھی چلی جائے ۔ لیکن اس کا کام بے قصور اور بے گناہ عوام کی جانوں سے کھیلنا نہیں ہوتا ہے۔ ان کے نئے ورلڈ آرڈر کو پورا کر کے لاکھوں جانوں کا خون کم از کم میں تو اپنی گردن پر نہیں لے سکتا۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے ہیں جن کے حکمرانوں کا محبوب مشغلہ بے گناہوں کی جانوں سے کھیلنا رہا ہے ۔ ہم ان کا مزاج اور ان کے خیالات تو تبدیل نہیں کرسکتے البتہ اگرآپ لوگ میرا ساتھ دیں تو ہم ان کو سبق ضرور سکھا سکتے ہیں۔آپ سب پڑھے لکھے اور باشعور انسان ہیں ،اور ہم سب جو یہاں موجود ہیں وہ کچھ زیادہ ہی خاص انسان ہیں جو اُن عظیم سائنس دانوں کی اولاد ہیں جنہوں نے تمام نئے تجربات اپنی اولاد پر ہی آزما کر اُ نہیں تمام دنیا سے منفرد بنا دیا ہے لہٰذا اب ہمیں کام بھی کوئی منفرد ہی کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا وہ منفرد کام کرنے میں آپ سب میرا ساتھ دیں گے؟‘‘

                ’’ یس کمانڈر۔۔۔۔۔۔!‘‘ سب نے ایک زبا ن ہو کر کہا۔

                ’’ہم جتنا اعتبار آپ پر کرتے ہیں ، اتنا اپنے والدین پر بھی نہیں کرتے ،اگر وہ غلطی پر ہیں تو انہیں سبق سکھانا اور راہِ راست پر لانا ہمارا فرض ہے۔‘‘ جیکی بولا ۔اور جب صدر صاحب کے بیٹے کو کوئی اعتراض نہیں تھا تو کسی اور کو کیا ہو سکتا تھا۔

                ’’ہمیں کچھ عرصے کے لیے اپنے والدین سے دور جانا ہوگا۔بہت دور، اگر ان کو ہم سے محبت ہوئی تو وہ ضرور سنبھل جائیں گے۔‘‘پوزی مزید بولا۔

                اس کے بعد پوزی اور اس کی تمام فوج بظاہر صدر صاحب کے حکم کی تعمیل میں لگ گئی۔ سب سر براہانِ افواج بہت خوش تھے کہ پوزی بالآخر مان ہی گیا، کسی کو شک بھی نہ گزرا کہ اس کے کیا ارادے ہیں۔انہوں نے پہلے آرڈر کے مطابق تمام ایٹمی اسلحہ مریخ کے گوداموں میں جمع کیا ۔ پوزی نے کچھ بھی نہ چھوڑا اور وجہ یہ پیش کی کہ جب کوئی حملہ کر تا ہے تو سب سے پہلے اسلحہ کے ڈپو پر کرتا ہے جس سے زیادہ تباہی پھیلتی ہے اور اسلحہ الگ تباہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ا یہ تمام اسلحہ وہاں زیادہ محفوظ رہے گا ۔پھر ہم نے اسے استعمال بھی تو وہیں سے کرنا ہے ۔ پوزی حسبِ ضرورت وہاں مریخ کی سر زمین پر بہت سی چیزیں منتقل کرتا رہا اور کسی کو نہ شبہ ہو ا ، نہ کوئی اعتراض ہوا۔ صدر صاحب کی مرضی کے عین مطابق کام بڑی تیزی سے جاری تھا۔

                کسی ز مانے میں مریخ کو جنگ و جدل کا دیوتا مانا جاتا تھا اور اب حقیقتاً اسے جنگ وجدل کا سیارہ بنایا جا رہا تھا۔

 اب آ خری مرحلہ رہ گیا تھا جس میں مریخ سے براعظم ایشیا کونشانہ بنا کر ایٹمی میزائیلوں کی بوچھاڑ کرنا تھی۔ پوزی نے بڑی ہوشیاری سے اسلحے کی ساتھ ساتھ اپنے تمام فوجی ساتھیوں کوبھی وہاں منتقل کردیا ۔

                اس طرح جیکی سمیت تمام نئے تربیت یافتہ نوجوان جوسبھی اہم اور با اثر شخصیات کی اولادیں تھیں ،پوزی کے ساتھ مریخ پر پہنچ چکیں تھیں اور سب والدین خوش تھے کہ وہ سب وہاں پوزی کی کمانڈ میں بہت کچھ سیکھ لیں گے۔اُنہیں علم نہیں تھا کہ وہ پہلے ہی پوزی سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔

      صبح صدر صاحب جب آفس تشریف لائے تو ان کی میز پر ایک خط موجود تھا ۔اُنہوں نے سب سے پہلے وہی خط کھول کرپڑھا  جو پوزی نے صدر صاحب اور تمام والدین کے نام لکھا تھا!

                ’’جناب صدر صاحب ۔۔۔۔۔۔اوروہ تمام والدین جن کے بچے میرے ساتھ موجو د ہیں،سب کے لیے سلامتی کی دعا ۔گو کہ آپ سب خود اپنی سلامتی کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اب میں جو بات عرض کرنے جا رہا ہوں اس کو سن کر شاید آپ کے پیروں تلے زمین نکل جائے لیکن آپ لوگ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ عقل آپ کو پھر بھی نہیںآئے گی۔بات یہ ہے کہ جب دنیا کو تباہ کرنے کا فیصلہ آپ نے کسی صورت واپس نہ لیا تو مجھے مجبوراً یہ انتہائی قدم اُٹھانا پڑا لیکن آپ لوگوں کو سبق سکھانے کا ایک یہی طریقہ تھا ،وہ یہ کہ جن کے کندھوں پر رکھ کر آپ نے یہ ایٹمی میزائل چلانے تھے میں اُنہی کندھوں کو کیوں نہ آپ کی خود غرض دنیا سے دور لے جائوں،تا کہ نہ رہے بانس ، نہ بجے بانسری ۔ آپ کو وہ ’’پائیڈ پائپر‘‘ والی کہانی تو یاد ہو گی ،جس نے احسان فراموش شہریوں کو سزا دینے کے لیے اپنی بانسری کی ایسی دُھن بجائی کہ ان شہریوں کے سارے بچے اس کے پیچھے لگ کر شہر چھوڑ گئے اور وہ تمام لالچی اور خود غرض شہری بے اولاد رہ گئے ۔ بالکل اسی طرح اب آپ سب لوگ بھی اپنے آپ کو بے اولاد ہی سمجھیے۔ میں نے ہر طرح سے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی، کیونکہ میں لاکھوں لوگوں کا خون اپنی گردن پر نہیں لے سکتا تھا۔ گو کہ امریکی خلائی فوج کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے تو مجھے بھی ایک بے حس اور سنگدل شخص ہونا چاہیے تھا لیکن آپکی بد قسمتی ہے کہ میں ایسا نہیں ہوں ، نہ ہی ایسا بن سکتا ہوں۔ میں چند لوگوں کی ذاتی تسکین کے لیے اتنا بڑا جرم نہیں کرسکتا تھااور باقی تمام نوجوان بھی میرے ہم خیال تھے۔ اسی لیے وہ اپنی مرضی سے میرے ساتھ آئے ہیں ۔ اپنی دنیا کو چھوڑ کر اس خود ساختہ جلا وطنی کو قبول کرتے ہوئے ہمارا دل خون کے آنسو رویا ہے،لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔آپ کا تمام ایٹمی اسلحہ بھی ہمارے ساتھ ہے تاکہ آپ اسے کسی صورت بھی استعمال نہ کرسکیں۔اب پتہ نہیں ایٹمی اسلحہ کے بغیر آپ کی زندگی کیسے گزرے گی؟

                ہمیں نہیں معلوم ہمیں یہاں مریخ پر کب تک رہنا پڑے۔ اگر ہم ماضی میں زیادہ عرصہ رہ سکتے تو ہم کالٹیک مشین کے ذریعے وہیں چلے جاتے۔اس سیارے پر جلا وطنی کی زندگی گزارنا آپ کا خواب ہو سکتا ہے ہمارا نہیں ،ہمیں تواپنی دنیا سے بہت پیار ہے لیکن ہمیں آپ لوگوں نے مجبور کیا ہے۔اگرآپ لوگ اپنا ارادہ بدل لیں اور ایشیا ئی ممالک سے دوستی کر لیں ،اور ایٹمی اسلحہ کو صرف دنیا میں امن پھیلانے کے لیے استعمال کریںتو ہمیں بتا دیجیے گا۔ہم آجائیں گے ورنہ پScience-fictionھر یہیں کوئی کھیتی باڑی وغیرہ کر کے گزارا کرلیں گے،مگر یہ مت سمجھیے گا کہ آپ کی کسی  دھمکی یا حالات کی سختی سے تنگ آکر ہم واپس آجائیں گے ،ہم بھی آپکی طرح بہت ڈھیٹ ہیں۔ آپ اپنے آپ کو بے اولاد سمجھیے گا۔جس طرح جب خدا کے آخری پیغمبر محمد (ﷺ) کو ان کے دشمنوں نے بہت تنگ کیا اور وہ بہت دکھی ہوئے تو خدا نے ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا‘‘۔ آپ لوگ بھی اُسی قوم میں سے ہیں جس نے نہ اپنے پیغمبر کی پرواہ کی ، نہ ہی اپنی اولاد کی قدر کی ،نہ ہی ا پنی اور دوسروں کی آزادی آپ لوگوں کو راس آتی ہے۔ بے شک آپ لوگوں کو ایسی ہی سزا ملنی چاہیے کہ آپ لوگ اولاد ہوتے ہوئے بھی اس نعمت سے محروم کر دیے جائیں۔                                                                          فقط،

                                                                               آپ کے سُدھرنے کے منتظر،آپ کے بچے،

                                                                                                                      خدا حافظ۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.