Makafat e Amal- مکافاتِ عمل

مکافاتِ عمل

’’سدرہ ۔۔۔۔۔سدرہ بیٹی ! ذرا ادھر تو آنا۔۔۔۔۔۔ سدرہ !‘‘

سدرہ جو بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی دادی اماں کی آواز سن کر تیزی سے اٹھی لیکن اس کی ممی نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھا دیا اور خود اٹھ کر ساس کے کمرے میں گئیں اور نا گواری سے بولیں

’’کیا بات ہے امی کیوں چلائے جا رہی ہیں؟ سدرہ پڑھ رہی ہے، جب وہ پڑھنے بیٹھتی ہے آپ اسے آوازیں دینے لگتی ہیں۔‘‘

’’لیکن بہو! میں تو کبھی کبھار ہی سدرہ کو بلاتی ہوں جب آمنہ میرے پاس نہیں ہوتی۔ مجھے معلوم ہے اس کی پڑھائی بہت قیمتی ہے ۔ مجھے تو بس یہ دوا چاہیے تھی۔ دوا کا ٹائم نکلا جا رہا ہے اور یہ آمنہ نہ جانے کہاں چلی گئی۔‘‘ دادی اماں نے وضاحت کی

’’ہاں ! تو مجھ سے کہا ہوتا نا میں دے دیتی ، سدرہ کوئی نوکرانی نہیں ہے جو سارا دن آپ کی آواز پر کان لگائے رکھے آپ کے تو کام ہی ختم نہیں ہوتے۔ کبھی دوا دے دو ، کبھی کھانا دے دو ، تو کبھی واش روم تک لے جائو۔۔۔۔‘‘

عائشہ بیگم ساس کو دوا اور پانی دیتی ہوئی بڑبڑاتی رہیں۔

سدرہ بھی دروازے پر کھڑی سب سنتی رہی، اسے ممی کی موجودگی میں کمرے میں آنے کی جرات نہ ہوئی۔ جیسے ہی عائشہ بیگم کی نظر سدرہ پر پڑی انہوں نے اسے گھور کر دیکھا اور وہ فوراََ وہاں سے ہٹ گئی۔

’’کیا بات ہے ؟ آج بہت تھک گئی ہیں بیگم صاحبہ؟‘‘ شام کو جب عثمان دفتر سے لوٹے تو انہوں نے عائشہ بیگم کو دیکھ کر پوچھا جو سر پر دوپٹپ باندھے صوفے پر نیم دراز تھیں اور نے زاری سے ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔

’’تو ۔۔۔۔۔!!تھکوں گی نہیں کیا؟ سارا دن گھر کے کام کرو اوپر سے تمہاری والدہ صاحبہ کی خدمتیں کرو۔‘‘عائشہ بیگم غصے سے اٹھ بیٹھیں۔

’’ارے ارے ! بیگم آپ تو واقعی غصے میں آ گئیں ہیں آج کیا ہو گیا؟ امی کے کاموں کے لیے تو آمنہ ہے نا! تمہیں کیوں خدمت کرنی پڑی ؟ وہ کہاں تھی ، کیا چھٹی پر تھی؟‘‘

’’ارے بھئی ! میں نے ہی اسے ایک ضروری کام سے باہر بھیجا تھا کہ تمہاری امی کو اپنی دوا یاد آگئی اور لگیں وہ سدرہ کو آوازیں دینے۔ ‘‘ عائشہ بیگم ناگواری سے بولیں۔

’’تو بھئی سدرہ بیٹی آپ کہاںتھیں؟ دے آتی نا دادی اماں کو دوا ، آپ بھی کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر دعائیں لے لیا کرو۔ بزرگوں کی دعائوں میں بہت اثر ہوتا ہے۔‘‘ عثمان نے بیٹی کو سمجھایا۔

’’ارے خاک اثر ہوگا ان کی دعائوں میں سارا دن کراہتی رہتی ہیں جیسے بڑی تکلیف میں مبتلا ہیں۔‘‘عائشہ بیگم بیچ میں بولیں۔

’’پاپا میں تو جارہی تھی دادی امی کے پاس مگر ممی نے منع کر دیا۔‘‘سدرہ معصومیت سے بولی عثمان نے سوالیہ نظروں سے عائشہ بیگم کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سے بولیں۔

’’ہاں تو اور کیا؟ میری یہ پھول سی بچی ابھی دس سال کی ہے ابھی سے اسے بھی دادی کی خدمت میں لگا دوں۔

پڑھائی کا بوجھ کیا کم ہے اس معصوم پر جو ایک اور بوجھ ڈال دوں۔ ان کو تو چوپیس گھنٹے کا خدمت کار چاہیے۔ نہیں بھئی نہیں ! میں اپنی بچی کو قربانی کا بکرا نہیں بنا سکتی۔‘‘

’’واہ ! یہ بھی تم نے خوب کہی جوپیس گھنٹے کا خدمت گار چاہییانہیں، ارے ! وہ بے چاری تو خود کسی سے خدمت کروانا نہیں چاہتیں۔ وہ تو انہیں گھٹیا کی بیماری لے بیٹھی ورنہ تو دس دس بندوںکاکام اکیلی کر لیتی تھیں۔ تم تو اتنے کام کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ دو تین نوکر ہر وقت گھر میں موجود رہتے ہیں پھر بھی تمہیں چار بندوںکا کام پہاڑ معلوم ہوتا ہے۔ روزانہ سر پر کپڑا باندھ کر ایسے پڑ جاتی ہو جیسے واقعی پہاڑ کھود کر آ رہی ہو۔‘‘عثمان اپنی امی کی طرفداری میں بولے۔

’’بس بس رہنے دو، مجھے اپنی ماں کی مثال نہ دیا کرو اس زمانے مین عورتوں کو چولہے چکی کے سوا کام ہی کیا ہوتا تھا؟ مجھے تو دنیا داری کے اور سو کام نمٹانے ہوتے ہیں اور اوپر سے بیمار ساس صاحبہ بھی میرے سر پر سوار ہیں۔‘‘

’’تو کہاں بھیج دوں اپنی بیمار ماں کو؟ میں ان کا اکلوتا بیٹا ہوں ۔ جب میں دس سال کا تھا تو میرا باپ فوت ہو گیا، کس محبت سے انہوں نے مجھے اور سسرا ل کے دیگر دس افراد کو پالا تھا۔ ہزار بار تم یہ قصے سن چکی ہو پھر بھی وہی باتیں لے بیٹھتی ہو۔ وہ تو میری ماں کو جوڑوں کی تکلیف لے بیٹھی ورنہ اب بھی یہ گھر وہی سنبھال رہی ہوتیں جیسے تمہارے آنے سے پہلے سنبھالتی تھیں۔‘‘

’’ہونہہ ! گھر کو سنبھال لیتیں! اور میں تو جیسے سنبھالنے دیتی ان کو اپنا گھر!‘‘ عائشہ بیگم بڑبڑائیں۔

’’ارے تم سے تو سر کھپانا ہی بے کار ہے۔ دفتر سے تھک کر آئو تو بیگم صاحنہ گھر پر شکایتوں کا دفتر کھول کر بیٹھ جاتی ہیں۔ روز وہی ڈرامہ روز وہی ہنگامہ۔‘‘

عثمان پیر پٹختے ہوئے امی کے کمرے میں چلے گئے۔ بیٹے کو دیکھ کر وہ جلدی جلدی آنکھیں صاف کرنے لگیں۔

’’ارے امی! آپ رو رہی تھیں؟‘‘ عثمان گھبرا کر ان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئے۔

’’ہاں ہاں ! اب بیٹے کو دیکھ کر مگر مچھ کے آنسو بہائیں گی، بیٹے کو میرے خلاف بڑکائیں گی۔ اس کے سوا اور ساسوں کو کام ہی کیا ہوتا ہے؟‘‘عائشہ بیگم وہیں سے بڑبڑائیں۔

’’ارے نہیں بیٹا میں رو نہیں رہی تھی۔ بس جب سے یہ سفید موتیا اترا ہے آنکھوں میں تب سے پانی بہت آنے لگا ہے۔‘‘ امی نے بیٹے کی تسلی کے لیے بہانہ بنایا۔

’’امی ! میں جانتا ہوں آپ کتنا صبر کرتی ہیں؟ بہت بدمزاج ہے نا آپ کی بہو۔ اگر مجھے معلوم ہتا کہ میری بیوی ایسی نکلے گی تو میں کبھی شادی نہ کرتا بلکہ ساری عمر آپ کی خدمت میں گزار دیتا کم از کم وہاں تو اس کا اجر ملتا۔ اب تو دنیا بھی عذاب ہو رہی ہے اور آخرت بھی خراب ہو رہی ہے۔‘‘ عثمان ماں کے پیر دبانے لگے۔

’’ایسے نہیں سوچتے بیٹا یہ تو سب قسمتوں کے کھیل ہوتے ہیں تم اپنا دل چھوٹا مت کرو، تم تو حتیٰ الامکان اب بھی میری بہت خدمت کرتے ہو اللہ اس کا اجر تمہیں ضرور دے گا۔ جائو جائو تھوڑی دیر آرام کر لو بہت تھک گئے ہو گے۔‘‘

’’امی آپ کتنی اچھی ہیں! آپ کو میرا کتنا خیال رہتا ہے۔‘‘عثمان نے نیچے بیٹھ کر امی کی گود میں اپنا سر رکھ لیا۔

’’ہاں ہاں ! امی تو اچھی ہی ہیں !بری تو میں ہوں جس کو نہ شوہر کے آرام کا خیال ہے نہ ساس کی خدمت کا ۔۔۔۔۔ ہائے میری قسمت کہاں پھوٹی ہے آکر۔‘‘

عائشہ بیگم جو بہت دیر سے کھلے ہوئے دروازے میں کھڑی ماں بیٹے کی گفتگو سن رہی تھیں وہیں دروازے سے سر ٹیک کر رونے لگیں۔

’’کیا بکواس ہے ! میرا دو گھڑی ماں کے پاس بیٹھنا بھی تمہیں گوارا نہیں ہے پہنچ گئیں ٹسوے بہاتی ہوئی۔ کس جاہل عورت سے واسطہ پڑا ہے؟‘‘ عثمان عائشہ بیگم کو دروازے سے پرے ہٹاتے ہوئے باہر نکل گئے اور اپنے کمر میں جا کر غصے سے دروازہ بند کر دیا۔

’’ارے بیٹی ! تم مجھ سے بد گمان کیوں رہتی ہو؟ میں نے کبھی تمہیں برا نہیں سمجھا۔ اتنے چائو سے تمہیں بیاہ کر لائی تھی۔ تم عثمان اور سدرہ ہی تو میری جان ہو۔ ہر وقت تم لوگوںکے لیے دعائیں کرتی ہوں۔ تمہارے علاوہ میرا ہے ہی کون؟ میری وجہ سے تم اپنی خوشحال زندگی اجیرن کیوں کرتی ہو؟‘‘ امی دکھ سے بولیں۔

’’بس بس رہنے دیں یہ منہ دکھاوے کی محبت نے میری زندگی میں زہر گھول کر رکھ دیاہے ، میں بی اے پاس لڑکی کھپ گئی اس گھر کے لیے اور شوہر کہتا ہے کہ کس جاہل عورت سے واسطہ پڑا ہے۔ میر ی صلاحیتوں کو تو یہاں آکر زنگ لگ گیا، اگر تم مجھے اتنی جلدی نہ بیاہ لاتیںتو کئی کئی ایم اے کر چکی ہوتی۔‘‘ عائشہ بیگم روئے چلی جارہی تھیں اور بین کر رہی تھیں۔

’’ارے بیٹا مجھے کیا پتا تم کیا کر لیتیں؟ مجھے تو تمہاری امی نے خود کہا تھا کہ چار سال سے بی اے کر کے بیٹھی ہے اب لے بھی جائیں اپنی امانت کو۔ میں تو خود چاہتی تھی کہ جب تک عثمان کو نوکری ملے تب تک تم ایم اے کر لو۔ مگر تمہاری امی نے کہا کہ اس نے تو بی اے بڑی مشکل سے پاس کیا ہے ایم کیا کرے گی؟ بس آپ اسے جلد از جلد لے جائیں اور پھر بیٹا بھول گئیں میں نے تو تمہیں شادی کے بعد بھی کہا تھا کہ ایم اے کر لو ۔ بے شک کالج میں داخلہ لے لو۔‘‘ساس نے بہو کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے وضاحت کی۔

’’ہاں ہاں تم تو چاہتی تھیں نا کہ میں ایم اے کر کر نوکری کروں جس طرح تم خود ساری عمر نوکری کرتی رہیں اس طرح میں بھی کھپا دوںاپنی زندگی سسرال کے پیچھے مگر میں تمہارا یہ منصوبہ کامیاب کیوں ہونے دیتی؟‘‘

’’اچھا بیٹا! خوش رہو! سکھی رہو۔‘‘امی ٹھنڈی سانس لے کر بولیں۔

’’جب تک تم اس گھر میں ہو میں سکھی کیسے رہ سکتی ہوں ؟‘‘ عائشہ بیگم بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں اور امی کی آنکھیں پھر نم ہو گئیں۔

سدرہ باہر لائونج میں بیٹھی تمام باتیں سن رہی تھی اور اپنے ننھے سے ذہن میں جذب کر رہی تھی۔

ایک دن عائشہ بیگم کچن میں کھانا بنانیمیں مصروف تھیں تو سدرہ نے موقع غنیمت جانا اور جلدی سے دادی امان کے کمر ے میں چلی گئی۔ دادی اماں نے سدرہ کو دیکھ کر نہال ہو گئیں اور کچھ حیران بھی کہ پوتی کو آج اس کی ماں نے کیسے آنے دیا؟

’’دادی اماں! میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں؟‘‘ سدرہ بیڈ پر بیٹھ کر ٹانگیں دبانے لگی اور پھر بولی۔

’’ دادی اماں آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں کہ میں آپ کے پاس نہیں آتی، میں کیا کروں مجھے ممی نہیں آنے دیتیں؟‘‘

تھوڑی ہی دیر میں عائشہ بیگم سدرہ کو ڈھونڈتی ہوئی وہاں پہنچ گئیں اور سدرہ کو ایسے گھور کر دیکھا کہ اس کی جان ہی نکل گئی اور بولیں۔

’’ارے بیٹا تم یہاں بیٹھی ہو ، وہاں تمہاری سہیلیکرن کا فون آیا ہے وہ تم سے کل کے پیپر کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی ہے۔ جائو شاباش اٹھو!‘‘ اور سدرہ فوراََ باہر نکل گئی حالانکہ اسے معلوم تھا کہ ممی جھوٹ بول رہی ہیں ۔

’’امی جان آپ نے مجھ سے کہا ہوتا ٹانگیں دبانے کو، وہ بچی بھلا کیا دبائے گی!‘‘ عائشہ بیگم یہ کہہ کر امی کی ٹانگیں دبانے لگیں۔

’’نہیں بیٹا میںنے اسے نہیں بلایا تھا وہ تو خودہی آگئی تھی کہہ رہی تھی کہ کل میرا پیپر ہے آپ دیا کرنا۔ ماشاء اللہ بہت سعادت مند بچی ہے۔‘‘ دادی اماں بول رہی تھیں اور عائشہ بیگم اند ہی اندر غصے سے کھول رہی تھیں۔

’’بیٹا ! تم سے ایک بات کہوں برا نہ منانا۔ سدرہ اب بڑی ہو رہی ہے تم اس کے لباس کی طرف بھی دھیان دو، اسے شلوار قمیض پہننا اور دوپٹہ اوڑھنا سکھائو، ابھی سے پہنے گی تو عادت پڑے گی اب یہ لبا س اس پر اچھا نہیں لگتا۔‘‘

’’رہنے دیں امی اپنی یہ دقیانوسی باتیں اور نصیحتیں یہ آپ کا زمانہ نہیں ہے۔ آج کل کا یہی اسٹائل ہے اور ہم نئے دور کے تقاضے پورے کئے بغیر زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتے ۔ میں اسی لیے سدرہ کو آپ کے پاس نہیں بیٹھنے دیتی اس کے ننھے سے ذہن میں نجانے آپ کیا کیا فضولیات بھر دیں؟‘‘ عائشہ بیگم غصے میں اتنی زور زور سے ٹانگیں دبانے لگیں کہ امی کا درد اور بڑھ گیا اور انہوںنے جلدی سے ٹانگیں کھینچ لیں اور بولیں۔

’’بس بہو بس اللہ تمہیں جزائے خیر دے تمہیں اور بھی کام ہوں گے۔‘‘ اور عائشہ بیگم فوراََ اٹھ کر باہر نگل گئیں اور آکر لائونج میں بیٹھ گئیں۔ سدرہ بھی پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی وہ بولی۔

’’ممی ! آپ دادی جان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتی ہیں؟ انہوں نے آخر آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ وہ بے چاری تو سارا دن چپ چاپ اپنے کمر ے میں بیٹھی رہتی ہیں ، ان کے کام بھی آمنہ بی کرتی ہیں پھر آپ کو اتنا غصہ کیو ں آتا ہے ان پر؟

’’اوئے چپ کر دادی کی چمچی۔ ایک تو ان بڑی بی کی وجہ سے میرا سکون برباد ہو گیا ہے اور کہتی ہو انہوں نے کیا بگاڑا ہے ؟ جانتی ہو اس دن تمہارا باپ اپنی ماںکو کیا کہہ رہاتھا ؟ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر مجھے پتا ہوتا کہ تمہاری بہو اتنی بدمزاج نکلے گی تو میں کبھی اس سے شادی نہ کرتا۔ ارے دوناں ماں بیٹا نجانے کس چکر میں ہیں اور تو بھی زیادہ حمایت نہ کیا کر ان بری بی کی وہ تجھ سے بھی کوئی خوش نہیں ہیں ، ارے بھئی بیٹی جو ٹھہری اور اوپر سے کوئی بھائی بھی نہیں ہے تمہارا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ کسی دن ہم دونوں کو وہ گھر سے نکلوا دیں گی اور اپنی پسند کی کوئی اور بہو لے آئیں گی۔‘‘ عائشہ بیگم رازداری سے بولیں۔

’’ارے نہیں ممی آپ غلط سوچ رہی ہیں میری دادی اماں تو مجھ سے اور آپ سے بہت پیار کرتی ہیں۔ وہ ایسا کبھی نہیں کریں گی اور آپ بھی تو کبھی ان کو خوش رکھنے کی کوشش نہیں کرتیں۔ ‘‘ سدرہ معصومیت سے بولی۔

’’اپنے سر پر تو بٹھا کر رکھا ہے بڑی بی کو اور کیا کروں؟ اپنے اتنے سارے سال ضائع کر دیئے ان کی خدمت کر کر کے مگر مجال ہے جو ماں بیٹے نے کبھی میرا احسان مانا ہو۔‘‘ عائشہ بیگم غصے سے بولیں۔

’’تو کیا اپنے بزرگوں کی خدمت کرنا ان پر احسان ہوتا ہے؟ یہ تو ہمارا فرض ہوتا ہے ۔ میری دوست کرن تو اپنی دادی اماں کا بہت خیال رکھتی ہے ۔ ان کے کمرے میں سوتی ہے، روز رات کو ان کی ٹانگیں دباتی ہے اور ہمیشہ فرسٹ آتی ہے ۔‘‘ وہ کہتی ہے یہ میری دادی کی دعائوں کا نتیجہ ہے۔  سدرہ کی باس سن کر عائشہ بیگم کچھ شرمندہ ہوئیں لیکن پھر ڈھٹائی سے بولیں۔

’’تمہیں بہت باتیں بنانے آگئی ہیں۔ انسان صرف اپنی محنت سے فرسٹ آتا ہے باقی سب بکواس ہے۔ وہ دور گئے جب بزرگ بچوں سے خدمتیں کروایا کرتے تھے۔ ہم اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ چند دعائوں کی خاطر اپنا قیمتی وقت ان کی خدمتیں کر کے ضائع کردیں۔ بڑی آئیں بہو اور پوتی سے خدمتیں کروانے والی۔ پہلے دن ہی بڑی بی کو گھر سے باہر نکال باہر کیا ہوتا تو ٹھیک رہتا نا۔‘‘ عائشہ بیگم اپنے ہی خیالوں میں بڑبڑائے چلی جارہی تھیں کہ سدرہ اس اچانک سوال پر چونک پڑی ۔

’’مگر بے چاری دادی جان کا تو ہمارے سوا کوئی نہیں ہے پھر وہ کہاں جاتیں؟‘‘

’’میری بلا سے کہیں بھی جاتیں میرے سر سے تو بوجھ اترتا۔‘‘

’’ممی کیا بوڑھا ہونے کے بعد انسان بوجھ بن جاتا ہے؟‘‘ سدرہ نے پوچھا۔

’’ہاں نہیں تو کیا!!!! سراسر بوجھ ہی ہوتا ہے دوسروں پر ، خاص طور پر بہو پر۔‘‘ عائشہ بیگم بدستور غصے میںتھیں ۔

’’ممی تو کیاجب ماموں کی شادی ہو گی تو ممانی بھی نانی جان کے ساتھ یہی سلوک کریں گی؟ کیا وہ بھی نانی جان کو گھر سے نکال دیں گی؟ ممی جب وہ نانی جان کو گھر سے نکالیں تو ان کو یہاں لے آئیے گا۔ میں ان کی خدمت کروں گی۔ دادی جان کی تو آپ کرنے نہیں۔۔۔۔۔‘‘

ابھی سدرہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ ایک تھپڑاس کے منہ پر پڑا ’’ ارے کیسی منحوس باتیں منہ سے نکالتی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ میری بھابھی میری امی کو گھر سے نکالے میں اس بدبخت کی ٹانگیں نہ توڑ دوں گی اور پھر میری امی تو اتنی اچھی ہیں ہزار بہوئیں ان پر قربان کر دوں۔ اسی لیے منع کرتی ہوں دادی کے پاس بیٹھنے کو ارے میری بچی کو میری ماں کے خلاف ہی بھڑکاتی ہیں۔ میں دیکھ لوں گی ان کو۔‘‘

’’ممی اگر دادی جان کی بھی کوئی بیٹی ہوتی تو وہ بھی دادی جان سے اتنی ہی محبت کرتیں جتنی آپ نانی جان سے کرتی ہیں۔ ‘‘ سدرہ گال سہلاتی ہوئے بولی۔

’’بہت ہو گیا ! چلو اٹھو یہاں سے اور اپنے کمر ے میںجا کر پڑھو۔ ارے کیسی زبان چل رہی ہے اس لڑکی کی ۔ کیا یہی تعلیم دی جاتی ہے آج کل سکولوں میں کہ بچیاں مائوں سے زنان چلائیں ؟ حد ہو گئی بھئی۔‘‘

ممی بڑبڑاتی رہیں اور سدرہ نے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا اور پڑھائی میں لگ گئی مگر اس کا ذہن انہی باتوں میں الجھا رہا۔

سدرہ کے پیپرز ختم ہوئے تو ایک دن اس کی دوست کرن اپنی امی کے ساتھ سدرہ سے ملنے چلی آئی ، کرن کی امی باتوںہی باتوںمیں بولیں۔

’’عائشہ بہن کرن بتا رہی تھی کہ تم سدرہ کو اس کی دادی کے پاس نہیںجانے دیتیں۔ میں تو یہی کہوں گی کہ یہ بچوں کی بڑی بد قسمتی ہوتی ہے کہ گھرمیں کوئی بزرگ موجود ہو لیکن بچے اس کی شفقت محبت اور دعائوں سے محروم رہیں۔ ارے بہن بچے جن کا خون ہوتے ہیں انہیںکی طرف جاتے ہیں۔ ہم عورتیں بچوں کو ان کی بزرگوں سے دور کر کے خوداپنے پیر پر کلہاڑی مارتی ہیں۔ کیونکہ بزرگوں کے سائے میں رہ کر ہمارے ہی بچوں کی اچھی تربیت ہورہی ہوتی ہے۔ جس طریقے اور سلیقے سے بزرگ تربیت کرتے ہیں ناہم تم نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں گھر کے بکھیروں میں وقت ہی کہاں ملتا ہے؟‘‘

’’آپ نہیں کر سکتی ہوں گی میں تو اپنے بیٹی کی تربیت بہت اچھے طریقے سے خودکر سکتی ہوں۔ میںپڑھی لکھی ہوں ، دین کی تعلیم بھی ہے، کس چیز کی کمی ہے جو میں اسے نہیں سے سکتی؟ وہ بڑی بی جو سارا دن فارغ بیٹھی تسبیح گھماتی رہتی ہیں کیا وہی اچھی تربیت کر سکتی ہیں۔ اگر آپ ان بڑی بی کی وکالت کرنے آئیں ہیں تو میں معذرت چاہوں گی۔‘‘

کرن کی امی نے دیکھا کہ عائشہ بیگم کچھ سمجھنے کے موڈ میں نہیں ہیںتو لہٰذا ان سے بحث بیکار ہے تو وہ خود بھی جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

اسی طرح دیکھتے ہی دیکھتے بارہ سال گزر گئے ۔ سدرہ کی دادی اماں اپنے دکھ دل میں چھپائے اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں۔ سدرہ ایم بی بی ایس کے آخری سال میں تھی۔ اس نے اپنی تعلیم کو ہی اپنی زندگی کا محور بنا لیا تھا۔ عائشہ بیگم کو کینسر ہو گیا تھا۔ ان کے دماغ میں پھوڑا تھا اور جب وہ تکلیف سے چلاتی تھیں تو سدرہ اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیتی تھی تاکہ اس کی پڑھائی کا حرج نہ ہو۔

عثمان دفتر سے آکر عائشہ بیگم کی خدمت اور تیمارداری میں لگ جاتے ۔

’’سدرہ کہاں ہے؟ کئی دن سے اس کی شکل نظر نہیں آئی؟‘‘ عائشہ بیگم نے عثمان سے پوچھا تو وہ بولے ـ’’پڑھتی رہتی ہے اور کہاں جائے گی؟‘‘

’’پڑھائی کیا ماں سے بھی زیادہ ضروری ہے ؟ وہ میرے پاس آکر کیوں نہیں بیٹھتی ؟ میرا حال کیوں نہیں پوچھتی ؟‘‘ وہ دکھ سے بولیں۔

’’ارے بیگم ! یہ تو تم اپنے آپ سے پوچھو۔ اس معصوم سے کیسا شکوہ؟  تم نے اگر اس کو بزرگوں کی خدمت کرنے کی عادت ڈالی ہوتی تو آج یہ شکوہ کرنے کی نوبت نہ آتی۔‘‘

’’اوہو بھئی ! عادت گئی بھاڑ میں یہ تو اس کا فرض ہے ، آ خر میں اس کی ماں ہوں۔‘‘ عائشہ بیگم ایک دم بھڑک اٹھیں پھر سر پکڑ کر دوبارہ لیٹ گئیں۔

’’واہ بیگم فرض کی بھی خوب کہی ، یہ تمہارا ہی قول ہے کہ بچوں کا فرض صرف پڑھائی کرنا ہے، بزرگوں کی خدمت کے لیے نوکر ہوتے ہیں اور اس فرض کو پورا کرنے کے لیے آمنہ ہے اور پھر میں ہوں تمہاری اور تمہاری امی کی خدمت کے لیے۔‘‘ عثمان نے حقیقت بیان کی۔

’’میں اگر تندرست ہوتی تو دیکھتی کہ وہ منحوس کیسے میری امی کو گھر سے نکالتی ہے؟‘‘ عائشہ بیگم نے پھر جوش میں اٹھنے کی کوشش کی۔

’’نہیں بیگم یہ غلط ہے ۔ تمہاری بھابھی نے انہیں گھر سے نہیں نکالا تھا۔ وہ تو تمہاری امی سے ہی بہو کا رویہ برداشت نہ ہوا۔ اور وہ اپنا گھر چھوڑ کر بیٹی کے گھر چلی آئیں۔‘‘ عثمان نے وضاحت کی۔

ــ’’ ہاں تو کیا اس لڑاکا عورت کے ظلم و ستم برداشت کرتی رہتیںاور گھٹ گھٹ کر مر جاتیں۔ بھائی کی آنکھوںپر تو جیسے پٹی بندھی ہے۔‘‘

’’میری اماں نے بھی تو ساری عمر ایک لڑاکا عورت کو برداشت کیا ۔‘‘ عثمان نے اپنے دل میںسوچا مگر بولے کچھ نہیں کیونکہ وہ جھگڑا شروع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ وہاں سے اٹھ کر سدرہ کے کمرے میں آئے اور سدرہ کو کتابوں میں غرق دیکھ کر بولے۔

’’ہونہہ۔۔۔۔!! تو آج کل پڑھائی زوروں پر ہے ہماری بیٹی کی؟‘‘

’’اوہ ۔۔۔۔۔پاپا آپ!!! دراصل میرے آخری سمسٹر ہونے والے ہیںنا انہیں کی تیاری کر رہی ہوں۔ اس لیے دن رات کا کچھ ہوش ہی نہیں رہتا ۔‘‘ سدرہ نے وضاحت کی ۔

’’وہ سب تو ٹھیک ہے بیٹا لیکن تھوڑا سا ٹائم اپنی ممی کو بھی دے دیا کرو۔ وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہیں ، انہیں اس حالت میں تمہاری محبت اور توجہ کہ ضرورت ہے ، پتا نہیںکتنے دن کی مہمان ہیں؟‘‘

’’آئی ایم سوری پاپا میں ممی کے پاس ضرور چکر لگا لوں گی۔‘‘

رات کے کھانے سے فارغ ہو کر سدرہ نے سوچا کہ ممی کی خیریت معلوم کر آئوں

’’اسلام علیکم ممی! کیسی طبیعت ہے آپ کی؟ سدرہ نے دروازے سے اند جھانکا پھر آکر ان کی نبض چیک کرنے لگی۔

’’رہنے دو بی بی ! تمہیں کیا ماں مرے یا جئے ۔۔ تمہیں تو اپنی پڑھائی سے غرض ہے ۔‘‘ عائشہ بیگم نے منہ غصے سے دوسری جانب پھیر لیا۔

’’اوہ ممی ! ایسے تو نہ کہیں نا۔ آپ جانتی ہیں کہ میرا ایم بی بی ایس کا فائنل ائیر چل رہا ہے اور مجھے سخت محنت کی ضرورت ہے ۔‘‘ سدرہ نے ممی کو بہلانا چاہا۔

’’ہاں جانتی ہوں۔ لیکن ایسی ڈاکٹری کس کام کی کہ گھرم یں ایک مریض پڑا کراہتا رہے اور تمہیں اس کو ایک نظر دیکھنے تک کی فرصت نہ ملے؟ میری چیخیں سن کر تم دروازہ بند کر لیتی ہو۔ کتنی سنگدل بیٹی ہو۔‘‘ عائشہ بیگم نے شکایت کی۔

’’ یہ سنگدلی نہیں ہے ممی، ہمیں یہ سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ ہمارے پرفیسر صاحب کہتے ہیں کہ اپنا دل کڑا کر لو ۔ اسپتال میں طرح طرح کے مریض ہوتے ہیں۔ اگر ہر ایک مریض کی آہیں اور کراہیں سن کر ہم اس کی پٹی سے لگ کر بیٹھ جائیں تو پھر باقی مریض کیسے دیکھ سکیں گے؟ اور پھر ویسے بھی آپ کو خوامخواہ کا شور واویلا کرنے کی عادت ہے ذرا سی تکلیف ہوئی نہیں اور آپ نے گھر سر پر اٹھا لیا۔ آپ جب جوان اور تندرست تھیں تب بھی یہی کیا کرتی تھیں۔ ایک میری دادی اماں تھیں کس صبر سے اپنی تکلیف برداشت کرتی تھیںاور پھر میں شہر کے سب سے بڑے سپیشلسٹ ڈاکٹر سے آپ کا علاج کروارہی ہوں۔ ایک نرس ہے جو دن مین دو بار آپ کو چیک اپ کرنے آتی ہے، پھر آمنہ بی ہیں ، ابو ہیں، اتنے سارے لوگ تو ہیں آپ کی دیکھ بھال کرنے کے لیے۔ ‘‘ سدرہ نے وضاحت سے ماںکوسمجھایا۔

’’وہ تو سب ٹھیک ہے بیٹا لیکن اولاد کا بھی تو کچھ فرض ہوتا ہے کہ نہیں؟ انہیں بھی تو اپنے بڑوں کو وقت دینا چاہیے۔‘‘ عائشہ بیگم نے کہا۔

’’خیر ممی اولاد کا فرض ، والدین کے حقوق ، ان کی خدمت یہ سب باتیں تو آپ رہنے دیں۔ آپ کے منہ سے اچھی نہیں لگتیں۔ میں جارہی ہوں پانے کمرے میں مجھے بہت کام ہے۔ میرا یہ سال بہت قیمتی ہے اور اگر آپ نے مجھے زیادہ تنگ کیا تو میں ہاسٹل میں شفٹ ہو جائوں گی۔ ان فضولیات کے لیے نہ میرے پاس وقت ہے اور نہ مجھے اس کی عادت ہے۔ سوری ممی۔‘‘ یہ کہہ کر سدرہ کمرے سے نکل گئی اور اپنے کمر ے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔

’’دیکھا امی آپ نے یہ میر بیٹی ہے ۔ اسے ذرا مجھ سے محبت نہیں ہے ۔‘‘ عائشہ بیگم نے پاس بیٹھی اپنی امی سے شکایت کی۔

’’ہاں بیٹا سب دیکھا بھی اور سنا بھی۔ مگریہ تو سب تمہاری ہی تربیت کا نتیجہ ہے۔ تم تو کہتی تھیں کہ میں خود اپنی بیٹی کی زیادہ اچھی تربیت کر سکتی ہوں۔ تم اس کو یہی تربیت دینا چاہتی تھیں نا کہ یہ نیا دور ہے ہمیں کسی بزرگ کی دعائوں کی تربیت کی ضرورت نہیں ہے ، تم نے جو دیا تھا تم وہی کاٹ رہی ہو۔‘‘

تم نے اپنی ضدی طبیعت کے باعث نہ صرف خود نقصان اٹھایا بلکہ میری راہ میں بھی کانٹے بو دیئے۔ میری بہو مجھے یہی طعنہ دیتی ہے کہ تمہاری بیٹی نے اپنی ساس کو کون سا سکھ دیا؟ ساری عمر پوتی کی شکل دیکھنے کو ترستی رہی۔ بزرگوں کی صحبت میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ اسی لیے رکھا جاتا ہے کہ جو توجہ ، پیار اور تربیت والدین اپنی مصروفیت کے باعث بچوں کو نہیں دے پاتے وہ بزرگوں سے ملتی رہتی ہے۔ بچہ تو ایک ناذک پودے کی طرح ہوتا ہے ۔ اسے بچپن میں جس رخ موڑ دو گے وہ مڑ جائے گا ۔ بڑا ہو کر جب وہ تنا درخت بن جاتا ہے تو پھر اسے اپنی جانب موڑنے کے لیے جتنی بھی موٹی رسی باندھو ، ہوا کے ایک ہی جھونگے سے ٹوٹ جاتی ہے اور درخت وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے جو تم نے اپنی ساس کے ساتھ کیا وہی تمہاری بیٹی تمہارے ساتھ کر رہی ہے اسے کہتے ہیں مکافاتِ عمل۔‘‘

عائشہ بیگم کی امی بولتی رہیں اور وہ دور خلائوں میں گھورتی رہیں جیسے کہ تاریخ کا ایک ایک ورق ان کی نظروں کے آگے سے گزر رہا ہو۔

کچھ ہی مہینوں میں عائشہ بیگم چل بسیں اور ان کے غم میں ان کی امی بھی فوت ہو گئیں۔

سدرہ نے ایم بی بی ایس اچھے نمبر وں سے پاس کر لیاتھا کیونکہ اس کی دادی کی دعائیں اس کے ساتھ تھیں۔ عائشہ بیگم کو تو برائیوں کے سوا کسی کو کچھ دینا ہی نہ آیا۔

سدرہ  اپنے بچپن سے ہی اپنے پاپا کو ایک مشکل زندگی گزارتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔ پہلے دادی کی خدمت کی پھر ممی اور ان کی امی کی ، اب پا پاکو بھی خدمت کی ضرورت تھی لہٰذا اس نے اپنے پاپا کی ایک نیک اور بیوہ خاتون سے شادی کرا دی اور خود اسپیشلائزیشن کرنے باہر چلی گئی۔

 

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.