بلبل اور گلاب

            ’’وہ کہتی ہے کہ اگر میں اس کے لئے سرخ رنگ کاگلاب لاؤںتب وہ میرے ساتھ ڈانس کرے گی۔۔۔۔لیکن پورے باغ میں کوئی سرخ گلاب نہیں ہے۔۔۔۔!‘‘وہ لڑکااونچی آواز میں بول رہا تھا

            اوپر شاہ بلوط کے درخت پر ایک بلبل اپنے گھونسلے میں بیٹھی اس لڑکے کی باتیں سن رہی تھی اور حیرت سے اس کو دیکھ رہی تھی۔

            ’’ میرے باغ میں کوئی سرخ گلاب نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ وہ پھر چلایا اور اس کی خو بصورت آنکھوں میں آنسو بھر آئے

            ’’آہ۔۔۔۔۔۔۔خوشی کا تعلق بھی کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہوتا ہے!صرف ایک سرخ گلاب کی خاطر میری زندگی تباہ ہوجائے گی۔‘‘

             ’’ یہ ایک سچی محبت کرنے والا لڑکا ہے۔۔۔!‘‘ بلبل خود سے بولی؛’’ اس کے بال ایسے سیاہ ہیں جیسے اندھیری رات اور اس کے ہونٹ اتنے سرخ ہیں جیسے کھلتا ہواگلاب۔۔۔۔۔۔لیکن دکھ سے اس کا چہرہ کتنا زرد دکھائی دے رہا ہے۔۔۔۔!‘‘

            ’’ کل رات شہزادے نے پارٹی دی ہے۔۔۔۔!‘‘لڑکا پھر بڑبڑایا؛’’ اور وہاںوہ لڑکی بھی ہوگی،اگر میں اس کے لئے سرخ گلاب لے گیا تو وہ میرے ساتھ صبح تلک ڈانس کرے گی۔۔۔۔۔۔لیکن میرے باغ میں کوئی سرخ گلاب نہیںہے۔۔۔! میں اکیلا بیٹھ کر اس کو دیکھوں گا۔ اس کو دوسرے لوگوں کے ساتھ ڈانس کرتے دیکھ کر میرا دل ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔!‘‘

            ’’میں روز محبت کے گیت گاتی ہوں۔۔۔۔! میں جس محبت کے گیت گاتی ہوں اسی محبت کی وجہ سے آج یہ لڑکا کتنا دکھی ہے ۔محبت بھی کتنی عجیب چیز ہے۔۔۔۔بہت قیمتی جواہرات دے کر بھی اسے خریدا نہیں جا سکتاکیونکہ یہ کسی بازار میں نہیں بکتی نا ہی اس کو سونے چاندی میں تولہ جا سکتا ہے۔۔۔!‘‘بلبل نے سوچا

            لڑکے نے پھر اپنا منہ گھاس میں چھپاکر رونا شروع کر دیا

            ’’ یہ کیوں رو رہا ہے۔۔۔؟‘‘ سبز چھپکلی نے پوچھا جو اپنی دم ہوا میں لہراتی ہوئی وہاں سے گزر رہی تھی۔

            ’’ ہاں واقعی۔۔۔۔۔۔یہ کیو ں رو رہا ہے۔۔۔؟‘‘ ایک تتلی بھی آ کر لڑکے کے آس پاس اُڑ نے لگی

            ’’ یہ ایک سرخ گلاب کے لئے رو رہا ہے۔۔!‘‘بلبل بولی ،جو اس کے دکھ کو سمجھتی تھی،پھر اس نے اچانک اڑنے کے لئے پر پھیلائے اور ہوا میں تیرنے لگی۔وہ اڑتی ہوئی باغ کے درمیان میں پہنچ گئی جہاں گلاب کا ایک خوبصورت پودا کھڑ اتھا۔بلبل نے اس سے کہا ؛

            ’’اگر تم مجھے ایک سرخ گلاب دے دو تو میں تمہارے لئے ایک پیارا سا گیت گاؤں گی۔‘‘

            ’’لیکن میرے گلاب تو سفید رنگ کے ہیں،ایسے سفید جیسے سمندر کی جھاگ۔۔۔!‘‘  پودے نے گردن ہلاتے ہوئے کہا؛’’پہاڑوں کی برف سے بھی زیادہ سفید ! تم میرے بھائی کے پاس چلی جاؤ جو لڑکے کی کھڑکی کے نیچے کھڑاہوا ہے ،شاید وہ تمہیں سرخ گلاب دے سکے۔‘‘

            بلبل اُڑ کر اس پودے کے پاس گئی جو لڑکے کی کھڑی کے نیچے کھڑا تھااور چلائی؛’’ مجھے ایک سرخ گلاب دے دوتو میں تمہارے لئے ایک پیارا سا گیت گاؤںگی۔۔۔۔!‘‘

            ’’ہاں ! میرے گلاب سرخ رنگ کے ہوتے ہیں ۔۔!‘‘ وہ پودا بولا؛’’ ایسے سرخ جیسے فاختہ کے پاؤں، سمندر میں پھیلے مرجان سے بھی زیادہ سرخ۔۔۔۔۔! لیکن سردی کی وجہ سے میری رگیں خشک ہیں، دھند سے میری کلیاں مرجھا گئی ہیں اور طوفان سے میری شاخیں ٹوٹ گئی ہیں۔۔۔۔۔۔لہٰذا اب پورا سال مجھ پر کوئی سرخ گلاب نہیں کھل سکتا۔۔۔!‘‘

            ’’لیکن مجھے ایک سرخ گلاب چاہیئے ۔۔!‘‘بلبل چلائی؛’’ صرف ایک سرخ گلاب۔کیا اسکو حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟‘‘

            ’’ ہاں ایک طریقہ ہے۔۔۔۔!‘‘ پودا بولا؛’’لیکن وہ اتنا خطرناک ہے کہ میں تمہیں بتانے کی جرات نہیں کر سکتا۔۔۔!‘‘

            ’’ مجھے وہ طریقہ بتاؤ۔۔۔!‘‘ بلبل بولی؛’’ میں خوفزدہ نہیں ہوں۔‘‘

            ’’ اگر تمہیں سرخ گلاب چاہیئے تو ۔۔۔۔!‘‘پودا بولا؛’’ وہ تمہیں خود بنانا ہوگا۔۔۔۔۔۔ چاندنی رات میں،اور اسے اپنے خونِ دل سے رنگنا ہوگا۔تمہیں میرے کانٹے پر اپنا سینہ رکھ کر تمام رات گانا ہوگا۔۔۔۔۔اس طرح وہ کانٹا تمہارے سینے میں اتر جائے گااور تمہارا سارا خو ن میری رگوں میں آجائے گا ۔جس سے میری سوکھی ہوئی رگوں کو زندگی مل جائے گی۔۔۔!‘‘

            ’’ اوہ۔۔۔۔۔۔!موت تو ایک گلاب کے لئے بہت بڑی قیمت ہے ۔۔۔۔!‘‘ بلبل چلائی؛’’اور مجھے زندگی بہت عزیز ہے۔‘‘

            ’’ لیکن پھر بھی محبت زندگی سے زیادہ بہتر چیزہے ۔۔۔!‘ ‘بلبل نے سوچا؛’’اور ایک پرندے کے دل کی ایک انسان کے سامنے کیا حیثیت ہے۔۔؟‘‘

            بلبل نے اڑنے کے لئے اپنے بھورے پر پھیلائے اور ہوا میں تیرتی ہوئی واپس اپنے گھونسلے میںآ گئی۔وہ لڑکا ابھی تک گھاس پر لیٹا ہوا تھااور اس کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو تھے۔

            ’’ خوش ہو جاؤلڑکے۔۔۔۔۔!‘‘بلبل چلائی؛’’خوش ہو جاؤکہ تمہیں سرخ گلاب مل جائے گا۔۔۔۔میں اس کو تیار کروںگی چاندنی رات میں اور اپنے دل کے خون سے رنگوں گی،اس کے بدلے میں تم سے صرف یہ چاہوںگی کہ تم سچی محبت کرنا،کیونکہ یہ ہر چیز سے زیادہ طاقتور ہے ۔‘‘

            لڑکے نے منہ اوپر اٹھا کر دیکھامگر اس کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ بلبل اس سے کیا کہنا چاہتی ہے۔لیکن شاہ بلوط کا درخت سب کچھ سمجھ گیا تھا،اس کو بہت دکھ ہوا،وہ بلبل کو بہت پسند کرتا تھا کیونکہ اس نے درخت کی شاخ پر اپنا گھونسلہ بنایا ہوا تھاجہاں بیٹھ کر وہ گیت گاتی تھی۔

            ’’ میرے لئے ایک آخری گیت گا دو پیاری بلبل۔۔۔۔!‘‘درخت نے فرمائش کی؛’’ کیونکہ تمہارے چلے جانے کے بعدمیں بہت

اکیلا ہوجاؤں گا۔‘‘

            پھر بلبل نے شاہ بلوط کے درخت کے لئے گیت گایا،اس کی آواز بہت سریلی تھی،جب بلبل کا گیت ختم ہو گیا تو وہ لڑکا اٹھ کر بیٹھ گیا ، اس نے جیب سے ایک پنسل نکالی اوراپنی نوٹ بک پر بلبل کی تصویر بنانے لگا،پھر اپنے آپ سے بولا؛

            ’’ اس بلبل کی شکل تو بہت اچھی ہے، لیکن میرے خیال میں اس کے جذبات نہیں ہیں۔۔۔۔!یہ صرف ایک فنکار ہے ،گا تو سکتی ہے لیکن کسی کی خاطر قربانی نہیں دے سکتی۔اس کی آواز میں موسیقیت ہے لیکن اس کے گانے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔۔۔کتنی بری بات ہے کہ ان کی کسی بات کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا،یہ صرف اپنے لئے ہی جیتے ہیں ۔‘‘

            پھر وہ لڑکا اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور جا کر لکڑی کے بنے اپنے چھوٹے سے بیڈ پر لیٹ کر سوچنے لگا ،سوچتے سوچتے ہی اس کو نیند آگئی۔

                        اور۔۔۔ جب آسمان پر چاندنمودار ہوا تو بلبل اُڑ کر گلاب کے پودے پر جا بیٹھی،اپنا سینہ اس نے کانٹے پر رکھ دیا اور گیت گانے لگی۔ سفید ٹھنڈا چاند بھی اس کا گیت سننے کے لئے نیچے جُھک آیاتھا۔

            وہ تمام رات گاتی رہی اور اس کا خون کانٹے میں منتقل ہوتا رہا ۔پودے کی سب سے اوپر والی پھنگل پر ایک بہت ہی خوبصورت سفیدکلی نمودار ہوئی،اور آہستہ آہستہ کِھلنے لگی ۔جیسے جیسے بلبل گاتی رہی سفید گلاب کی پتیاں کھلتی رہیں ،لیکن ابھی پھول کا رنگ پیلا تھا، بالکل اس دھند کی طرح جو دریا پر چھائی ہوئی تھی۔

            ’’ کانٹے کے اور نزدیک ہوجاؤ تاکہ پھول کو خون پہنچ سکے ورنہ پھول کے مکمل ہونے سے پہلے ہی دن نکل آئے گا۔۔۔!‘‘ پودے نے چیخ کر بلبل سے کہا،وہ کانٹے کے اور نزدیک ہوگئی ،اور زیادہ زور زور سے گانے لگی۔خوبصورت گلابی رنگ پھول کی پتیوں میں جھلکنے لگا، لیکن چونکہ کانٹا ابھی بلبل کے دل تک نہیں پہنچا تھااس لئے سرخ رنگ بھی گلاب کے دل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔۔۔۔۔اور بلبل کے دل کا خون ہی گلاب کو رنگ سکتا تھا۔

            ’’ کانٹے کے اور نزدیک ہو جاؤ پیاری بلبل۔۔۔۔۔ورنہ پھول مکمل ہونے سے پہلے ہی دن نکل آئے گا۔۔۔!‘‘ گلاب کا پودا پھر چلایا،

اور بلبل کانٹے کے اتنے نزدیک ہوگئی کہ وہ اس کے دل میں اتر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔درد کی ایک شدید لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی، اس کی تکلیف نا قابلِ برداشت تھی،آواز سے بھی دکھ ظاہر ہو رہا تھا۔۔! اور اب وہ اس محبت کا گیت گا رہی تھی جو مر کر ہی مکمل ہو سکتی تھی۔۔۔!‘‘

                        بلبل کے درد بھرے گیت اور خونِ دل سے بہت ہی شاندار سرخ رنگ گلاب میں نمودار ہو رہا تھا،لیکن بلبل کی آواز مدھم پڑ رہی تھی،اس کے چھوٹے چھوٹے پر پھڑ پھڑانے لگے اور آنکھیں بھی دھندلا گئیں،اسے لگا کہ گلے کہ کچھ پھنس رہا ہے جو اس کی آواز کو روک رہا ہے۔پھر اس کے گلے سے ایک آخری آواز نکلی جس کو سن کر گلاب تھرر ا گیا۔۔۔۔۔اور صبح کی ٹھنڈی تازہ ہوا میں اس کی تمام پتیاں کِھل گئیں۔

            ’’دیکھو دیکھو گلاب مکمل ہو گیا۔۔۔۔!‘‘ پودہ چلایا

            لیکن بلبل نے کوئی جواب نہیں دیا،وہ پھول کو کھلا ہوا نہیںدیکھ سکی کیونکہ اس کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکی تھیں ،اس کا مردہ جسم لمبی کھاس پر آگرا جس میں ایک کانٹا پیوست تھا۔

                        دوپہر کو لڑکے نے کھڑکی کھول کر باہر جھانکا تو حیرت سے چلایا؛

            ’’واہ۔۔۔۔۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ یہاں ایک سرخ گلاب کھلا ہوا ہے،میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا خوبصورت گلاب نہیں دیکھا! ‘‘

            اس نے جھک کر وہ گلاب توڑ لیا،پھر اس نے اپنا ہیٹ اٹھایا اور پروفیسر کے گھر کی طرف دوڑا۔اس کے ہاتھ میں سرخ گلاب تھا۔ پروفیسر کی بیٹی اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی کچھ کام کر رہی تھی اور اس کا چھوٹا سا کتا اس کے پیروں کے پاس لیٹا ہوا تھا۔لڑکا اس کو دیکھ کر چلایا؛

            ’’ تم نے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ ڈانس کروگی اگر میں تمہارے لئے ایک سرخ گلاب لے آؤں،یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔ایسا گلاب دنیا میں کہیں نہیں ہوگا۔۔۔۔! ‘‘لڑکا اس کے سامنے سرخ گلاب لہرا کر بولا؛’’ آج شام پارٹی میں تم اس کو اپنے بالوں میں لگا کر آنا ۔۔۔۔۔اور جب ہم ڈانس کریں گے تو یہ تمہیں بتائے گا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔۔۔! ‘‘

            ’’ لیکن مجھے افسوس ہے کہ آج میں یہ پھول نہیں لگا سکتی ۔۔۔۔۔!‘‘لڑکی تیوری چڑھا کر بولی۔’’کیونکہ نواب صاحب کے بھتیجے نے مجھے سونے کا سیٹ بھیجا ہے،اور تمہیں پتا ہی ہوگا کہ اصلی سونے کا سیٹ اس گلاب سے تو کہیں زیادہ مہنگا ہوگا۔۔۔۔!‘‘

            ’’ تم بہت ناشکری ہو۔۔۔۔!‘‘لڑکا غصے سے بولا ، وہ گلاب اس نے سڑک پر پھینک دیااور ایک گاڑی اسے کچلتی ہوئی گزر گئی

            ’’ میں ۔۔۔۔۔نا شکری۔۔۔۔؟‘‘ لڑکی غصے سے بولی؛’’ اور تم بہت بد تمیز ہو۔ تم ہو کیا چیز۔۔۔۔صرف ایک طالب علم۔۔۔۔؟تمہارے پاس تو نواب کے بھتیجے جیسے جوتے کے تسمے بھی نہیں ہیں۔۔۔!‘‘وہ غصے سے پیر پٹختی ہوئی اندر چلی گئی۔

            ’’ محبت بھی کتنی فضول چیز ہے۔۔۔؟‘‘ لڑکا بڑبڑاتا ہوا واپس اپنے گھرچلاگیا اور اپنی کتاب کھول کر پڑ ھنے لگا۔

                                ”  ترجمہ؛آسکروائلڈ کی کہانی’’ نائٹ انگیل اینڈ روز

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.

6 Replies to “بلبل اور گلاب

  1. I loved as much as you will receive carried out right here. The sketch is tasteful, your authored material stylish. nonetheless, you command get got an shakiness over that you wish be delivering the following. unwell unquestionably come further formerly again as exactly the same nearly very often inside case you shield this increase.

  2. Great blog! Is your theme custom made or did you download it from somewhere? A theme like yours with a few simple adjustements would really make my blog shine. Please let me know where you got your theme. Appreciate it

  3. بہت کمال کی کہانی ہے اسے پڑھ کر جو کیفیت مجھ پر گزر گئی وہ ناقابل بیان ہے

  4. Thank you so much for reading these stories, its by great writer Oscar Wilde, I just translated these stories, but many thanks for your comments 🙂

  5. Excellent read, I just passed this onto a friend who was doing some research on that. And he actually bought me lunch since I found it for him smile So let me rephrase that: Thank you for lunch! Eda Torin Joeann

  6. بہترین کہانی۔ آسکر وائلڈ میرا فیورٹ رائٹر ہے
    خاص طور پر اسکی یہ کہانی مجھے بہت پسند ہے THE HAPPY PRINCE

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *