Khayal Rakhna- خیال رکھنا

خیال رکھنا

پنکی اپنے کمرے کی کھڑکی کے قریب بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ کبھی کبھار نغر اٹھا کر ٹیرس کے پرے لان میں بھی دیکھ لیتی تھی جہاں ہرے بھرے درخت اور پھولوں کے پودے لہلہا رہے تھے ۔ کہتے ہیں کہ زیادہ پڑھنے سے نظر پر برا اثر پڑتا ہے اور اگر ساتھ ساتھ کتاب سے نظر ہٹا کر دور کی چیزوں کو بھی دیکھ لیا جائے تو بہتر رہتا ہے اور اگر سبزہ دیکھا جائے تو کیا ہی کہنے۔

پنکی ابھی آٹھویں کلاس میں تھی لیکن اسے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ اپنے کورس کی کتابیں تو وہ نئی کلاس میں آتے ہی ختم کر لیا کرتی تھی، اس کے علاوہ بھی ہر قسام کی اچھی اچھی کتابیں پڑھنا اس کا محبو ب مشغلہ تھا۔ کیا اردو کیا انگریزی، موٹی سے موٹی کتاب بھی وہ چند دنوں میں پڑھ ڈالتی تھی۔ وہ جتنا زیادہ مطالعہ کرتی تھی اتنا ہی اس کا یہ شوق بڑھتا جاتا تھا۔ اس کے پاپا کو اس کے اس شوق کا علم تھا لہٰذا وہ ہمیشہ اپنی بیٹی کے لیے اچھی سے اچھی کتابیں ڈھونڈ کر لاتے تھے کیونکہ وہ خود بھی مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔

’’ یہ کتب بینی بھی کیا شوق ہے۔۔۔۔۔!‘‘ ایک دن پنکی کے پاپا س کو کتاب میں غرق دیکھ کر بولے، ’’جتنا پڑھو اتنی ہی پیاس بڑھتی ہے۔‘‘

’’جی ہاں ! آپ کو اور آپ کی بیٹی کو یاک ہی تو کام ہے، سارا دن پڑھنا، پڑھنا اور پڑھنا۔ دنیاداری کی کچھ فکر ہی نہیں ہے۔ جتنے پیسے آپ اس مہنگے شوق پر صرف کرتے ہین اتنے پیسے بچا رہے ہوتے تو آج ہم اپنا مکان بنا چکے ہوتے۔‘‘ پنکی کی ممی نے طنز کیا۔

’’بھئی یا تو انسان معاشرے میں اپنا مقام بنا لے یا مکان بنا لے۔ دونوں چیزیں اکٹھی بنانا مجھ جیسے ایمان دار سرکاری افسر کے لیے تو بہت مشکل ہے ۔ مگر تمہیں  کیا پتا کہ معاشرے میں اچھا نام اور مقام بنانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ تمہیں تو صرف مکان کی فکر ہے۔‘‘ پاپا مصنوعی افسردگی سے بولے۔

’’اور آپ کو تو جیسے مکان کا کچھ کرنا ہی نہیں۔۔۔ آپ اور آپ کی بیٹی تو ان کتابوں کو جھونپڑابنا کر سڑک پر بھی رہ سکتے ہو ۔۔۔۔۔ ہے نا۔۔۔۔۔؟‘‘

’’ارے بھئی ! میں تو مذاق کر رہا تھا ، مگر آپ بھی یہ کیسی نا شکری کی باتیں لے کر بیٹھ جاتی ہیں ۔ اب کیا خداناخواستہ ہم سڑک پر بیٹھے ہیں۔ اتنا اچھا سرکاری مکان ملا ہوا ہے اور جب تک نوکری ہے ، ہم جہاں بھی جائیں گے مکان مل جائے گا۔ البتہ ریٹائرمنٹ تک ہم مکان بنا ہی لیں گے۔ فی الحال تو تم مجھے اور میری بیٹی کو اپنا مقام بناناے دو اور اچھی سے چائے پلا دو۔‘‘

’’اچھی سی کتاب لادو۔۔۔۔ اچھی سی چائے پلا دو۔۔۔۔۔ ہونہہ! زہر لگتا ہے یہ آپ کا باربار جائے منگوانا۔‘‘ ممی بڑبڑاتی ہوئی اٹھنے لگیں۔

’’ٹھہر جائیں ممی ! میں بنا دیتی ہوں پاپا کو چائے۔‘‘ پنکی فوراََ کتاب رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور ممی دوبارہ صوفے پر ڈھے گئیں اور بولیں۔

’’یہ توبتائیے کہ آپ کی ریٹائرمنٹ میں کتنے سال رہ گئے ہیں۔۔۔؟‘‘

’’حد ہو گئی۔۔۔۔۔ آپ ابھی تک مکان کے چکر میں ہی پھنسی ہوئی ہیں۔ آپ کو ایسی کیا فکر لاحق ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔؟ مکان کبھی نا کبھی بن ہی جائے گا۔‘‘ پاپا حیرت سے بولے

’’ہیں پاپا۔۔۔۔۔! کیا ہم اپنا مکان بنوا رہے ہیں۔۔۔۔؟‘‘

باہر سے آتا ہوا علی بولا تو احمد بھی ادھر ہی متوجہ ہو گیا’’ پاپا۔۔۔۔ مکان دو منزلہ بنوائیے گا۔ ایک منزل میری اور ایک علی کی۔‘‘ احمد علی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا۔

’’واہ۔۔۔۔۔۔ ایک منزل میری اور ایک علی کی؟ اور ہم کہاں جائیں گے۔‘‘ ممی غصے سے بولیں۔

’’آپ ایسا کیجئے گا۔۔۔۔۔! علی سوچتے ہوئے بولا ’’ آپ ایسا کیجئے گا کہ ایک میرے ساتھ اور ایک احمد کے ساتھ رہ لیجئے گا۔ پنکی کو توہم شادی کر کے گھر سے ہی نکال دیںگے۔‘‘

’’بہت خوب بیٹا ۔۔۔۔ آپ لوگوں نے تو ہمیں ابھی سے الگ کر دیا۔۔۔ ؟ ‘‘ پاپا بولے۔

’’کیا کریں پاپا۔۔۔۔! آج کل کی بہوئیں ساس سسر کا اکٹھا بوجھ برداشت نہیں کرتیں نا۔۔۔۔۔‘‘ احمد بولا

’’شرم کرو بھائی۔۔۔! یہ کیسی باتئیں کر رہے ہو ؟ ‘‘ پنکی کچن سے آتے ہوئے بولی، ’’ ابھی تو تمہیں ممی پاپا کی خدمت کرنی چاہیے۔‘‘

’’ یہ سب اس کیبل کا اثر ہے جو تینوں ماں بیٹے سارا دن دیکھتے ہیں۔ پڑھنے لکھنے کو تو انہیں شوق ہی نہیں ۔‘‘  پاپا افسوس سے بولے۔

’’بھئی ۔۔۔۔ بزرگوں کی اور والدین کی خدمت کرنا تو ایک طرح کی چاپلوسی اور رشوت ہوتی ہے جو والدین سے کچھ حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے ۔ ہمیں تو سب کچھ ویسے ہی مل جائے گا تو پھر ہمیں ایسے کام کرنے کی کیا ضرورت؟ ‘‘ علی بولا

’’توبہ توبہ ، چاپلوسی اور رشوت جیسے کام ہم کبھی نہیں کریں گے ۔ یہ تو گناہ ہوتا ہے۔ ‘‘ احمد کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا

’’بھائی! والدین اور بزرگوں کی خدمت نہ کرنا سب سے بڑا گناہ ہوتا ہے۔ شاید آپ لوگوں کو علم نہیں۔ ‘‘ پنکی بولی

’’ اللہ تعالیٰ نے باربار والدین کی خدمت کی تاکید فرمائی ہے۔ آپ کو اپنے حقوق کا تو پتا ہے مگر فرائض کا کچھ پتا نہیں۔ قرآن پڑھیں گے تو پتا چلے گا نا۔۔۔۔‘‘

’’تم چپ رہو ۔۔۔۔ چمچی کہیں کی ۔ تم سے کس نے مشورہ لیا ہے ، بڑی آئیں علامہ۔‘‘ احمد نے پنکی کو ڈانٹا

’’ویسے یہ ٹھیک کہہ رہا ہے ‘‘ ممی بولیں۔ ’’ آپ نے پنکی کو بہت سر چڑھا لیا ہے ، بھائیوں پر تنقید کرنا کونسی اچھی بات ہے۔‘‘

’’والدین سے بحث کرنا تو بہت اچھی بات ہے نا؟ یہی تربیت کر رہی ہیں آپ اپنے بیٹوں کی۔۔۔۔؟ اگر میری بیٹی نے کوئی غلط بات کہی ہوتی تو میں اسے خود ہی ڈانٹ دیتا۔ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ آج یہ والدین کا احترام کرنا سیکھیں گے تبھی کل کو ایک اچھا شہر ی ثابت ہو ں گے نا۔۔۔ بچوں کی بچپن ہی سے اچھی تربیت کی جاتی ہے تبھی وہ معاشرے میں والدین کا نام روشن کرتے ہیں اور ملک و ملک کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔۔۔‘‘

’’ہونہہ۔۔۔۔ آپ اور آپ کا معاشرہ، معاشرے میں نام اور مقام آپ کو ہی مبارک ہو میرے بیٹوں کو ان لغویات سے معاف ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ ہم جیسے ہیں ٹھیک ہیں۔‘‘ ممی غصے سے بولیں اور اٹھ کر اند رچلی گئیں۔

’’مد بیٹا کہاں جا رہے ہو؟ رکو ذرا مجھے کچھ سودا منگوانا ہے وہ بھی لا دو نا۔‘‘ ممی نے احمد کو باہر جاتے دیکھا تو بولیں۔

’’ او۔۔۔۔ نو ممی ، میں ضروری کام سے جا رہا ہوں وہ شرفو کہاں ہے یہ سب تواس کے کرنے کے کام ہیں ۔‘‘ احمد ناگوری سے بولا۔

’’شرفو چاچا کہو۔۔۔ یہ شرفو کیا ہوتاہے۔ وہ تمہارے بزرگ ہیں ، ادب سے نام لو۔ اور جو تمہاری ممی کہہ رہی ہیں وہ کرو۔‘‘ پاپا نے احمد کو ٹوکا

’’ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے مگر میرے پاس ذرا بھی فالتو وقت نہیں ہے، وہ علی آ رہا ہے اسے کہہ دیں۔ اب ہم کالج میں آگئے ہیں اور ممی بثوں کی طرح کام بتا رہی ہیں۔‘‘ احمد بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا۔

علی اپنے ایک دوست کے ساتھ گھر میں داخل ہو تو ممی اس کی طرف لپکیں اور بولیں۔

’’علی بیٹا ۔۔۔ آج شرفو بابا نہیں آئے بیمار ہیں اور شام کو کچھ مہمان آنے والے ہیں مجھے کچھ باورچی خانے کا سامان منگوانا ہے وہ تو لادوذرا۔‘‘

’’ممی آپ کو کیا ہو گیا ہے، میں اور بازار سے سودا لائوں ؟ ناممکن ۔ ‘‘ علی یہ کہہ کر اپنے دوست کو لے کر ڈرائنگ روم میں جانے لگا۔

’’مگر بیٹا آج تو چھٹی ہے ۔ آپ فارغ ہو ، کیا ہرج ہے اگر بازار چلے جائو تو۔۔۔!‘‘

’’ہاں چھٹی ہے تو کیا ہوا۔ چھٹی آرام کرنے کے لیے ہوتی ہے ۔ اور پھر آج تک میں یا احمد کبھی سودا لائے ہیں جو اب لائیں۔ یہ کام تو نوکروں کا ہوتا ہے ۔ آپ نے تو ہمیشہ یہی بتایا ہے کہ یہ کام نوکروں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔‘‘

’’یار علی۔۔ یہ تم کس قسم کی باتیں کر رہے ہو ؟‘‘ علی کا دوست اسد بولا’’ لائیں آنٹی مجھے پیسے اور سودے کی لسٹ دیں میں لا دیتا ہوں۔‘‘

’’مگر بیٹا ۔۔۔ آپ تو مہماں ہیں۔۔۔‘‘ ممی علی کی طرف دیکھ کر ہچکچا تے ہوئے بولیں۔

’’تو کیا ہو ا آنٹی؟ ہمارے گھر کے نکر بھی جب چھٹی پر ہوتے ہیں تو میں ہی کام کرتا ہوں۔ اپنے گھر کا کام ہم نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ یہ علی تو بالکل نکما ہے ، آنٹی میں یہاں نزدیک ہی رہتا ہوں آپ کو جب بھی کام ہوا کرے آپ میرے موبائل پر مس کال دے دیا کریں میں آ جایا کروں گا۔ مجھے تو بڑوں کاکام کر کے خوشی ہوتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اسد نے ممی کے ہاتھ سے سودے کی لسٹ اور پیسے لے لیے اور علی کی طرف مڑ کر بولا۔’’ چلو چلتے ہیں۔‘‘  اور علی چپ کر کے چلا گیا۔ آدھ گھنٹے بعد علی سودا لیے گھر میں داخل ہوا۔ اپنے دوست کو باہر ہی سے رخصت کر دیا ۔ سودا لا کر ممی کو دیا اور بولا۔ ’’ آج تو یہ میں سودا لے آیا ہوں ۔۔۔ آیندہ مت کہئے گا، میرے دوست کے سامنے کہہ کر مجھے ضرور شرمندہ کرانا تھا۔‘‘

’’تو کیا ہو گیا بیٹے اگر آپ سودا لے آئے تو آ پ نہیں لائو گے تو اورکون لائے گا۔‘‘ پاپا بولے ۔’’ آپ کو تو خود خیال رکھنا چاہیے۔‘‘

’’پاپا ۔۔۔ اب ہم بچے نہیں ہیں ۔ ہم کالچ میں آگئے ہیں ۔ کیا ہماس طرح کام کرتے اچھے لگتے ہیں ۔‘‘ علی پاپا کی طرف مڑکر بولا۔

’’کالج ،کالج ، کالج ، کالج میںآ گئے ہو تو کیا پر نکل آئے ہیں تمہارے ؟ جب دیکھو دونوں بھائی کالج کا طعنہ دیتے ہو ۔۔۔ کیا ہم کالج میں نہیں پڑھے؟‘‘

ممی کو بھی غصہ آگیا۔’’تم سیکنڈ ایئر میں ہو اور احمد فرسٹ ائیر میں ، کون سا پی ایچ ڈی کر رہے ہو تم؟‘‘

’’بیٹا کالج کی تعلیم تو انسان میں شعور پیدا کرتی ہے۔ عجزو انکساری پیدا کرتی ہے ، صبر و تحمل اور بڑوں کا ادب سیکھاتی ہے۔ ‘‘ پاپا نے سمجھایا

’’وہ تمہارا دست ۔۔۔۔ کیا نام ہے اس کا؟ ہاں ! اسد وہ کتنا سعادت مند بچہ ہے ۔ اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ واقعی تعلیم یافتہ نوجوان ہے ، اسی سے کچھ سیکھ لو۔۔۔‘‘ ممی بولیں

’’مجھے دوسروں کی مثالیں مت دیں۔ میںجیسا ہوں ٹھیک ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر علی صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا۔ پنکی بھی ساتھ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جس پرایک ملی نغمہ چل رہاتھا۔

’’وطن ہے ہم سے

ہم ہیں وطن سے ۔۔۔۔

خیال رکھنا‘‘

’’یہ کیا فضول ملی نغمہ دیکھ رہی ہو؟‘‘ علی نے پنکی کی ہاتھ سے ریموٹ کھینچا اور چینل بدل کر میوزک چینل لگا دیا۔ جہاں ایک انڈین گانا چل رہاتھا۔

’’موجاں ای موجاں‘‘

’’بیٹا جی ۔۔۔ یہ موجاں میرے دم سے ہیں۔ اگر کل کو میں نا رہا تو کیا کرو گے ؟ تم تو سودا لانے کے قابل بھی نہیں ہو۔۔۔ اس بات کا خیال رکھنا۔‘‘

پاپا یہ کہہ کر اپنے کمریمیں چلے گئے ۔ پنکی بھی وہاں سے اٹھ گئی۔

’’ہونہہ۔۔۔ بڑے آئے ، احسان جتا رہے ہیں ہم پر۔‘‘ علی یہ کہہ کر دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگا۔

’’احسان نہیں جتا رہے ۔ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ممی بولیں۔ تم لوگ اتنے نالائق ہوجائو گے میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی یہہ سب موج میلے تمہارے پاپا کے دم سے ہیں ۔ تم خود کیا چیز ہو؟

’’آج نہیں ہیں ، لیکن کچھ نہ کچھ بن ہی جائیں گے۔ اور یہ کون سا نیا کام کر رہے ہیں۔ تمام والدین اپنی اولاد کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں ، یہ ان کا فرض ہے اپنی اولاد کے لیے نہیں کریں گے تو پھر کس کے لیے کریں گے۔‘‘ علی بولا۔

’’ یہ والدین کا فرض نہیں ہے۔ یہ ان کی محبت ہے کہ تم جیسے نالائقوں کو آسائش ی ہر وہ چیز مہیا کر رکھی ہے جس کے تم حقدار بھی نہیں ہو۔ فرض تو ان کا یہ ہے کہ تم نالائقوں کو جوتے لگا کر سیدھا کریںاور بزرگوں کا ادب کرنا سیکھائیں۔ وہ والدین بھی ہوتے ہیں جو بچوں کو سڑکوںپر رلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں یا ان سے بھیک منگواتے ہٰن اور خود نشہ کر کے کسی کونے میں پڑے ہوتے ہیں ۔ کیا وہ اپنے فرض کو سمجھتے ہیں۔ فرائض کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو اپنے والدین اور اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے۔ صرف خود غرض لوگ اپنے حقوق کی بات کرے ہیں۔‘‘ ممی علی کو سمجھاتے ہوئے بولیں۔

’’اچھا ممی پلیز اب آپ جائیں اور اپنا کام کریں۔ آپ کے مہمان آنے والے ہوں گے ، میرے کان نہ کھائیں۔ ‘‘ علی بولا

ممی کی آنکھوںمیںایک دم آنسو آگئے  اور وہ فوراََ کچن میں چلی گئیں۔اور سوچتی رہیں کہ یہ میری اولاد کو کیا ہوگیا ہے ؟ یہ کس انداز سے  ہم سے بات کرتے ہیں۔ ہم نے ایسا تو کبھی نہیں سوچا تھا۔ شاید ہماری ہی غلطی ہے کہ ہم نے ضرورت سے زیادہ ان سے پیار کیا۔ تھوڑی سی سختی بھی ضروری تھی۔ سچ کہتے ہیں ان کے پاپا میں نے ہی ان کا بگاڑا ہے ۔ مجھے خیال رکھنا چاہیے تھا۔

’’پاپا۔۔۔۔ پاپا ، مجھے ذرا ایک مضمون تو لکھوا دیں ‘‘ احمد کاپی اور پین لے کر پاپا کے پاس آ بیٹھا۔

’’کس لیے لکھنا ہے مضمون اور کیا موضوع ہے ؟ ‘‘ پاپا بولے

’’پاپا ہمارے کالج میں مضمون نویسی کا مقابلہ ہے جس پر انعام بھی ملے گا۔ موضوع ہے ’’تعمیرِ پاکستان‘‘۔ موضوع تو فضول سا ہی ہے اسی لیے آپ سے پوچھ رہا ہوں ورنہ تو میں خود ہی لکھ لیتا، آپ لکھو ا دیں شاید انعام بھی مل ہی جائے۔‘‘

’’پاپا کو احمد کی بات پر غصہ آگیا لیکن ھر چپ کر گئے کہ یہ شاید ہمارا اپنا ہی قصور ہے کہ یہ اس طرح سوچتے ہیں ، مگر پنکی بھی تو ہماری ہی بیٹی ہے ، وہ تو بہت سمجھ دار ہے ، فرماں بردار اور سعادت مند بھی ہے اپنے ملک اور مذہب سے بھی اسے محبت ہے۔ پنا نہیں یہ شاید برے دوستوں کی صحبت ہے ، مگر علی کا تو دوست اسد بہت اچھا ہے۔ پتا نہیں یہ میرے بیٹوں کو کیا ہو گیا ہے ۔ شاید ان کی ممی نے ان کو بگاڑدیا ہے ۔ وہ مجھے ان کی کوئی بات سمجھانے سے پہلے ہی ٹوک دیتی تھیں۔

’’پاپا ۔۔۔ آپ کیا سوچنے لگے ؟ یہ اتنا مشکل موضوع تو نہیں ہے۔‘‘ احمد نے پاپا کو ہلایا

’’آپ جیسے نوجوانوں کو سمجھانے کے لیے تو یہ بہت مشکل موضوع ہے جو اس کو فضول سمجھتے ہیں۔ ‘‘

’’کوئی بات نہیں پاپا۔ بھلے نہ سمجھ آئے مجھے تو صرف لکھنا ہے۔‘‘ احمد کاپی قلم سنبھالتے ہوئے بولا، علی اور پنکی بھی قریب ہی بیٹھے تھے۔

’’نہیں بیٹا۔۔۔۔ یہ اتنا اہم اور حساس موضوع ہے کہ ان نالائقوں کے جو اسے سمجھنا نہیں چاہتے انہیں میں لکھوا کر اس کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہتا۔ لہٰذا تم اسے رہنے ہی دو تو اچھا ہے۔‘‘

’’پاپا ۔۔۔ آپ ہمیں سمجھائیں شاید ہمیں سمجھ میں آہی جائے ، اب ہم اتنے بھی نالائق نہیں ہیں۔ اب جب آپکو یہ موقع ملا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ‘‘ اب کے پنکی بولی ۔ اس کا اشارہ اپنے بھائیوں کی طرف تھا کہ اگر اتفاق سے وہ اس موضوع پر کچھ سننا چاہتے ہیں تو ضرور بتائیں ۔ اور پاپا پنکی کی بات سمجھ گئے اور وہ بولے: ’’ اچھا میں تمہیں مضمون لکھوائوں گا نہیں بلکہ ایک قصہ سنائوں گا ۔ مضمون تمہیں خود لکھنا ہو گا اور اگر اچھا ہو گا تو میںبھی تمہیں انعام دوں گا۔‘‘

’’چلئے یہ ٹھیک ہے ۔ ‘‘ احمد ایک اور انعام کا سن کر خوش ہوتے ہوئے بولا ۔ اسے ہر وہ بات اچھی لگتی تھی جس میں انعام کا لالچ ہو ۔ پاپا نے بتانا شروع کیا۔

’’ایک شام غروب ہوتے ہوئے سورج نے دنیا سے پوچھا!’’کون ہے جو میری جگہ لے گا؟‘‘ جھونپڑی میں ایک ننھا سادیا جل رہا تھاوہ بولا’’میں تمہاری جگہ لوں گا، اور اس اندھیری رات میں روشنی پھیلائوں گا۔‘‘ سورج ننھے دیے کا جواب سن کر خوش ہوا اور اطمینان سے غروب ہو گیا۔ ‘‘

کسی ملک کی تعمیر و ترقی میں نوجوان نسل کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو ایک انسان میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت ہوتی ہے ۔ اگر انسان کی جسم سے ریڑھ کی ہڈی نکال دی جائے تو اس کی حالت زمین پر رینگنے والے ایک کیڑے سے بھی بد تر ہو جائے۔ جس ملک کی نوجوان نسل باشعور ، تعلیم یافتہ ، محنتی اور جھونپڑے کے چراغ کی طرح ہر مشکل چیلنج کو قبول کرنے والی ہو وہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں اور کامیابی کی شاہراہ پر دوڑتے نظر آتے ہیں ۔ اب یہ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے کہ اپنے ملک کو کامیابی کا شاہراہ پر دوڑنے والا گھوڑا بنا دیں یا زمین پر رینگنے والا کیڑا جو کسی بھی وقت گھوڑے کے پیر کے نیچے آ سکتا ہے۔

ایسے روشن چراغ نوجوانوں کی تربیت ان کے گھر سے ہی شروع ہوتی ہے جو بچے والدین اور اپنے گھر سے محبت کرتے ہیں ان سے مخلص ہوتے ہیں ، ان کی تابعداری کرتے ہیں، والدین کی دی ہوئی محبتوں اور آسائشوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بجائے ا ن کے شکر گزار ہوتے ہیں وہی آگے چل کر ملک و ملت کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔‘‘

پاپا اتنا کہہ کر چپ ہو گئے اور بچوں کی طرف دیکھا جو بہت غوراور خاموشی سے ان کی باتیں سن اور سمجھ رہے تھے۔ احمد اٹھ کر پاپا کے پاس گیا اوربولا ’’آئی ایم سوری پاپا۔۔۔۔ ہماری سوچ غلط تھی ، ہم اپنے گھر اور اپنے ملک کے لیے روشن چراغ بننے کی کوشش کریں گے ، اور اب یہ مضمون میں خود لکھنے کی کوشش کروں گاچاہے مجھے انعام ملے یا نہ ملے۔‘‘

’’پاپا ۔۔۔۔۔ میں بھی اس بات کا خیال رکھوں گا ۔‘‘ علی بولا تو پاپا نے مسکرا کر پنکی کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا دی اور پیچھے کھڑی ممی بھی اپنے آنسو صاف کر کے مسکرانے لگیں۔

بادشاہ اور عقلمند لڑکی

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ملک کا بادشاہ بہت ظالم تھا۔ وہ ایک برا حکمران تھا۔ وہ اپنی عوام کے ساتھ برا سلوک کرتا تھا۔ ذرا سی غلطی پر بھاری تاوان وصول کرتا تھا اور اگر کوئی تاوان نہ دے سکتا تو اس کو جیل میں ڈال دیتا اور سخت سزا دیتا۔

بادشاہ کے سپاہی ہر گائوں میں جاتے اور ان سے غلہ ، اناج ، بھیڑ ، بکریاں ، مرغیاں غرض یہ کہ ہر چیز جو بھی جس سے مل سکتی تھی وہ تاوان کے نام پر لیجاتے اور وہ غریب کسان سپاہیوں سے لڑ بھی نہ سکتے تھے لہٰذا وہ غریب سے غریب تر ہوتے گئے مگر بادشاہ اور اس کے سپاہیوں کے ظلم سے بچنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔

ایک دن بادشاہ کو ایک نیا کھیل سوجھا اس نے ملک بھر میں اعلان کروا دیا کہ بادشاہ اپنی عوام کی ذہانت کا امتحان لینا چاہتا ہے جو بادشاہ کے سوالوں کے صحیح صحیح جواب دے گا اسے آزاد کر دیا جائے گا جبکہ جو جواب نہیں دے سکے گا اسے سخت سزا دی جائے گی یا قید میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کے لیے بادشاہ نے بہت سے سوال تیار کرائے۔

ہر گھر سے اس کے سربراہ کو سوالات کرنے کے لیے لایا گیا۔ جو جواب نہ سے سکتا اس کو پہلے جیل میں ڈال کر بھوکا پیاسا رکھا جاتا پھر ان کے سر قلم کر دیے جاتے ۔ اس طرح بہت سے خاندان لاوارث اور بچے یتیم ہو گئے۔

دور دراز کے ایک گائوں میں ایک بوڑھا رہتا تھا اس کی صرف ایک بیٹی تھی۔ اس کو بھی بادشاہ کا پیغام ملا۔ بوڑھے نے اپنی بیٹی سے کہا !’’ میں تو ایک جاہل آدمی ہوں ، ساری عمر اپنے کھیتوں میں سخت محنت کرتے گزاری ہے کبھی سکول کی شکل تک نہ دیکھی ۔ کبھی پڑھنے لکھنے کا موقع ہی نہ ملا ، میں جانتا ہوں کہ میں بادشاہ کے سوالوں کا جواب نہ سے سکوں گا۔‘‘

’’آپ فکر نہ کریں بابا آپ کی جگہ میں جائوں گی اور انہیں بتائوںگی کہ کام کے دوران آپ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اس لیے آپ چل کر نہ آسکے۔‘‘ لڑکی نے باپ کو تسلی دی۔

اس طرح وہ بہادر لڑکی اکیلے ہی بادشاہ کے محل کی طرف چل دی۔ راستے میں پہاڑ ، دریا اور وادیاں بھی آئیں۔ وہ سب سے گزرتی محل تک پہنچ گئی اور سپاہیوں سے بولی! ’’ مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو میں اس کے سوالوں کے جواب دینے آئی ہوں۔‘‘

سپاہی بولا: ’’ اے بہادر لڑکی تمہیں معلوم ہے کہ صحیح جواب نہ ملنے پر بادشاہ کیا حشر کرتا ہے۔‘‘

لڑکی نے سر ہلا دیا۔ اسے سب کچھ معلوم تھا ۔ بادشاہ کے ظلم کے چرچے ہر جگہ تھے۔

لڑکی کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے اپنے خوفناک چہرے کے ساتھ اس کو گھور کے دیکھا ۔ لیکن لڑکی بالکل نہیں ڈری بلکہ بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی۔

ہر کسی سے تین سوال پوچھے جاتے تھے اس لڑکی سے بھی بادشاہ نے تین سوال پوچھے:’’ بتائو سب سے زیادہ حساس چیز کیا ہے؟ سب سے زیادہ تیز چیز کیا ہے؟ اور سب سے زیادہ درست چیز کیا ہے؟‘‘

لڑکی نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولنا شروع کیا! ’’ بادشاہ سلامت سب سے زیادہ حساس ہمارے کان ہوتے ہیں جو سب کچھ سن لیتے ہیں حتیٰ کہ ہلکی سی سرگوشی بھی ، ہلکی سی ہوا کی سرسراہٹ کو بھی محسوس کر لیتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ تیز ہماری نظر ہے جو اڑتی چڑیا کے پر بھی دیکھ لیتی ہے اور سب سے زیادہ درست آپ کا غصہ ہے۔‘‘ لڑکی نے مسکرا کر کہا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ بادشاہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا ہے۔ بادشاہ جواب سن کر مسکرایا اور بولا:’’ آج تم جا سکتی ہو کیونکہ تم نے صحیح جواب دیے ہیں مگر کل تمہار اپھر امتحان ہو گا۔ ‘‘ لڑکی سمجھ گئی کہ اس کو دھوکا دیا گیا ہے کیونکہ ہر کسی سے صرف تین سوال کیے گئے تھے جبکہ اس کو مزید سوالوں کے لیے روک لیا گیا تھا۔

اگلی صبح اس کو بادشاہ نے پھر بلایا او ربولا۔’’تم خوش قسمت ہو کہ پہلے سوالات بہت آسان تھے لیکن وہ سوالات کا صر ف ایک حصہ تھا آج تم سے مزید سوال کیے جائیں گے۔‘‘

بادشاہ نے لکڑی کے دو بڑے بڑے تخت منگوائے اور لڑکی کو دے کر کہا کہ ان کے خوبصور ت لباس تیار کر کے لائو۔

لڑکی وہ تختے لے کر محل کے باغ میں آ گئی اور سوچنے لگی ۔ پھر اس نے باغ سے موٹے موٹے پتھر اٹھا کر سپاہی کو دیے اور کہا کہ ’’یہ پتھر اپنے بادشاہ کے پاس لے جائو اور کہو کہ اس کے حکم کے مطابق لکڑی سے لباس تیار کروں کی لیکن مجھے اس کے لیے مضبوط دھاگہ چاہیے لہٰذا مجھے ان پتھروں سے مضبوط دھاگہ تیار کر کے دیا جائے۔‘‘

بادشاہ یہ سن کر چپ کر گیا۔ اگلے دن اس نے لڑکی کو پھر بلایا اور اسے مرغی کے بہت سے انڈے دیے جو بالکل تازہ تھے اور کہا کہ کل تک ان سے بچے نکل آنے چاہیں۔ لڑکی نے پھر بادشاہ کے احمقانہ سوال کو سنا اور چپ چاپ باغ میں آگئی۔ وہاں اس نے کچھ پودوں کے بیج اکٹھے کیے جو پودے سوکھ چکے تھے۔ اس نے وہ بیج سپاہی کو دے کر کہا کہ یہ بادشاہ کے پاس لیجائو اور کہو’’ جنابِ عالیٰ! ان بیجوں کو اگائیے اور کل صبح تک ان سے فصل تیار ہو جانی چاہیے ورنہ آپ کے چوزے بھوکے مر جائیں گے۔‘‘

بادشاہ نے لڑکی کو بلا بھیجا اور بولا: ’’ ہاں تو تم نے میرے سوالوں کے جواب بڑی دلیر ی سے دیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ میں کتنا بے وقوف ہوں۔ اس کی سزا میں میں تمہیں جیل بجھوا سکتاہوں۔‘‘

ؒلڑکی نے بڑی بہادری سے جواب دیا ! ’’جنابِ عالی! آپ تمام ملک میں اپنے ظالمانہ رویے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ کتنا اچھا ہو اگر آپ ایک رحم دل اور انصاف پسند بادشاہ کے طور پر مشہور ہو جائیں۔‘‘ یہ سن کر سپاہیوں نے تلوار کھینچ لی اور بولے:’’ جناب عالیٰ! اجازت دیں کہ اس کے اس گستاخانہ جواب کی سزا میں اس کا سر قلم کر دیا جائے۔‘‘ لیکن بادشاہ نے انہیں منع کر دیا اور بولا؛’’ تم دنیا کی واحد انسان ہو جس نے مجھ سے اس انداز میں بات کرنے کی جرات کی ہے تاہم تم بہت بہادر ہو اور عقلمند بھی اور اب تمہاری وجہ سے مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا ہے۔ واقعی میں نے اپنی عوام کے ساتھ بہت بے انصافی کی ہے۔

اور پھر واقعی بادشاہ نے اپنی تمام بری عادات ترک کر دیں ، وہ نیک اور رحم دل بادشاہ بن گیا اور اپنی عوام سے معافی مانگ لی۔ لڑکی خوشی خوشی اپنے گائوں واپس لوٹ گئی اور جلد ہی اپنے ملک کی عقلمند ترین انسان مشہور ہو گئی۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.