Himmat ki Tasweer-ہمت کی تصویر

ہمت کی تصویر

شہلا کا تعلق کسی ’’این جی او‘‘ سے نہیں ہے بس خدمت خلق کا شوق ہے ۔ اسکا دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ سیدھی کشمیر چلی جائے اوروہاں جا کر براہِ راست زخمیوں کی خدمت اور ضرورت مندوں کی مدد کر سکے لیکن اسکی اپنی صحت ایسی نہیں کہ اتنا محنت کا کام کر سکے ۔ لہٰذا یہی طریقہ بہتر لگا کہ یہاں لاہور کے اسپتالوں میں جو لوگ ذہنی و نفسیاتی علاج کے لیے لائے گئے ہیں ان کی کائو نسلنگ کرے ۔ یہ بھی ایک بہت اہم کام ہے۔

چونکہ اسکا بہت سا وقت نفسیات کے ڈاکٹروں کے ساتھ گزرا ہے اس نے ان کے ساتھ مل کر کافی کام کیا ہے اور اسی بنیاد پر بہت سے اسکول اور کالجوں میں ٹیچرز اور بچوں کو نفسیات پر لیکچرز بھی دیتی ہے تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے اسی تجربے کو کام میں لا کر خدمت خلق کا کام انجام دے۔ لہٰذاجب جب بھی اسکی صحت نے اجازت دی وہ اٹھ کر کسی نہ کسی اسپتال پہنچ گئی اور ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا۔ وہ چونکہ خود مستقل مریض ہے اور زیرعلاج رہتی ہے اس لیے بخوبی جانتی ہے کہ کسی بھی مرض کے ٹھیک ہونے مین جتنا کام دوا کرتی ہے ، ہمدردی، تسلی و تشفی کے دو بول اس سے بھی زیادہ تیزی سے کام کرتے ہیں۔ یہ آپ کے بڑے سے بڑے دکھ کو کم کر دیتے ہیں، آپ میں جینے کی امنگ اور کچھ کرنے کا عز م و حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔ کس طرح آپ کا خلوص و محبت کسی انسان کو مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے گھسیٹ لاتا ہے اور روشن مستقبل کی نئی راہیں دکھاتا ہے ۔ وہ اپنا یہی تجربہ متاثرین کشمیر پر آزما رہی ہے اور اس کا حیر ت انگیز اثر دیکھ رہی ہے۔

آج کل وہ گلبرگ کے ایک اسپتال میں کام کر رہی ہے ۔ جہاں وہ روزانہ ایک لڑکی کو دیکھتی ہے ۔ باقی بڑی عمر کی خواتین میں یہ لڑکی جو بمشکل سترہ اٹھارہ سال کی ہو گی بہت عزم اور حوصلے سے کام کرتی ہے ، بھاگ بھاگکر ایک ایک بستر پر جاتی ہے۔ ہر مریض کی خبر گیری کرتی ہے، ان کی ضروریات پوری کرتی ہے اور جب ڈاکٹرز اور نرسیں مریضوں کو مرہم پٹی کر کے ، دوائیں دے کر چلے جاتے ہییں تب بھی یہ ان کا مسلسل خیال رکھتی ہے۔

اسے اس لڑکی پر بڑا رشک آتا ہے کہ اس کے والدین نے اس کی کیا اچھی تربیت کی ہے؟ یہ اپنا آرام و سکون چھوڑ کر ان مریضوں کے آرام کا خیال رکھ رہی ہے۔ جدھر سے کوئی کراہ سنتی ہے ادھر ہ کو دوڑتی ہے۔ اک منٹ کو چین سے نہیں بیٹھتی ، حالانکہ اس عمر کی لڑکیوں کو تو اپنے ہی ناز نخروں اور مشاغل سے فرصت نہیں ہوتی، وہ کچن میں اپنی ماں تک کا ہاتھ بٹانا اپنی توہین سمجھتی ہیں اور ایک یہ لڑکی ہے ، گو کہ اس کا تعلق کسی بہت اچھے اور پڑھے لکھے گھرانے سے لگتا ہے جہاں آج کل بچیوں کی تربیت ذرا مختلف طریقے سے کی جاتی ہہے مگر یہ لڑکی اتنی مستعدی سے اپنا کام کر رہی ہے کہ حیرت ہو رہی ہے کہ و ہ خود خدمت خلق کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی اتنا کام نہیں کر سکتی۔

آج وہ ذرا جلدی اسپتال آگئی تھی۔اسکے مریض کچھ تو ابھی تک سو رہے تھے ، کچھ ناشتا کر رہے تھے اور کچھ کی پٹیاں تبدیل ہو رہی تھیں۔ لہٰذا وہ ایک طرف کرسی پر بیٹھ کر ان سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی ۔ اچانک اسکی نظر اسی لڑکی پر پڑی ، وہ حیران رہ گئی کہ یہ لڑکی کیا چیز ہے؟ صبح ہی سے یہاں موجو د ہے اور بہت تازہ دم اور ہشاش بشاش نظر آرہی ہے۔ اس نے ایک بچی کا ہاتھ منہ دھلا کر اسے ناشتا کرایا۔ اس نے سوچا کہ ابھی تو اس لڑکی نے زندگی میں کچھ دیکھا ہی نہیں ہے پھر بھی اتنا دردمند دل رکھتی ہے اور چونکہ کسی اچھے گھرانے سے تعلق لگتا ہے اس لئے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال جیسی ذمہ داری بھی نہ سنبھالی ہو گی اس نے ، پھر بھی کس مہارت اور محبت سے اس نے اس ضدی بچی کا ہاتھ منہ دھلا کر ناشتا کرایا ہے۔ اتنے میں ڈاکٹراس بچی کو چیک کرنے آگئے جس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی، فریحہ وہاں سے ہٹ گئی اور اسکے قریپ ہی ایک خالی کرسی پر آبیٹھی ۔ فریحہ نے اسے دیکھ کر اپنائیت بھرے انداز میں مسکر ا کر سلام کیا۔ اتنے دنوں میں وہ ایک دوسرے کے چہروں اور ناموں سے تو شناسا ہو ہی چکے تھے۔ فریحہ کی فراغت اور مسکراہٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے وہ سوال پوچھ ہی ڈالا جو بہت دنوں سے اسکے ذہن میں ابھر رہا تھا۔ اس نے پوچھا

’’فریحہ ! کیا تم یہاں کہیں نزدیک ہی رہتی ہو؟  میرا مطلب ہے کہ گلبرگ میں ہی رہتی ہو جو اتنی صبح ہسپتال پہنچ جاتی ہو؟‘‘

’’نہیں تو!‘‘ وہ اسکے اس اچانک سوال پر حیران ہو کر بولی

’’پھر کہاں سے آتی ہو؟‘‘ اس نے پھر پوچھا

’’میں تو یہیں رہتی ہوں ! وہ میرا بستر ہے۔‘‘

اس نے ایک خالی بیڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا

’’کیوں ! تم تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہو ۔ کیا تمہارے گھر والوں نے تمہیں یہاں رہنے کی اجازت دے دی ؟ کیا تمہاری پڑھائی متاثر نہیں ہوتی؟‘‘ اس نے پھر حیرت سے پوچھا

’’کیسے والدین شہلا باجی؟ کہاں کی پڑھائی !!!!‘‘ وہ ایک دم اداس ہو کر بولی

’’میں تو خود زلزلہ زدگان میں سے ہوں اور مظفر آباد سے علاج کے لیے یہاں لائی گئی تھی؟‘‘

اس کا جواب سن کر شہلا کو حیر ت اور صدمے کا شدیدجھٹکا لگا ، اسکی زبان کنگ ہو گئی۔ وہ کچھ دیر تک تو اس کی شکل اور ہمت و حوصلے کو دیکھتی رہی۔ زبان ساتھ تو نہ دے رہی تھی پھر بھی ہمت کر کے پوچھ لیا،’’تمہارے ساتھ کیا گزری؟ میرا مطلب ہے کہ تمہارا گھر اور گھر والے ۔۔۔۔۔ باقی لوگ کہاں اور کس حال میں ہیں؟‘‘

اس نے اپنے غم کو چھپا کر جس ہشاش بشاش اور خدمت گزار لڑکی کا خول اپنے اوپر چڑھا لیا تھا اس صورت حال میں تو میرے سوالات کا جواب دینا شاید اس کے لیے مشکل ہوتا لیکن چونکہ اس کا غم ابھی تازہ تھا اور اس کو بھی اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کسی ہمدرد کی ضرورت تھی لہٰذا تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بول پڑی۔

’’میں فرسٹ ائیر کی طالبہ تھی۔ مظفر آباد کے ایک کالج میں پڑھتی تھی۔ اس دن میرا بھائی ویک اینڈ پر گھر آیا تھا جو پچھلے سال ہی ائیر فورس میں سلیکٹ ہو کر رسالپور گیا تھاا ور وہاں رسالپور اکیڈمی میں تھرڈائیر کا طالبِ علم تھا۔ وہ مجھے بہت روکتا رہا کہ آج میری وجہ سے چھٹی کر لو۔ مگر میں نے کہا! ’’بھائی آج میرا بہت ضروری ٹیسٹ ہے ۔ بس ٹیسٹ دے کر آجائوں گی۔‘‘

’’ہاں ہاں مجھے معلوم ہے کہ تم بہت پڑھاکو ہو ، اے ون گریڈلیتی ہو ، ڈاکٹر بنو گی، بھئی میں کون ہوتا ہوں تمہیں روکنے والا۔‘‘ اس نے طنز کیا تو میں نے کہا ’’سب چھوٹے تو ہیں نا تمہارے پاس ان کی آج چھٹی ہے ۔ میں بھی آجائوں گی، بس ڈیڑھ دو گھنٹے کی تو بات ہے۔‘‘ میں نے جلدی جلدی اپنی کتابیں اٹھائیں اور کالج چلی گئی

پھر کچھ وقفے کے بعد بولی

’’کاش میں نے اس دن بھائی کی بات لی ہوتی اور کالج نہ جاتی تو آج یوں تنہا نہ ہوتی بلکہ ان سب کیساتھ ہوتی۔‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر شہلا نے فوراََ اس کی توجہ ہٹانے کے لیے پوچھا

’’پھر !‘‘وہ سوچتے ہوئے بولی

’’مجھے سر پر چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے میں بے ہوش ہو گئی تھی اور مجھے بھی سب زخمیوں کے ساتھ اسپتال پہنچا دیا گیا۔ نہ جانے کب ہوش آیا؟ جب ہوش آیا تو پتا چلا کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ سارا گھر ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا اور گھر والے ملبے تلے دب گئے تھے۔ میرے بھائی نے وہاں سے اپنے موبائل فون کے ذریعے اپنی اکیڈمی والوں کو اطلاع دی تھی اور انہوں نے اس کی مدد کو ہیلی کاپٹر بھی بھیجے مگر وہ ملبے کے نیچے دبا ان سے باتیں کرتا رہا۔ میں بھی کچھ نہ کر سکی۔ اسپتال میں بے ہوش پڑی رہی۔ میں اگر وہاں پہنچ جاتی تو ہر حال میں ان کو بچا لیتی ۔ کچھ بھی کرتی میں ضرور ان کو بچا لیتی یا پھر خود بھی جان دے دیتی۔‘‘

وہ رونے لگی۔ شہلا نے جلدی سے ایک اور سوال پوچھا تاکہ اس کی توجہ رونے سے ہٹ جائے

’’پھر تم یہاں کسیے پہنچی؟‘‘

’’میرے سر کی چوٹ کہری تو نہ تھی مگر جب میں نے اپنے گھر والوں کا حال سنا تو اپنے حواس کھو بیٹھی تھی۔ اس لئے مجھے نفسیاتی علاج کے لیے یہاں لایا گیا تھا۔ پھر آپ جیسی ہی ایک آنٹی نے میری کائو نسلنگ کی اور مجھے جینے کی اک نئی راہ دکھائی اور جب میں نے یہاں اپنے ارد گرد اپنے سے بھی بدتر حالات میں لوگ دیکھے اور سب کی کہانیاں سنیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ سبھی کے حالات میرے جیسے ہیں تو مجھے ان لوگوں کے لیے بہت دکھ محسوس ہوا اور جب میں نے دیکھا کہ ڈاکٹرز، نرسز اور آپ جیسے رضا کار کس طرح سے ان کو سنبھال رہے ہیں ، ان کا کس طرح سے خیال رکھ رہے ہیں؟ تو میں نے بھی عہد کر لیا کہ میں دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے خود ان کا سہارا بنوں گی۔ میرے تو ہاتھ پائوں بھی سلامت ہیں، میں تو سینکڑوں لوگوں کی مدد کرسکتی ہون اور اسی دن سے میں نے اپنا آپ بھلا کر ان کی مدد کرنی شروع کر دی۔ پھر مجھے سکون آگیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ بھی تو ان سے خوش ہوتا ہے نا جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔شاید میرے گھر والے مجھے اسی لیے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ مگر اب تو میں ڈاکٹر نہیں بن سکوں گی شاید نرسنگ کالج مین داخلہ مل جائے۔ ڈاکٹر نہ سہی نرس بن کر اپنی قوم کی خدمت تو کر سکتی ہوں نا۔۔۔۔‘‘

’’بالکل کر سکتی ہو ، لیکن تمہارا ارادہ مضبوط ہے تو تم نرس نہیں ڈاکٹر بھی بن سکتی ہو۔ آخر حکومت جو تم لوگوں کے لیے اتنے سارے اقدامات کر رہی ہے۔ یہ سب تم جیسے باہمت لوگوں کے لئے ہی تو ہیں۔ تمہارے اپنے شہر میں پھر سے کالج بنیں گے۔ مگر تم جیسی ذہین لڑکی کو ہر جگہ آسانی سے داخلہ مل سکتا ہے۔ میں آج ہی تمہارے داخلے کے لیے کوشش کروں گی۔‘‘

’’سچ شہلا باجی!! کیا مجھے سچ مچ دوبارہ سے داخلہ مل سکتا ہے۔‘‘

’’کیوں نہیں بھئی ! ہم سب تمہارے لیے دعا کریں گے کہ تم جلد از جلد ڈاکٹر بنو اور پانے علاقے کے لوگوں کا علاج کرو۔‘‘ پیچھے سے ایک بوڑھی خاتون بولیں جو فریحہ کی خدمت سے بہت خوش تھیں۔

’’لیکن ایک شرط ہے ۔‘‘ ایک غریب عورت بولی

’’وہ کیا ؟‘‘فریحہ اور شہلا نے بیک وقت حیرت سے پوچھا

’’مجھ جیسی غریب عورتوں کا مفت علاج کرو گی۔‘‘

’’کیوں نہیں آنٹی! میں تو سب کا مفت علاج کروں گی بس آپ لوگوں کی دعا چاہیے۔‘‘

فریحہ غریب عورت کے گلے میں بازو حمائل کرتے ہوئے پیار سے بولی

فریحہ کا عزم اور حوصلہ دیکھ کر شہلا کی آنکھوں میں آنسو آگئے، جنہیں چھپانے کے لیے وہ اپنے ایک مریض کی جانب متوجہ ہو گئی۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.