ہنس مُکھ شہزادہ

                                                                               

 

        ایک دفعہ کا ذکر ہے ،شہر کے درمیان میں ایک اونچے ستون پر ایک خوبصورت مجسمہ کھڑا تھا۔یہ ہنس مَکھ شہزادے کا مجسمہ تھا،اس پر سونے کی پتریاں چڑھی ہوئی تھیں،آنکھیں چمکتے ہوئے نیلم کی تھیں اور اس کی تلوار میں ایک بڑا سرخ رنگ کا یاقوت لگا ہوا تھا۔

                لوگ اس مجسمے کی بہت عزت کرتے تھے،اس کی تعریفیں کیا کرتے تھے اور اس کی خوبصورتی بیان کرنے کے لئے طرح طرح کی مثالیں دیا کرتے تھے۔شہر کے بڑے بڑے معزز لوگ آرزو کیا کرتے تھے کہ انہیں بھی اتنی ہی عزت اور شہرت ملے کہ ان کا مجسمہ بھی اس طرح چوک پر لگایا جائے۔

                ’’تم اُس ہنس مُکھ شہزادے کی طرح کیوں نہیں بن جاتے۔۔۔؟‘‘ایک سمجھدار ماں نے اپنے بچے سے کہا جو چاند مانگنے کی ضد کر رہا تھا؛’’اس شہزادے نے تو کبھی اس طرح کی چیزیں مانگنے کی ضد نہیں کی ہوگی۔۔۔۔!‘‘

                ’’مجھے خوشی ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو خوش اور مطمئن ہے۔۔۔!‘‘ ایک نا امید اور زندگی سے مایوس شخص نے مجسمے کو دیکھ کر کہا۔

                ’’یہ تو بالکل فرشتہ لگتا ہے۔۔۔!‘‘ پاس سے گزرتے ہوئے سکول کے بچوں نے کہا

                ’’ تم کیسے جانتے ہوں۔۔۔؟‘‘ان کے حساب کے استاد نے کہا؛’’تم نے کبھی فرشتی دیکھا ہے۔۔۔؟‘‘

                ’’ہاں ہم نے خواب میں فرشتہ دیکھا ہے۔۔۔!‘‘ بچے بولے،اور حساب کے استاد نے ان کو گھور کر دیکھا کیونکہ وہ بچوں کو خواب دیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔

                                ایک رات اس شہر میں ایک ابابیل گھوم رہا تھا،جس کے ساتھی چھہ ہفتے پہلے ہی وہاں سے کوچ کر کے مصر جا چکے تھے لیکن وہ وہاں رک گیا تھا کیونکہ اس کو دریا کے کنارے کھڑے نُرسل کے ایک خوبصورت پودے سے محبت ہوگئی تھی۔ابابیل اس سے شروع بہار میں ملا تھاجب وہ دریا کی روپہلی لہروں پر اڑتا ہوا ایک پیلی تتلی کا پیچھا کر رہا تھا اور تب وہ اس خوبصورت لہلہاتے پودے کو دیکھ کر رک گیا تھا

                ’’ کیا میں تم سے محبت کر سکتا ہوں۔۔۔؟‘‘ابابیل نے فوراً ہی سوال کیا تھا۔۔۔۔۔۔ نُرسل نے جھُک کر اس کو خوش آمدید کہا تھا اور ابابیل خوشی سے اس خوبصورت پودے کے گرد چکر لگانے لگا اور اپنے پروں سے دریا کی ر و پہلی لہروں کے چھینٹے اڑانے لگا تھا،یہ اس کی محبت کا اظہار تھا ۔ اسی طرح بہار کا موسم گزر گیا۔۔۔۔ اور پھر گرمی کا بھی۔

                ’’ یہ ایک احمقانہ تعلق ہے۔۔۔!‘‘ابابیل کے ایک ساتھی نے کہا،’’سارا دریا اسی قسم کے پودوں سے بھرا پڑا ہے۔۔۔۔اور یہ پودے تو ہر دریا کے کنارے مل جاتے ہیں۔۔۔!‘‘

                اور جب سرد ی شروع ہوئی تو ابابیل کے ساتھی اس کو چھوڑ کر مصر کوچ کر گئے۔ان کے جانے کے بعد ابابیل خود کو بہت تنہا محسوس کرنے لگا،اب وہ نُرسل سے تھک چکا تھا کیونکہ وہ ہر وقت خاموش رہتا تھا۔تب ابابیل کو احساس ہوا کہ نُرسل تو ایک پودا ہے جو اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کر سکتا اور میں ایک پرندہ ہوں جو سفر کو پسند کرتا ہے اور کبھی ایک جگہ پر نہیں رہ سکتا تو بھلا یہ پودا میرا ساتھ کیسے دے سکتا ہے۔۔۔۔؟پھر بھی ابابیل نے نُرسل سے پوچھا؛

                ’’کیا تم میرے ساتھ چلو گے۔۔؟‘‘  نُرسل نے نفی میں سے ہلا دیا،ابابیل کو بہت مایوسی ہوئی اور وہ نُرسل کو خدا حافظ کہہ کر اُڑ گیا تاکہ اپنے ساتھیوں تک پہنچ جائے۔

                                وہ دن بھر اُڑتا رہا۔۔۔۔۔۔۔!اور جب رات ہوگئی تو وہ سونے کے لئے جگہ ڈھونڈنے لگا،اس کو ایک مجسمہ نظر آیا

                ’’آہا میں یہاں رات گزاروں گا۔۔۔۔!‘‘ ابابیل مجسمے کو دیکھ کر خوش ہوا،کیونکہ وہ بہت اونچا اور کھلی فضا میں تھا۔وہ سونے کے لئے مجسمے کے قدموں میں لیٹ گیااور سوچنے لگا

                ’’ لگتا ہے کہ میں ایک سنہری بیڈ روم میں ہوں۔۔۔!‘‘ کیونکہ وہ ہنس مُکھ شہزادے کو مجسمہ تھا جو سونے کی پتریوں سے بنا ہوا تھا۔جیسے ہی ابابیل نے سونے کے لئے اپنے پروں میں سر چھپایاپانی کا ایک قطرہ اس پر آگرا،اس نے پروں سے سر نکال کر اِدھر اُدھر دیکھا اور بولا؛

                ’’کتنی حیرت کی بات ہے کہ آسمان پر تو ایک بھی بادل نہیں پھر بھی بارش ہو رہی ہے۔۔۔!واقعی یورپ کے موسم کا کوئی اعتبار نہیں، نُرسل کو بارش بہت پسند ہے۔۔۔۔۔لیکن یہ اس کی خود غرضی ہے۔‘‘

                ابابیل کو اب اپنا سر چھپانے کی فکر ہو چلی تھی،اتنے میں پانی کا ایک اور قطرہ اس پر آگرا۔ابابیل نے سوچا اتنے بڑے مجسمے کا کیا فائدہ اگر یہ بارش کو بھی نہیں روک سکتا،مجھے چھپنے کے لئے کوئی اور جگہ تلاش کرنی چاہیئے۔وہ اڑنے کے لئے پر تول رہا تھا تو ایک قطرہ اور اس پر آگرا۔۔۔ اس نے جونہی سر اٹھا کر دیکھا تو حیران رہ گیاکہ یہ تو مجسمے کے آنسو تھے، شہزادہ رو رہا تھا۔۔۔۔اس کی خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں جو اس کے سنہری گالوں پر بہہ رہے تھے۔چاند کی روشنی میں اس کا چہرہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔یہ سب دیکھ کر ابابیل کا دل بھر آیا ،اس نے پوچھا؛

                ’’تم کون ہو۔۔۔؟‘‘

                ’’میں ہنس شہزادہ ہوں۔۔۔!‘‘

                ’’پھر تم رو کیوں رہے ہو۔۔۔؟‘‘ابابیل نے حیرت سے پوچھا؛’’تم نے تو مجھے بھگو ہی دیا۔۔۔!‘‘

                ’’جب میں زندہ تھا اور ایک انسانی دل رکھتا تھا۔۔۔۔‘‘مجسمے نے بولنا شروع کیا؛’’تب مجھے علم نہیں تھاکہ آنسو کیا ہوتے ہیں۔۔۔۔کیونکہ میں ایک محل میں رہتا تھا اور وہاں دُکھ کو آنے کی اجازے نہیں تھی۔میں سارادن دوستوں کی ساتھ باغ میں کھیلتا تھا اور رات کو ہم سب بڑے

حال میں ڈانس کیا کرتے تھے۔باغ کے چاروں طرف بہت اونچی اونچی دیواریں تھیں،مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے ۔۔۔!میرے چاروں طرف دنیا بہت خوبصورت تھی،سکھ ہی سکھ تھا اور میں اسی میں مگن اور خوش رہتا تھا۔سب مجھے ہنس مُکھ شہزادہ کہتے تھے۔ اسی طرح میری ساری زندگی گزری،اور ایک دن میں مر گیا۔جب میں مر گیا تو لوگوں نے میرا مجسمہ یہاں شہر کے درمیان میں، اتنا اونچا لگا دیاکہ مجھے اب اپنے شہر کی تمام بد صورتی اور دکھ نظر آنے لگے ہیں ۔اور اب گو کہ میرا دل سیسے کا بنا ہوا ہے پھر بھی میں ان لوگوں کے دکھ دیکھ کر روتا رہتا ہوں۔‘‘

                ’’بہت دور۔۔۔۔!‘‘شہزادے نے پُر اثر آواز میں کہا؛’’بہت دور ایک چھوٹی سی گلی میں ایک چھوٹا سا مکان ہے ۔۔۔۔اس کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی ہے اور وہاں ایک عورت میز کے پاس بیٹھی ہوئی ہے،اس کا کمزورچہرہ بہت تھکا ہوا ہے،اس کے ہاتھ سردی سے بہت کھردرے اور سرخ ہو رہے ہیں اورسُوئی پکڑنے سے جگہ جگہ چھید ہو رہے ہیں۔وہ ایک درزن ہے۔۔۔۔کپڑے سیتی ہے،وہ اس وقت سِلک کے گاؤن پر پھول کاڑھ رہی ہے جو کہ ملکہ کی ایک نوکرانی کا ہے اور اس نے وہ گاؤن ایک پارٹی میں پہننا ہے ،اسی لئے وہ عورت اس کو جلدی جلدی مکمل کر رہی ہے،ساتھ ہی بستر پر ایک بچہ لیٹا ہوا ہے وہ بیمار ہے اور رو رہا ہے اور کینو کھانے کی ضد کر رہا ہے،جبکہ اس کی ماں کے پاس سوائے پانی کے اس کو دینے کے لئے اور کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

                ’’ابابیل ابابیل۔۔۔۔چھوٹے ابابیل!‘‘ شہزادہ پھر بولا؛’’ کیا تم میری تلوار میں سے یہ یاقوت نکال کراس عورت کو دیکر نہیں آسکتے۔۔؟    میرے تو پیر یہاں جمے ہوئے ہیں اور میں حرکت نہیں کر سکتا۔‘‘

                ’’ میرا تو اس وقت مصر میں انتظار ہو رہا ہے۔۔۔!‘‘ ابابیل بولا؛’’میرے دوست وہاں دریائے نیل پر پرواز کر رہے ہوں گے مجھے تو جانا ہے۔‘‘      

                ’’ ابابیل ابابیل۔۔۔۔۔چھوٹے ابابیل! کیا تم میری خاطر ایک رات نہیں رک سکتے۔۔۔؟ ‘‘شہزادے نے کہا؛’’وہ بچہ بہت بھوکا ہے اور اس کی ماں بہت اداس ہے۔‘‘

                ’’ مجھے بچے بالکل پسند نہیں۔۔۔!‘‘ابابیل بولا؛’’پچھلی گرمیوں میں جب میںدریا کے کنارے ٹہرا تھا تو وہاں دو بہت بد تمیز بچے تھے جو مجھے دیکھ کر مجھ پر پتھر پھینکا کرتے تھے،خیر وہ پتھر مجھے کبھی لگے تو نہیں کیونکہ میں بہت اونچا اڑتا ہوں،مگر پھر بھی اس طرح میری بے عزتی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔کیونکہ میں ایک با عزت خاندان سے تعلق رکھتا ہوں!‘‘

                شہزادہ یہ سن کر اداس ہوگیا تو ابابیل کو شرمندگی ہوئی ،وہ بولا؛

                ’’ویسے تو یہاں بہت سردی ہے۔۔۔۔پھر بھی میں تمہاری خاطر ایک رات رک جاتا ہوں اور تمہارا کام کر دیتا ہوں۔‘‘

                ’’ اوہ شکریہ چھوٹے ابابیل۔۔۔!‘‘ شہزادہ خوش ہوگیا

                                اور اس طرح ابابیل نے شہزادے کی تلوار کے دستے سے یاقوت نکالا اور اس غریب عورت کے گھر لے آیا۔اس نے دیکھابچہ سخت بیمار ہے اور تکلیف میں ہے،اس کی ماں تھک کر سو چکی ہے۔ابابیل نے یاقوت کو میز پر رکھ دیا اور بچے کے بستر کے اوپر آہستہ آہستہ اڑنے لگا اور اپنے پروں سے اس کو پنکھا جھلنے لگا اس طرح بچے کو سکون ملا تو وہ بھی سو گیا۔

                ابابیل نے واپس آکر شہزادے کو ساری بات بتائی اور بولا؛’’یہ سب بڑا عجیب تھا،مجھے بہت اچھا لگا۔گو کہ سردی تو بہت ہے مگر میں اب سکون سے سوؤںگا۔‘‘

                ’’ یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے ایک اچھا کام کیا ہے۔‘‘شہزادہ بولا

                                جب دن نکلا تو ابابیل نیچے دریا پر نہانے چلا گیا

                ’’کتنی حیرت کی بات ہے۔۔۔۔!‘‘ ایک پروفیسرنے کہا جو دریا کے پل پر سے گزر رہا تھااور پرندوں کے بارے میں علم رکھتا تھا؛                      ’’ایک ابابیل اور یہاں ۔۔۔؟وہ بھی سردی میں،یہ نا ممکن ہے۔!‘‘اور پھر اس نے ابابیل کے بارے میں اخبار میں ایک مضمون لکھا

                                اس دن ابابیل نے جانے کا فیصلہ کرلیا اسی لئے سارا دن شہر کی سیر کرتا رہا،تمام جگہیں دیکھیں اور جب وہ کسی باغ سے گزرتا توپرندے اسے دیکھ کر حیران ہوتے کہ یہ اجنبی پرندہ کہاں سے آگیا۔ان کی اپنے بارے میں رائے سن کر ابابیل بہت خوش ہوتا۔

اور جب سورج غروب ہو گیا اور چاند نکل آیا توابابیل شہزادے کے پاس آیااور بولا؛

                ’’تمہیں مصر کوئی پیغام تو نہیں بھجوانا۔۔۔۔کیونکہ اب بس میں جانے ہی والا ہوں۔‘‘

                ’’ابابیل ابابیل۔۔۔۔۔چھوٹے ابابیل‘‘شہزادے نے کہا؛’’ کیا تم میری خاطر ایک رات ا ور نہیں ٹہر سکتے۔۔۔؟ میری خاطر۔۔۔!‘‘

                ’’لیکن میرا مصر میں انتظار ہو رہا ہوگا۔۔۔۔!‘‘ابابیل بولا؛’’ اور میرے ساتھی اگلے پڑاؤ کے لئے کوچ کر جائیں گے۔۔۔۔ایک خوبصورت آبشار کی طرف جہاںرات کو پریاں رقص کرتی ہیں ،اور دن میں بہت بڑے بڑے شیر وہا ں پانی پینے آتے ہیںجن کی آنکھیں نیلی ہوتی ہیں اور ا ن کی دھاڑ آبشار کے شور سے بھی زیادہ زور دار ہوتی ہے۔تم خود ہی سوچو وہ لوگ وہاں کتنے مزے کر رہے ہوںگے اور میں یہاں سردی میں مر رہا ہوں۔‘‘

                ’’ ابابیل ابابیل۔۔۔۔چھوٹے ابابیل!دور ۔۔۔۔بہت دور ایک بوسیدہ کمرے میں ایک خستہ حال نوجوان ایک میز پر جھکا ہوا ہے اس کے اِ رد گرد کاغذات کا ڈھیر ہے، وہ خوبصورت لیکن غریب نوجوان ایک اسٹیج ڈرامہ لکھ رہا ہے جو صبح مکمل کر کے اسے اسٹیج کے مالک کو دینا ہے اس طرح اسے کچھ پیسے مل جائیں گے،مگر اس وقت شدید سردی سے اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں ،اس کے آتشدان میں آگ بھی نہیں ہے اور بھوک سے وہ تقریباً بے ہوش ہونے والا ہے۔‘‘

                ’’ اچھا میں تمہاری خاطر ایک رات اور رک جاتا ہوں۔۔۔!‘‘ابابیل واقعی ایک اچھا دل رکھتا تھا،اس نے پوچھا؛

                ’’کیا میں اس کو ایک اور یاقوت دے کر آؤں۔۔۔؟‘‘     

                ’’ آہ میرے پاس اور کوئی یاقوت نہیں ہے۔۔۔!‘‘ شہزادہ افسوس سے بولا؛’’اب صر ف میری آنکھیں بچی ہیں جن میں بہت نایاب

نیلم لگے ہیں ۔۔۔۔جو ہزاروں سال پہلے انڈیا سے منگوائے گئے تھے،ان میں سے ایک نکال لواور اس لڑکے کو دے آؤتاکہ اوہ اس کو بیچ کر اپنے لئے سامان لا سکے۔‘‘

                ’’پیارے شہزادے۔۔۔۔۔میں اایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ابابیل روتے ہوئے بولا

                ’’ابابیل ابابیل۔۔۔۔چھوٹے ابابیل ویسا ہی کرو جیسا میں کہتا ہوں۔‘‘

                                ابابیل نے شہزادے کی آنکھ سے نیلم نکالا اور اس نوجوان کے کمرے میں چلا گیا۔اس کمرے میں جانا مشکل نہیں تھا کیونکہ کمرے کی چھت میں سوراخ تھا،نوجوان نے اپنا سر بازوؤں میں دیا ہوا تھا اس لئے اسے ابابیل کی آمد کا علم نہیں ہوا۔جب اس نے سر اٹھایا تو میز پر ایک نیلم چمک رہا تھا۔ نوجوان بے حد خوش ہوا اور بولا؛

                ’’اسکا مطلب ہے کہ لوگ میرے ڈراموں کو پسند کرنے لگے ہیں اور یہ یقینا میرے کسی مداح کا کام ہے۔‘‘

                                اگلے دن ابابیل سمندر کے کنارے جا بیٹھا او رکشتیوں کو آتا جاتا دیکھتا رہا،ملاح سارا دن مچھلیاں پکڑتے رہے۔

                ’’میں مصر واپس جا رہا ہوں۔۔۔۔!‘‘ ابابیل نے چلا کر کہا،مگر کسی نے اس کی آواز نہیں سنی۔اور جب شام ہوئی تو ابابیل شہزادے کے پاس آیا اور بولا؛’’میں تمہیں خدا حافظ کہنے آیا ہوں شہزادے۔۔۔!‘‘

                ’’ابابیل ابابیل۔۔۔۔چھوٹے ابابیل؛‘‘ شہزادہ بولا؛’’ کیا تم میری خاطر ایک رات اور نہیں رک سکتے۔۔۔؟‘‘

                ’’ مگر سردی شروع ہو چکی ہے،اورکچھ ہی دنوں میں جما دینے والی برف پڑنے لگے گی۔۔۔۔!اور وہاں مصر میں جب سورج کی کرنیں اونچے اونچے کھجور کے درختوں پر پڑتی ہیں تو مگر مچھ بھی دریا سے باہر آکر کیچڑ میں سستانے لگتے ہیں میرے سبھی دوست وہاں پر انے مندر میں اپنے گھونسلے بنا رہے ہونگے۔۔!پیارے شہزادے مجھے جانا ہی ہوگا ،لیکن میں تمہیں کبھی نہیں بھولونگااور اگلی بہار میں جب میں یہاں آؤنگا تو تمہارے لئے وہ تمام جواہرات لاؤنگا جو تم نے غریبوں میں بانٹ دیئے ہیں۔۔۔!وہ یاقوت سرخ گلاب سے بھی زیادہ سرخ ہونگے اور وہ نیلم سمندر سے بھی زیادہ نیلے ہونگے۔‘‘

                ’’وہاں نیچے چوک میں ایک ماچس بیچنے والی لڑکی کھڑی ہے۔۔۔۔‘‘شہزادہ بولا؛’’اسکی ماچس گٹر میں گر جانے سے خراب ہوگئی ہیں، اسکا باپ اسکو بہت مارے گا اگر وہ پیسے لیکر نہیں گئی تو۔۔۔!اسلئے وہ رو رہی ہے۔اسکے پیر میں جوتے ہیں نہ جرابیں اور اسکا چھوٹا سا سر بھی ننگا ہے۔تم میری یہ دوسری آنکھ بھی نکال لو اور اس لڑکی کو دے آؤتاکہ اسکا باپ اسکو نا مارے۔‘‘

                ’’میں تمہاری ساتھ ایک رات اور ٹہر جاؤنگا لیکن تمہاری آنکھ نہیں نکال سکتا ۔۔۔۔اسطرح تو تم اندھے ہوجاؤگے۔۔۔!‘‘

                ’’ ابابیل ابابیل۔۔۔۔۔چھوٹے ابابیل،ویسے ہی کروجیسے میں کہتا ہوں۔‘‘

                                ابابیل نے وہ نیلم نکالا اور تیزی سے نیچے گیا،لڑکی کو ڈھونڈ کر اسکی ہتھیلی پر وہ نیلم رکھدیا۔

                ’’اوہ۔۔۔۔کتنا پیارا نگینہ ہے۔‘‘ لڑکی خوشی سے چیخی اور اپنے گھر کی طرف دوڑی۔

                ’’ اب تم بالکل اندھے ہو چکے ہو۔۔۔۔اب میں ہمیشہ تمارے پاس رہونگا۔۔۔!‘‘ ابابیل واپس آکر شہزادے سے بولا

                ’’نہیں چھوٹے ابابیل۔۔۔۔تمہیں واپس مصر ضرور جانا چاہیئے۔‘‘

                ’’نہیں میں اب ہمیشہ تمہارے پاس رہونگا۔‘‘ ابابیل یہ کہہ کر شہزادے کے قدموں میں لیٹ کر سو گیا

                                اگلے دن تمام وقت ابابیل شہزادے کے کندھے پر بیٹھا اسکو کہانیاں سناتا رہا،ان علاقوں کی کہانیاں جو اس نے اپنے سفر کے دوران دیکھے تھے۔ان چھوٹے سرخ پرندوں کی کہانی جو دریائے نیل کے کنارے قطار بنا کر کھڑے رہتے ہیں چھوٹی سنہری مچھلیوں کے انتظار میں ۔سَفنِکس کی کہانی جو ایک عورت کا مجسمہ ہے،جسکا دھڑ شیر کا ہے اور اسکے دو بڑے بڑے پر بھی ہیں۔۔۔۔جو اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ دنیا،یہ عورت صحرا میں کھڑی ہے اور وہاں سے گزرنے والے سب قافلوں کو جانتی ہے۔ پھر ایک بہت بڑے سانپ کی کہانی سنائی جو روزانہ بیس آدمیوں کو کھاتا تھا۔ان بونوں کی کہانی سنائی جو جھیل میں پتوں پر سفر کرتے تھے،جنکا ہمیشہ تتلیوں کی ساتھ جھگڑا رہتا تھا۔

                ’’پیارے ابابیل ۔۔۔!‘‘ شہزادہ بولا؛’’ تم نے مجھے بہت زبردست اور حیرت انگیز کہانیاں سنائیں ہیں۔۔۔۔۔۔مگر انسانی دکھ سے بڑھ کر کوئی بھی چیز اہم نہیں ہے،لہٰذا تم اس شہر میں گھوموں اور مجھے آکر بتاؤ کہ وہاں کون کون دکھی ہے۔۔۔!‘‘

                                ابابیل اس بڑے شہر پر اڑنے لگا تاکہ اس شہر میں رہنے والوں کے دکھ جان سکے۔اس نے دیکھا کہ امیر لوگ اپنے خوبصورت گھروں میں خوش ہیں ،جبکہ ان کے دروازوں کے باہر فقیر بیٹھے ہیں ۔پھر وہ غریبوں کی بستی میں گیا ۔۔۔۔وہاں اس نے سڑکوں پر پڑے بہت سے بھوکے ننگے لوگ دیکھے ،اس نے دیکھا کہ دو بھوکے بچے سردی اور بارش سے بچنے کیلئے ایک پُل کے نیچے آلیٹے تو چوکیدار نے انہیں وہاں سونے سے منع کردیااور وہ بچے پھر بارش میں سڑکوں پر پھرنے لگے  

                ابابیل واپس شہزادے کے پاس گیا اور وہ سب کچھ بتایا جو اس نے دیکھا تھا۔

                ’’میرے اوپر بہت آعلیٰ قسم کے سونے کی پتریا چھڑھی ہیں ۔۔۔‘‘ شہزادہ بولا؛’’یہ تمام پتریاں میرے جسم سے اتار لو اور غریبوں میں بانٹ دو۔۔۔!‘‘

                ابابیل نے وہ تمام پتریاں اتار کر غریبوں میں بانٹ دیں ،حتیٰ کہ شہزادہ سیاہ اور بھدا دیکھائی دینے لگا۔لیکن اس سونے کو پاکر غریب بچوں کے چہرے گلاب کی طرح کھل اٹھے تھے،اب وہ بھوکے ننگے نہیں تھے بلکہ خوشی سے کھیل رہے تھے۔

                                پھر برفباری شروع ہوگئی ،ہر جگہ برف ہی برف ہونے کی وجہ سے ہر چیز چاندی کی طرح چمکتی ہوئی دیکھائی دے رہی تھی۔ہر طرف دھند ہی دھند تھی،تمام لوگ بڑے بڑے اوور کوٹ اور اونی ٹوپیاں پہننے لگے تھے۔ بیچارہ ابابیل سردی سے ٹھٹھر رہا تھا،جم رہا تھا لیکن اس نے شہزادے کا ساتھ نہیں چھوڑا۔۔۔۔کیونکہ وہ شہزادے سے بہت محبت کرتا تھا۔

                ابابیل ایک بیکری کے باہر سے روٹیوں کے سوکھے ٹکڑے اٹھا کر کھا لیتا تھا جو بیکری کا مالک کبھی کبھاروہاں پھینک جاتا تھا ۔وہ اپنے پروں کو پھڑپھڑاکر خود کو گرم رکھنے کی کوشش کرتا رہتا۔۔۔۔۔ ! لیکن کب تک۔۔۔؟ آخر ایک دن اسکو احساس ہو گیا کہ اب وہ مر جائیگا ۔وہ ہمت کر

 

کے ایک بار پھر شہزادے کے کندھے پر آ بیٹھا اور بولا؛

                ’’ خدا حا فظ شہزادے۔۔۔۔۔!کیا تم اپنے ہاتھ پر مجھے بوسہ دینے کی اجازت دوگے۔۔۔؟‘‘

                ’’اوہ مجھے خوشی ہے کہ آخر کار تم نے مصر واپس جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔۔۔۔۔پیارے چھوٹے ابابیل تم یہاں بہت عرصہ رہ لئے ۔لیکن تم مجھے منہ پر بوسہ دو کیونکہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔‘‘

                ’’میں مرنے جا رہا ہوں۔۔۔!‘‘ ابابیل بولا،اس نے شہزادے کو منہ پر بوسہ دیا اور اسکے قدموں میں گِر کر مر گیا

                اسی لمحے مجسمے کے اندر کوئی چیز ٹوٹنے کی آواز آئی۔۔۔۔۔! وہ آواز شہزادے کا دل ٹوٹنے کی تھی۔

                                اگلی صبح شہر کا کونسلر وہاں سے گزرا تو اسکی نظر مجسمے پر پڑی ،وہ حیران رہ گیا بولا؛

                ’’ یہ ہنس مُکھ شہزادہ کتنا بھدا ہوگیاہے۔۔۔؟‘‘

                ’’یقینا بھدا۔۔۔۔!‘‘اسکے ساتھی نے بھی تائید کی ،اور نزدیک جا کر غور سے اسکا معائنہ کرتے ہوئے بولا؛’’اسکی تلوار سے یاقوت بھی غائب ہے،اسکی آنکھیں بھی نہیں رہیںاور اسکے جسم سے سونا بھی اتر چکا ہے۔۔۔۔۔یہ تو بالکل فقیر لگ رہا ہے۔اور اسکے قدموں میں ایک پرندہ بھی مرا پڑا ہے حالانکہ یہاں پرندوں کو مرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے ۔۔ ۔۔!‘‘ 

                اب وہ شہزادہ خوبصورت نہیںرہا تھا لہٰذا اسکا مجسمہ وہاں سے اتار لیا گیا۔یہ فیصلہ ہوا کہ اس دھات کے مجسمے کو پگھلا کر دوسرا مجسمہ بنایا جائے اور وہ مجسمہ ضلع کے کونسلر کا ہوگا۔ لہٰذا اس مجسمے کو فیکٹری میں لے جا کر بھٹی میںڈال کر پگھلا دیا گیا۔

                ’’ کتنی عجیب بات ہے۔۔۔۔!‘‘ فیکٹری کے ایک مزدور نے کہا؛’’تمام جسم تو پگھل چکا ہے مگر یہ دل جسکے دو ٹکڑے ہو چکے ہیں،نہیں پگھل رہا، اسکو باہر کوڑے پر پھینک دینا چاہیئے۔۔۔!‘‘

                 لہٰذا اس دل کو باہر کوڑے پر پھینک دیا گیا۔۔۔۔جہاں ایک مردہ ابابیل بھی پڑا ہوا تھا۔

                ’’ اس شہر کی دو بہت قیمتی اور نایاب چیزیں میرے پاس لیکر آؤ۔۔۔!‘‘ خدا نے فرشتے کو حکم دیا۔وہ فرشتہ ایک مردہ پرندہ اور ایک ٹو ٹا ہو دل لے آیا

                ’’تم بالکل صحیح چیزیں لائے ہو۔۔۔۔!‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛’’اب یہ پرندہ ہمیشہ اس جنت کے باغ میں گایا کرے گا اور یہ شہزادہ بھی ہمیشہ یہاں جنت میں رہے گا اور میری عبادت کرے گا،یہی ان دونوں کا صحیح مقام ہے۔

               

                                                                                                                                ترجمہ؛آسکر وائلڈ کی کہانی’’ہیپی پرنس‘‘

                                                                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

               

 

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.