Subah ke bhoolay- صبح کے بھولے

صبح کے بھولے

’’منکی آج شام کو کمیونٹی کلب میں پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر فنکشن ہے چلو گی نا؟‘‘ سارہ نے اپنی دوست منکی سے پوچھا جو اس کے پڑوس ہی میں رہتی تھی۔

تمہارا تو دماغ خراب ہے سارہ جو اس قسم کے فضول پروگراموں میںاپنا وقت ضائع کرتی پھرتی ہو ‘‘ منکی توہین آمیز لہجے میں بولی۔

سارہ نے برا نہیں منایا کیونکہ اسے منکی کی عادت کا اچھی طرح علم تھا۔ پاکستان کے بارے میں کوئی بھی فنکشن ہوتا تو منکی جانے سے صاف انکار کر دیتی تھی۔ جب کہ سارہ میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

وہ امریکا میں رہتے ہوئے بھی پاکستان سے متعلق ہر فنکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اور کوشش کرتی تھی کہ اس کی پیاری دوست منکی بھی ایسے پروگراموں میں شرکت کرے اور اپنے وطن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکے۔ لیکن وہ ہر بار ناکام ہوجاتی۔ وہ پھر بھی برا نہیں مناتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس میں قصور منکی کا نہیں بلکہ اس کے ممی پاپا کی تربیت اور گھر کے ماحول کا ہے۔

سارہ اور منکی دونوں او لیول کی طالبہ تھیں۔ ایک ہی سکول میں پڑھتی تھیںلیکن دونوںکی سوچ میں بہت فرق تھا۔ سارہ مشرقی انداز سے سوچتی تھی جبکہ منکی کی سوچ اور طور طریقے مغربی تھے۔ کیونکہ جب منکی کے ممی پاپا پاکستان سے امریکا آئے تو منکی صرف دو سال کی تھی اور اس کا بھائی لکی تین سال کاتھا۔ منکی کے ممی پاپا امریکی معاشرے میں ایسے رچ بس گئے کہ اپنا ملک اور مذہب سب کچھ بھول کر اپنے آپ کو امریکی ہی سمجھنے لگے تھے۔ امریکی دوستوں کی آسانی کے لیے انہوں نے نا صرف اپنے نام بدلے بلکہ اپنی بچی ماہین کو منکی اور بیٹے لقمان کو لکی بنا دیا ۔

منکی کے پاپا قیمتی جواہرات کے تاجر تھے۔ اور ان کا لین دین زیادہ تر عرب ممالک کے ساتھ تھا۔ جبکہ سارہ کے والد ایک سرکاری افسر تھے اور حکومت کی طرف سے ڈیپوٹیشن پر امریکی سفارت خانے میں تعینات ہو کر تین سال کے لیے امریکا آئے تھے ۔ اس لیے سارہ اپنے ملک اور مذہب کی اہمیت سے نا صر ف آگاہ تھی بلکہ اس کو ہر چیز پر ترجیح دیتی تھی۔ وہ اچھی طر ح جانتی تھی کہ ہم کہیں بھی چلے جائیںنمبر  دو شہری ہی کہلائیں گے۔ اور وہ اتنی حساس تھی کہ اپنے امریکی دوستوں کی نظروںمیں چھپی نفر ت اور احساسِ برتری کے جذبے کو سمجھ سکتی تھی کیونکہ امریکی اپنے آپ کو عظیم قوم ثابت کرنے کے لیے منہ پر سے بھلے بنتے ہیں لیکن وہ جانتی تھی کہ پیچھے وہ ہمیں پاکی ڈاگ کہتے ہیں۔

منکی اس طرح کے احساسات سے عاری تھی وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر ایک امریکی شہری تصور کرتی تھی اور اکثر اپنے امریکی دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستانیوں کا مذاق بھی اڑاتی تھی کیونکہ اس کی ممی پاپا نے اسے یہی سکھایا تھا کہ جتنا ہم امریکیوں کو خوش رکھیں گے امریکہ میں رہنا ہمارے لیے اتنا آسان ہو گا۔

’’منکی پلیز آج چلے چلو دیکھو میں نے پاکستان کے بارے میں ایک تقریر بھی تیار کی ہے اور ترانے بھی پڑھوں گی ، تم ہی تو مجھے سب سے زیادہ داد دو گی کیوں کی تم میری بیسٹ فرینڈ ہو۔‘‘ سارہ نے ایک بار پھر اصرار کیا ، وہ چاہتی تھی کہ منکی کا تھوڑا سا تعلق تو اپنے ملک سے بھی رہے۔

سوری سارہ ، میرا ٹائم ضائع مت کرو۔ ابھی مجھے تیا ر بھی ہونا ہے ۔ آج کیتھی کی سال گرہ ہے اور لکی فرینڈز کلب جارہے ہیں ۔ میں تو کہتی ہوں کی تم بھی ہمارے ساتھ چلو، لائف کو انجوائے کرنا سیکھو۔ کیا ہر وقت بڑے بوڑھوں کی طرح ملک اور مذہب کی باتیں کرتی رہتی ہو۔‘‘ منکی نے ناگواری سے کہا۔ سارہ نے بھی ہمت نہ ہاری۔ وہ بولی! ’’ کیتھی نے برتھ ڈے پر مجھے بھی بلایا تھا لیکن میں نے معذرت کر لی تھی کیونکہ مجھے جشنِ پاکستان میں شرکت کرنا تھی لیکن ایسا نہ کریں کہ کیتھی کو بھی کمیونٹی کلب میں بلا لیں۔ وہیں اس کی سال گرہ بھی منا لیں گے اور وہ بھی ہمارے فنکشن میں شرکت کر لے گی۔‘‘

’’سارہ میں تمھاری دوست ہوں اس لیے تمھاری باتیں سن بھی لیتی ہوں اور برداشت بھی کر لیتی ہوں مگر کیتھی اور اس کے دوست نہ جانے تمھارے بارے میں کیسی کیسی باتیں کرتے ہیں ۔ وہ تمھاری تقریر سننے سوسائٹی کلب آئیں گے یہ بھول جائو۔‘‘

یہ سن کر سارہ کہ آنکھوں مین آنسو آ گئے اور وہ چپ ہو گئی۔ منکی نے سارہ کو اداس دیکھا تو اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔’’ پیاری سارہ ، تم اتنی اچھی ہو مگر جس طرح کی باتیں کرتی ہو وہ کسی سے بھی برداشت نہیں ہوتیں تم اتنی ذہین ، لائق ، اور پیاری ہو اگر تم یہ ملک اور مذہب کی باتیں نہ کیا کرو تو ہم ہر جگہ تمھارے ساتھ جانے کو تیار ہیں۔‘‘

سارہ کچھ نہ بولی اور منکی کا ہاتھ جھٹک کر اپنے گھر چلی گئی اور اپنے کمر میں جا کر رونے لگی۔

منکی کی ممی نے سارہ کو اس طرح جاتے ہوئے دیکھا تو منکی کو ڈانٹا کہ تم نے سارہ کو ناراض کیوں کیا وہ بولی ’’ ممی! سارہ جس طرح کی احمقانہ باتین کرتی ہے وہ ہم میں سے کسی سے بھی برداشت نہیں ہوتیں ۔ اب کہتی ہے کہ کیتھی کی سالگرہ مین جانے کی بجائے جشن ِ آزادی مین شرکت کریں اور اس کی تقریر سنیں ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘

’’سلی گرل‘‘ منکی کی ممی بولیں ’’ میں سارہ کی ممی سے بات کروں گی کہ وہ اسے سمجھائیں ورنہ تو وہ تنہا رہ جائے گی۔‘‘

سارہ کافی دیر روتی رہی پھر اس کی ممی نے اس کو سمجھایا کہ ایسے بے حس لوگوں کے پیچھے اپنا قیمتی وقت اور آنسو برباد نہ کرو اور اٹھ کر اپنے فنکشن کی تیاری کرو۔ اس دن سارہ نے اتنیپر جوش انداز میں تقری کی کہ سب لوگ جذباتی ہو گئے اور سارہ کو پہلا انعام ملا۔ اگلے دن کمیونٹی کے اردو رسالے میں سارہ کی تصویر چھپی جس کو دیکھ کر منکی اور لکی حیران رہ گئے ۔ بلکہ ان کو حسد بھی ہوا کہ وہ تو سال ہا سال سے یہاں رہ رہے تھے مگر انہوں نے تو آج تک کوئی ایسا کام نہ کیا تھا کہ اس رسالے میں ان کا نام آتا ۔ اس کے بعد سارہ ۱۱ ستمبر کے فنکشن کی تیاری میں مصروف ہو گئی ۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کی صبح تھی ۔ ابھی تقریب کا آغاز ہی ہوا تھا کہ امریکا کے ٹریڈ سنٹر کی تباہی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس فنکشن میں موجود لوگ بھی بد حواس ہو گئے اور اس تقریب کو وہیں ختم کر کے اپنے اپنے گھروں کو دوڑ پڑے تاکہ اس خبر کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کر سکیں۔

اس آگ کی لپیٹ میں اور پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ منکی کے پاپا بھی آ گئے ۔ امریکیوں نے آنکھیں بند کر کے تمام مسلمانوں خاص طور پر پاکستانیوں کی تحقیقات شروع کر دیں۔ یہ نہ ددیکھا کہ کون امریکا کے ساتھ مخلص ہے اور کون نہیں۔ منکی کے پاپا کے ساتھ پولیس اس کے بھائی کو بھی پکڑ کر لے گئی تھی۔ تفتیش ہو رہی تھی۔ کیونکہ منکی کے پاپا ایک تاجر تھے اور ان کا کاروبار زیادہ تر عرب ممالک کے ساتھ تھا اس طرح بہت سے عرب تاجران کے خاص دوستوں میں شامل تھے جن کے بچوں لکی کی انٹرنیٹ پر چیٹیگ بھی ہوتی رہتی تھی اور ان کے پی سی سیبہت سے عربوں کے ای میل ایڈریس ملے تھے جو کہ امریکی پولیس کی گرفت میں آنے کے لیے کافی تھے۔

منکی اور اس کی ممی کا رو رو کر برا حال تھا۔ سارہ اور اس کی ممی ان کو تسلیاں دے رہے تھے۔ سارہ کے پاپا بولے: ’’ بہن آپ اطمینان رکھیں میں سفارت خانے میں بات کروں گا۔ وہ لوگ ضرور چھوٹ جائیں گے۔ اگر مجھے پتا چلتا تو میں ان کی گرفتاری سے پہلے ہی ضمانت کرا دیتا مگر مجھے تو آپ لوگوں نے بتایا ہی نہیں۔‘‘

’’ہمیں کیا معلوم تھا بھائی کہ کون دشمن ہے اور کون دوست، منکی نے کیتھی کے پاپا سے بات کی تھی، کیتھی نے کہا تھا کہ اس کے پا پا ضرور کچھ کریں گے، مگر انہوں نے تو ایسے آنکھیں پھیر لیں جیسے ہم واقعی مجرم ہوں۔‘‘ منکی کی ممی نے روتے ہوئے بتایا۔ ہم نے ہمیشہ ان کی مدد کی ہے ، ہر مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا ۔ ان کو کاروبار میں نقصان ہوا تو پاپا نے ان کی مالی مدد بھی کی ، کبھی ان کو غیر نہیں سمجھا، مگر اب لگتا ہے جیسے ان کا ہم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ۔‘‘ منکی غصے میں بتا رہی تھی۔

سارہ خاموشی سے سب سن رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ چلو منکی کو عقل تو آئی۔ کیونکہ وہ بڑی دعائیں مانگتی تھی کہ منکی کی آنکھوں پر پڑا پردہ ہٹ جائے اور دشمنوں اور دوستوں کا فرق سمجھ آجائے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اتنی کڑی آزمائش کے ساتھ انسان کو عقل آتی ہے۔ لیکن اصل دوست وہی ہوتے یں جو برے وقت میں بھی کام آتے ہیں۔ سارہ اور اس کے ممی پاپا نے ان کا بہت ساتھ دیا اور ان کو اچھے اور برے دوست اور دشمن کی پہچان ہو گئی تھی۔ ان کی کوششوں سے منکی کے پاپا اور بھائی کو رہائی مل گئی تھی اور اب انہوں نے یہاں نہ رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

سارہ کے پاپا کو ڈیپوٹیشن ختم ہو چکا تھا اور وہ بھی پاکستان واپس جا رہے تھے۔ سارہ نے او لیول میں ٹاپ کیا تھا اور اس کو سٹا ر آف دی یونیورس کا ٹائٹل ملا تھا۔ بہت سا سکالرشپ بھی ملا تھا۔ دونوں خاندان بہت خوش تھے لیکں وہ یہ خوشی پاکستان آ کر منانا چاہتے تھے۔

وہ سب اکٹھے ہی پاکستان آئے اور منکی کے پاپا نے سارہ کے پاپا کے ساتھ ہی گھر لیا۔ سارہ، منکی اور لکی نے ایک ہی کالج میں داخلہ لیا ۔ اب منکی سارہ کی ہر بات مانتی تھی۔

آج چودہ اگست کی تقریب تھی اور آج سارہ کے ساتھ منکی بھی تقریر کر رہی تھی۔ پھر دونوں نے ترانے بھی پڑھے۔ سب لوگ حیران تھے کہ یہ امریکا سے آئی ہوئی سہیلیاں کتنی محبِ وطن ہیں۔ اپنے ملک اور مذہب سے کتنا پیار کرتی ہیں۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.