Pozy Aur Electra 3 پوزی اور الیکٹرا ۔

                            ۷۸۶

صدر صاحب جب صبح آفس آئے تو انکی نظر اپنی میز پر رکھے خطوط پر پڑی ،انہوں نے سب سے اوپر والا لفافہ اٹھا لیا کیونکہ اسکی لکھائی وہ پہچان گئے تھے۔ وہ پوزی کی لکھائی کو بہت اچھی طرح پہچانتے تھے۔پوزی انکی پسندیدہ شخصیات میں سے تھا گو کہ وہ انکو کھری کھری باتیںبھی سنا دیتا تھا مگر اس سے زیادہ ذہین اور بہادر فو جی انہوں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھا تھا۔۔۔۔ایسا فوجی جو صدر کے سامنے بھی سچ بول دیتا تھا اور وہ برا نہیں مناتے تھے، ہر بار در گزر سے کام لیتے تھے۔
اس خط میں ضرور ایسا ہی کچھ لکھا ہوگا جو وہ انکے منہ پر نہیں کہہ سکتا ہوگا۔ صدر صاحب اجکل پوزی کے کام سے بہت خوش تھے کیو نکہ وہ سبھی کام انکی مرضی کے عین مطابق کر رہا تھا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے خط کھولااور پڑھنا شروع کیا،مگر جیسے جیسے وہ خط پڑھ ر ہے تھے انکے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا، آخر کار انہوں نے اپنے دانت بھینچ لئے اور ساتھ ہی انکی مُٹھیاں بھی بھنچ گئیں اور مُٹھی میں موجود وہ خط بھی ،  یہ انکے انتہا ئی غم و غصے کی علامت تھی۔ پھر انہوں نے پوری قوت سے اپنی میز پر گھوسہ مارا، جس کی شدت سے میز پر رکھا شیشہ چکنا چورہو گیا اور انکا ہاتھ بُری طرح زخمی ہوگیا۔ انکو یا د آیا کہ رات انہوں نے بڑا ہی بُرا خواب دیکھا تھا۔
شور کی آواز سن کر سب لوگ دوڑے آئے اور صدر صاحب کی حالت دیکھ کر ششدر رہ گئے۔انہوں نے داھاڑ کر سب کو باہر نکال دیا ، نڈھال ہوکر اپنی کرسی پر ڈھیر ہوگئے اور اپنا مُکہ سہلانے لگے ۔ان کو پوزی سے اسقدر جذ باتی ردِ عمل کی ہر گز امید نہیں تھی۔سب کئے کرائے پر پانی پِھر چکا تھا،اب تو انکے ہاتھ میں کچھ بھی نہ بچا تھا، حتیٰ کہ انکا اپنا بیٹا جیکی بھی پوزی کی ساتھ جا چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!     پھر بھی وہ اپنی شکست ماننے کو تیار نہ تھے ،انکا غصہ دو آتشہ ہو چکا تھا کہ انکی اپنی اولاد نے بلکہ اپنے گِنی پگز نے انکی دشمن قوم کی خاطر ان سے دشمنی مول لے لی۔۔۔۔۔ان سے اتنا بڑا دھوکہ کیا،وہ جتنا اس بارے میں سوچ رہے تھے اتنا ہی غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔بالآخر انہوں نے پوزی کے ممی ڈیڈ ی کو بلالیا۔
ــ’’ کیوں بھئی۔۔۔۔۔۔۔!تمہاری مہارت میں کہاں کمی رہ گئی تھی جو تمہاری اولاد نے ہمیں آج یہ دن دکھایا۔۔۔۔؟ــ‘‘ صدر صاحب نے پوزی کا خط اسکے ڈیڈی کے سامنے کرتے ہوئے کہا
پوزی کے ڈیڈی نے حیرت سے پہلے انکی بات سنی پھر غیر یقینی انداز میں انکے ہاتھ سے خط لے لیا ۔ اس سے پہلے کہ وہ خط کو پڑھتے پوزی کی ممی نے خط انکے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور با آواز بلند پڑھنا شروع کردیا۔ آدھا خط پڑھ کر انکی آواز مدھم پڑنا شروع ہوگئی اور پھر حلق میں اٹک کر رہ گئی ،پھر پوزی کے ڈیڈی نے خط لے کر پڑھا اور سر پکڑلیا ،پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے؛

’’ نہیں۔۔۔۔۔۔۔! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ، میرے بچے ایسا انتہائی قدم نہیں اُٹھا سکتے۔۔۔۔۔۔؟ وہ یہیں کہیں ہو نگے اور ہم سے مذاق کر رہے ہونگے۔۔۔۔!‘‘  صدر صاحب کے چہرے پر بھی امید کا ایک رنگ آیا اور گزر گیا
’’ اچھا ۔۔۔۔۔۔! مذاق کر رہے ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔تو پھر لاؤ انکو ڈھونڈ کر۔۔۔! بھلا میرا ان سے کیا مذاق ہے جو اس نے مجھے ایسا خط لکھا۔۔۔؟‘‘
’’ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں صدر صاحب ۔۔۔۔۔۔! ہمارا اور انکا کیسا مذاق ۔۔۔؟ ہم نے تو کبھی ان سے مذاق کیا ہی نہیں ۔ اس پوزی سے مجھے یہی امید تھی ۔۔۔۔مجھے معلوم تھا کہ اسکی جذباتی فطرت ایک نہ ایک دن ہمیں شرمندہ ضرور کرتے گی۔ارے اسے تو بچپن سے ہی ایسے انتہائی قدم اُٹھانے کی عادت ہے،اگر اس نے بچپن میں ایسا قدم نہ ا ُٹھایا ہوتا اور تمہاری ماں سے نہ ملا ہوتا تو ہماری برسوں کی محنت یوں رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔۔! ‘‘
’’ تم تو ایسے بات کر رہی ہو جیسے پوزی تمہاری نہیں وہ کسی اور کی ا و لاد ہو۔۔۔؟‘‘ پوزی کے ڈیڈی غصے سے بولے
’’ کسی اور کی اولاد ہوتی تو شاید اس سے بہتر ہوتی، کم از کم اسکو ایسی دادای تو نہ ملتی جس نے ہم سے پتا نہیں کس بات کا بدلہ لیا جو ہمارے بچوں کو ہم سے اسقدر متنفر کردیا کہ انہوں نے آج شرم سے ہمارا سر جھکا دیا۔‘‘  پوزی کی ممی بولی
’’ اچھا بس کریں اب۔۔۔۔ ! میں نے یہاں آپ لوگوں کویہ بحث سننے کیلئے نہیں بلایا، اب اس مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے جناب۔۔۔۔۔ کہ ہمیں جنگ کا پلان کچھ عرصے کیلئے ملتوی ۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’ہز گز نہیں۔۔۔۔! جنگ کا فیصلہ ملتوی کرنا تو دور کی بات ہے اب تو جنگ اور جلدی ہوگی۔۔۔۔۔! ‘‘ صدر صاحب نے پوزی کے ڈیڈی کی بات کا ٹتے ہوئے کہا،’’وہ سب کیا سمجھتے ہیں کہ ہم انکے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔؟ کیا ہم انکے بغیر یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔۔۔؟ بلاؤ سب کو ہم آج نئے سرے سے تیاری شروع کریں گے ، نئے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنائیں گے، کسی ایشیائی کو نہیں بچنا چاہیئے، پوری قوم کیلئے کتنے بم چاہیئں۔۔۔؟ ہر شہر پر بم گراؤ۔ہم دکھا دیں گے کہ ہم نئی نسل کے محتاج نہیں ہیں،وہ تو ہمارے لئے صرف ایک کٹھ پتلی تھے۔۔۔۔۔ان جیسے ہم اور بنا لیں گے، وہ کیا سمجھتے ہیں کہ انکے جانے سے ہم اولاد سے محروم ہوگئے ہیں۔۔۔؟ ہمیں ایسی نا فرمان اولاد کی قطعاً ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔ جہنم میںجائیں وہ سب۔۔۔! ‘‘صدر صاحب کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھربولے؛
’’ اور پھر یہ جنگ تھوڑا ہی ہے۔۔۔!وہ بیوقوف پوزی بھی یہی سمجھتا تھا کہ ہم تیسری عالمی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔یہ تو حد سے بڑھتے ہوئے دشمن کا سر کچلنے کیلئے ایک اقدام ہے۔۔۔۔حفاظتی اقدام سمجھ لو ۔اور پھر اب وہ پہلے جیسے زمانہ تو رہا نہیںکہ ہمیں باقائدہ اعلانِ جنگ کرناپڑے ،اب تو ساری اقوام ہماری مُٹھی میں ہیں ،ہمارے آگے کس کو سر اُٹھانے کی جرات ہے۔۔۔۔۔جو اُٹھائے گا اسکا سر اسی طرح کُچل دیا جائے گا۔اسی لئے ہم امن کی تقریریں کر کر کے ساری اقوام کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکتے رہے۔۔۔۔ لیکن کسی نے ہماری بات نہیں مانی۔ایٹم بم ہماری ایجاد ہے اور صرف ہم ہی اسکو استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ــ‘‘

صدر صاحب نے بہت پُر جوش تقریر کی اور پھر نیم بیہوش ہوکر میز پر گِر پڑے۔ سب لوگ دوڑے ہوئے آئے اور انکو طبی امداد دینے کا بندوبست کرنے لگے۔
صدر صاحب کے نئے ورلڈ آرڈر کے مطابق کام زوروشور سے شروع ہوگیا،نئے ایٹمی ہتھیارتیار ہونے لگے۔لیکن اس دن کے بعد سے صدر صاحب کی طبیعت خراب رہنے لگی وہ ظاہر تو نہیں کرتے تھے لیکن انکو بچوں کے جانے کا بہت صدمہ ہوا تھا۔پھر بھی وہ ہر روز خبر لیتے کہ کام کن مراحل میں ہے۔صدر صاحب نے محل میں اپنے لئے ایک انتہائی محفوظ فولادی کیبن بنوا رکھا تھا،جو ایٹمی اثرات سے پاک تھااور روئے زمین پر ہونے والی بڑی سے بڑی تباہی بھی اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی ۔ وہ سارا دن اسی کیبن میں رہا کرتے تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں ہم سے پہلے کو ئی ایشائی ملک ہمیں ہی نشانہ نہ بنا لے۔ جو خود غلط کام کر رہا ہو اسے ساری دنیا ہی غلط محسوس ہوتی ہے۔اور جو ساری دنیا کو تباہ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں وہ خود بہت ڈر پوک ہوتے ہیں،کسی پرندے کی پھڑ پھڑاہٹ سے بھی انکی جان نکل جاتی ہے۔
آخر کار وہ دن بھی آگیا جسکا صدر صاحب کو بڑی بے چینی سے انتظار تھا، کچھ زوردار ایشیائی ممالک پر ایٹم بم برسانے کامنصوبہ پایہء تکمیل کوپہنچ گیا تھا،اور وہ اپنی کامیابی کی خبر سننے کیلئے بے چین ہو رہے تھے۔
اورپھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ایسے لگا تار دھماکے ہوئے کہ کسی کو دوسرا سانس لینے کی بھی مہلت نہ ملی۔ چند لمحوں میں سب ختم ہوگیا۔ ایٹم بموں نے خوب تباہی مچائی تھی۔
ایٹم بم سے تباہی مختلف مراحل میں ہوتی ہے۔گرائے جانے کے تقریباً 43 سیکنڈ کے اندر ہی بیرامیٹرک ٹِرگر فائرنگ میکنزم کو شروع کر دیتا ہے،نیوٹران یورینیئم کے منبے پر برسایا جاتا ہے جو اسکو کو متحرک کر دیتا ہے اور اس سے بے اندازہ لگاتار توانائی خارج ہوتی ہے۔ اس توانائی کے طوفان سے تو پہلے تو اتنی شدیدروشنی چمکی جیسے کہ آسمانی بجلی چمکتی ہے ،اسکی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آنکھیں بند کر لو تب بھی وہ سیدھی دماغ میں گھستی ہوئی محسوس ہوتی تھی،اسکی تپش سے دماغ پگھل گئے تھے۔
پھردرجہء حرارت 4000 ڈگری سیلسیئس سے بھی زیادہ بڑھ گیا،جو لوگ کھلی ہوا میں تھے شدید حرارت اور تابکاری سے انکے مادہ جسم فضاء میں تحلیل ہوگئے اور ٹھوس زمین پر انکا صرف سایہ ہی رہ گیا،جو لوگ ذرا دور تھے وہ آناً فاناً کوئلہ بن گئے، تپش سے انکے جسموں کی نمی بھاپ بن کر اُڑ گئی تھی صرف کاربن رہ گئی تھی۔جو لوگ گھروں میں تھے طاقتورانفرا ریڈ تابکاری اور گاما شعاعیں مظبوط دیواروں سے اندر گھس کر انکے جسموں میں سرائیت کر گئیں اور وہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے،جان ہی نہ پائے کہ ہوا کیااور قضا کہا ںسے آئی۔
اسکے اگلے لمحے مشروم نما سیاہ بادل کا غول آسمان کی جانب بڑھا اور گرجدار آواز کی ساتھ ایسا شدید زلزلہ آیا جو آواز کی رفتا ر سے سفر کرتا ہوا میلوں تک زمین کو اُدھیڑتا چلا گیا،ہر چیز کے پرخچے اُڑ گئے، بڑی بڑی فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہوگئیںاور انکے مضبوط در و

دیوار فضا میںپتنگوں کی طرح اُڑتے ہوئے میلوں دور تک پھیل گئے۔دریا خشک ہو گئے، جو دریا متاثرہ جگہ سے دور تھے انکا پانی انتہائی حرارت سے کھولنے لگا تھا، آگ سے بچنے کیلئے جن لوگو ں نے دریا میں چھلانگ لگا ئی وہ وہاں اُبل گئے۔
صبح کا خوبصور ت وقت سیاہ بادلوں کی وجہ سے سیاہ رات میں بدل چکا تھا،ہر طرف تباہ شدہ چیزوں کا ملبہ اور آگ ہی آگ جہنم کا منظر پیش کر رہی تھی۔چند لمحوں میں ہی کروڑوں لوگ لقمہء اجل بن گئے اور صفحہء ہستی سے انکے وجود ایسے مٹے ،فضاء میں ایسے تحلیل ہوئے  جیسے پانی پر لکھی تحریر۔ زمین کے اس حصے پر تو جیسے قیامت آکر گزر گئی تھی،ہر جگہ آگ اور ملبے کے ڈھیر تھے۔
صدر صاحب کا تابکاری سے محفوظ فولادی کیبن بھی اس تباہی کے طوفان میں اُڑ کر نہ جا نے کہا ںکا کہاں پہنچ چکا تھا ،ایسے جیسے کاغذ کا بنا تھا۔اب جہاں انکا کیبن آکر رکا تھا وہ جگہ شہر سے کافی دور کوئی دیہاتی علاقہ تھا،کیونکہ وہاں عمارتوں کا ملبہ ذرا کم دکھائی دے رہا تھا۔نہر میں پانی کہیں کہیں ذرا ذرا سا دکھائی دے رہاتھا،وہ بھی تابکاری سے آلودہ تھا۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا کیونکہ اسکو پینے والا تو کوئی بھی نہیں تھا،نہ انسان نہ ہی کوئی جانور یا چرند پرند،حتیٰ کہ کوئی درخت اور بیل بوٹا تک نہیں بچا تھا۔
مسلسل جان لیوا جھٹکوں سے صدر صاحب بے ہوش ہوچکے تھے۔کئی دن بعد انکو ہوش آیا تو انکا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا تھا۔مسلسل جھٹکے لگنے سے جسم بھی بہت درد کر رہا تھا،چوٹیں بہت تھیں لیکن وہ اندرونی تھیں ۔کیبن میں ایک بیڈ اورصوفے کے علاوہ کچھ نہیں تھاجو کیبن میں فکس تھے،اسلئے وہ ٹوٹنے سے بچ گئے تھے۔ اُٹھے تو انکو شدید بھوک کا احساس ہوا،وہ حسبِ عادت اپنے کیبن میں لگی گھنٹی بجاتے رہے۔انکو غصہ آرہا تھا کہ اتنی دیر ہوگئی اور کسی نے انکو کھانے کا بھی نہیں پوچھا،میں بیمار ہوں اور بھوکا بھی ہوں مگر کسی نے بھی میری پرواہ نہیں کی ۔گھنٹی بجانے کے باوجود جب کافی دیرتک کوئی نہیں آیاتو انکو بے حد حیرت ہوئی ا ور ساتھ ہی خوف کی ایک لہر انکے بدن میں دوڑ گئی،انہوں نے سوچا کہ میں سارا دن یہاں کیبن میں بند رہتا ہوں کہیں سب لوگ مجھے بھول تو نہیں گئے۔۔۔۔!وہ سب  میر ے آرڈرکی تکمیل میں اسقدر مصروف ہیں کہ مجھے یعنی اپنے صدر کو ہی بھول گئے۔۔۔۔؟اس سوچ کی ساتھ ہی وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکے۔۔۔۔۔۔مگر دروازہ بھی نہیں کھلا کیونکہ وہ مقفل ہوچکا تھا۔وہ اور زیادہ بد حواس ہوگئے اور دروازے کا لاک توڑنے کیلئے کوئی چیز ڈھونڈنے لگے۔
بہت جدوجہد کے بعدصدر صاحب دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگئے اور تیزی سے باہر نکل گئے کہ کہیں پھر سے لاک نہ ہوجائے۔کیبن سے باہر آکر انکے دماغ کو ایک اور جھٹکا لگا،بہت دیر تک تو وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ آخر وہ ہیں کہاں۔۔۔۔۔۔! تمام شہر ملبے کا ڈھیربن چکا تھا اور جگہ جگہ کوئلہ بنی ہوئی لاشیں،ہر چیز پر سیاہی چھائی تھی۔انہیں لگا جیسے کسی نے ایٹم بم سے متاثرہ کسی شہر کی فلم چلا دی ہو۔
انکی بھوک پیاس سب ختم ہوچکی تھی، و ہ ملبے کے ڈھیر پر حیرت کی تصویر بنے کھڑے تھے،دماغ بالکل ماؤف ہوچکا تھا،دوڑ کر کچھ آگے گئے وہاں بھی یہی منظر تھا،پھر دائیں طرف بھاگ کر گئے ،پھر بائیں جانب دوڑے۔۔۔۔۔۔ہر طرف ایک ہی منظر تھا ۔وہ بھاگ کر واپس

اپنے کیبن میں چلے گئے،ایسے میں انکا وہ کیبن ہی سب سے محفوظ مقام تھا۔ وہ بہت دلبرداشتہ ہوئے ،آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور سوچنے لگے کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوگیا،میرا پیارا ملک ،میرے خوبصورت شہر اور میرے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔آناً فاناً یہ کیا ہوگیا ،سب لو گ مجھے اکیلا چھوڑ کر کہاں چلے  گئے۔۔۔۔؟ کہیں میں کوئی ڈراؤناخواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔۔؟ مسلسل یہ سب سوچتے ہوئے انکا دماغ تھک گیا تھا۔سب جھٹکے اتنے شدید تھے کہ انکو وقتی طور پر سب کچھ بھول گیا تھا،لیکن انہوں نے ذہن پر بہت زور ڈالا تو انکو یاد آنا شروع ہو گیا،کوئی کہہ رہا تھا۔۔۔؛
ٍ    ’’صدر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔غضب ہوگیا ۔۔۔۔! وائرس کا جو سوفٹ ویئر ہم نے ایشیائی ملکوں کے لئے تیار کیا تھاکہ انکی ایٹمی تنصیبات اور ہتھیار خود کار طریقے سے انکے ہی ملک میں تباہ ہوجائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ ۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’ہاں ہاں جلدی بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کیا ہوا ،میں سن رہا ہوں۔ دیکھو ایشیائی ممالک کی تباہی کا جو منصوبہ ہم نے بنایا ہے اس میں تاخیر کی خبر مجھے مت سنانا،اس میں کوئی کوتاہی اب میں برداشت نہیں کرونگا۔۔۔۔ تم سبکو میں شوٹ کردونگا۔۔۔۔!‘‘صدر صاحب چیف آف آرمی سٹاف کی بات کاٹتے ہوئے بولے
’’نن نن۔۔ نہیں جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس  اس ۔۔۔۔اس میں تاخیر کا تو آ آ ۔۔۔۔ اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آ آ۔۔۔اب تو مسئلہ ہماری اپنی ب ب ۔۔۔۔ بقا کا ہے۔۔۔۔!‘‘
’’ آخر بات کیا ہے ،تم ا سقدر ہکلا کیوں رہے ہو۔۔۔۔؟ دیکھو مجھے کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے۔۔۔۔۔مجھے صاف بتاؤ کہ اب تم لوگوں نے کیا
حماقت کی ہے۔۔۔۔؟ کیا میں یہ سمجھ لوں کہ پوزی کے بغیر تم سب لوگ بیکار ہو۔۔۔۔؟ ‘‘
’’آ آ۔۔ آپ نے ٹھیک کہا ج ج۔۔ جناب ، ہم وا وا ۔۔۔واقعی پوزی کے بغیر بیکار ہیں ج ج ۔۔جو ا تنی بڑ ی غلطی ہوگئی ہے، ہمارا چھوڑا ہوا تیر خ خ۔۔۔خود ہم پر چل گیا ہے۔ جو سوفٹ ویئر ہم نے اپنے د  د  د۔۔۔۔دشمنوں کیلئے بنایا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ہمیں دھوکہ دے گیا ہے، اس وائیرس نے خود ہمارے سسٹم پر حملہ کردیا ہے او  او ۔۔۔اور اب ہمارے ایٹم بم خود ہم پر چ چ۔۔۔چلنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔او  او  اور اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں، م م ۔۔میں مافی چاہتا ہوں،اب چند سیکنڈوں میں سب کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
چیف آف آرمی سٹا ف کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور صدر صاحب کے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا اور وہ بے ہوش ہوگئے ۔
اسکے بعد کیا ہوا ۔۔۔۔انکو کو کچھ بھی پتا نہیں چلا،اسکے بعد تو انکی آنکھ اب کھلی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جبکہ انکی شدید خواہش تھی کہ کاش وہ ایٹمی اثرات سے محفوظ اس کیبن میں نہ ہوتے اور سب لوگوں کی ساتھ خود بھی فنا ہوجاتے۔اب اکیلے کیسے جی پائیں گے ،دشمن کو ان پر ہنسنے کا خوب موقع ملے گا،اب وہ خود بھی مر جانا چاہتے تھے۔ مگر اللہ جسکو بچانا چاہتا ہے ہر حال میں بچا لیتا ہے۔۔۔۔۔۔سو صدر صاحب کو بھی زندہ رہنا تھا۔انکو نئی نسل کیلئے عبرت بھی تو بننا تھا۔

وہ بہت دیر اپنے کیبن میں لیٹے جانے کیا کیا سوچتے رہے،جینے کی تو کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی تھی سو مرنے کے منصوبے بناتے رہے۔لیکن پھر بھوک اور پیاس سے اتنے بے حال ہوئے کہ اٹھ کھڑے ہوئے،اُٹھ کر کیبن میں ادھر اُدھر دیکھا کہ پانی پینے کیلئے کوئی چیز مل جائے،کانچ کے گلاس وغیرہ تو سب ٹوٹ چکے تھے،پھر انکی نظر کونے میں پڑے پتھر کے ایک قلمدان پر پڑی اسی کو پانی لانے کیلئے غنیمت جانا اور اسکو لے کر باہر چل دیئے، گو کہ شدید کمزوری کے باعث چلنا دشوار ہو رہا تھا،پھر بھی بھوک اور پیاس ایسی چیز ہے کہ انسان کو چلنے پر مجبور کر ہی دیتی ہے۔کھانے کو تو کیا ملنا تھا کہ سارا شہر خود ہی لقمہء اجل بن چکا تھا،نہر کی طرف چلے کہ منہ ہاتھ دھو لوں اور پیاس ہی بجھا لوں۔پانی میں ہاتھ ڈالا تو فوراً واپس کھینچ لیا،پانی بہت گرم تھا، گو کہ اتنے دنوں میں پانی نقطہء کھولاؤ سے کافی کم ہوچکا تھا،لیکن ہاتھ دھونے کیلئے تو گرم لگا ،پھر اُنہوں نے قلمدان میں پانی بھر لیا کہ ٹھنڈا کر کے پی لونگا ،اُٹھ کر دائیں بائیں دیکھا تو صرف کھنڈرات اور لاشیں ہی نظر آئیں،بے حد مغموم ہوئے،اپنوں کی ساتھ ایسا خوفناک کھیل بھلا کون کھیل سکتا ہے،وہ کروڑوںلوگوں کی موت کے ذمہ د ار تھے، قاتل تھے اپنی قوم کے۔ایسا تو کوئی سنگدل سے سنگدل بادشاہ بھی نہیں کر سکتا کہ پنی ہی قوم کو مار کر اسکے سروں کا مینار بنا لے۔
مگر انکا کیا قصور تھا انہوں نے تو دشمن کو نیچا دکھانا چاہا تھا،یہ کھیل تو قسمت نے انکی ساتھ کھیلا تھاکہ بھری دنیا میں وہ اکیلے رہ گئے تھ۔۔۔۔!مگر غلطی تو انکی بھی تھی نا کہ انہوں نے دوسروں کیلئے گھڑا کھودا تھا،اب یہ تو کسی کو علم نہیں ہوتا کہ ا میں خود بھی گر سکتے ہیں،اور پھر انکی غلطی تھی تو انکی اولاد بھی انکا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔اچھا ہی تھا کہ انکے بچے انکی دنیا چھوڑ کر پہلے ہی چلے گئے تھے ورنہ وہ آج انکو کیا منہ دکھاتے،  یہ بھی اطمینان تھا کہ وہ لوگ کم از کم زندہ تو ہونگے،جہاں بھی ہونگے خیریت سے ہونگے اور اپنی عقلمندی سے انہوں نے اپنی دنیا خوبصورت بنا رکھی ہوگی۔
پھر جلی ہوئی لاشوں پر نظر پڑی تو انکوشدید ڈپریشن ہونے لگا ، گھبراہٹ کے ساتھ متلی بھی ہونے لگی، وہ اپنے کیبن میں چلے گئے،پانی ایک طرف رکھ کر لیٹ گئے،دماغ گھوم رہا تھا اور سر میں سخت درد ہو رہا تھا،وہ نیم بیہوشی کی حالت میں بڑ بڑاتے رہے پھر مکمل طور پر بیہوش ہوگئے۔
جب بھی ہوش آتا اور پیاس محسوس ہوتی تو قلمدان میں رکھا ہوا پانی دو گھونٹ پی لیتے اور پھر لیٹ جاتے اور غنودگی میں چلے جاتے۔اللہ تعالیٰ نے بیہوشی میں بھی انسان کی بھلائی رکھی ہے اسطرح وہ شدید چوٹ کے یاشدید صدمے کے اثرات سے بچ جاتا ہے اور اسکی توانائی بھی محفوظ رہتی ہے۔بغیر کھائے پیئے اور شدید صدمے سے وہ ایک ہفتے میں ہی وہ سوکھ کر کانٹا ہو چکے تھے،پھر اکیلے پن کا خوف۔وہ تو زیادہ تر بیہوشی یا غنودگی میں رہتے تھے ورنہ کب کے مر چکے ہوتے۔
تابکاری سے آلودہ فضا میں سانس لینے اور آلودہ پانی پیتے رہنے سے انکی جلد کھلنا شروع ہوگئی تھی،سر کے بال جھڑ چکے تھے ۔ ایک دن یونہی باہر گھوم پھر رہے تھے کہ انہوں نے کھنڈرات کے ملبے میں دیکھا ایک ہیلمٹ نما چیز پڑی تھی جسکا منہ اگے سے کسی بڑے

پرندے کی چونچ جیسا تھا،شاید کوئی ماسک وغیرہ ہوگا،شاید وہاں کوئی دکان ہوگی۔خیر جو بھی تھا وہ انکو غنیمت لگا اور اسکو جھاڑ کر انہوں نے اپنے گنجے سر پر پہن لیا،جس سے انکا سر اور منہ ڈھک گیا،کیونکہ گرمی لگتی تھی۔جلدی بیماری کی وجہ سے انکی جلد بھی گل کر جھڑگئی تھی،براہ ِراست جسم پر ہوا لگنے سے تکلیف ہوتی تھی اس لئے وہ ہر وقت اپنا اوورکوٹ پہنے رکھتے تھے۔نہر کے کنارے پر ننھی ننھی سی نئی گھاس اُگنا شروع ہوئی،وہ یہ دیکھ کر بیحد خوش ہوئے اور اسی گھاس کو کھانا شروع کردیا۔ اسکے علاوہ تھا بھی کیا۔
ایک دن وہ اپنے کیبن میں لیٹے تھے کہ انکو اچڑیا کی چہکار سنائی دی ۔۔۔۔۔۔!وہ حیران ہوگئے اور ایکدم اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ انکے دروزارے پر واقعئی ایک ننھی سی چڑیا بیٹھی چوں چوں کر رہی ہے،وہ نہ جانے کہاں سے اور کتنے میل کا سفر طے کر کے یہاں پہنچی تھی۔شاید وہ بھی ایک جاندار کی بُو پاکر یہاں آبیٹھی تھی۔ ایک جاندار چیز کو اپنے دروازے پر دیکھ کر انکی خوشی کی انتہا نہیں رہی ،وہ بے اختیار اسکی جانب لپکے لیکن چڑیا ڈر کر اُڑ گئی۔انکو بہت دکھ ہوا کہ ایک چڑیا بھی انکے پاس ٹہرنا نہیں چاہتی۔
چڑیا کودیکھ کر اور اسکی چہکار سن کر صدر صاحب کو اپنی طالبعلمی کے زمانے میں پڑھی ہوئی ڈی ایچ لارینس کی نظم’’پرندوں کی چہکار‘‘ یاد آگئی،انہیں لگا کہ اب بہار آنے کو ہے۔لاشوں کے ڈھیر کے درمیان اس چڑیا کی آمد بہار اور زندگی کی علامت ہے۔نہ جانے یہ کسطرح بچ بچا کر اور طویل سفر کر کے یہاں تک پہنچی ہے انکی تنہائی دور کرنے کیلئے۔
اگلی صبح جب صدر صاحب نہر کے کنارے گھاس کھانے اور پانی پینے گئے تو دیکھا کہ وہ چڑیا بھی وہاںگھاس میں بیٹھی ہے۔وہ دبے پاؤں گئے اور اپنا رومال چڑیا پر پھینک کر اسکو پکڑ لیا۔اپنے گلے سے نازک سی سونے کی چین اُتار کر چڑیا کے ننھے سے پاؤں میں باندھ دی،اور پھر اسکو اپنے کندھے پر بیٹھا لیا۔اس نے بہت پر پھڑپھڑائے ،اُڑنے کی کوشش کی مگر بے سود عمل جان کر بالآخر ہمت ہار کر انکے کندھے پر بیٹھ گئی۔آہستہ آہستہ وہ دونوں ایک دوسرے کے عادی ہوگئے۔صدر صاحب روزانہ صبح کو سیر کرنے نہر کے کنارے جاتے اور چڑیا کندھے پر بیٹھی انکو گیت سناتی رہتی۔
ایک صبح جب وہ دونوں سیر کر رہے تھے تو صدر صاحب نے دیکھا کہ آسمان پر کوئی چمکدار جہاز نما چیز نمودار ہوئی اور تیزی سے زمین کی طرف بڑھنے لگی، وہ بے حد خوفزدہ ہوئے اور سمجھے کہ کسی نے پھر ایٹم بم چھوڑا ہے ۔۔۔۔یہ ضرور کسی ایشیائی ملک نے چھوڑا ہے اسکو علم ہوگیا ہوگا کہ میں ابھی زندہ ہوں ۔وہ بھاگ کر اپنے کیبن میں چھپ گئے اور دروازہ اچھی طرح سے بند کر لیا۔
کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی کوئی قیامت خیز دھماکہ نہ ہواتو انکو بڑی حیرت ہوئی اور تجسس بھی ،آخر سوچا کہ کیوںنہ باہر نکل کر

دیکھوں۔آہستہ آہستہ دروازہ کھول کر باہر جھانکا تو کچھ انسانوں کے باتیں کرنے کی آواز آئی، سوچا کہ ضرور یہ ایشیائی باشندے ہیں جو ہماری تباہی کا نظارہ کر نے اور ایٹم بم کے اثرات کے دیکھنے کیلئے لاشوں کے جسموں سے نمونے لینے آئے ہیں ،جیسے ہم نے جاپانیوں کی ساتھ کیا تھا۔
لیکن وہ لوگ تو انکی اپنی زبان میں بات کر رہے تھے اور آوازیں بھی جانی پہچانی سی تھیں۔ وہ لوگ حیرت اور غم کے ملے جلے جذابات میں گفتگو کر رہے تھے۔صدر صاحب نے تھوڑا اور باہر نکل کر ددیکھا تو ان لوگوں کے چہرے بھی صاف نظر آئے،چہرے بھی جانے پہچانے سے لگے لیکن وہ انکو پہچاننے سے قاصر تھے۔ سوچا شاید وہ لوگ انکی مدد کرنے آئے ہیں اسلئے باہر نکل کر انکے پاس آگئے۔ان سے تھوڑے فاصلے پر ایک خلائی جہاز بھی کھڑاتھا جس پر’’مریخی مشن‘‘لکھا تھا ۔
صدر صاحب انکے پاس آئے اور اپنا تعارف اسی طرح کروایا جیسے پہلے کرواتے تھے۔انکا تعارف سن کر ایک لڑکا آگے بڑھا؛
’’ ڈیڈی۔۔۔۔۔۔! ڈیڈی۔۔۔۔! اوہ ڈیڈی یہ آپ ہیں۔۔۔؟ آپکا یہ کیا حال ہوگیا ہے۔۔۔؟اور یہ کیا ہوگیا ڈیڈی ،یہ سب کیسے ہوا۔۔۔؟ہمارا پیارا ملک تباہ ہوگیا۔۔۔؟ آپ لوگوں کی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔۔۔؟‘‘    جیکی نے انکو پہچانتے ہوئے کہا
’’ کون ہو بھئی تم۔۔۔۔۔۔؟صدر صاحب دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے بولے؛’’ اور کیوں مجھ سے فری ہونے کی کوشش کر رہے ہوں۔۔۔؟ کیا
تمہارا ڈیڈی بھی اسی حادثے میں ہلاک ہو چکا ہے۔۔۔؟بہت افسوس ہوا،کیا تم اسی کو ڈھونڈنے آئے ہو۔۔۔؟‘‘
’’اللہ نہ کرے ڈیڈی۔۔۔۔۔! آپ تو زندہ ہیں اور میرے سامنے ہیں میں آپکا جیکی ہوں۔‘‘
’’تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔۔۔! میرا بیٹا تو کب کا مجھے چھوڑ کر چلا گیا تھا، اور کہا تھا کہ کبھی واپس نہیں آئے گا ، ہاں وہ وہاں بہت خوش ہوگا۔اسکو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس اُجاڑ دنیا میں واپس آئے،جو اسکے باپ کے حسد اور غرور کی بھینٹ چڑھ گئی۔‘‘
ان سے تھوڑے فاصلے پر پوزی اور الیکٹرا سر پکڑ کر بیٹھے تھے، اُنہیں شدید دھچکا لگا تھا، صدمے سے زبان کنگ تھی۔پھر پوزی اُٹھ کر آیا۔
’’ صدر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔! ّپ کو اس ملک کا صدر کہنے کی بجائے ملک کا سب سے بڑا دشمن کہنے کو دل چاہتا ہے۔آپ نے کر لی نا اپنی من مانی،ہوگئے خوش اپنا ملک و قوم تباہ کر کے۔۔۔؟ سمجھ نہیں آرہا کہ آپکو کیا کہوں اگر آپکی ایسی عبرت ناک حالت نا ہوئی ہوتی تو میںخود اپنے ہاتھ سے آپکو شوٹ کر دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم کون ہو میاں۔۔۔۔۔۔؟ تمہاری باتیں کچھ جانی پہچانی لگتی ہیں ۔۔۔کیا اسی ملک کے باشندے ہو۔۔۔؟‘‘
صدر صاحب نے پوزی کی بات کاٹتے ہوئے کہا؛
’’بہر حال تم جو بھی ہو کہہ تو ٹھیک ہی رہے ہو، میں نے جو کچھ کیا ہے اسکے لئے مجھے جو بھی سزا دے دی جائے وہ کم ہے، مجھے تو

قدرت نے ہی میرے جنون کی ایسی سزا دی ہے کہ میں اب دوسروں کے طعنے سننے کیلئے ہی زندہ ہوں۔میں مر جانا چاہتا ہوں مگر موت نہیں آتی۔ میں توخیر مر ہی جاؤں گا مگر تم لوگ اس دنیا کو پھر سے آباد کرنا اور دیکھو میرے والی نہ کرنا ،پیار محبت سے زندگی گزارنا ،کسی سے حسد اور دشمنی نہ کرنا،یہ ایسی بیماریاں ہیں جو انسان کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں ۔تم نے دیکھا یہاں ہر طرف راکھ ہی راکھ ہے، یہ اسی کی راکھ ہے۔
تم لوگ یہاں رہو گے یا چلے جاؤگے۔۔۔؟‘‘
صدر صاحب انکو اپنے کیبن میں لے آئے تاکہ اطمینان سے بیٹھ کر بات کر سکیں،پوزی بولا؛
’’ہم تو صرف یہ دیکھنے آئے تھے کہ شاید ہمارے مریخ پر چلے جانے کے بعد آپ لوگوں کو عقل آگئی ہو اور آپ کا جنگی جنون ختم ہوگیا ہو،ہم نے وہاں کتنی مشکل سے وقت گزارہ یہ ہم ہی جانتے ہیں،زندہ رہنے کیلئے ہر چیز کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم نے ’’تھری ڈی پرنٹرــ‘‘ کے زریعے اپنی ضرورت کی چیزیں بنا کر وقت گزارا۔ اور ہم تو شہر سے دور اس دیہات میں اسی لئے اُترے تھے کہ آپ لوگوں سے بات نہین کرنا چاہتے تھے، کیا پتا تھا کہ یہیں آپ سے سامنا ہوجائے گا۔مگر خیر اب تو دنیا ہی بدل گئی ہے ہماری،اب تو ہمیں ہی سب کچھ سنبھالنا ہے،سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کریں گے۔۔۔۔۔آپ لوگوں نے تو ایک ہی جھٹکے میں سب کچھ ختم کردیا،ہمارے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا ،ایسا بدلہ لیا اپنی اولاد سے۔۔۔۔۔۔۔! ایسا ۔۔۔۔ایسا کوئی انسان نہ تو کبھی ہوا ہے نہ ہی ہوگا جو اپنے جنون میں اپنا ہی ملک تباہ کردے، آپکی تعریف کیلئے تو میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔!‘‘پوزی نے رک کر صدر صاحب کی طرف دیکھا پھر بولا؛
’’ دوسری جنگِ عظیم میں جب ہم نے جاپان کا سر توڑنے کیلئے ایٹم بم استعمال کیا تھا تب مشہور مفکر اور عالم برٹرینڈ رسلؔ نے جو انسانیت سے بہت ہمدردی رکھتے تھے ،انہوں نے کیا خوب کہا تھا، ’’دنیا کی تباہی کا عمل تو تبھی شروع ہوگیا تھا جب ــیورینیم کے جوہر کی دریافت ہوئی تھی۔جیسا کہ یورینیم تابکارانہ خصوصیت رکھتا ہے ا سلئے اسکے جوہر میں مسلسل تخریبی عمل جاری رہتاہے،اور ایٹم بم بنانے کیلئے تو اس تخریبی عمل سے بھی تیز تر عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکہ کی جوہری صلاحیت سامنے آتے ہی ساری بڑی طاقتیں جنگی طاقت کے حصول کی اس رسّہ کشی میں شامل ہوجائیں گی ا ور اپنی فوج کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔یورینیم ایسی متاع بن جائے گی کہ لوگ تیل کی بجائے اسکے حصول کیلئے ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے۔اگلی جنگوں میں دونوں طرف سے جوہری بم داغے جائیں گے۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ بڑے بڑ ے شہر صفحہء ہستی سے مِٹ جائیں گے۔اس تباہی کے نتیجے میں تمام سائنسی تجربہ گاہیں اور دارلکتب بھی راکھ کاڈھیر بن جائیں گے۔مواصلات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور دنیا ایک بار پھر چھوٹے چھوٹے زرعی خطوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ایک بار پھر تاریک دور کا آغاز ہوگااور طویل عرصے تک اندھیرا رہے گا۔۔! لیکن خوشی کی بات یہ ہوگی کہ جوہری بم بنانے کی صلاحیت کسی کے پاس بھی نہیں ہوگی۔
مجھے معلوم ہے کہ میں ایک خیالی جنت کا خواب دیکھ رہا ہوں،امریکہ کبھی جوہری طاقت سے تہی دست نہیں ہوگا اورروس کو بھی

جوہری ہتھیار بنانے سے نہیں روکا جا سکے گا۔ اُس وقت امریکہ چاہے گا کہ دنیا بھر کے تمام ممالک میں تخفیفِ اسلحہ کی مہم چلائی جائے لیکن امریکہ کو جوہری ہتھیاروں کا تنہا وارث رہنے دیا جائے۔لیگ آف نیشنز امریکہ کے ہاتھو ں میں کٹھ پُتلی بن جائیگی اور امریکہ دنیا میں مرکزی حکومت بن جائے گا۔تاہم امریکی حکومت عالمی انصاف کے معیار کو قائم رکھنے کیلئے اپنے مفادات کو کفن نہیں پہنائے گی۔
موجودہ وقت میں مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ انسان کو کسی بہت بڑے گناہ کی سزا مل رہی ہے اور یہ گناہ انسان کے شر انگیز جذبات ہیں، انسان اپنے بُرے عزائم کے ساتھ فطرت کے رازوں کو بے نقاب کر رہا ہے۔سائنس کو انسان کی فلاح سے زیادہ اسکی موت اور تباہی کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔اس زمین کو انسانی خوشیوں کا گہوارہ بنانے کیلئے ہمیں فرسودہ واہموں سے جان چھڑانی ہوگی اور آزاد فکر کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں جملہ انسانی مسائل پر رنگ و نسل اور عقیدے سے آزاد ہوکر سوچنا ہوگا۔ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ہم کن ذرائع سے زمین پر حیات کو قائم رکھ سکتے ہیں اور تہذیب کو تباہی سے بچا سکتے ہیں۔۔۔۔!‘‘پوزی نے برٹرینڈ رسل کے کہے ہوئے الفاظ کہہ کر صدرصاحب کی طرف طنزیہ دیکھا۔پھر بولا؛
’’ اندازہ کریں صدر صاحب کہ یہ پیشن گوئی انہوں نے د وسری جنگِ عظیم کے دوران کی تھی اور کتنی صحیح کی تھی۔ کاش آپکو بھی کچھ پڑھنے لکھنے کا شوق ہوتا اور آپ نے بھی اس بڑے مفکر کی کتا بوں کو پہلے پڑھ لیا ہوتا اور انکی باتوں پر غور کیاہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔
دیکھیئے کسطرح ہمارے بڑوں نے ۔۔۔۔۔یعنی آپ لوگوں نے ہم پر اب یہ تاریک دور مسلط کیا ہے، ہمارا کیا قصور تھا کہ ہم اب اپنی زمین اور اپنے ہی وطن میں خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔۔۔؟اب کھیتی باڑی کر کے اپنی زندگی گزاریں گے۔۔۔! ارے صدر صاحب یہی تھی وہ سائنسی ترقی جسکی بھینٹ آپ نے اپنی اولاد کو چڑھا دیا ۔۔۔۔۔۔؟پہلے ان پر سائنسی تجربات کر کے آزمایا اور اب انکی دنیا اندھیر کر کے ایک اور بڑی آزمائش میں ڈال دیا۔۔۔۔؟‘‘ صدر صاحب جو ابھی تک خاموشی سے پوزی کی تقریر سن رہے تھے بولے؛
’’میں۔۔۔۔۔۔ جو ایک ڈھانچہ ہوں ،میرا جسم گل چکا اور روح مر چکی ہے ۔۔۔۔۔مگرشاید اب تک میں اسی لئے زندہ تھاکہ تم لوگوں کو دیکھ لوں اور اپنا یہ ملک تم لوگوں کو سونپ سکوں،کیونکہ تم لوگ اپنے اپنے اور جانے پہچانے سے لگتے ہو۔تمہارے چہروں سے سچائی اور محبت جھلکتی ہے مجھے امید ہے کہ تم لوگ اپنے ملک اور قوم کی ساتھ کبھی دھوکہ نہیں کرو گے،کبھی نہیں کروگے۔۔۔۔وعدہ کرو۔۔۔۔!ایک صدر سمجھ کر نہیں بلکہ ایک مرتا ہوا انسان سمجھ کر وعدہ کروں۔۔۔۔!‘‘
’’ ایسی باتیں نہ کریں ڈیڈی۔۔۔۔! آپ زندہ رہیں گے۔میں آپ کے بغیر کیا کرونگا۔۔۔؟‘‘ جیکی انکے پاس بیڈ پر آکر بیٹھ گیا اور انکا ہاتھ پکڑ کر بے تابی سے بولا
’’ بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔جب وقت تھا تو مجھے تم لوگوں کی قدر نہیں تھی، اب قدر ہوئی ہے تو میرے پاس وقت نہیں، سچ تو یہ ہے کہ میں زندہ رہنے کے لائق ہی نہیں ہوں۔اورمیں تو تم لوگوں سے وعدہ بھی ایسے چاہ رہا ہوں جیسے کہ یہ ملک کوئی میری ذاتی ملکیت و جائیداد ہو۔ ‘‘

’’ ہم د ل و جان سے وعدہ کرتے ہیں صدر صاحب جو آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا، ہم آپکو مرنے نہیں دیں گے کیونکہ اب صرف ایک آپ ہی تو ہمارے سر پرست رہ گئے ہیں ،اور آئندہ بھی آپ ہی اس ملک کے صدر ہونگے، آپ ایسی باتیں نہ کریں،ہم تو آپ کی فوج ہیں۔ہم اپنے ملک کو جنت بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے،ہم اس میں سائنسی حکومت قائم کریں گے۔۔۔! ‘‘
’’ سائنسی حکومت۔۔۔۔۔؟ ‘‘
سب نے سائنسی حکومت کا سن کر حیرانی سے پوزی کو دیکھا جیسے سائنسی سے مراد ایٹم بم ہو
’’ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔! برٹرینڈ رسل کے مطابق سائنسی حکومت سے مُراد ایسی حکومت ہے جو مطلوبہ نتائج دے سکے ۔حکومت جتنا زیادہ مطلوبہ نتائج دے سکے گی اتنی ہی زیادہ سائنسی کہلائے گی۔پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے شعلے بھڑکانے کی ذمہ د ار حکومتیں غیر سائنسی تھیں، کیونکہ وہ تمام کی تمام اس جنگ کی وجہ سے زوال پزیر ہوگئیں ۔‘‘
’’ اسکا مطلب ہے کہ میری حکومت تو بہت ہی زیادہ غیر سائنسی تھی۔۔۔ ! میں نے تو ساری قوم کو ہی تباہ کردیا۔ میں ایک نا کام صدر اور نا کام انسان ہوں جس نے نا اپنے ملک و قوم کی قدر کی ناہی انسانیت کی۔۔۔۔۔۔! اسی لئے میں بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔! ‘‘
پھر اُنہوں نے ننھی چڑیا کے پیر سے بندھی ز نجیر کو کھول کر اسے آزاد کیا ،چڑیا چہچہاتی ہوئی باہر نکل گئی، اور اسکے ساتھ ہی صدر صاحب کی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔
جیکی ایک چیخ ما ر کر ڈیڈی پر جھک گیا،پوزی اور الیکٹرا کی بھی آنکھوں میں آنسو تھے۔یہ ایک انسان کی موت نہیں تھی ،یہ ایک خوفناک دور کا عبرت ناک اختتام تھا۔پوزی اُٹھ کر کیبن کے دروازے پر جا کھڑا ہوا،اور مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو بڑے عزم کی ساتھ دیکھنے لگا۔۔۔۔جیسے وہاں اسے ایک نئی دنیا کا پیغام آرہا ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎    آئینہء  ایام  میں  آج  اپنی  ادا  دیکھ

سمجھے  گا  زمانہ  تیری آنکھوں کے اشارے         دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
نا  پید  تیرے  بحر  تخیل  کے  کنارے        پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی  کر  ـ‘  اثر ِ  آہِ  رسا  دیکھ

خورشیدِ جہاں تاب کی  ضو  تیرے شرر میں        آباد ہے  اک  تازہ  جہاں  تیرے ہنر میں
جچتے  نہیں  بخشے  ہوئے  فردوس نظر میں        جنت تیری پنہاں ہے  ترے  خونِ جگر  میں
اے  پیکرِ گُل کوششِ پیہم کی جزا  دیکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.