Princess Tang story-تھانگ شہزادی کی کہانی

تھانگ شہزادی کی کہانی

ساتویں صدی کے دوران ملک چین میں تھانگ سلطنت قائم تھی۔ اس سلطنت کی دنیا میں بہت شہرت اور چرچا تھا کیونکہ چینی بہت ترقی یافتہ قوم تھے۔ یہ علوم و فنون میں باقی دنیا سے بہت آگے تھے اسی لیے آس پاس کے ملکوں پر چین کا بے حد اثر ور سوخ تھا۔

تبت جیسے پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ ملک چین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا اور اس کی طرح ترقی حاصل کرنا چاہتے تھے ۔

چین کے پچپن صوبے ہیں جن میں سے ایک صوبہ شانگ شی بھی ہے اور اس صونے کا شہر چانگ آن اس وقت تھانگ حکومت کا دارالحکومت تھا اور اس وقت کا مصروف ترین اور ماڈرن شہر تصور کیا جاتا تھا۔ یہ شہر آج اتنا ہی مصروف اور معروف ہے لکین اب اس کا نام شیان پڑ گیا ہے۔

تھانگ سلطنت کی شہزادی وین چینگ نے حد خوبصورت اورغیر معمولی صلاحیتوں کی مالک تھی وہ نہ صرف تعلیم یافتہ تھی بلکہ ہر طرح کے علوم و فنون اور دستکاری میں بھی ماہر تھی۔

جب بادشاہ نے شہزاددی کی شادی کا ارادہ کر لیا تو بڑی دور دور سے اس کے لیے رشتے آنے لگے۔ انہیں امیدواروں میں سے ایک ملک تبت کا بادشاہ ’’سون سان کامبو ‘‘ بھی تھا۔ اس نے جب شہزادی کی خوبصورتی اور علم و دانش کے چرچے سنے تو اس نے بھی شادی کا پیغام بھجوا دیا۔ کامبو بے حد بہادر، با ہمت اور خدا داد صلاحیتوں سے بھر پور ایک شاندار شخصیت کا مالک بادشاہ تھا۔ آس پاس کے علاقوں پر اس کی ہمت اور بہادری کی بہت دھاک تھی جن سے آئے دن اس کی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔لیکن تبت چین کے مقابلے میں ایک کم حیثیت اور گم نام ملک تھا اسی لیے وہ سلطنت تھانگ سے بے حد متاثر تھا اور اسی کی طرح ترقی کرنے کے لیے کسی نہ کسی طرح اس سے قریبی تعلقات قائم کرنے کا خواہا ں تھاتاکہ ان کی تہذیب و تمدن کا قریب سے مطالعہ کر کے ان سے کچھ سیکھ سکے اور سلطنت تھانگ سے قریبی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔

اس کام کے لیے کامبو نے اپنے مشیر خاص ’’گار‘‘ کو اپنے رشتے کا پیغا م دے کر بھجوایا جو بذات خود بے حد زہین اور باصلاحیت شخص تھا۔ بادشہ کو رام کرنے کے لیے ایسے ہی شخص کی ضرورت تھی۔ وہ پیش بہا قیمتی تحائف اور سو گھڑ سوار لے کر روانہ ہو گیا۔

طویل سفر طے کر کے گار جب تھانگ بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو اس نے دیکھا چار اور امیدوار پہلے سے وہاں موجود تھے جو مختلف ممالک سے آئے تھے۔

بادشاہ کے لیے فیصلہ کرنا بے حد مشکل تھا کہ کون سا رشتہ اس کی شہزادی کے لیے موزوں ہو گا؟ اس کے لیے اس نے نے ایک طریقہ نکالا۔ اس نے سوچا کیو ں نہ ان پانچ امیدواروں کے درمیان ذہانت اور بہادری کے مختلف مقابلے کرائے جائیں جو جیتے گا وہی شہزادی سے شادی کا حقدار قرار پائے گا۔ اس طرح ان کے درمیان دلچسپ اور حیرت انگیز مقابلوں کا آغاز کیا گیا۔

پہلے مقابلے میں بادشاہ نے سب کو ایک ایک موتی بہت بڑے سائز کا دیا جس کے بیچ میں ایک ایساسوراخ تھا جو دوسری جانب تو مختلف راستوں سے گھوم کر نکلتا تھااس موتی میں ایک دھاگہ پرونا تھا جو بظاہر نا ممکن کام تھا تمام امیدواروں نے اس میں دھاگہ پرونے کی بہت جتن کئے لیکن ناکام رہے۔ گار کو اس کے لیے ایک ترکیب سوجھی ، اس نے ایک جیونٹی کو پکڑا اور اس کی کمر سے ایک باریک ریشم کا دھاگہ باندھ دیا اور اسے موتی کے پلے سوراخ سے اندر چھوڑ دیا اور پیچھے سے پھونک ماری ، چیونٹی راستہ تلاش کرنے کے لیے مختلف سوراخوں میں گھسی آخر کار دوسرے سرے سے باہر نکل آئی اس طرح گار دھاگہ پرونے میں کامیاب ہو گیا۔

دوسرے مقابلے کے لیے بادشاہ نے ۱۰۰ گائیں منگوائیںاور سو ہی ان کے بچھڑے منگوائے اور امیدواروں کو کہاگیا کہ ایک دن کے اندر اندر ان بچھڑوں کو پہچان کر ان کی مائو ں تک پہنچا یا جائے۔ سبھی نے کوشش کی کسی نے بچھڑوں کو رنگ سے پہچانا تو کسی نے عادتوں سے پہچاننے کی کوشش کی لیکن دس بیس سے زیادہ بچھڑے ان کی مائوں سے ملانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ گار نے یہ کام بھی ذہانت کے بل بوتے پر انجام دیا۔ اس نے تمام بچھڑوں کو الگ باندھ دیا۔ ان کو کھانے کو تو دیا لیکن پانی بالکل نہ دیا۔ سارے دن کے پیاسے بچھڑوں کو جب چھوڑا گیا تو ہر ایک دودھ پینے کے لیے سیدھا اپنی ماں کی طرف دوڑا ، اس طرخود بخود یہ مسئلہ حل ہو گیا اور یہ مقابلہ بھی گار جیت گیا۔

اگلے مقابلے کے لیے بادشاہ نے تما م امیدواروں کو محافظ بھیج کر اپنے محل میں بلوایا۔ گار لاشعوری طور پر راستے کو یاد رکھنے کے لیے تمام راستوں پر کوئی نہ کوئی نشان لگاتا چلا گیا۔ جب تمام لوگ محل میں پہنچے تو بادشاہ نے حکم دیا کہ تمام لوگ اپنی اپنی رہائش گاہوں پر واپس چلے جائیں۔ یہ ان کا مقابلہ ہے جو سب سے پہلے پہنچے گا وہی جیتے گا۔ باقی سب لوگ بے حد پریشان ہوئے کیونکہ آتے ہوئے سب کے ساتھ محافظ تھے اور کسی نے بھی راستے کی طرف دھیان نہ دیا تھا۔ بہر حال اندازے سے سب لوگ چل پڑے۔ یہاں بھی گار کی غیر معمولی ذہانت کام آئی اور سہ سب سے پہلے اپنی رہائش گاہ پر پہنچ کر یہ مقابلہ بھی جیت گیا۔

اس طرح کے اور بہت سے مقابلے کرائے گئے جن میں گار اپنی محنت اور ذہانت سے جیتتا گیا۔ لیکن آخری مقابلہ سب سے زیادہ مشکل اور بظاہر نا ممکن ثابت ہوا۔ وہ یہ تھا کہ اپنے جیسی اڑھائی ہزار لڑکیوں سے لڑکیوں سے شہزادی کو پہچاننا تھا۔ سبھی بے بالکل ایک جیسا لبا س پہنا ہوا تھااور امیدواروں میں سے کسی نے بھی پہلے شہزادی کو دیکھا ہوا تھا نہ ہی اس کی کسی خاص نشانی کا علم تھا۔ اس دفعہ تو گار بھی بہت پریشان ہوا لیکن اچانک ہی اسے خیال آیا کہ اس کی رہائش گاہ پر کام کرنے والی ایک خادمہ نے ذکر کیا تھا کہ ایک بار اس نے شہزادی کو دیکھا تھا۔ گار نے سوچا اس سلسلے میں خادمہ ضرور اس کی مدد کر سکتی ہے ۔ وہ خادمہ کے پاس پہنچا اور اس نے شہزادی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ جب وہ واپس مقابلہ کی جگہ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سبھی امیدوار اپنے تئیں شہزادی کو ڈھونڈ چکے تھے لیکن ان کی بدقسمتی اور گار کی خوش قسمتی کہ ان میں سے ایک بھی شہزادی نہ تھی۔ اب گار کی باری تھی اس نے باری باری سبھی لڑکیوں کا بغور معائنہ شروع کیا اور بالآخر اس نے ایک ایسی لڑکی ڈھونڈ نکالی جس میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو کہ خادمہ نے بتائیں تھیں اور اتفاق سے وہی شہزای نکلی۔

بادشاہ بے حد حیران ہوا لیکن گار کی صلاحیتوں کا قائل بھی ہو گیا اس نے بہت مسر اور فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ میں اس ذہین اور قابل شخص کے بادشاہ کا رشتہ اپنی شہزادی کے لیے قبول کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی زور و شور سے شہزادی کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔

شہزادی وین چینگ جیسی ماڈرن اورتعلیم یافتہ لڑکی کو جب علم ہوا کہ اس کی شادی ایک انتہائی پس ماندہ ، غیر مہذب ، دور افتادہ اور پراسرار ملک کے بادشاہ سے ہونے جارہی ہے جس کا اس نے نام بھی نہیں سنا تھا تووہ بہت گھبرائی اور پریشان ہوئی کہ جس ملک میں وہ اب زندگی گزارنے جا رہی ہے اس کے رہن سہن، تہذیب و تمدن، اور رسم و رواج تک کے بارے میں اسے علم نہ تھا لیکن جب اس نے دیکھا کہ بادشاہ اس رشتے کے بارے میں سنجیدہ ہے اور وہ گار کی ذہانت ، بہادری اور صلاحیتوں کا قائل ہو چکا ہے تو شہزادی اس کو اپنی قسمت کا فیصلہ اور اپنے باپ کا حکم سمجھ کر چپ ہو گئی۔ لیکن اس نے یہ شرط ضرور رکھی کہ اس کے ساتھ اس کے محل میں بیز پچیس کنیزوں کو جو اس کی ہم عمر اور ہم خیال ہوں ساتھ بھیجا جائے تاکہ وہ ان کے ساتھ دل بہلا سکے۔ اس کے علاوہ اپنی تما م کتابیں بھی ساتھ لے کر جائے گی ۔ بادشاہ کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔

شہزادی کے شایانِ شان اس کا جہیز تیار ہونے لگا جس میں گھریلو استعمال کی تمام چیزوں کے علاوہ نے شمار کتب موجود تھیں جن میں چینی ادب و شاعری کے علاوہ تھانگ سلطنت کی تاریخ، چین میں تیار کی جانے والی مختلف مصنوعات پر کتب ، چینی آرٹ کی ۳۶۰ مختلف اقسام اور ۶۰ مختلف کرافٹس اور دستکاری پر کتب تھیں۔ اس کے علاوہ چینی زراعت سے متعلق معلوماتی کتب اور وہاں کی زرعی پیداوار کے بیج اور ریشم تیار کرنے والے کیڑے تک ہر چیز شہزادی کے جہیز میں شامل تھی جو اس کے ملک کی ترقی کے جاننے میں تبت کے لوگوں کے کام آ سکتی تھی۔ چین ہمیشہ سے ہی اپنے پڑوسی اور دوست ملکوں کے لیے مخلص اور ان کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار رہا ہے حتیٰ کہ اس نے اپنی ترقی کے راز بھی ان سے نہیں چھپائے اور یہی تمام چیزیں تبت کے بادشاہ کو مبو کو بھی چاہیے تھیں تاکہ اس کا ملک بھی ترقی کر سکے۔

جب شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکیں تو بادشاہ نے نہایت شاندار طریقے سے بیٹی کو رخصت کیا۔ اس تقریب میں حکومت کے تمام وزراء اور امراء شریک تھے۔ شہزادی گار کے ساتھ رخصت ہوئی تو وزیر ثقافت ان کے ساتھ گیا۔ شہزادی کے ساتھ اس کے جہیز میں ہزاروں کی تعداد میں ہنر مند ، فنکار ، اور دستکار بھی شامل تھے تاکہ وہ لوگ تبت کے لوگوں کو بھی جاکر اپنا ہنر سکھا سکیں۔

چین کے صوبہ شنگھائی کے جنوبی شہر ’’ہے یان‘‘میں تبت کے بادشاہ کامبو نے شہزادی کو لینے کے لیے آنا تھا جہاں تک شہزادی اور ا س کے ساتھی ایک ماہ کا سفر طرے کر کے پہنچے تھے اسی طرح کامبو بھی اپنے محافظوں کے اور باراتیوں کے ساتھ ایک طویل اور دشوار گزار سفر طے کر کے جنوبی شنگھائی پہنچا تھاجہاں ان کی شادی کی رسومات انجام پانی تھیں جس کے لیے ’’ہے یان‘‘ میں تھانگ بادشاہ نے خصوصی محل تعمیر کروایا تھا۔

وہاں وزیرِثقافت کی نگرانی میں ان کی شادی بخیر و خوبی انجام پائی۔ کامبو نے وزیر ثقافت کو سسرالی ہونے کے ناطے سے بے حد عزت دی اوراس کے ہاتھ بادشاہ کو اپنی نیک خواہشات پہنچائیں۔ اس کے بعدکامبو کا قافلہ شہزادی کے قافلے سمیت ملک تبت کی طرف روانہ ہوگیا۔ ان کا سفر تبت کے دارالحکومت ’’لاسا‘‘ کے لیے تھا۔

تبت کے لوگ شہزادی وین چینگ کا استقبال کرنے کے لیے بے چین تھے۔ انہوں نے بے حد مسر ت کا اظہار کیا اور تبت کے دشوار گزار راستوں کو آسان بنانے کے لیے ہر ممکن مدد کی۔ ہر طرح کی سوری گھوڑے ، خچر ، بیل ، کشتیاں، اور خوراک مہیا کی۔ چینیوںجیسی ترقی یافتہ قوم کے لیے خصوصاََ شہزادی کے لیے یہ ایک بالکل نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ جس کو اس نے بڑے صبر سے گزاراکیونکہ وہ جانتی تھی کہ سب کچھ چین اور تبت کے درمیان بھائی چارے اور دوستی کے لیے ضروری ہے۔

ایک طویل ، مشکل اور تھکا دینے والا سفر طے کر کے جب یہ قافلہ لاسا پہنچا تو لاسا اور آس پاس کے علاقوں کے سبھی لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے اور تھانگ شہزادی اور اپنی ملکہ کو ایک نظر دیکھنے کے لیے بے چین تھے۔

لاسا میں سبھی لوگ لکڑی اور پتھر سے بنے ہوئے گھروں میں رہتے تھے لہٰذا ان کا بادشاہ کامبو بھی اسی طرح کے ایک گھر میں رہتا تھا لیکن اب سے نے اپنی ملکہ کے اعزاز میں اسی کی شایان شان ایک محل تعمیر کرایا تھا جہاں اس نے شاندار طریقے سے دعوت ِ ولیمہ کا اہتمام کیا تھا اس کے بعد انہوں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔

تبت کے لوگ بے حد پس ماندہ اور غیر تہذیب یافتہ تھے جو صرف مویشی چرانااور آس پاس کے قبیلوں سے لڑنا جانتے تھے۔ شہزادی کو یہ دیکھ کر بہت دکھ اور افسوس ہتا جو ہنر مند لوگ شہزادی کے ہمراہ آئے تھے انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اپنے فن سے مستفید کرنا شروع کر دیا۔ انہیں پتھر پیس کر مٹی کے برتن بنانا سکھائے، لوہے کے اوزار اور ہتھیار بنانا سکھائے، زراعت اور کھیتی باڑی کے گر سکھائے، کھڈی پر کپڑا بننا سکھایا، سلک کے کیڑوں کے ذریعے دھاگہ اور ساٹن بنانا سکھائی۔

کامبو اور اس کی عوام جو پلے جانور کی کھال اور فر کا لباس پہنتے تھے انہوں نے آہستہ آہستہ یہ لباس ترک کرکے کپڑے سے تیار کئے ہوئے لباس استعمال کرنے شروع کر دیے۔

تبت کے لوگ لادین تھے، ان کا کوئی مذہب نہیں تھا، جبکہ شہزادی وین چینگ بد ھ مذہب کی پیروکار تھی اور وہ جانتی تھی کہ بغیر دینی تعلیم کے انسان ایک جانور کی طرح ہوتا ہے اور کوئی اچھا کام نہیں کر سکتا جبکہ برائی کی طرف بہت جلدی راغب ہو جاتا ہے لہٰذا وہ اپنی عوام کو دینی تعلیم دینا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کامبو نے دارالحکومت لاسا میں بدھ مذہب کی بنیاد رکھی اور ایک بڑی عبادت گاہ ’’چوکھان ‘‘ کے نام سے تعمیر کرائی۔ جب یہ عبادت گاہ تیار ہوگئی تو شہزادی نے بدھا کا وہ مجسمہ وہاں نصب کیا جو وہ شیان سے اپنے ساتھ لائی تھی۔

اس عبادت گاہ کے چاروں طرف شیروں کے مجسمے بنا کر لگائے گئے ، یہاں یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ جب شہزادی عبادت گاہ کا معائنے کے لیے آئی تو جو سنگ تراش شیروں کے بت بنا رہا تھا وہ شہزادی کے حسن کو دیکھ کر اس قدر مبہوت ہوا کہ بے خیالی می ناس شیر کی ناک کٹ گئی جس کو وہ بنا رہا تھا اس پتھر کے بت کے ناک دوبارہ بنانا ممکن نہ تھا لہٰذا اس نے تمام شیروں کی ناکیں توڑ دیں تاکہ سب ایک جیسے نظر آئیں ۔ آج بھی اگر ان شیروں کو غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ سب شیر بغیر ناکوں کے ہیں۔

اس عباد ت گاہ میں شہزادی وین چینگ باقاعدگی سے آکر لوگوں کو مذہب اور اخلاقیات پر درس دیتی تھی۔ اس کے علاوہ تھانگ تہذیب اور ہاں کے لوگو ں کے طور طریقوں اور رہن سہن کے بارے میں بھی تبت کے لوگوں کو بتاتی تاکہ وہ بھی اپنے رہن سہن میں بہترتبدیلیاں لا سکیں۔

جیسے جیسے تبت میں معاشرت اور ثقافت کو فروغ ملا نہیں اپنا حساب کتاب کرنے کے لیے لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی ، پہلے تو وہ اپنے کاموں کا حساب کتاب کرنے کے لیے لکڑی پر کوئلے سے نشان لگاتے تھے یا اپنے واقعات یاد رکھنے کے لیے رسی میں گرہیں لگاتے تھے۔

تحریری دستاویزات کی ضرورت اور اہمیت سے بخوبی آگاہ شہزادی نے کامبو کو یہ احساس دلایا کہ لکھنا اور پڑھنا کسی بھی حکومت اور عوام کی ترقی کے لیے کتنا اہم اور ضروری ہوتا ہے لہٰذا کامبو نے اپنی حکومت کے اعلیٰ حکام کو یہ ہدایت کی کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے ہم اپنی زبان کو لکھ سکیں اس کے لیے انہوں نے اپنی زبان میں تیس حروف ابجد تیار کئے ۔

ان حروف ابجد کو محل میں ایک بڑی سی پتھر کی میز پر کنندہ کیا گیا جس کی باقائدہ تقریب ِ رونمائی کی گئی، یہ تبت میں تحریری زبان کا آغاز تھا۔ آج بھی وہ ابتدائی تحریری دستاویزات موجود ہیں جس میں بدھ مذہب پر تحاریر ، تھانگ سلطنت کی تاریخ قابل ذکر ہیں ۔ اس زبان کی بھی اپنی ایک مکمل تاریخ موجود ہے۔

اس کے بعد چینی دستکاروںاور ماہر فن لوگوں نے تبت کے لوگوں کو کاغذبنانا اور سیاہی تیار کرنا سکھایا تاکہ باقائدہ تعلیم کا آغاز ہو سکے۔

تبت کا اپنا کوئی سالانہ کیلنڈر نہ تھا، جب موسم بہار کے آغاز پر جو کی فصل پکتی تھی تو وہ خوشی مناتے تھے اور اسی کو اپنے نئے سال کا آغاز سمجھتے تھے لیکن جیسے جیسے ان کی معاشرت نے ترقی کی اورتعلیم کو فروغ ملا انہیں سالانہ کیلنڈر کی اہمیت اور ضرورت کا احساس ہوا تب شہزادی نے وہاں تھانگ کیلنڈر متعارف کرایا جس کی بنیاد پر کیلنڈر ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ان کے بارہ مہینے بارہ مختلف جانوروں کے نام پر رکھے جاتے ہیں گو کہ اب بھی چین اور تبت جیسے ملکوں میں سال کا آغاز فروری کے مہینے سے ہی ہوتا ہے یعنی جب بہار کا آغاز ہوتا ہے تو یہ پورا مہینہ نئے سال کی خوشی بہت جوش ور خروش سے مناتے ہیں اور تقریباََ پورا مہینہ قومی چھٹیاں منائی جاتی ہیں۔

اس کے علاہ عوام کی اصلاح کے لیے قوانین اور ضوابط بھی بنائے گئے تاکہ انہیں اچھائی اور برائی، گناہ اور ثواب  اور جرم اور سزاکی اہمیت سے روشناس کرایا جا سکے اور ملک میں نظم و ضبط قائم ہو سکے۔

موسیقی کے آلات بھی انہیں استعمال کرنا سکھائے جو شہزادی اپنے ساتھ لائی تھی۔ موسیقار اور فنکاروں نے انہیں اس فن کی بھی تعلیم دی اور و ہ تمام گیت سکھائے جو وہ اپنی مذہبی تہواروں اور قومی دنوں میں گاتے تھے۔ غرضیکہ اس درندہ صفت قوم کو ایک مہذب قوم بنانے کے لیے شہزادی وین چینگ نے بے حد محنت کی اور اس مثال کا عملی نمونہ پیش کیا کہ ایک پڑھی لکھی عورت ایک قوم کو پڑھا لکھا بنا سکتی ہے۔

ملکہ وین چینگ کی خوبیوں اور صلاحیتوں نے نہ صرف بادشاہ کامبو کو بلکہ اس کی پوری عوام کو اپنا معتقد اور گرویدہ بنا لیا تھا اور وہ اپنی عوام کی ہر دل عزیز ملکہ بن گئی تھی۔

تب سے لے کر آج تک تبت کے لوگ ملکہ وین چینگ کی بنائی ہوئی اس چوکھان عبادت گاہ کی زیارت کو آتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں وہ نہ صرف ہر سال اس عبادت گاہ پر عبادت کے لیے آتے ہیں بلکہ وہاں لگے ہوئے بید مجنوں کے درخت کو بھی مقد س جان کر اس کی زیارت کرتے ہیں جس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ ملکہ وین چینگ نے اسے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔

شہزادی وین چینگ نے اپنی پوری زندگی اس جاہل اور ان پڑھ قوم کو سدھارنے پر صرف کر دی اور کبھی اپنے والدین سے اس بات کی شکایت نہ کی کہ اس کو کہاں بیاہ دیا گیاتھا؟

شہزادی وین چینگ ۱۵ اپریل ۶۴۱ میں بیاہ کر ملک تبت آئی تھی اور ۶۸۰ میں اس کا انتقال ہوا۔

اس کی وفا ت کے بعد ہر سال اپنے کیلنڈر کے مطابق ۱۵اپریل کو ملک تبت کے لوگ قومی تہوار کے طور پر بڑے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ اس دن ملکہ کہ یاد میںقومی تعطیل ہوتی ہے اور اس تہوار کو وہ ’’ساگی ٹاوا‘‘ کہتے ہیں۔

سال کا دوسرا بڑا تہوار ۱۵ اکتوبر کو منا یاجاتا ہے جو شہزادی کی سالگرہ کی خوشی میں ہوتا ہے۔ یہ دن بڑے بھرپور طریقے سے اپنے علاقائی رسم ورواج کے مطابق منایا جاتا ہے ۔ اس دن لوگ نئے کپڑے پہن کر ان تقریبات میں شریک ہوتے ہیں جو شہزادی کی یاد میں منعقد کی جاتی ہیں جہاں وہ ڈرامے ، گیت اور رقص پیش کیے جاتے ہین جو شہزادی کی یاد میں لکھے گئے ہیں۔

ملکہ وین چینگ کا مزار بھی ہے جہاں لوگ زیارت اور دعا کے لیے جاتے ہیں اورہر اس مقام پر یادگاریں تعمیر کی گئیں جہاں جہاں بھی ملکہ باقائدگی سے جایا کرتی تھیں۔

یہ سب تبت کی عوام کی شہزادی وین چینگ سے محبت اور عقیدت کا ثبوت ہے۔ وہ شہزادی کے بے حد احسان مند تھے کیونکہ اس ملک کی معاشی ، معاشرتی ، ثقافتی اور مذہبی ترقی سب اس کی بدولت تھی۔

شہزادی وین چینگ بلاشبہ اپنے والدین کی امیدوں پر پوری اترتی اور اس نے دو مختلف تہذیبوں کے ملکوں کے درمیان محبت ، بھائی چارے اور دوستی کی اعلیٰ مثال قائم کی ۔

 

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.