Idhar chalon ya udhar اِدھر چلوں یا اُدھر۔۔۔۔

                                                                                                                                                                                                                ’’اِدھر چلوں یا اُدھر۔۔۔۔‘‘

                دریائے نیل کے مغرب میں ،مصر کے ایک صحرائی علاقے میں ایک اُو نٹ رہتا تھا۔ یوں تو مصر میں  بے شمار اُونٹ رہتے ہیں لیکن وہ کوئی معمولی اُونٹ نہ تھا، ویسے تو دوسرے سب اُونٹوں کی طرح اس کا بھی ایک کوہان تھا،چار لمبی لمبی ٹانگیں تھیں، ایک چھوٹی سی دُم تھی ،لیکن گردن ایک نہیں تھی۔۔۔۔اس کی دو دو گردنیں اور دو ہی سر تھے۔

                دائیں سرکا نام خاروفؔ اور بائیں سر کا نام معروفؔ تھا۔اب مشکل یہ تھی کہ ان دونوں کی اپنی الگ الگ پسند نا پسند تھی ، الگ سوچنے کا انداز اور الگ الگ خیالات تھے۔خاورف لیمو، انار اور کھجوریں کھانا پسند کرتا تھا، جبکہ معروف کو مالٹے، کیلے اور انجیر پسند تھے۔

                خاروف کو بہتے ہوئے دریا کا تازہ پانی پینا پسند تھا، جس میں پانی پینے کو دوران اس کو تیرتی ہوئی خوبصورت مچھلیاں بھی نظر آتی تھیں  جبکہ معروف کو جوہڑ کا پانی پینا پسند تھا، جس کا پانی ایک جگہ کھڑا رہتا ہے اور گندا ہوجاتا ہے۔ معروف کو اس جوہڑ میں اُچھلتے کودتے مینڈک اور کنول کے پھول دیکھنا اچھا لگتا تھا۔ خار وف کو دریا کے کنارے گھاس پر تازہ ہوا میں سونے میں مزہ آتا تھا ، جبکہ معروف پرانی کھنڈر عمارتوں میں سونا چاہتا تھا کیونکہ وہ وہاں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتا تھا۔                                                                                                                        دونوں سر اُس اُونٹ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے تھے، ایک دائیں جاتا تو دوسرا بائیں طرف جانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے ہر وقت ان دونوں سروں میں بحث اور لڑائی ہوتی رہتی تھی ۔ایک بے چارہ اُونٹ اور دو  سر۔۔۔۔۔وہ کس کی سنتا اور کس کی نا سنتا، کیا کرتا، ہر وقت اسکی مصیبت میں جان رہتی تھی۔

                ایک دن اسی طرح دونوں میں کھانے پر جھگڑا ہو رہا تھا، معروف انجیر کے درخت کے پاس بیٹھا تھا کیونکہ اسکو انجیر کھانا پسند تھے جبکہ خاروف کھجور کے درخت کی جانب جانا چاھتا تھا کیونکہ اسکو کجھوریں کھانا پسند تھیں، وہ معروف کو کھجور کے درخت کی جانب کھینچ رہا تھا مگر معروف نے اپنے مضبوط جبڑوں سے انجیر کی شاخوں کو سختی سے پکڑ رکھا تھا اور خاروف اس کو کھینچ کر کھجور کے درخت تک نہیں لے جا پا رہا تھا بہت دیر تک اسی طرح کھینچا تانی ہوتی رہی۔۔۔۔۔۔آخربھوک اور تھکن سے اور معروف کی ضد سے تنگ آکر خارو ف کو نیند آگئی ،وہ سو گیا تو تھوڑی دیر میں معروف کو بھی نیند آگئی اور وہ بھی اسی طرح انجیر کی شاخ منہ میں دبائے دبائے سو گیا۔اُونٹ ہمیشہ اسی طرح بیٹھے بیٹھے ہی سوتے ہیں۔

                وہ دونوں اتنی گہری سوئے کہ ان کو ریت کے طوفان کے آنے کا پتا ہی نہ چلا۔ صحرائی علاقوں کو میں بڑے خوفناک طوفان آتے ہیں،                                                                                                                 28                                                                                                             ہوا کی ساتھ اتنی ریت اُڑتی ہے کہ ہر چیز اس میں چھپ جاتی ہے،حتٰی کہ پورے پورے اُونٹ ریت کے نیچے دب جاتے ہیں۔

                خاروف اور معروف کی ساتھ بھی یہی ہوا ۔۔۔۔۔وہ بھی گردن تک ریت میں دب چکے تھے ، جب ان کی سانس رکنے لگی تو اچانک معروف کی آنکھ کھل گئی اس نے ابھی تک منہ میں انجیر کی شاخ دبا رکھی تھی اور اس کے منہ میں ، آنکھو ں میں، کانوں میں ہر جگہ ریت بھرا ہوا تھا  سانس تک نہیں لیا جا رہا تھا،وہ کھانسنے لگا۔ اسکی کھانسی کی آواز سن کر خاروف کی بھی آنکھ کھل گئی اور اس نے سر گھما کر معروف کی جانب دیکھا   اور بولنے کی کوشش کی تو اس سے بھی بو لا نہ گیا، اُنہوں نے اپنی اپنی گردنیں گھما کر دیکھا تو چاروں طرف ریت ہی ریت تھا ، درخت تک ریت سے ڈھکے ہوئے تھے۔

                پھر اُنہوں نے اُٹھنے کی کوشش کی تو ان کو اندازہ ہوا کہ ہو کس مصیبت میں پھنس چکے ہیں ۔ ان سے اُٹھا نہ گیا کیونکہ ان کا پورا جسم ریت کے نیچے دب چکا تھا ،خوش قسمتی سے بس گردنیں باہر رہ گئی تھیں۔ خاروف نے بہت زور لگایا مگر نہ نکل سکا ، پھر معروف نے زور لگایا مگر ہِل بھی نہ سکا ، پھر ان کو خیال آیا کہ وہ تو اس بحث میں بھوکے ہی سوگئے تھے کہ پہلے کون کھائے گا، اوراسی بھوک کی وجہ سے ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اس ڈھیروں ریت کے نیچے سے خود کو نکال سکیں۔

                یہ سوچ کر ان کی جان ہی نکل گئی کہ اگر وہ یہاں سے نکل نہ سکے تو اسی طرح ریت کے نیچے دبے دبے کچھ دن میں وہ مر جائیں گے ،پھر کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔؟ ان کے سروں کو گِدھ کھائیں گے ۔ آج زندگی میں پہلی بار وہ دونوں ایک ہی بات سوچ رہے تھے کہ کس طرح اس ریت کی قبر سے نکلا جائے ۔

                 بھوک سے بھی جان نکلی جا رہی تھی، معروف کے سامنے اسکا پسندیدہ انجیر کا درخت تھا لہذٰا اس نے تو گردن بڑھا کر انجیروں پر سے مٹی جھاڑ جھاڑ کر کھانے شروع کر دیئے۔

                 خاروف پہلے تو غصے سر دیکھتا رہا پھر جب بھوک سے جان نکلنے لگی تو سوچا کہ انجیر ہی کھا کر دیکھ لوں مر جانے سے تو بہتر ہے۔ اس نے بڑی ناگواری سے گردن بڑھا کر ایک انجیر توڑ کر چبایا تو اس کو بہت مزیدار لگا ۔۔۔۔۔پھر اس نے دوسرا کھایا۔۔۔۔پھر تیسرا اور اس طرح اس نے بھی معروف کی طرح خوب پیٹ بھر کر انجیر کھائے۔

                جب دونوں کا پیٹ بھر گیا اور کچھ جان میں جان آئی تو دونوں نے ایک ساتھ مل کر زور لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ اس ریت کی قبر سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ۔ وہ بے حد خوش تھے۔۔۔۔۔۔۔ایک ساتھ مل کر اتفاق سے کام کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کا ا ن کو آج پہلی بار اندازہ ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔آج بھی اگر وہ اپنی من مانی کرتے تو جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے۔

                انجیر کھانے سے دونوں کا پیٹ تو بھر گیا تھا، لیکن اب ان کوبہت زیادہ پیاس لگ رہی تھی۔معروف کو تو جوہڑ سے پانی پینے کی عادت تھی ،لہذٰا پہلے وہ جوہڑ کی طرف گیا لیکن کیا دیکھتا ہے کہ اس جوہڑ میں تو ریت ہی ریت بھرا ہے پانی کا تو نام و نشان ہی نہیں۔ مجبوراََ اس کو خاروف کی ساتھ دریا پر جانا پڑا۔

                                                                                                                29                                                                                                                           خاروف نے خوشی خوشی دریا کا پانی پیا تو معروف نے بھی مجبوراََ جھک کر دریا سے پانی کا ایک گھونٹ بھرا۔۔۔۔۔ اس نے محسوس کیا کہ دریا کا پانی تو بہت تازہ اور میٹھا ہے، وہ خوامخواہ آج تک اس جوہڑ کا پانی پیتا رہا جس میں مینڈک  رہا کرتے تھے۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کی پسند کے کافی پھل کھائے، وہ دونوں ہی سوچ رہے تھے کہ آخر آج تک ہم دونوں ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر کیوں لڑتے رہے, پھل تو سبھی اچھے ہوتے ہیں اور پانی بھی سب جگہ کا اچھا ہوتا ہے ، اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی ہر چیز اچھی ہے تو پھر ہم آپس میں کیوں لڑیں ،اس میں ایک دوسرے کا کیا قصور ہے۔

                اب رات ہوچکی تھی اور ان دونوں کو نیند آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ لیکن سونے کے لئے پھر بحث شروع ہوگئی کیونکہ خاروف دریا کے کنارے  کھلی جگہ اور تازہ ہوا میں سونا چاہتا تھا ،اور معروف پرانی عمارتوں کے کھنڈر میں۔ پھر اُ نہوں نے سوچا اس بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیوں نہ کوئی ایسا طریقہ کیا جائے کہ دونوں آرام سے سو سکیں کیونکہ دونوں بہت تھکے ہوئے تھے۔

                 آخر اُنہوں نے ایک درمیانی راستہ نکال ہی لیا کیونکہ اب وہ دونوں ایک ہی طرح سوچتے تھے، اُنہوں نے پرانی عمارت کے کھنڈر اور دریا کا درمیانی راستہ چنا جس پر وہ اُنٹ بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ کیونکہ اُونٹ لیٹ کر نہیں بلکہ بیٹھے بیٹھے سوتے ہیں، وہاں بیٹھ کر خاروف نے اپنا منہ دریا کی طرف کرلیا،وہاں سے اس کو دریا صاف نظر آ رہا تھا اور دریا کی ٹھنڈی ہوا بھی آ رہی تھی، جبکہ معروف نے اپنا منہ پرانی عمارت کی طرف کر لیا وہاں سے اس کو وہ عمارت صاف نظر آ رہی تھی۔ وہ دونوں بہت خوش تھے کیونکہ ان کی مرضی کے مطابق کام ہوا تھا اور اس طرح آج وہ پہلی بار بڑے سکون سے سوئے تھے۔

                                 اگلی صبح  خاروف اور معروف کے لئے بالکل نئی تھی، کیونکہ اب ان دونوں میں دوستی ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔اب دونوں کے ذہن ایک ہی طرح سوچتے تھے اور دونوں ایک دوسرے کی بات مانتے تھے۔ورنہ ان کے اکلوتے جسم کو ہر وقت یہی مشکل رہتی تھی کہ  ’’ اِدھر چلوں یا اُدھر، اس کی مانوں یا اُسکی۔‘‘ اب اس کو بھی آرام مل گیا تھا اور اس نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔

                                                                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.