Ostrich and the Fox شُتر مُرغ اور لومڑ

                                                                                                                                                                                                                             عمروؔ ، ایک سرخ لومڑ ہمیشہ بھوکا ہی نظر آتا تھا۔وہ ہر چیز کھا جاتا تھا لیکن اسکی پسندیدہ خوراک شُتر مرغ تھے۔  عمان ،جو ملک اُردن کا دارالحکومت ہے، اسکے ایک قصبے میں بہت زیادہ شُتر مرغ رہتے تھے۔ آج عمرو کا ارادہ ناشتے میں انہی میں سے کسی ایک شُتر مرغ کو کھانے کا تھا ۔وہ رینگتا ہوا اپنے بھٹ سے باہر آیااور آس پاس کی جھاڑیوں میں چھپ کر شتر مرغ کے وہاں سے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔

                اُسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ۔۔۔۔۔چند منٹ بعد ہی ایک موٹا تازہ شُتر مرغ، جس کا نام تعریفؔ تھا، بھاگتا ہوا اُدھر آ نکلا۔ عمرو چھلانگ لگا کر جھاڑیوں سے باہر نکلا اور تعریف کا پیچھا کرنے لگا۔تعریف نے جب لومڑکو اپنے پیچھے آتے دیکھا تو اس نے دوڑ لگا دی۔ وہ بہت تیز دوڑا ۔۔۔۔۔اتنا تیز جتنا کہ اس کی دو مظبوط ٹانگیں اُس کا وزن اُٹھا کر دوڑ سکتی تھیں، وہ دوڑتا ہوا ایک پہاڑی پر چڑھ گیا۔

                ہر کوئی جانتا ہے کہ شُتر مرغ اُڑ نہیں سکتے ، عمر وبھی یہ بات جانتا تھا، لہذٰا اس نے پہاڑی پر بھی اسکا پیچھا کیا۔تعریف کی سانس پھولی ہوئی تھی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر زور سے چیخا ۔۔۔۔۔۔’’ بچاؤ، عمرو میرا پیچھا کر رہا ہے۔۔۔۔۔! او کوئی مجھے بچاؤ، او کوئی میری مدد کرو۔۔۔۔او  میرے خدا۔۔۔ کاش کہ میں اُڑ سکتا۔۔ ۔۔!‘‘ وہ پھولی ہوئی سانس سے مسلسل چلائے جا رہا تھا

                تعریف پہاڑی سے اُتر کر سامنے عمان شہر کی طرف بھاگا،جوصبح صبح سورج کی روشنی میں سنہرا دکھائی دے رہا تھا۔گھر اور عمارتیں  جو عمان کے پہاڑوں کے اطراف پھیلی ہوئی تھیں برف کی وجہ سے سفید دکھائی دے رہی تھیں۔تعریف نے پیچھے مُڑ کر دیکھا ۔۔۔۔عمرو اسی کی جانب دوڑا آ رہا تھا۔تعریف نے خود کو چھپانے کے لئے اِدھراُدھر جگہ تلاش کی ۔۔۔۔۔۔مگر وہاں کوئی درخت نظر نہ آیا، بس چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں تھیں جس میں ایک بڑا شُتر مُرغ چھپ نہیںسکتا تھا۔

                اُس نے پھر دوڑ لگا دی ۔۔۔۔۔وہ بہت تیز بھاگا۔۔۔۔اتنا تیز بھاگا کہ اسکی دُم کے کچھ پر بھی ٹوٹ کر ہوا میں بکھر گئے۔

                ’’ او میرے خدا ، کوئی مجھے بچاؤ ۔۔۔۔۔۔ کاش کہ میں اُڑ سکتا۔۔۔۔!‘‘ تعریف نے سانس لینے کے لئے منہ کھول لیا ، وہ بہت تھک گیا تھا۔وہاں اس نے پانی کا ایک چشمہ دیکھا۔۔۔۔۔اس کے ساتھ سفیدے کے درختوں کا جُھنڈ بھی تھا۔

                ’’ اوہ چشمہ۔۔۔۔! میرا خیال ہے کہ مجھے اُن درختوں کے پیچھے چھپنا چاہیئے۔۔۔۔!‘‘ تعریف خوشی سے چِلایا

  تعریف ایک موٹے تنے والے درخت کے پیچھے چھپ گیا،اس نے اپنے پر سمیٹ کر اپنے پیٹ کے ساتھ لگا لئے اور بالکل سیدھا کھڑا ہو گیا تاکہ اس کا موٹاپا درخت کے پیچھے چھپ جائے اور عمر واس کو دیکھ نہ پائے۔اس طرح تعریف عمر وسے چھپنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ عمرو چشمے کے پاس سے بھاگتا ہوا آگے نکل گیا اور تعریف کو نہ دیکھ سکا۔

                جب عمرو دور نکل گیا تو تعریف نے سکون کا سانس لیا اور درخت کے پیچھے سے باہر نکل آیا، پھرپانی پینے کے لئے چشمے کی طرف چل پڑا۔اُس نے اپنی گردن جھکائی اور چشمے کے ٹھنڈے پانی کا گھونٹ بھرا۔ پانی پی کر وہ تازہ دم ہوگیا۔اب وہ واپس اپنے قصبے کی طرف جانا چاہتا تھا، عمرو کافی دور نکل چکا تھا اب اسے کسی کا ڈر نہ تھا۔

                ابھی اُس نے تھوڑا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ اسے ایک جانی پہچانی سی ہانک سنائی دی۔۔۔۔۔اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو عمرو لو مڑ کھڑا تھا۔

                ’’ اُف ۔۔۔۔تم پھر۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔! ‘‘  تعریف چلایا اور اس نے دوڑ لگا دی۔ وہ اُتنا تیز بھاگا جتنا تیز وہ اپنی مضبوط ٹانگوں سے بھاگ  سکتا تھا۔

                ’’ او میرے خدا ،مجھے کوئی بچاؤ۔۔۔۔۔کاش کہ میں اُڑ سکتا۔۔۔! ‘‘ تعریف سسکیاں لیتا ہوا بولا

                وہ امان کی پُر ہجوم گلیوں کی طرف بھاگا۔ وہ کبھی دائیں دیکھتا کبھی بائیں ۔۔۔۔۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرف جائے کہ    لُومڑ سے اس کی جان بچ جائے۔ عمرو مسلسل اس کا پیچھا کر رہا تھا ،وہ بھی بھوک اور تھکن سے ہانپ رہا تھا۔

                تعریف بائیں جانب مُڑ کر ایک بہت بڑے بازار میں آگیا۔۔۔۔ یہاںتنگ گلیوں میں ہزاروں دکانیں تھیں، مختلف چیزوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ یہاں وہ یقیناََ عمرو سے چھپ سکتا تھا۔

                تعریف اس ہجوم میں غائب ہوگیا۔اس کی سانس بہت بری طرح بھولی ہوئی تھی۔اس نے گردن اُٹھا کر دائیں بائیں دیکھا۔۔۔۔! دونوں جانب مختلف اشیاء کے اسٹال لگے تھے جن کے درمیان وہ با آسانی چھپ گیا تھا۔

                 اس کے سامنے جو اسٹال تھا اس پر سونے کے زیورات سجے ہوئے تھے جن کو دیکھ کر آنکھیں چکا چوند ہوئی جا رہی تھیں۔ تعریف کی نظر سونے کی ایک چین پر پڑی، اس نے سوچا اس کی لمبی گردن میں یہ چین کتنی خوبصورت لگے گی۔ اس نے دیکھا دکاندار وہاں موجود نہیں تھا۔۔۔۔۔اس نے چپکے سے ڈبے میں چونچ ڈال کر ایک چین کھسکا لی اوراپنے پروں میں چھپانے کی کوشش کرنے لگا،لیکن پھر اسے خیال آیا کہ اسے تو ایسی چیزیں پسند ہی نہیں ہیں، اور پھر چوری کرنا بھی بُری بات ہے۔۔۔۔۔لہذٰا اس نے وہ چین واپس ڈبے میں ڈال دی۔

                تعریف ان زیورات کی چمک میں ایسا کھویا تھا کہ عمرو کو بھول ہی گیا تھا۔چین واپس رکھنے کے بعد وہ رنگ برنگے رومالوںکی دکان پر جا کھڑا ہوا تھا، اتنی دیر میں پیچھے سے اسے پھر وہی جانی پہچانی غرغراہٹ سنائی دی۔۔۔۔۔عمرو اس کے پیچھے کھڑا تھا اور اس کی بھوری سرخ سموری دُم اس کے پیچھے لہرا رہی تھی۔

                                                                                                                14                                                                                                                           ’’ اب میں کہاں چھپوں۔۔۔۔‘‘ اس کا گلا خشک ہوگیا تھا اس نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے سوچا

                ’’ او میرے خدا ۔۔۔ ، او مجھے بچاؤ ، کا ش ایسا ہوتا کہ میں اُڑ سکتا۔۔۔۔!‘‘ چیختا ہوا تعریف پھر تیزی سے دوڑپڑا اور عمرو غصے سے غراتا اور بڑبڑاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا۔

                تعریف ریڈی میڈ کپڑوں کی ایک دکان میں گھس گیا۔ وہاں اس نے ایک قمیض اُٹھا کر پہن لی۔۔۔۔اس کی لمبی بازو میں اپنی لمبی گردن گھسا لی، پیچھے سے اس کی پنکھ نما دُم قمیض سے باہر رہ گئی تھی جس کی وجہ سے فراک کا سا اسٹائل بن گیا تھا۔ پھر تعریف اسٹائل بنا کر ایک مجسمے کی سا تھ کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔اب وہ بھی ایک مجسمہ لگ رہا تھا۔تعریف کی خوش قسمتی تھی کہ عمرو  اس کو واقعی پہچان نہ سکا اور تیزی سے اس دکان کے سامنے سے گزر گیا۔

                اتنے میں اس دکان پر ایک عورت آگئی ۔۔۔۔اس کو تعریف کا ڈریس بہت پسند آیا ، اس نے تعریف کی پنکھ نما دُم کھینچی

                ’’ اُف۔۔۔۔۔!‘‘ تعریف کی چیخ نکل گئی اور وہ وہاں سے بھاگا۔۔۔۔۔اسے یہ بھی خیال نہ رہا کہ عمر وابھی زیادہ دور نہیں گیا ہوگا،لیکن اسے عمر و  دور دور تک نظر نہ آیا۔

                 وہ بازار سے نکل کر شہر سے باہر کی طرف چل پڑا ۔وہاں اس نے ایک پرانا تھیٹر دیکھا جو بڑی بڑی پتھر کی اینٹوں سے بنا تھا،لیکن اب ویران پڑا تھا۔تعریف اس پرانے تھیڑر میں کھس گیا ۔

                تھیٹر میں سامنے ہی ایک بڑا سا اسٹیج تھا جس پر فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے اور تعریف اس کے اسٹیج پر جا کھڑا ہوا۔۔۔۔۔! اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک فنکار ہے اور سامنے لوگ بیٹھے اس کا گانا سننے کے منتظر ہیں۔ اس نے اپنی چونچ کھول کر گانا شروع کردیا ۔۔۔۔۔پتھر کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی اس کی آواز بہت بھلی لگ رہی تھی۔اس نے پورا گانا گایا اور گانا ختم کر کے ایسے جھکا جیسے لوگوں سے داد وصول کر رہا ہو۔ اتنے میں اسے ایک مانوس غرغراہٹ سنائی دی۔

                ’’ اوہ نہیں ۔۔۔۔یہ تو عمرو ہے، اب میں کہاں جائوں۔۔۔۔؟ ‘‘

                 تعریف وہاں سے بھاگا اور ایک بڑے ستون کے پیچھے چھپ گیا، اس نے دیکھا عمرو آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسٹیج کی طرف آرہا ہے۔ اس نے بھی اسٹیج پر کھڑے ہو کر غرانا شروع کردیا۔دراصل وہ گانا گا رہا تھا۔ اس کی غرغراہٹ اونچی ہوتی گئی جو پتھر کی دیواروں سے ٹکرا کر اور بھی بھدی معلوم ہو رہی تھی۔اب تعریف سے چپ نہ رہا گیا اور اس کی ہنسی چھوٹ گئی ،اور قہقہے پھوٹ پڑے۔۔۔۔۔وہ اپنے موٹے پیٹ کو پکڑ کر ہنسے جا رہا تھا۔

                 یہی اس نے غلطی کی۔ ا چانک عمر ونے غرانا بند کیا اور غصے سے ہانکنے لگا۔ اب تعریف نے بھی ہنسنا بند کردیا اورجھانک کر اسٹیج کی طرف دیکھا ۔ عمرو کی نظر تعریف پر پڑی تووہ اس کی طرف جھپٹا۔

                ’’ او میرے خدا۔۔ ، او مجھے کوئی بچاؤ۔۔۔۔کاش کہ میں اُ ڑ سکتا۔۔۔۔! ‘‘

                                                                                                                15                                                                                                                           تعریف تھیٹر کی دیوار سے چھلانگ لگا کر شہر کی طرف بھاگا، عمرو اس کے پیچھے تھا ۔ آج وہ کسی قیمت پربھی اپنی پسندیدہ ڈش یعنی تعریف کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔

                                شہر میں پہنچ کر تعریف ایک اسٹال کے قریب سے گزرا جہاں خوشبودار کافی بیچی جا رہی تھی۔ خوشبو نے اس کو اپنی جانب کھینچا مگر وہ کسی صورت رک نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔عمر وتیزی سے اس کے پیچھے دوڑا آ رہا تھا۔

                پھر وہ ایک کبابوں کی دکان کے آگے سے گزرا۔۔۔۔۔دکاندار سیخوں پر کباب بھون رہا تھا۔

                 ’’ یم یم۔۔۔۔!‘‘ تعریف کے منہ میں پانی آگیا ، وہ صبح سے بھوکا دوڑ رہا تھا۔۔۔۔سخت بھوک لگ رہی تھی مگر وہ رک نہیں سکتا تھا۔ اگر آج وہ رک جاتا تو اپنی جان سے جاتا، پھرلومڑ اس کے کباب بنا کرکھاتا، اور وہ لومڑ کا شکا ر بننا نہیں چاہتا تھا۔

                بہت دیر بھاگنے کے بعد جب تعریف کی مضبوط ٹانگیں بھی جواب دے گئیں تو وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ہانپنے لگا اس نے آنکھیں بند کر کیں اور ان کبابوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ بھوک سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔

                  ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس کو اپنے قریب غرغراہٹ کی آواز آئی

                   ’’ او ہ نہیں ۔۔۔۔۔۔عمرو یہاں بھی۔۔۔۔!‘‘

                 تعاریف نے ا ُ ٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی مگر وہ اب بہت تھک چکا تھا،  مزیدبھاگنا اس کے لئے نا ممکن تھا۔

                ’’ او۔۔۔۔میرے خدا،کوئی بچاؤ۔۔۔۔۔مجھے، کاش۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ اُڑ سکتا۔۔۔!‘‘ اب تو تعریف سے بولا بھی نہ گیا

                                پھر تعریف نے وہی کیا جو ایک شُتر مُر غ کر سکتا تھا۔۔۔۔۔۔اس نے ریت میں اپنا منہ چھپالیا ، اور سوچ لیا کہ اب مجھے لُومڑ سے کوئی خطرہ نہیں وہ مجھے نہ پا کر چلا گیا ہوگا۔

                 اس طرح ریت میں صرف منہ چھپا کر شُتر مُرغ سمجھتے ہیں کہ ہم چھپ گئے اور اب کسی نظر نہیں آئیں گے، حالانکہ ان کا پورا جسم تو باہر ہوتا ہے جو سب کو نظر آ رہا ہوتا ہے، مگر یہ ان کی فطرت ہوتی ہے۔ان کی اپنی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو بھی کچھ نظر نہیں آ رہا ہوگا۔

                 ’’ کیا واقعئی وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اس طرح ریت میں منہ دے کر وہ مجھ سے چھپ سکتا ہے۔۔۔؟‘‘ عمرو حیرا نی سے شُتر مُرغ کو دیکھنے لگا

                ’’ کتنا بے وقوف ہے یہ تعریف بھی۔۔۔۔! ‘‘ عمرو کے منہ میں پانی بھرآ یاتھا کیونکہ شکار تو اب اس کے سامنے تھا  اور وہ صبح سے اس کو کھانے کے لئے نے چین تھا، تعریف نے اس کو بہت بھگایا تھا۔اب تو اس کی بھوک خوب چمک اُٹھی تھی۔

                عمرو نے تعریف پر چھلانگ لگا دی، اور اب وہ اس کو کھانے ہی والا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ کیا ہوا ۔۔۔؟ عمرو  تو خود ایک جال میں پھنس چکا تھا ۔  سُرخ لُو مڑ پکڑنے والا ایک شکاری اُدھر آ نکلا تھا اور اس نے عمر وپر جال پھینکا تھا ۔ ۔۔۔جس میں وہ بُری طرح پھنس چکا تھا۔

                عمر وغصے سے بُری طرح غرُا رہا تھا۔ عمرو کی زوردار غرغراہٹ سن کر تعریف نے حیران ہوکر ریت سے اپنا سر نکال لیا۔۔۔۔۔ اور اس نے دیکھا کہ عمرو کو ایک آدمی اپنے جال میں ڈال کر لے جا رہا ہے۔ تعریف کی خوشی کا کوئی ٹہکانہ نہ تھا کہ اس کی جان کا دشمن اب خود جال میں پھنس چکا تھا اور اس کی جا ن ہمیشہ کے لئے چھٹ گئی تھی، اسے اب کبھی اس لُومڑ سے بھاگنا اور چھپنا نہیں پڑے گا۔اس کا دشمن اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔

                                شام ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔آسمان تین رنگ کا ہوگیا تھا ، اس پر سرخ، نارنجی اور کاسنی رنگ پھیل رہے تھے۔

                ’’ آہ۔۔۔۔۔  کیا خوبصورت منظر ہے۔۔۔۔! ‘‘ تعریف بڑبڑایا،وہ بڑا  پُر سکون نظر آرہا تھاکیونکہ اب وہ آزاد تھا

                                اس کے بعد تعریف سیدھا کبابوں کی دکان پر گیا وہاں سے کچھ کباب خریدے اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کھائے، پھر گرم گرم خوشبو دار عربی کافی پی اوراپنے گھر کی طرف چل دیا۔                                                                                                                                                                                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.