Shararty Khargosh- شرارتی خرگوش بُرا پھنسا

    خرگوش نے لومڑ کو بہت تنگ کر رکھا تھا، وہ اس بے چارے کو بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھااسی لئے لومڑ بھی ہر وقت خرگوش سے بدلہ لینے کے چکر میں رہتا تھا،مگر خرگوش بھی اتنا چالاک تھا کہ کوئی ایسا موقع آنے ہی نہیں دیتا تھا کہ لومڑ اس سے بدلہ لے سکے۔

            آخر ایک دن لومڑ کو ایک ایسا موقع مل ہی گیا جس سے وہ خرگوش کو پھنسا سکتا تھا۔اس دن لومڑ شہر جانے والی پکی سڑک پر ٹہل رہا تھا کہ اس نے دیکھا سڑک کے کنارے کچھ تار کول پڑی ہے،شاید سڑک بنانے کے بعد بچ گئی ہوگی تو اُنہوں نے سڑک کے کنارے پھینک دی۔اس تارکول کو لومڑ اپنی ساتھ اُٹھا لایا اور خرگوش کے بھٹ کے قریب ہی راستے پر اس نے تار کول سے ایک بچہ بنایا،وہ بالکل کالے رنگ کا ایک انسانی بچہ لگتا تھا۔پھر اس نے بچے کے منہ پر ایک ہیٹ بھی رکھ دیا جس سے اسکا منہ قدرے ڈھک گیااور وہ بالکل اصلی دکھائی دینے لگا۔خرگوش کے گھر کے راستے میں اس تارکول کے بچے کو کھڑا کر کے پہلے لومڑ نے دریا پر جا کر اپنے دھوئے کیونکہ اس نے تارکول کو ہاتھ لگانے سے پہلے اپنے ہاتھو پر بہت سا تیل مل لیا تھا تاکہ وہ اس کے ہاتھوں پر چپک کر ہی نہ رہ جائے۔ہاتھ دھو کر لومڑ ایک نزدیکی جھاڑی میں چھپ کر بیٹھ گیا اور خرگوش کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔

                        اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا،تھوڑی دیر میں ہی خرگوش اپنے بھٹ سے نکلا ،وہ لسٹم پسٹم اسی راستے پر چلا آرہا تھاکیونکہ اس سے بھی زیادہ دیر گھر پر ٹک کر نہیں بیٹھا جاتا تھاوہ کسی نہ کسی کو ستانے کے لئے نکل کھڑا ہوتا تھا۔

            راستے میں خرگوش کی نظر تار کول سے بنے بچے پر پڑی تو وہ رک گیا اور حیرت سے اسکو چاروں طرف گھوم گھوم کر دیکھاپھر اسکی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا؛

            ’’ ہائے۔۔۔۔۔۔! ہیلو کا لو میاں کیا حال ہے آپ کا۔۔۔؟‘‘

            وہ بچہ خاموش کھڑا رہاتو خرگوش شرمندہ سا ہو کر بولا؛’’آج موسم کتنا اچھا ہے نا۔۔۔؟ ‘‘

                        وہ بچہ پھر بھی نہ بولا،لومڑ جھاڑی میں لیٹاخاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا

            ’’ آپ یقیناًموسم انجوائے کرنے کے ئے اِدھر جنگل میں آ نکلے ہونگے۔۔۔۔۔میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں!‘‘

                        لڑکا پھر بھی نہ بولا توخرگوش نے کہا؛

            ’’ تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟کیا بہرے ہو۔۔۔۔؟اگر ایسا ہے تو میں زور سے بولتا ہوں۔‘‘

            اس بار وہ چیخ کر بولامگر بچے نے پھر بھی جواب نہیںدیا تو خرگوش کو غصہ آ گیا،وہ بولا؛

            ’’ آخر تم ہو کیا چیز۔۔۔؟کیا یہاں چپک کر رہ گئے ہو۔۔۔؟ کیوں اس طرح ساکت کھڑے ہو۔۔۔؟ میں تم سے تمیز سے بات کر رہا ہوں اور تم ہو کہ جواب ہی نہیں دیتے۔۔۔۔کیا تمہیں بڑ وں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔۔؟‘‘

                        لڑکے نے پھر بھی جواب نہیں دیا،اسکی لا پرواہی پر خرگوش کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔

            ’’ ٹہر جاؤ۔۔۔۔۔میں تمہیں ابھی مزہ چکھاتا ہوں۔۔۔۔!‘‘

            یہ کہہ کر خرگوش نے لڑکے کو ایک گھونسہ رسید کیا۔ مگر اسکا گھونسہ لڑکے کے منہ پر چپک کر رہ گیا،کیونکہ گرمی سے تارکول نرم پڑچکا تھا۔ اب تو خرگوش بہت حیران و پریشان ہوا اور چیخا؛

            ’’ چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔میں کہتا ہوںچھوڑو ورنہ اور ماروں گا۔۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر اس نے لات ماری اور اس کا پاؤںبھی لڑکے کی ٹانگ پر چپک گیا۔

            خرگوش تو گھبرا گیا،اس نے سوچا یہ ضرور کوئی جن بھوت وغیرہ ہے جو اسکو مجھ سے پنگا لینے کی جرات ہوئی۔۔۔! مگر جن بھوت ہے تو کیا ہواہے تو بچہ ہی نا۔۔۔۔۔میں بھی اسے چھوڑوں گا نہیں۔یہ سوچ کر خرگوش نے اس کے پیٹ میںپوری قوت سے اپنا سر دے مارا۔۔۔۔۔اور سر بھی وہیں چپک گیا۔۔۔! تب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا،مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔

            ’’ میں کہتا ہوں چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔! بھوت کے بچے تم ہو کیا چیز۔۔۔۔مجھے ایک دفعہ چھوٹ جانے دومار مار کر تمہارا بھرکس نکال دونگا، چھوڑو مجھے ۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر خرگوش نے اپنے چاروں ہاتھ پاؤںاور سر سب کچھ چپکا لیا،اب وہ ہل بھی نہیں سکتا تھا۔

                        اب لومڑ جھاڑیوں سے باہر نکل آیا،اسکا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو رہا تھا۔وہ خرگوش کو دیکھ دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھااور زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھااسے اپنے منصوبے کی کامیابی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

            ’’ کیا حال ہے تمہارا مسٹر بنی۔۔۔۔؟‘‘ لومڑ بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پا کر بولا،’’ تم خود کو بہت عقل مند سمجھتے تھے نا۔۔۔۔؟ اور مجھے پاگل بناتے تھے،اب میرا خیال ہے کہ آئندہ تم مجھے کبھی بے وقوف بنانے کی کوشش نہیں کروگے،چلو اسی خوشی میں میں تمہیں لنچ کراتا ہوں ۔ میںنے تمہارے لئے بہت سے مٹر ،رس بھری،اسٹرا بیری اور چوہیا کی کُتری ہوئی گاجریں رکھی ہیں،یہ سب تمہیں پسند ہیں نا۔۔۔؟‘‘

            خرگوش خاموش رہا،ظاہر ہے لومڑ کے سامنے بے عزتی ہوگئی تھی بولتا بھی کیا۔

                        ’’تم ہر اس جگہ جا گُھستے ہو جہاں تمہارا کام بھی نہیں ہوتا۔۔۔! تمہیں کیا ضرورت تھی اس تارکول کے لڑکے سے حال چال پوچھنے کی۔۔۔؟پھر چلے تھے اسے سبق سکھانے۔انسان کو کسی ایسی جگہ نہیں جانا چاہیئے جہاں اسکا کام نہ ہو،نہ ہی اجنبی لوگوں سے پنگا لینا چاہیئے ورنہ یہی انجام ہوتا ہے جو آج تمہارا ہوا۔مسٹر بنی آج تم اپنی بے وقوفی سے پھنسے ہو۔۔۔۔ورنہ تم جیسے چالاک اور مکار بنی کو کوئی اسطرح نہیں پھنسا سکتا۔۔۔۔! اب مان لو کہ تم بھی بے وقوفی کر سکتے ہو۔‘‘

                        خرگوش خاموشی سے سنتا رہا۔۔۔۔!

            لومڑ پھر بولا؛’’تم یہاں اس وقت تک چپکے رہوگے جب تک میں آگ نہ جلا لوں، آگ جلا کر میں تمہیں بھونوں گا،آج میں بنی روسٹ کا لنچ کرونگا۔‘‘

            بھون کر کھانے کے ذکر پر خرگوش کے کان کھڑے ہوئے۔اس نے سوچا اس لومڑ کو میں نے اتنا ستایا ہے کہ یہ واقعئی مجھے بھون کر تو کیا کچا بھی کھا سکتا ہے ۔ اس نے دیکھا لومڑ واقعئی آگ جلانے کیلئے جھاڑیاں اکھٹی کر رہا ہے۔۔۔ بڑی بڑی خاردار جھاڑیاں۔۔۔۔!جو جنگل کی سب سے زیادہ خطرناک جھاڑیاں سمجھی جاتی تھیں جن میں لمبے لمبے کانٹے بھی ہوتے تھے۔یہ دیکھ کر خرگوش کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔اب اس نے لومڑ کی منت سماجت شروع کردی،وہ بولا؛

            ’’لومڑ بھائی۔۔۔۔۔۔۔یہ تم جنگلی جھاڑیاں کیوں اکھٹی کر رہے ہو۔۔۔؟‘‘

            ’’ان جھاڑیوں کے ڈھیر پر تمہیں پھینکوںگا ۔۔۔۔۔۔پھر نیچے آگ جلا دونگا اور تمہیں خوب بھونوںگا۔۔۔۔ بھون کر کھاؤنگا۔‘‘لومڑ بولا

            ’’ نہیں نہیں لومڑ بھائی،خدا کیلئے ایسا نہ کرنا،مجھے ان جنگلی جھاڑیوں پر مت پھینکنابہت تکلیف ہوگی۔۔۔۔! بے شک تم مجھے بھون کر کھاؤ یا کچا ہی چبا جاؤ مگر جنگلی جھاڑیوں پر مت پھینکنا۔‘‘

            ’’ہاں ویسے بھی اس وقت میرے پاس ماچس نہیں ہے ۔۔۔!‘‘ لومڑ سوچتے ہوئے بولا؛’’ میرا خیال ہے کہ آگ جلا کر تمہیں بھوننے کی بجائے اُس درخت پر اُلٹا کیوں نہ لٹکا دوں۔۔۔۔۔آخر تمہیں کوئی سزا تو ملنی ہی چاہیئے ۔۔۔!‘‘

            ’’ بے شک مجھے سب سے اُونچے درخت پر اُلٹا لٹکا دو۔۔۔۔۔۔مگر مجھے جنگلی جھاڑیوں پر مت پھینکنا۔۔۔!‘‘ خرگوش نے پھر التجا کی

            ’’ہوں ں ں ں۔۔۔۔۔۔۔!لومڑ بولا؛’’ اب میرے پاس کوئی رسی بھی نہیں ہے جس سے تمہیں درخت پر لٹکاؤں، میرا خیال ہے کہ تمہیں دریا میں ڈبو دوں۔۔۔!‘‘

            ’’ جتنے چاہے گہرے دریا میں ڈبودو۔۔۔۔۔۔۔مگر جنگلی جھاڑیوں پر مت پھینکنا۔۔۔!‘‘

            ’’ہوں ں ں ں۔۔۔۔!آس اپس کوئی دریا بھی نہیںجہاں تمہیں ڈبوؤں، میں تمہاری کھال کیوں نہ کھینچ لوں۔۔۔۔؟‘‘لومڑ پھر سوچ میں پڑ گیا۔

            ’’جس طرح چاہے کھال کھینچ لو۔۔۔۔۔۔۔مگر جنگلی جھاڑیوں پر مت پھینکنا،اس میں بہت خطرناک کانٹے ہوتے ہیں جو بہت تکلیف دیتے ہیں۔‘‘خرگوش ایک ہی بات دہرا رہا تھا

                        لومڑ خرگوش کو ایسی سزا دینا چاہتا تھاجس میں اسے زیادہ سے زیادہ تکلیف ہو،اوراب اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ سب سے زیادہ تکلیف خرگوش کو جنگلی جھاڑیوں پر پھینکنے سے ہوگی،کیونکہ اسے ہر سزا بخوشی قبول ہے مگر جنگلی جھاڑیوں سے ڈرتا ہے ۔۔۔۔۔لہذااسے جھاڑیوں پر ہی پھینکنا چاہیئے۔

             پھر لومڑ نے خرگوش کو تارکول کے لڑکے سے الگ کرنے کیلئے اسکی پچھلی دونوں ٹانگیں پکڑ کر کھینچا اورگھما کر جنگلی جھاڑیوں پر پھینک دیا۔اب وہ خرگوش کی تکلیف کا مزہ لینا چاہتا تھا۔

                        لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔! خرگوش نے چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں سے نکل بھاگا۔وہ اوپر پہاڑی پر جا کربیٹھ گیا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔

            لو مڑ بڑا حیران ہواکہ یہ جھاڑیوں سے کیسے نکل بھاگا۔۔۔۔اسے تو کوئی سزا نہ ملی بلکہ اُلٹا ہنس رہا ہے۔۔۔۔! یعنی کہ اس نے مجھے پھر بے وقوف بنا دیا۔۔۔۔!

            ’’ ارے او لومڑ۔۔۔۔۔تم کیا سمجھتے تھے کہ میں ان جنگلی جھاڑیوں پر گر کر زخمی ہوجاؤں گااور تکلیف اُٹھاؤں گا۔۔۔۔! ارے بے وقوف میں تو پیدا ہی انہیں جھاڑیوں میں ہوا ہوں،ساری عمر انہی میں کھیل کھیل کر بڑا ہوا ہوں۔۔۔۔۔مجھے بھلا ان سے کیا تکلیف ہوگی۔۔۔۔!‘‘

                        تب لومڑ کو عقل آئی کہ وہ باربار جھاڑیوں کا ذکر اس لئے کر رہا تھاکہ میں اسے سخت سزا سمجھ کر جھاڑیوں پر پھینکوں اور یہ بھاگنے میں کامیاب ہوجائے۔۔۔!مگر اب کیا ہو سکتا تھااب تو خرگوش گیا ہاتھ سے۔اب لومڑ کو سمجھ آگئی تھی کہ وہ واقعئی بہت بے وقوف ہے اور خرگوش کو نہیں ہرا سکتا۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.