Surkh Saiyarey ki Sair سرخ سیارے کی سیر

                                               Mars

( ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو سرخ سیارے ( مریخ ) کی سیر کا بہت شوق تھا اور ایک دن اس کی یہ خواہش پوری ہوجاتی ہے….. ! )

                ’’ آخر انسان کو اس سرخ سیارے سے اتنی محبت کیوں ہے ؟ شاید اس لیے کہ انسان کے لیے ایک عجائب خانہ ٔ حیرت ہے ۔ انسانی تخیل نے اس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں گھڑ رکھی ہیں ، حتیٰ کہ اپنے مستقبل کو بھی اس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے ۔ اس لیے اس کے مدار میں لا تعداد مصنوعی سیارے بھیجے جاچکے ہیں اور اس کے چپے چپے کا جائزہ لیا جاچکا ہے ۔ اس کی سطح پر خود کار تجربہ گاہیں بھی اُتر چکی ہیں ۔ سائنسدانوں کے علاوہ سائنسی کہانیاں لکھنے والے بہت سے مصنفین بھی اس کے سحر میں گرفتار رہ چکے ہیں جن کا خیال تھا کہ مریخ پر بہت ہی ترقی یافتہ مخلوق آباد ہے ۔ چاند کی تسخیرکے بعد اگر انسان اجرام فلکی میں کسی کے متعلق جاننے کے لیے بیتاب ہے تو وہ یہ سرخ سیارہ مریخ ہے ، جس کی خوبصورتی نے انسانی ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ، جس کی پُر اسراریت کو بھانپنے کے لیے بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے، گو کہ قدیم زمانے کے یونانی لوگ مریخ کو جنگ و جدل کا دیوتا مانتے تھے ، شاید اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے ۔

سیارہ مریخ انسانی قدموں کا منتظر ہے اور انسانی قدم بھی مریخ کی سطح کو چھونے کے لیے بیتاب ہیں ، اور اب فاصلہ ختم ہوگیا ہے ، منزل قریب ہے  ……. ‘‘ ۔

’’ میں آرہا ہوں …….  ذرا ٹھہرو …….  میں جلد آرہا ہوں …….  ‘‘ ۔ ولید اخبار پھینک کر بہت جوش سے بولا ۔

’’ کہاں جارہے ہو بھئی ؟ یہ جوتے تو پہن لو ، اور وقت دیکھو کیا ہو رہا ہے ؟ ‘‘ اسد ولید کو بے اختیار باہر کی طرف جاتا دیکھ کر بولا ۔

’’ وہ مجھے بلا رہا ہے …….  ، وہ میرا منتظر ہے …….  مجھے مت روکو ۔ ‘‘ ولید ڈرامائی انداز میں بولا۔

’’ کون بلا رہا ہے ؟ مجھے تو کوئی آواز سنائی نہیں دی ‘‘ اسد بے یقینی سے دروازے کی طرف دیکھ کر بولا۔

’’ تم جیسے بے حس لوگوں کو ایسی آوازیں سنائی بھی نہیں دے سکتیں ، یہ دیکھو …….  یہ سرخ سیارہ منتظر ہے ، ‘‘ ولید نے اسد کے سامنے اخبار لہرایا ۔

’’ لاحول ولا قوۃ ……. حد ہوتی ہے بے وقوفی کی بھی ، ‘‘ اسد اخبار چھین کر ایک طرف پھینکتے ہوئے بولا ، ’’ اور یہ اخبار والے بھی بس …….  ایسی لمبی لمبی چھوڑتے ہیں کہ اچھا بھلا انسان بے وقوف بن جائے ۔ اب یہ ڈرامہ بند کرو اور مجھے پڑھنے دو،صبح میرا پیپر ہے مگر تمہیں کوئی احساس نہیں ہے ۔ اپنے تو امتحان ختم ہوگئے ہیں ، اس لیے اب یہ مسخریاں سوجھ رہی ہیں۔ امی سے کہوں گا تمہیں سعد بھائی کے کمرے میں شفٹ کردیں ، ورنہ پھر مجھ سے پاس ہونے کی توقع نہ رکھیں۔ ‘‘ اسد غصے سے بولا ۔

’’ نہیں بھائی …….  میرے پیارے بھائی ایسا ظلم نہ کرنا ، ورنہ میں زندہ نہ رہ سکوں گا ۔ سعد بھائی تو مجھے میتھس پڑھا پڑھا کر مار دیں گے ۔ ابھی تو مجھے سرخ سیارے کی سیر بھی کرنا ہے ۔ ‘‘ ولید منتیں کرنے لگا ۔

’’ اچھا ہے نا پھر تو تم زیادہ آسانی کے ساتھ سرخ سیارے کی سیر کرسکو گے ، کسی خلائی جہاز کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، یوں جائو گے پُھررر کرکے ، منٹوں میں پہنچ جائو گے اپنے چہیتے سیارے پر ‘‘ اسد کو بھی اسے تنگ کرنے کا موقع ہاتھ آگیا اور ولید اُس کو غصے سے گھورتا ہوا اپنے بیڈ پر جاکر لیٹ گیا اور منہ تک چادر تان لی ۔

                صبح اچانک ولید کے بیڈ کو دھکا لگا تو اس کی آنکھ کھل گئی ۔ اس نے دیکھا اسد کالج جانے کی تیاری کر رہا ہے اور اس کے بیڈ کے نیچے اپنے موزے تلاش کر رہا ہے ۔

’’ جگا دیا نا …….  اتنا اچھا خواب دیکھ رہا تھا ، مگر تم سے برداشت نہیں ہوا ، ‘‘ ولید غصے سے بولا ۔

’’ کیا سرخ سیارے کی سیر کر رہے تھے ؟ ‘‘ اسد طنزیہ مسکرا کر بولا ۔

’’اور نہیں تو کیا ؟ جذبہ سچا ہو تو شوق پورا ہو ہی جاتا ہے ۔ ‘‘ ولید بولا ۔

’’ یہ سچے جذبے کا نہیں اس سرخ چادر کا کمال ہے جو تم شامیانے کی طرح اپنے اوپر تان کر سو رہے تھے ، ‘‘  اسد نے پھر طنز کیا تو ولید چادر پھینک کر اُٹھا اور اسد تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا ۔

                اسد کے ایف ایس سی کے امتحان ہو رہے تھے ، جبکہ ولید میٹرک کے امتحان دے کر فارغ ہوچکا تھا ۔ اس کے امتحانات کے دنوں میں سبھی بہت پریشان تھے ، سوائے ولید کے ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ جان بوجھ کر محنت نہیں کرتا تاکہ اس کے کم نمبر آئیں اور آئندہ کوئی اس کو سائنس پڑھنے کو نہ کہے ۔ ویسے تو ولید کو سائنس سے بالکل بھی دلچسپی نہ تھی اور میتھس سے تو خاص طور پر چڑ تھی ۔ لیکن چونکہ وہ ایک آرٹسٹک قسم کا لڑکا تھا اس لیے اسے علم نجوم ، پامسٹری ، فلکیات اور خلائی سائنس سے دلچسپی تھی ۔ اسے تصورات کی دنیا میں رہنا بہت اچھا لگتا تھا ۔ کبھی وہ اپنے خیالات میں سمندر پر بیٹھا لہریں گن رہا ہوتا تو کبھی ہاتھوں کی لکیریں پڑھ رہا ہوتا اور رات کو آسمان پر چاند ، ستاروں کو تکتا رہتا ۔ اس کا دل چاہتا کہ وہ اُڑ کر چاند پر پہنچ جائے اور دیکھے کہ وہاں کیا ہے ۔ اور اب جب سے اس نے سرخ سیارے مریخ کے چرچے سنے اور پڑھے تھے وہ اس کی جانب متوجہ ہوگیا تھا ۔ اب وہ اکثر آسمان پر سرخ سیارہ تلاش کرتا رہتا تھا ۔ اسے اپنے خیالات کی دنیا میں رہنا اچھا لگتا تھا ۔

                ولید کی یہ عادات اپنے دونوں بھائیوں سے بالکل مختلف تھیں ۔ وہ اس کا اکثر مذاق اُڑایا کرتے جبکہ اس کے ابو اس کے اس مزاج پر کافی پریشان ہوتے کہ آخر اس کا بنے گا کیا ؟ اس طرح خیالات کی دنیا میں رہ کر تو زندگی بسر نہیں ہوسکتی ۔ کچھ کام بھی کرنا پڑتا ہے ، اور آج کل سائنس پڑھے بغیر اچھی نوکری ملنا محال ہے ۔ اس کے ابو خود فزکس کے پروفیسر تھے ، بڑا بھائی سعد میتھس میں ایم ایس سی کررہا تھا اور اسد ایف ایس سی پری انجینئرنگ کر رہا تھا اور ولید کا خیال تھا کہ جب اتنے سارے لوگ سائنس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں تو میں کیوں نہ کوئی مختلف کام کروں ۔ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسے امی کی بہت حمایت حاصل تھی ۔ جب بھی ابو سمجھانے کی کوشش کرتے تو امی ہمیشہ یہی کہتیں کہ ابھی چھوٹا ہے ، خود ہی سمجھ جائے گا اور اس بات پر سعد اور خاص طور پر اسد کو بہت غصہ آتا کہ ان کے ساتھ تو پڑھائی کے معاملے میں کبھی کوئی رعایت نہیں برتی گئی ۔ اس کو اس نے بہت سر چڑھا رکھا ہے ، لہٰذا یہ کبھی کچھ نہیں بن سکتا اور ولید ان دونوں کے جلنے سے خوب مزے لیتا ۔

                ایک دن اس کے ابو ایک بہت بڑی دوربین گھر لے آئے ، جو اُنہوں نے اپنے ریسرچ کے کام کے لیے خاص طور پر باہر سے منگوائی تھی۔ وہ نظام شمسی پر تحقیق کر رہے تھے جس کے لیے ایک طاقت ور دوربین کی ضرورت تھی ، وہ دوربین کو چھت پر فٹ کرنے کے لیے لے گئے ، ولید نے یہ دیکھا تو اسے خیال آیا کہ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ سرخ سیارے کو ایک طاقت ور دوربین کے ذریعے بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ، لہٰذا وہ بھی ابو کے پیچھے چھت پر پہنچ گیا اوربڑی دلچسپی سے اس کا معائنہ کرنے لگا ، ابونے اس کی دلچسپی دیکھی تو خوش ہو کر بولے ’’ آئو آئو ولید بیٹا ، دیکھو یہ دوربین میں نے نظام شمسی کا معائنہ کرنے کے لیے منگوائی ہے ۔ اس کو اس طرح سٹینڈ پر فٹ کرتے ہیں کہ اس کا بڑے لینز والا حصہ آسمان کی طرف ہو اور یہ چھوٹے لینز والا مُڑا ہوا حصہ زمین کی طرف ہو جس میں ہم اپنی آنکھ فٹ کرتے ہیں اوراس درمیان والے حصے سے دوربین کو فوکس کیا جاتا ہے ۔اس طرح اس سے آسمان پر موجود سیاروں کا بخوبی معائنہ کیا جاسکتا ہے ۔ ‘‘

’’ ابو ، کیا اس سے سرخ سیارہ نظر آسکتا ہے ؟ ‘‘ ولید اپنے مطلب پر آگیا ۔

’’ سرخ سیارہ …….  ؟ یعنی مریخ !  ہاں ہاں کیوں نہیں ، وہ بھی تو نظام شمسی کا حصہ ہے ۔ یہ زمین سے قریب ترین سیارہ ہے، اس کو اس دوربین سے بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔ جانتے ہو ، یہ سیارہ اس سال یعنی 2007 ء میں دو مرتبہ زمین کے قریب سے گزرا ہے ۔ ‘‘

’’ اوہو …….  گزرگیا ؟ ابو اب دوبارہ کب گزرے گا ؟ ‘‘ ولید بہت حیرانی سے بولا ۔

’’ اب یہ دو سال بعد پھر گزرے گا ۔ ‘‘ابو نے بتایا ۔

’’ اچھا !   دو سال بعد ، ابھی تو بہت عرصہ ہے ۔ ‘‘ ولید پھر افسوس سے بولا ۔

’’ اور جانتے ہو ، مریخ کے گرد دو چاند گردش کرتے ہیں ، ایک کا نام ’ فوبوس ‘ اور دوسرے کا ’ ڈیموس ‘ ہے ۔ ان دونوں کو ’اسپ ہال ‘ نے دریافت کیا تھا ۔ ‘‘ ابو دوربین فٹ کرنے میں لگے ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ ولید کی معلومات میں بھی اضافہ کرتے جا رہے تھے جبکہ ولید کو ان معلومات سے زیادہ سرخ سیارے کا دیدار کرنے کی جلدی تھی ۔

                آخر اس کے ابو نے دوربین فٹ کرلی اور اس کو مریخ پر فوکس کرکے ولید کو دیکھنے کے لیے دی ۔ایک سرخ رنگ کی چمکدار ٹکیہ ولید کی آنکھوں کے سامنے تھی اور اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کی یہ خواہش اتنی جلدی پوری ہوگئی ہے ۔

’’ غور سے دیکھو مریخ کی سطح پر باریک باریک لکیریں نظر آرہی ہوں گی ، ان کو اطالوی ماہر فلکیات ’ جیووانی شِپاریلی ‘ نے دریافت کیا تھا اور انکو ’ کنالی ‘ کا نام دیا تھا ، اس نے میلان میں اپنی رصدگاہ سے مریخ کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک مفصل خاکہ تیارکیا جس میں کچھ لکیریں سی دکھائی گئی تھیں ۔ اس کا کہناتھا کہ یہ کوئی قدرتی ندی یا نالہ نہیں بلکہ مصنوعی طور پر پانی گزارنے کے لیے نہر بنائی گئی ہے ۔ اس کا خیال تھا کہ مریخ پر جو بھی مخلوق آباد ہے وہ بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے اور ان کا ایک وسیع نظام آبپاشی ہے ۔ شِپا ریلی نے یہ بھی بتایا کہ مریخ کے قطبین پر بھی اسی طرح برف جمی ہوئی ہے جس طرح دنیا کے قطبین پر ہے ۔ اس برف کی تہہ کے نیچے پانی ہے جس کو اہلِ مریخ نہروں کے ذریعے حاصل کرتے ہیں اور وہاں لے جاتے ہیں جہاں پانی نہیں ہے ۔ ‘‘ ابو بتا رہے تھے اور ولید سیارے کا نظارہ کرنے میں مگن تھا ۔ وہ مختلف پہلوئوں سے اس کو فوکس کرکر کے دیکھ رہا تھا پھر بولا !

’’ ابو ، وہاں تو کچھ گہرے دھبے سے بھی نظر آرہے ہیں وہ کیا ہے ؟ ‘‘

’’ ہاں پہلے ماہرین کا خیال تھا کہ یہ گہرے دھبے یا روشن مقام دراصل سمندر ہے ۔پھر پتا چلاکہ وہاں سمندر کا کوئی وجود نہیں ۔ پھر یہ نظریہ سامنے آیا کہ شاید مریخ کی مخلوق کاشت کرتی ہے لہٰذا یہ وہ علاقے ہیں جہاں کاشت کی جارہی ہوگی یا پھر گہری وادیاں ہیں ۔‘‘ ابو نے پھر تفصیل سے بتایا ، وہ خوش تھے کہ چلو کسی بہانے سے ولید کو کچھ جاننے کا موقع تو ملا ۔ پھر ولید نے پوچھا :

’’ ابو ، وہاں تو پہاڑ سے بھی نظر آرہے ہیں ، دور سے تو بالکل اپنی زمین ہی لگ رہی ہے ، ہے نا ابو ؟ ‘‘

’’ ہاں پہلی نظر میں مریخ زمین سے مشابہ لگتا ہے ۔ بس رنگ کا فرق ہے ، شاید اسی لیے انسان کو اس سے اتنی دلچسپی ہے۔ اس کی سرخ سطح پر سفید برفیلی چوٹیاں ہیں، رواں دواں بادل ہیں ، ریت کے خوفناک طوفان بھی ہیں ، آتش فشاں پہاڑ اور بدلتے موسم بھی ہیں اور تو اور یہاں کا دن بھی چوبیس گھنٹے کا ہے ۔ حقیقتاً یہ سب انسان کے لیے بہت حیرت انگیز انکشافات ہیں ۔ اسی لیے اس سیارے پر جانے اور یہاں آباد ہونے کا تصور انسان کے لیے بہت کشش رکھتا ہے ۔ ‘‘

’’ ابو ، کیا میں اس سرخ سیارے پر جاسکتا ہوں ؟ ‘‘ ولید نے بڑی حسرت سے پوچھا تو ابو کو لگا کہ کچھ زیادہ ہی اس سیارے کی تعریف ہوگئی ہے جو ولید پھر سے خیالی دنیا میں پہنچ گیا ہے ۔ وہ جلدی سے بولے  !

’’ چلو بیٹا نیچے چلتے ہیں ، کافی دیر ہوگئی ہے ۔ ‘‘ اور ولید نہ چاہتے ہوئے بھی نیچے آگیا ، لیکن وہ بے حد خوش تھا ۔

                ولید نے اپنے کمرے میں آکر دیکھا تو اسد پڑھائی میں مصروف تھا ۔ پھر بھی وہ اپنی خوشی چھپا نہ سکا، اور جلدی سے بولا  !

’’ پتا ہے اسد آج میں نے کیا دیکھا ؟

’’ ہاں ہاں پتا ہے ، سرخ سیارہ دیکھا ہوگا اور تمہیں آج کل کام ہی کیا ہے ؟ ‘‘ اسد ناگواری سے بولا تو ولید کا سارا جوش ماند پڑ گیا ۔ پھر بھی بولا  :

’’ تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے کہ یہ بہت بُرا کام ہے ، جانتے ہو علامہ اقبال نے کیاکہا تھا؟ ‘‘

                ’’ محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے              ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ‘‘

’’ ہاں تو تم اُن نوجوانوں میں سے نہیں ہونا  !  علامہ اقبال نے یہ شعر اس لیے نہیں کہا کہ اپنی پڑھائی پر تو توجہ نہ دو ، میٹرک بھی رو رو کر پاس کرو اور سارا دن ستاروں پر کمند ڈالنے کے منصوبے بناتے رہو ۔ ستارے نہ ہوئے کبوتر ہوگئے کہ دانہ ڈالو اور پکڑ لو ۔ پہلے اپنی تعلیم تو مکمل کرلو ۔ خواہ مخواہ کا مذاق بنا رکھا ہے ۔ تم جیسے جاہل پاکستانی کو ناسا والے اپنے خلائی اسٹیشن کی صفائی کے لیے بھی نہیں رکھیں گے نہ کہ تمہیں مریخ کی سیر کرائیں ‘‘ ۔ اسد اس کے اس کریز سے عاجز آچکا تھا ، لیکن ولید نے اس کی باتوں کا کوئی اثر نہ لیا اور بولا :

’’ تم جلتے رہو ، دیکھنا میں تمہیں وہاں جاکردکھائوں گا ۔ ابو بتا رہے تھے کہ انسان تو وہاں رہائش کے منصوبے بھی بنا رہا ہے، آہ کتنا مزہ آئے گا میں تو مستقبل میں وہیں جاکر رہوں گا ۔‘‘

’’ مستقبل میں کیوں ؟بھی چلے جائو نا ، اپنا وہ سرخ شامیانہ تان کر اور میری جان چھوڑو ، پڑھنے دو مجھے ۔ سب کچھ بھلا دیتے ہو اپنی اُوٹ پٹانگ باتوں سے ۔ تمہارا یہ جذبہ دیکھ کر تو مریخ والے مجبور ہوجائیں گے اور تمہیں دعوت نامہ دے کر بلائیں گے کہ آئیے حضور ہمارے سیارے کو قدم بوسی کا شرف بخشیے …….  ہونہہ ! ۔ ‘‘ اسد بہت چڑ کر بولا تو ولید چپ چاپ جاکر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا اور وہ سرخ چمکدار ٹکیہ اب بھی اس کی آنکھوں کے سامنے تھی ۔

                آج رات ابو کو چھت پر جاتا دیکھ کر ولید پھر ابو کے پیچھے ہولیا ، لیکن ابو کو اپنا بہت کام تھا، لہٰذا اُنہوں نے اس کو کوئی لفٹ نہ کرائی اور اپنے کام میں لگے رہے ۔ ولید چپ کرکے نیچے آگیا لیکن اُسے بے چینی لگی رہی اور وہ لان میں ہی ٹہلتا رہا ، اس نے سوچا آدھی رات ہونے کو آئی ، ابو کا کام کب ختم ہوگا ، کیا اُنہیں صبح یونیورسٹی نہیں جانا ؟ خدا خدا کرکے ابو کا کام ختم ہوا اور وہ نیچے آگئے اور اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ دن میں ابو چھت کو تالا لگا کر رکھتے تھے کہ کہیں کوئی نوکر وغیرہ اوپر جاکر دوربین کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے ۔ ولید کو یہی ڈر تھا کہ ابو نے تالا نہ لگا دیاہو ، لیکن ولید کی خوش قسمتی تھی کہ آج ابو تالا لگانا بھول گئے ، یہ دیکھ کر ولید کی باچھیں کِھل گئیں اور وہ دوڑا دوڑا دوربین کے پاس گیا اور اس میں اپنی آنکھ فٹ کردی ۔ لیکن یہ کیا ؟ سرخ سیارے کا تو دور دور تک پتا نہ تھا ۔ اس نے سوچا شاید ابو نے کسی دور دراز سیارے پر دوربین فٹ کی ہوئی ہوگی یا پھر شاید مریخ بھی چاند اور سورج کی طرح غروب ہوجاتا ہوگا۔

                ولید اسی شش و پنج میں تھا کہ اب کیا کرے ؟ اتنی مشکل سے تو یہ موقع ہاتھ آیا تھا وہ بھی ضائع گیا ، کہ اتنے میں اس کو دور آسمان پر سرخ رنگ کی روشنی دکھائی دی جو بڑی تیزی سے نزدیک آرہی تھی ، حتیٰ کہ وہ ولید کے سامنے آگئی۔ یہ ایک سایہ سا تھا جس کی کوئی بھی شکل نہ تھی ۔ ولید پہلے تو اس کو دیکھ کر گھبرا گیا ، مگر جب اس سائے نے ولید کی طرف ہاتھ پھیلایا تو ولید نے بھی لاشعوری طور پر اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ۔ وہ سایہ ولید کو لے کر اوپر آسمانوں پر اُڑ گیا، ولید کو لگ رہا تھا کہ ہوا بن گیا ہے یا روشنی ۔ وہ بڑی تیزی سے مائلِ پرواز تھے ۔ کچھ ہی دیر میں ولید کے قدموں نے کسی سخت سطح کو چھوا ، اب وہ کسی سرزمین پر کھڑے تھے ۔ ولید کو اپنے وجود کا احساس ہونے لگا اور وہ کچھ سوچنے کے قابل ہوا تو اس نے سائے سے پوچھا

’’ تم کون ہو ؟ ‘‘

’’ ایک سایہ ۔ ‘‘ سائے نے جواب دیا ۔

’’ وہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے ، پھر بھی میرا مطلب ہے کہ تم کون ہو ؟ کس کا سایہ ہو ؟ کہاں سے آئے ہو ؟ اور ہم کہاں پر ہیں؟‘‘

’’ جو نظر آرہا ہے اُسی کو کافی سمجھو ، اور کچھ جاننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم اس وقت مریخ کی سرزمین پر ہیں اور مجھے حکم ملا ہے کہ تمہیں مریخ کی سیر کرائوں ۱ ‘‘

’’ کیا ……. ؟ یعنی ہم اس وقت سرخ سیارے پر موجود ہیں ۔ یہ کیسے ہوگیا ؟ ولید کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ اسے لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے ۔

’’ میں نے کہا نا کچھ جاننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مجھے حکم ملا ہے کہ تمہیں مریخ کی سیر کرائوں اور میں آگیا ۔ ‘‘

’’ تو پھر کرائو سیر ، نیکی اور پوچھ پوچھ  ! ‘‘ ولید کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا ۔

                سائے نے پھر ولید کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے لے کر پرواز کر گیا ۔ ولید بھی پھر سے سائے کی طرح روشنی میں تبدیل ہوگیا کیونکہ اس کے بغیر وہ پورے سیارے کی سیر نہیں کرسکتے تھے ۔ ولید آنکھیں پھاڑے بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔ اتنا سہانا سماں تو ولید نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا ۔ گو کہ وہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والا لڑکا تھا ۔ اس نے سوچا جو بھی مخلوق رہتی ہے ، اسے اپنی سرزمین سے کتنی محبت ہے کہ انہوں نے اپنی اس زمین کو جنت کا نمونہ بنا دیا ہے ۔ اور ایک ہم انسان ہیں جو اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا تھا ، وہ خدا جو خود بھی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے ۔ اس انسان نے اپنی جنت جیسی دنیا کو جہنم بنا دیا ہے اور اب بھی اس کی تسلی نہیں ہوتی کہ اس دنیا کو بالکل فنا کرکے چاند پر یا مریخ پر جا بسیں ۔ یہ تو وہی بات ہوگئی کہ انسان کسی کا خوبصورت گھر دیکھ کر اپنے گھر کو بھی خوبصورت بنانے کی بجائے اپنے گندے گھر کو مسمار کردے اور چاہے کہ دوسرے کے خوبصورت گھر پر قبضہ کرکے وہاں رہائش اختیار کرلے ۔

                اس خوبصورت سیارے کی سیر کے دوران ولید یہ سب باتیں سوچ رہا تھا اور اپنی دنیا کی بدحالی پر اس کا دل کُڑھ رہا تھا ۔ اچانک اس کی نظر سفید سفید روئی جیسے اُڑتے بادلوں پر پڑی اور وہ اپنی باتیں بھول کر اُنہی کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ سرخ سرخ پہاڑیوں پر سفید بادل ایسے اُڑتے پھر رہے تھے جیسے چُھپن چُھپائی کھیل رہے ہوں اور ولید اُن بادلوں سے بھی اونچا اُڑ رہا تھا ۔ آگے چلے تو پہاڑ اور بھی اونچے ہوتے چلے گئے ، جن کے دہانے اوپر سے کُھلے ہوئے تھے ۔ وہ آتش فشاں پہاڑ تھے اور کسی بھی وقت لاوہ اُگل سکتے تھے لہٰذا وہ دونوں اور بھی اونچا اُڑنے لگے ۔ ولید کو لگ رہا تھا جیسے کہ وہ سرخ رنگ کی عینک لگا کر سب کچھ دیکھ رہا ہو ۔

                اور آگے چلے تو ریگستان شروع ہوگیا ، دور دور تک پھیلا ہوا لق و دق صحرا جہاں سرخ سرخ ریت اُڑ رہی تھی۔

’’ ہمیں یہاں سے جلد نکل جانا ہے ۔ اگر ریت کا طوفان آگیا تو وہ اتنا خوفناک ہوگا کہ ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ہم راستہ کھو بیٹھیں گے ۔ ‘‘ سایہ بولا اور اس نے اپنی رفتار تیز کردی ۔ ولید اس کے ساتھ تقریباً گھسٹتا ہوا اُڑ رہا تھا ، ظاہر ہے وہ سائے کی رفتار کا مقابلہ تو نہیں کرسکتا تھا ۔

                اُنہیں کئی جگہ دنیا سے بھیجے گئے مصنوعی سیارے اور خود کار لیبارٹریاں بھی نظر آئیں ۔ وہ گھنٹوں کا سفر سیکنڈوں میں طے کرتے اُڑے جارہے تھے ۔ اُڑتے اُڑتے وہ مریخ کے قطب شمالی میں پہنچ گئے جہاں تاحدِ نظر برف ہی برف تھی۔  وہاں پہنچ کر ولید کو سخت سردی کا احساس ہونے لگا ، اس کو کانپتا دیکھ کر سائے نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے اس کو کچھ سکون کا احساس ہوا ۔ ہر طرف برف کے پہاڑ نظر آرہے تھے اور میدانوں میں بھی برف ہی برف جمی دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں ولید نے ایک انتہائی حیرت انگیز اور عجیب و غریب منظر دیکھا ، اچانک برف کی سطح کو توڑ کرایک فوارہ پھوٹ پڑا ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ فوارہ پانی کا نہیں بلکہ ریت کا تھا ۔ برف کی سفید تہوں کو توڑ کر سرخ ریت کا فوارہ پھوٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی سو فٹ بلند ہوگیا، جس میں سے ریت اور گرد نکلنے کی رفتار سو میل فی گھنٹہ ہوگی ، اور جگہ جگہ اسی طرح کے فوارے پھوٹنے لگے ۔ ولید ایک اُونچے پہاڑ پر بیٹھ کر یہ منظر دیکھنے لگا ، اس کے لیے یہ ایک ناقابلِ یقین منظر تھا ۔ اس نے سائے سے پوچھا کہ اس میں کیا سائنس ہے کہ برف کی تہہ کے نیچے سے ریت پھوٹ نکلے ، تو سایہ بولا !

’’ جب مریخ کی برفانی سطح پر دھوپ کی گرمی زیرِ زمین کاربن ڈائی آکسائڈ کو گیس میں تبدیل کردیتی ہے ، تب اس گیس کے شدید دبائو سے یہ ریت کے فوارے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ آج دن میں خوب تیز سورج چمکا تھا جس کے باعث سارا دن اس گیس کا دبائو بڑھتا رہا اور اب نتیجہ تمہارے سامنے ہے ۔ ‘‘

’’ واقعی بہت دلچسپ اور حیرت انگیز منظر ہے ، زمین پر تو کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ ‘‘ ولید نے دل میں سوچا ۔

                ’’ سارے سیارے کی تو تمہیں میں نے سیار کرادی ۔ اب کیا ارادے ہیں ؟ ‘‘سائے نے ولید سے کہا جو ابھی تک فواروں کا عجیب و غریب منظر دیکھنے میں محو تھا ۔ اور حیرت سے نہ صرف اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں بلکہ منہ بھی کھلا ہوا تھا ۔ سائے کی آواز سن کر وہ چونکا،

’’ ہاں واقعی بہت دیر ہوگئی اب واپس جانا چاہیے ، گھر والے تو مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے ۔ ‘‘

’’ ان کی تم فکر نہ کرو ۔ اُنہیں تو پتہ بھی نہیں چلا ہوگا ، ‘‘ سایہ بولا ۔

’’ میرا خیال ہے میں اس گاڑی سے نہ واپس چلا جائوں ؟ ‘‘ ولید نے زمین سے آئی ہوئی ایک خلائی تحقیقاتی گاڑی  ’ مارس اوڈیسی ‘ کو ایک جانب کھڑے دیکھ کر کہا ۔

’’ نہیں میں تمہیں لایا ہوں ۔ میں ہی تمہیں چھوڑ کر آئوں گا ۔ یہ میری ڈیوٹی ہے ۔ ‘‘ سائے نے گاڑی کی طرف قدرے حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا تو ولید پھر کچھ نہ بولا اور سائے کے ساتھ چپ چاپ چلنے لگا ۔

                سایہ ولید کا ہاتھ پکڑ کر اُڑنے لگا ۔ وہ مریخ کی سطح سے باہر آگئے ۔ آگے اُنہیںایک اور بہت بڑا اور چمکدار سیارہ نظر آیا ، ولید نے اس کے بارے میں پوچھا تو سائے نے بتایا

’’ وہ مشتری ہے ، اس کے آگے زحل ہے جس کے گرد ہالہ بنا ہوا ہے ۔ اس کے آگے یورینس اور پھر نیپچون ہے ۔ ان کے آگے پلوٹو ہے ، مگر اسے تو دنیا والوں نے نظام شسی سے ہی خارج کردیا ہے ۔ لہٰذا وہاں جانا تو بیکار ہے البتہ اگر کہو تو باقی سیاروں کی بھی سیر کرادوں ۔ ‘‘

’’ نہیں نہیں اتنا ہی کافی ہے ، اب واپس چلتے ہیں ، ویسے بھی مجھے تو صرف سرخ سیارے کی ہی سیر کرنے کی آرزو تھی ، وہ آج تم نے پوری کردی تمہارا بہت بہت شکریہ ۔ ‘‘

                چند منٹوں میں وہ زمین پر تھے ۔ سائے نے ولید کو لا کر اس کی چھت پر اُتار دیا اور واپس جانے کے لیے مُڑا ۔

’’ پھر کبھی ملنے آئو گے ؟ ‘‘ ولید نے پوچھا تو سایہ بولا  !

’’ اب ہماری ملاقات تبھی ہوگی جب تم پڑھ لکھ کر اس قابل ہوجائو گے کہ اپنا خلائی جہاز خود لے کر مریخ پر آئو ۔ تمہاری مریخ کی سیر کی خواہش اتنی شدید تھی کہ مجھے تمہیں سیر کرانے کے لیے آنا پڑا ، ورنہ بے شعور ، اور کم علم لوگوں کے لیے ہمارے پاس بالکل وقت نہیں ہے ۔ یاد رکھو قومیں اپنی تقدیر اپنی محنت سے بدلتی ہیں ، صرف خیالی دنیا میں گم رہنے سے ستاروں کی تسخیر ناممکن ہے ۔ ‘‘ یہ کہ کر وہ سایہ غائب ہوگیا اور ولید تھوڑی دیر تک تو سائے کی باتوں پرغور کرتا رہا پھر نیچے آگیا ۔

                ولید اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا اسد سویا پڑا تھا اور اس کی کتابیں اِدھر اُدھر بِکھری پڑی تھیں۔

’’ کر آئے سرخ سیارے کی سیر ؟ ‘‘ اسد نے ایک آنکھ کھول کر دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ ہاں ……. ! مگر تمہیں کیسے پتاچلا ؟ ‘‘ ولید حیرت سے بولا

’’ مجھے اس سائے نے بتایا تھا جو اس وقت تمہارے ساتھ تھا ۔ ‘‘ اسد بڑے اطمینان سے بولا ۔

’’ سائے نے ؟ ……. مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ کسی کو پتا نہیں چلے گا ۔ ‘‘ ولید مزید حیران ہوگیا ۔

’’ اب خوامخواہ میں حیران ہونے کی ایکٹنگ مت کرو ، تمہاری موٹی عقل میں اتنی بات بھی نہیں کہ امی کہتی ہیں آدھی رات کو چھت پر اکیلے نہیں جاتے سایہ ہوجاتا ہے ۔ ‘‘ اسد کو اس کی کم عقلی اور ناسمجھی پر غصہ آگیا ۔

’’ اوہ !   اچھا سمجھ گیا ، بالکل سمجھ گیا ، آئندہ نہیں جائوں گا ۔ ‘‘ ولید نے دل ہی دل میں شکر کیا اور جلدی جلدی اسد کی کتابیں سمیٹتا ہوا بولا !

’’ علم کی اتنی ناقدری ……. ؟ اِنہیں سنبھال کر رکھو ابھی مجھے بھی پڑھنا ہے اِنہیں ، ‘‘ ولید کی اس بات پر اسد مارے حیرت کے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اس کو ایسے دیکھنے لگا جیسے کہ اس کو واقعی سایہ ہوگیا ہو ۔اور ولید اس کو حیران پریشان چھوڑ کر آرام سے جا کر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا اور سرخ چادر اوڑھ کر سو گیا ۔

 ملیخا سزایو

دو دوست ( ملیخا سزایو )

 ( سیارہ زہرہ سے  ایک بگولے کی زمین پر آمد کی کہانی)

                                ایک گائوں میں دو دوست سلو اور شوکی رہتے تھے۔ ان دونوں کے گھر بھی ساتھ ساتھ تھے اور زمینیں بھی۔ وہ میٹرک پاس تھے اور اسکول بھی ہمیشہ ساتھ جاتے تھے۔ نام تو ان کے سلیمان اور شوکت تھے لیکن شاید یہ گائوں والوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب تک نام بگاڑ نہ لیں انہیں نام لینے کا مزہ ہی نہیں آتا۔ وہ اتنے گہرے دوست تھے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی اپنے گھر پر اکیلا نظر نہیں آتا تھا بلکہ دونوں جہاں بھی ہوتے تھے ساتھ ہی موجود ہوتے تھے۔ ان دونوں کے گھر والے بھی ان کی اس عادت سے تنگ تھے، بہت سمجھاتے تھے کہ بھئی کبھی اپنے اپنے گھروں پر بھی رہا کرو …..  نتیجہ وہی نکلتا جسے بھینس کے آگے بین بجانا کہتے ہیں۔

                وہ دونوں میٹرک پاس تھے پھر بھی نوکری کرنے کی بجائے انہوں نے اپنے آبائی پیشے کو اپنایا تھا، وہ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے اور روزانہ اپنی زمینوں پر بھی اکٹھے ہی جاتے تھے۔ اگر ایک کو کوئی کام ہوتا تو وہ صرف ایک کا کام نہیں ہوتا تھا بلکہ دونوں ہی اس کام کے لیے جاتے تھے۔ اسی طرح اگر ایک بیمار ہوتا تھا تو دوسرا بھی اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگتا تھا اور وہ بھی چھٹی کرکے دوست کی تیمار داری میں لگ جاتا، اور پھر دونوں کے کام کا ہرج ہوتا تھا۔ یہ سب کچھ ان کے مزاج کا حصہ بن چکا تھا جس سے اب وہ جان نہیں چھڑا سکتے تھے۔

                مگر جب وہ دونوں کام کرنے پر آتے تھے تو پھر بہت محنت سے کام کرتے تھے اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتے تھے۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ حالانکہ دونوں کے کھیت بھی ساتھ ساتھ تھے اور وہ جاتے بھی ساتھ ہی تھے لیکن جب وہ کام میں جُت جاتے تو پھر اُنہیں ایک دوسرے کی بھی خبر نہیں رہتی تھی ۔ جب وہ کام میں مصروف رہتے ایک دوسرے سے بالکل بے خبر رہتے تھے شاید یہی ان کی اچھی کارکردگی کا راز تھا کیونکہ اگر کام کے وقت بھی اُنہیں ایک دوسرے کی فکر رہتی تو کام کیسے کرتے ۔ اس لیے ان کے دور دور تک لہلہاتے ہرے بھرے کھیت سب سے اچھے تھے اور سب سے زیادہ فصل دیتے تھے۔ اونچی نیچی پہاڑیوں پر پھیلے یہ کھیت بہت بھلے معلوم دیتے تھے ۔

                اسی طرح ایک دن وہ دونوں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک سلو کے کھیت میں آگ کا ایک گولہ آکر پڑا ۔ سلو یہ دیکھ کر بہت حیران اور پریشان ہوا کہ یہ اچانک کیا ہوگیا اس کے کھیت کو آگ کیسے لگ گئی اور کہاں سے لگ گئی جبکہ دور دور تک تو کوئی بھی نہیں تھا اور جب وہ آگ کا گولہ سلو کی طرف بڑھنے لگا تو وہ دوڑ پڑا۔

                ’’ رُک جائو بھائی …..  ڈرو نہیں۔ ‘‘

سلو اپنے پیچھے سے یہ الفاظ سن کر رک گیا، وہ سمجھا شاید کوئی اس کی مدد کو آگیا ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ آگ کا گولہ اس کے سر پر آن پہنچا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً چھ فٹ اونچا بگولہ بن گیا تھا۔ اب تو بھاگنے کا بھی وقت نہیں تھا۔

                ’’ مجھ سے ڈرو نہیں …..  میں تو تم سے ملنے آیا ہوں۔‘‘ آگ کا وہ بگولا بولا۔

                ’’ کون ہو تم ؟ …..  کہاں ہو تم ؟ اور یہ آگ بھی میرے کھیت میں تم نے ہی لگائی ہے کیا؟ ‘‘ سلو پریشانی سے بولا ، ’’ٹھہرو پہلے میں یہ آگ بجھا لوں پھر تم سے بات کرتا ہوں۔ ‘‘ سلو پانی لانے کے لیے ٹیوب ویل کی طرف بڑھا۔

                ’’ ارے دوست یہ غضب نہیں کرنا ورنہ میں مر جائوں گا۔ میں آگ کا بنا ہوا ہوں مجھ پر پانی مت ڈالنا۔‘‘ سلو نے غور کیا تو یہ آواز آگ کے بگولے سے آرہی تھی، ’’ تمہارے کھیتوں میں پہلے ہی پانی ڈلا ہوا تھا اس لیے بچت ہوگئی ورنہ شاید آگ لگ بھی جاتی۔‘‘

                ’’ کون ہو تم …..  اور …..  اور مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ ‘‘ سلو کی گھگھی بندھ گئی، وہ اسے کوئی جن سمجھ رہا تھا کیونکہ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جن بھوت ہی آگ کے بنے ہوتے ہیں۔

                ’’بھئی! …..  گھبرائو نہیں میں تمہارا پڑوسی ہوں۔ ‘‘ آگ کا بگولا بولا۔

                ’’ میرا پڑوسی…..  ؟ یعنی فضلو چاچا…..  ؟ جن کا پچھلے سال انتقال ہوگیا تھا…..  ؟ ‘‘ سلو مشکوک نظروں سے بگولے کو دیکھتے ہوئے بولا، ’’ مجھے تو پہلے ہی شبہ تھا کہ تم کوئی بھوت ہو…..  یعنی تم فضلو چاچا کا بھوت ہو…..  ! کیا تم مرنے کے بعد شیطانوں میں شامل کردیے گئے ہو فضلو چاچا…..  بظاہر تو بڑے نیک دکھائی دیتے تھے۔ ‘‘

                ’’ اوہو۔۔۔۔۔۔ بھئی میں وہ والا پڑوسی نہیں ہوں،میں تو اُدھر سیارہ زہرہ سے آیا ہو۔ ‘‘ بگولے نے اس کی غلط فہمی دور کی ۔

                ’’کیا کہا…..  ؟ زہرہ سے؟ یعنی تم دوسرے سیارے کی مخلوق ہو….. ؟ مگر تم تو صرف ایک بگولہ ہو…..  ؟ تمہاری شکل کیسی ہے…..  اپنی اصلی شکل دکھائو نا ….. ! ایسی شکل کی کون سی مخلوق ہوتی ہے…..  ؟ سلو مزید خوفزدہ ہوتے ہوئے بگولے سے اور پیچھے ہٹ گیا۔

                ’’ تم تو مجھے ایسے دیکھ رہے ہو جیسے میں زہرہ سے نہیں بلکہ چڑیا گھر سے آیا ہوں۔ ‘‘ بگولہ سلو کی حیرانی پر ناراض ہوتے ہوئے بولا، ’’ اور ہماری شکل بس ایسی ہی ہوتی ہے، ہم بگولے جو ہوئے۔ ‘‘

                ’’ مگر تم …..  اتنی آسانی سے زمین پر کیسے پہنچ گئے…..  ؟ اور ایسے بتا رہے ہو جیسے ساتھ والے گائوں سے آئے ہو۔‘‘ سلو بولا۔

                ’’ ہاں تو ….. ؟ یہ تو رہا ہمارا سیارہ زہرہ، تمہاری زمین کے بالکل اوپر ۔ شام کو اکثر تم لوگ ہمارے سیارے کی طرف بڑے شوق سے دیکھ رہے ہوتے ہو۔ کبھی اسے صبح کا تارا تو کبھی شام کا تارا کہہ رہے ہوتے ہو، کبھی اسے چاند کے ساتھ جوڑ کر اس پر شعر کہہ رہے ہوتے ہو۔ افسوس ہمارے سیارے کا کوئی چاند نہیں ہے۔ اس لیے جب ہمارا سیارہ گردش کرتا ہوا تمہارے چاند کے بہت نزدیک چلا جاتا ہے تو ہماری عید ہوجاتی ہے، ہم بگولے جوق در جوق اس کی سیر کو جاتے ہیں اور اس کی ٹھنڈی سفید روشنی میں نہاتے ہیں، یعنی ’’ مو ن باتھ ‘‘ لیتے ہیں جس سے ہماری آگ کچھ کم ہوجاتی ہے ورنہ ہمارے سیارے پر تو آگ برستی ہے۔ جس طرح تمہاری زمین پر بارش برستی ہے، ہمارے زہرہ پر شہابیے برستے ہیں جس سے جگہ جگہ آگ بھی لگی رہتی ہے اور گڑھے بھی پڑ جاتے ہیں، خیر ہمارے لیے تو وہ آگ آکسیجن کا کام کرتی ہے۔ مگر میں تو سب سے زیادہ چاند پر ہی جانا پسند کرتا ہوں شاید اسی لیے میری آگ کافی ٹھنڈی ہوگئی ہے۔

                ہم بگولے تو اکثر تمہاری زمین کی سیر کو بھی آتے رہتے ہیں۔ ہمیں تمہاری یہ ہری بھری سرسبز زمین اور جنگلات بہت پسند ہیں مگر ہم جب بھی زمین پر اترتے ہیں تو اکثر جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے تب ہمیں بڑا افسوس ہوتا ہے کیونکہ آگ بجھانے کے لیے بڑی بڑی گاڑیوں میں پانی لایا جاتا ہے اور آگ کے  ساتھ کبھی کبھی ہمارے ساتھی بگولے بھی بجھ جاتے ہیں لیکن ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر تو آگ بجھانے والے بہت دیر سے پہنچتے ہیں اور ہم بڑے آرام سے گھوم پھر کر واپس بھی چلے جاتے ہیں۔ البتہ تمہارے جنگل ہماری وجہ سے تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس کا ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے، ویسے تو تم انسان خود بھی اس کام میں ماہر ہو۔ وہ تو شکر ہے کہ تم نے اپنے کھیت میں پانی دیا ہوا ہے ورنہ اس کی بھی آج خیر نہیں تھی۔ ‘‘

                ’’ لیکن تمہیں اس طرح آتے جاتے پہلے تو کبھی کسی نے نہیں دیکھا ورنہ اخباریا ٹی وی پر خبر ضرور آتی۔ ‘‘ سلو مسلسل پریشان تھا۔

                ’’ ہاں تو پہلے ہم آبادی کی طرف کبھی نہیں آئے نا۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو پہاڑوں پر اُترتے ہیں جہاں جنگل اور سبزہ زیادہ ہو، ہم نے تمہاری دنیا کے سارے پہاڑی علاقے دیکھ رکھے ہیں وہ ہمیں کئی ہزار فٹ نزدیک بھی پڑتے ہیں۔ آج ہمارا ذرا لانگ ڈرائیو کا ارادہ تھا اس لیے میدانی علاقوں کی طرف نکل آئے ۔ مجھے تمہارا یہ لہلہاتا کھیت پسند آیا تو میں یہاں آگیا اور میرے ساتھی آگے نکل گئے۔ ‘‘

                ’’ شکر ہے …..  وہ سب یہاں نہیں آئے ورنہ تو ہمارے سارے گائوں کو ہی آگ لگ جاتی۔ ‘‘ سلو بولا، اسے یقین پھر بھی نہیں آ رہا تھا ۔

                ’’ میں نے اپنے کورس کی کتاب میں پڑھا تھا نظام شمسی کے بارے میں ، اس میں تو لکھا تھا کہ یہ سیارے ہماری دنیا سے لاکھوں کروڑوں میل دور ہیں، تم لوگ اتنی آسانی سے کیسے آجاتے ہو  ؟ ‘‘ سلو نے ذہن پر زور ڈالا پھر مشکوک انداز میں بولا، ’’ سچ بتائو کہیں تم پرانی مسجد کے پیچھے برگد کے درخت پر رہنے والے جن بھائی تو نہیں ہو۔۔۔۔؟ پہلے جب لوگ اس کا ذکر کرتے تھے تو مجھے اور شوکی کو یقین نہیں آتا تھا، مگر اب پکا یقین ہوگیا ہے۔ لیکن تمہیں مجھ سے کیا کام ہے وہ بھی دن دیہاڑے …..  ؟ ‘‘

                ’’ بڑے افسوس کی بات ہے…..  !‘‘ بگولا ناراض ہوتے ہوئے بولا ، ’’ میں نے تمہیں اتنی ساری باتیں بتائیں تمہیں کسی پر یقین نہیں آیا….. ؟ مجھے تو تمہارے کھیتوں کی طرح تم بھی بہت پسند آئے تھے…..  اور میں تم سے دوستی کرنے کے لیے رک گیا تھا…..  ورنہ میں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا چکا ہوتا…..  ایک تم ہو کہ مجھے ابھی تک جن ہی سمجھے ہوئے ہو۔ کیا تمہارے یہ جن ہمارے سیارے کی خبر لاسکتے ہیں….. ؟ اور ہم آگ کے بنے ہوئے ہیں…..  ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کے بجلی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں اس لیے چند گھنٹوں میں یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں پہنچ جاتے ہیں، مشکل تو تم انسانوں کو ہوتی ہے۔ ‘‘

                اس بگولے کا واسطہ پہلی بار کسی انسان سے پڑا تھا…..  اسے اندازہ نہیں تھا کہ انسان کتنے شکی مزاج ہوتے ہیں وہ تو جِنوں کو بھی زچ کردیے ہیں، اس بے چارے بگولے کی بات پر اتنی آسانی سے کیسے یقین کرسکتے ہیں۔

                ’’ اچھا اچھا…..  بگولے بھائی ناراض نہ ہو۔ دراصل پہلے کبھی تمہارے بارے میں نہ ہم نے سنا نہ دیکھا اس لیے غلط فہمی ہوگئی، کیونکہ اب تو کیبل سسٹم کی وجہ سے ذرا سی خبر بھی منٹوں سیکنڈوں میں دنیا کے دوسرے سِرے تک پہنچ جاتی ہے۔ اور دنیا تو ایک معمولی سی چیز ہے ہم تو اس دیہات میں بیٹھ کر بھی پوری کائنات کی خبریں روزانہ سنتے ہیں۔ سب پتہ ہے کہ کس سیارے پر کیا ہو رہا ہے۔ سیارہ زہرہ کے بارے میں تو ابھی تک یہی پتا چلا تھا کہ چونکہ وہاں کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہے 459)  ڈگری سینٹی گریڈ(  کہ اگر وہاں پانی ہوگا بھی تو وہ بھاپ بن کر اُڑ گیا ہوگا اس لیے وہاں پر زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا اور تمہاری طرح کی مخلوق تو ہمارے یہاں صرف جنات ہی پائے جاتے ہیں جو آگ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں یا پھر شیاطین ہوتے ہیں۔ لیکن اب پتہ چلا کہ زہرہ پر بھی انسان ہوتے ہیں…..  ! ‘‘

                ’’ انسان نہیں…..  بگولے، ہم بگولے ہیں۔ ‘‘ بگولے نے اس کی تصحیح کی۔

                ’’ اچھا اچھا…..  بگوے ہی سہی۔‘‘ سلو بولا۔ ’’ لیکن یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک سائنسدانوں کو اس بات کا علم کیوں نہیں ہوسکا کہ زہرہ پر بھی ایک مخلوق آباد ہے۔ اگر میں یہ بات میڈیا کو بتا دوں تو راتوں رات مشہور سائنسدان بن جائوں گا کہ میں نے زہرہ کی مخلوق دریافت کرلی ہے۔‘‘

                ’’ ہر گز نہیں! تم یہ کسی کو نہیں بتائو گے۔ ورنہ ہماری دوستی ختم ہوجائے گی۔‘‘ بگولہ پریشان ہوکر بولا ، اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ دیہاتی ایسی بات بھی کرسکتا ہے۔

                 ’’ تمہاری دنیا کی خلائی گاڑیاں اکثر ہمارے سیارے کے ارد گرد گھومتی ہی رہتی ہیں اورکئی ایک تو سیارے کے اوپر آکر تصویریں بھی لے چکی ہیں مگر ہم اُنہیں کہیں نظر آئیں تو اُنہیں پتا چلے کہ اس سیارے پر ہم بستے ہیں، ہم تو اُنہیں دیکھتے ہی چُھپ جاتے ہیں اور اگر تصویر میں آ بھی جائیں تو آگ کے بگولے کے سوا اُنہیں دکھائی ہی کیا دے گا۔ وہ بیوقوف تو اپنے جیسی انسانی مخلوق کی ہی کھوج میں نکلتے ہیں سائنسدان جو ٹھہرے ۔۔۔۔جو ہر شے کو دوربین اور خوردبین کی آنکھ سے دیکھتے ہیں یا پھر کیمرے کی آنکھ پر بھروسہ کرتے ہیں، ان کے پاس وہ نظر نہیں جو ہم جیسی مخلوق کو دیکھ سکیں ۔‘‘ بگولے نے کافی سمجھداری کی بات کی تھی۔

                ’’ ہوں…..  صحیح کہہ رہے ہو، تمہاری اس بات پر مجھے بھی میر تقی میر کا ایک شعر یاد آگیا، …..  !‘‘                           ؎    سرسری تم جہاں سے گزرے     ورنہ‘  ہر جا جہانِ دیگر تھا

                ’’واہ وا …..  کیا شعر پڑھا ہے، بالکل صحیح کہا۔ یہاں حال تمہارے سائنسدانوں کا ہے، ظاہری آنکھ سے ہر چیز دیکھتے ہیں، ذرا غور کریں تو اُنہیں ہر سیارے کی مخلوق نظر آجائے۔‘‘ بگولہ بولا ۔

                ’’ واہ بھئی…..  ! تم تو بڑے ذہین بگولے ہو…..  پڑھے لکھے لگتے ہو، میں تو سمجھا تھا کہ یونہی داد دے رہے ہو۔ کتنے پڑھے ہوئے ہو….. ؟ اور سب سے اہم بات تو میں نے پوچھی ہی نہیں….. ! تمہارا نام کیا ہے….. ؟‘‘

                ’’ میرا نام ’’ ملیخا سزایو ‘‘ ہے اور ہمارے یہاں پڑھائی وڑھائی نہیں ہوتی، ہمیں ویسے ہی ہر بات کا پتہ ہوتا ہے۔ ‘‘ بگولا لا پرواہی سے بولا۔

                ’’ بغیر کتابیں پڑھے تمہیں ہر بات کا کیسے پتہ ہوتا ہے…..  ! ہمیں تو سینکڑوں کتابیں پڑھ کر اور ساری عمر گزار کر بھی عقل نہیں آتی۔‘‘

                ’’ دراصل انسان فطرتاً ہی ایسا ہے کہ ارتقائی مراحل دیر سے طے کرتا ہے، چاہے وہ جسمانی ہوں یا ذہنی، کیونکہ مٹی کا بنا ہوتا ہے اس لیے عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ جبکہ ہم بگولے آگ کے بنے ہوتے ہیں اس لیے روشنی اور ہوا کی رفتار سے ہر کام کرتے ہیں اور بہت جلدی تمام مراحل طے کرکے ختم بھی جلدی ہوجاتے ہیں۔ ‘‘

                ’’ اچھا اچھا…..  سمجھ گیا ۔ لیکن تمہارا نام بڑا عجیب سا ہے ’’ ملیخا سزایو‘‘۔۔۔! یہ کیا نام ہوا..؟ پہلے کبھی سنا نہیں….. ! ‘‘ سلو نے پوچھا۔

                ’’ تم نے جب میرے جیسا بگولا پہلے کبھی نہیں دیکھا تو پھر میرے جیسا نام کیسے سن سکتے ہو…..  ؟ ویسے تو مجھے بھی تمہارا نام عجیب لگتا ہے مگر ہم بگولے تم انسانوں کی طرح بلا وجہ دوسروں پر تنقید کرکے اپنا وقت ضایع نہیں کرتے…..  ہمیں اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں۔‘‘

                ’’ ہاں ہاں۔۔۔۔۔ تمہیں تو گھومنے پھرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی…..  ! زندگی کو اور انسانوں کو سمجھنا اتنا آسان کام نہیںہے۔‘‘ سلو نے بھی طنز کیا۔

                ’’ اچھا …..  ! مگر علامہ اقبال نے تو کہا تھا کہ ؛

                                     ؎ سمجھتا ہے تُو راز ہے زندگی

                                                                                فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی۔

                ’’بہت خوب …..  تمہیں تو اقبال کے شعر بھی یاد ہیں….. ! یہ تم نے کہاں سنے ؟ ‘‘ سلو پر ایک اور انکشاف ہوا

                ’’آرٹسٹ اور فنکار لوگ ساری کائنات کے سانجھے ہوتے ہیں، ‘‘ ملیخا بولا، ’’ دراصل وہ آئیڈیاز اور خیالات جو کسی آرٹسٹ یا کسی بھی فلاسفر کے ذہن میں آتے ہیں وہ کائنات میں آزادانہ گھوم رہے ہوتے ہیں، جو مخلوق بھی اپنے دماغ کی کھڑکی کھول کر بیٹھی ہو اس کے دماغ میں چلے جاتے ہیں، ایسے میں جو اچھی باتیں سوچ رہا ہوتا ہے اس کے ذہن میں اچھے خیالات چلے جاتے ہیں اور جو بُری باتیں سوچ رہا ہوتا ہے اس کے ذہن میں بُرے اور غلط قسم کے خیالات چلے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی بہت اچھے شاعر ہیں مگر اقبال کی تو بات ہی کچھ اور ہے …..  وہ ایک کائناتی شاعر ہے…..  وہ تمام کائنات اور نظامِ شمسی تک کے بارے میں سوچتا تھا، ہمارے سیارے زہرہ کے بارے میں بھی اس نے شعر کہے ہیں۔ اسی لیے ہمیں بھی وہ بہت پسند ہے‘‘

                ’’ واہ …..  کیا زبردست بات کہی ہے! اسی لیے بڑے کہتے ہیں کہ ہر وقت اپنے دل اور دماغ کو صاف رکھو تاکہ اچھے خیالات ہی آئیں۔‘‘

                ’’ ہاں بالکل …..  اور یہ سنو …..  ہم بگولوں کے لیے اقبال نے کیا خوب شعر کہا ہے….. !

؎   اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے      جو بات پاگئے ہم تھوڑی سی زندگی میں

                ’’ تم تو بہت اچھی باتیں کرتے ہو، میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ تمہارے بارے میں ساری دنیا کو بتا دوں ، سب کو تم سے مل کر بڑی حیرت انگیز خوشی ہوگی۔ ‘‘ سلو بولا ۔

                ’’ بالکل نہیں، میں ابھی کچھ دن اور جینا چاہتا ہوں، تم انسان تو مجھے عین جوانی میں ہی بجھا دو گے، ‘‘ ملیخا بولا  ’’ ہم لاکھ ذہین سہی مگر تم انسانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ تم لوگ چالاک بہت ہوتے ہو۔ جاہل سے جاہل آدمی بھی اپنے مطلب کی بات فوراً سمجھ جاتا ہے۔ ‘‘

                ’’ اچھا کسی کو نہیں بتائوں گا…..  لیکن اپنے دوست شوکی ؔکو تو بتا دوں …..  وہ کسی میں شامل نہیں ہے، وہ اور میں ایک ہی ہیں اور اسے ذہین لوگوں سے ملنے کا بہت شوق ہے۔‘‘

                ’’ نہیں نہیں کسی کو بھی نہیں بتانا…..  ! میں نے تم سے مل کر بھی غلطی کی، تم انسان تو بڑے خطرناک ہوتے ہو۔ میں بے چارہ آگ بگولہ تو صرف ایک بالٹی پانی کی مار ہوں۔ میری ماں پہلے ہی کہتی تھی کسی انسان کے سامنے کبھی مت جانا ورنہ مارے جائو گے۔ اب اندازہ ہوا کہ مائیں ہمیشہ صحیح کہتی ہیں، مگر ہمیں اکثر تب سمجھ آتا ہے جب بہت دیر ہوجاتی ہے۔ میرے ساتھی بھی نہ جانے کہاں چلے گئے اور کب آئیں گے؟ ‘‘ ملیخا بہت پریشان نظر آرہا تھا۔

                ’’ ارے بگولہ بھائی، میرا مطلب ہے ملیخا بھائی تم پریشان نہ ہو ہم انسان اتنے بُرے بھی نہیں ہوتے جتنا تم سمجھنے لگے ہو، تم نے ابھی انسان دیکھے ہی کہاں ہیں۔ اگر تم ہم سے دوستی کرنے آئے ہو تو ہم بھی دوستی نبھانا خوب جانتے ہیں۔ جب تک تمہارے ساتھی نہ آئیں تم یہاں آرام سے رہ سکتے ہو۔‘‘

                ’’ سلوؔ …..  سلو یار کہاں ہو….. ؟ اتنا ٹائم ہوگیا اور میں وہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں، سلو کہاں ہو …..  ؟ ‘‘ شوکی وہیں سے آوازیں دیتا ہوا آرہا تھا

                ملیخا نے جو ایک اور انسان کی آواز سنی تو وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا یہ انسان تو مجھے ضرور مار دے گا، اسے گھبراہٹ میں کچھ سمجھ میں نہ آیا تو وہ جلدی سے سلو کے قالب میں گھس گیا۔

                ’’ ارے ارے یہ کیا کر رہے ہو….. ؟ میں جل جائوں گا۔ ‘‘ سلو پریشان ہوکر بولا ۔

                ’’ جب دوست کہا ہے تو چھپنے کی جگہ بھی تو دو …..  اس سے بہتر اور کیا جگہ ہوسکتی ہے۔ فکر نہ کرو تم جلو گے نہیں کیونکہ میری آگ کافی ٹھنڈی ہوچکی ہے۔ اب میں یہاں آرام سے رہ سکوں گا اور کسی کو پتا بھی نہیں چل سکے گا…..  اور اگر تم بتانا بھی چاہو تو نہیں بتا سکو گے کہ میں کون ہوں۔‘‘

                   ملیخا سلو کے جسم میں گھس کر مطمئن ہوگیا اور سلو کی روح اس کے قالب سے نکل کر باہر کھڑی ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ انسان کی روح آگ کے ساتھ تو نہیں رہ سکتی تھی۔

                ’’ تم باہر کیوں نکل گئے…..  چاہو تو تم بھی میرے ساتھ رہ سکتے ہو۔ بقول تمہارے شیطان بھی تو آگ کا بنا ہوا ہوتا ہے اس کے ساتھ تو تم بڑے آرام سے رہتے ہو۔ جو نہ صرف تمہارے جسم بلکہ دل دماغ پر بھی قبضہ جمائے رہتا ہے اسے تو تم کچھ نہیں کہتے۔‘‘ ملیخا نے صحیح کہا تھا ۔ اتنے میں شوکی سر پر پہنچ چکا تھا۔

                ’’ سلو یار کیا ہوا ہے….. ؟ اتنے پریشان کھڑے ہو ! خیر تو ہے…..  ؟ میں اتنی دیر سے آوازیں دے رہا ہوں تم نے کسی کا جواب بھی نہیں دیا۔ شام ہوگئی ہے گھر نہیں چلنا….. ؟ ‘‘

شوکی نے سلو کا کندھا ہلایا جو حیران ہکا بکا کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیا جواب دے چونکہ وہ سلو نہیں بلکہ ملیخا تھا۔

                ’’یہ دوستی مجھے بڑی مہنگی پڑی….. ! ‘‘ یہ آواز سلو کی بجائے سائڈ سے آئی تھی، کیونکہ سلو کی روح تو سائڈ میں کھڑی تھی ۔

                ’’ سلو۔۔۔۔۔ ! تم تو اب بغیر منہ کھولے ہی بولنے لگے ہو، تمہیں کیا ہوگیا ہے یار، اور یہ تم نے کیا کہا کہ تمہیں دوستی مہنگی پڑی….. ؟ میں نے تو تمہیں کچھ بھی نہیں کہا۔ مجھ سے اگر کوئی شکایت ہے تو کھل کر کہو ….. ! شوکی بھی پریشان ہوگیا۔

                 ’’ نہیں …..  یہ میں تمہیں نہیں کہہ رہا تم تو میرے بہت اچھے دوست ہو۔‘‘ سلو جلدی سے بولا۔

                ’’ پھر ….. ! پھر کس کو کہہ رہے ہو   ؟ کیا میرے علاوہ بھی اس دنیا میں تمہارا کوئی دوست ہے….. ؟ یہاں کوئی اور بھی ہے کیا….. ؟ ‘‘ شوکی بے یقینی سے بولا

                ’’ نہیں…..  ! اس دنیا میں تو نہیں…..  لیکن …..  ! ‘‘

                ’’ کُھوں کُھوں…..  ! ‘‘ ملیخا ایک دم کھانسا ، اور سلو جو راز فاش کرنے لگا تھا وہ ایک دم چپ کرگیا۔

                ’’ کیا بات ہے…..  سلو تم ایک دم چپ کیوں کر گئے کچھ کہنے لگے تھے…..  ؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا، کھانس کیوں رہے ہو….. ؟ شوکی کو آج سلو کی باتیں عجیب لگ رہی تھیں،

                ’’ چلو جلدی سے گھر چلتے ہیں مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔‘‘ شوکی سلو کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا جواب ملیخا تھا پھر گھبرا کر ایک دم چھوڑ دیا۔

                ’’ سلو …..  یار اتنا گرم ہاتھ ….. ! تم تو بخار سے پُھنک رہے ہو، اتنا زیادہ بخار تو تمہیں زندگی میں کبھی نہیں ہوا، یہ اچانک کیا ہوا ہے….. ؟ صبح تو بالکل ٹھیک تھے …..  آج بہت زیادہ کام کر لیا کیا ….. ؟ چلو پہلے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ ‘‘

                ’’ نہیں نہیں …..  میں بالکل ٹھیک ہوں، ‘‘ ملیخا گھبرا کر شوکی سے دور ہو کر بولا ، ’’ آج گرمی شاید کچھ زیادہ تھی گھر چل کر نہا لوں گا تو ٹھیک ہوجائوں گا۔ ‘‘

                ’’ کیا…..  ؟ سلو یہ سردیوں کا مہینہ ہے…..  ! تمہیں تو ویسے بھی سردی بہت لگتی ہے اور تم نہانے کی بات کر رہے ہو ….. ! مجھے تو لگتا ہے کہ بخار تمہارے دماغ کو چڑھ گیا ہے۔ چلو پہلے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں اور دیر ہوگئی تو کچھ کا کچھ بن جائے گا۔ ‘‘ شوکی نے یہ کہہ کر پھر ملیخا کا ہاتھ پکڑ لیا، اسے اپنے دوست کی بہت فکر لگ گئی تھی اور سلو ساتھ کھڑا سب تماشا دیکھ رہا تھا کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

                ’’ کہہ دیا نا …..  میں بالکل ٹھیک ہوں، ‘‘ ملیخا شوکی سے ہاتھ چھڑاتا ہوا بولا، ’’ میری فکر چھوڑو تم گھر جائو میں خود ہی چلا جائوں گا۔ ‘‘ شوکی سلو کی یہ بے رُخی دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ وہ وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا اور سلو تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔

                ’’ بے وقوف انسان…..  یہ تم نے کیا حرکت کی….. ؟ ‘‘ تھوڑی دور جاکر سلو ملیخا پر برس پڑا

                ’’ انسان نہیں بگولا ہوں میں …..  ‘‘ ملیخا نے اس کی تصحیح کی

                ’’ ٹھیک ہے ٹھیک …..  تم جو بھی ہو مگر تم نے یہ بہت گھٹیا حرکت کی ہے۔ تم نہیں جانتے کہ صرف وہی میرا ایک دوست ہے ساری دنیا میں، اسے ناراض کرکے تم نے اچھا نہیں کیا، اب وہ مجھ سے کبھی بات نہیں کرے گا۔‘‘ سلو کو بے حد افسوس ہو رہا تھا۔

                ’’ اچھا وہی تمہارا ایک دوست ہے….. ؟ اور میں کیا ہوں….. !‘‘ ملیخا خفا ہوکر بولا

                ’’ پتا نہیں….. ! تم ایک بگولے ہو اور انسانی جذبات کو نہیں سمجھ سکتے میں تو تمہیں دوست کہہ کر پچھتایا ۔ تم نہیں جانتے ہم دونوں کی بچپن سے لے کر اب تک کبھی لڑائی نہیں ہوئی تھی اور اب تمہاری وجہ سے ….. ‘‘ سلو سے برداشت نہیں ہو رہا تھا مگر اب وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ تو صرف ہوا تھا۔

                ’’ چلو …..  اب میری وجہ سے تم نے یہ مزہ بھی چکھ لیا، ‘‘ ملیخا بولا ، ’’ دیکھو سلو پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر وہ تمہارا ایسا ہی دوست ہے تو وہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوگا بلکہ تمہاری پریشانی کو سمجھنے کی کوشش کرے گا، اور دوسری بات یہ ہے کہ بار بار ایک ہی دوست کا ذکر کرکے تم میرا دل نہیں دکھائو …..  آخر اب میں بھی تو تمہارا دوست ہوں اور پھر اپنی اس چھوٹی سی ددنیا سے باہر بھی دیکھو، اس کے باہر بھی دوست بنائو آخر میں نے بھی اپنی دنیا سے باہر آکر تمہیں دوست بنایا ہے۔‘‘

                ’’ دوست …..  ؟ ہونہہ …..  اچھے دوست ہو، دوست کے جسم پر ہی قبضہ کرلیا….. ! سلو ابھی تک ناراض تھا۔

’’ بھئی ناراض کیوں ہوتے ہو، میں نے کون سا یہاں ساری عمر رہنا ہے…..  ایک آدھ دن میں چلا ہی جائوں گا۔ کیا تم اپنے دوست کو ایک دن بھی اپنے جسم میں ٹھہرنے نہیں دے سکتے ….. ؟ ‘‘

                سلو ذرا شرمندہ ہوگیا اور چپ کرکے چلنے لگا، اس کا گھر بھی آگیا تھا۔ اس نے ملیخا کو اشارے سے اپنے گھر کا راستہ بتایا اور وہ دونوں گھر میں چلے گئے۔ سلو کی اصل مشکل تو اب شروع ہوئی تھی کیونکہ ملیخا تو اس کے گھر میں کسی کو پہچانتا ہی نہیں تھا اب کس سے بات کرے اور کیا کرے اور ان سے پہلے شوکی آکر سلو کی شکایت کرکے جا چکا تھا جس پر اس کے گھر والے بھی حیران بیٹھے تھے کہ کیا آج سورج مغرب سے نکلا تھا جو اتنا انوکھا واقعہ پیش آگیا کہ سلو اور شوکی کی ناراضگی ہوگئی۔ سلو نے ملیخا کے کان میں کچھ کہا اور وہ سلو کی ماں سے بولا ؛

                ’’ماں جی …..  میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے…..  میں اپنے کمرے میں سونے جارہا ہوں۔ ‘‘

                ’’ مگر …..  بیٹا صبح سے بھوکے ہو کھانا تو کھا کر جائو۔‘‘ ماں جی پیار سے بولیں تو ملیخا وہیں رک گیا اور شوق سے بولا ؛

                ’’ ماں جی …..  یہ کھانا کیا ہوتا ہے….. ؟ ‘‘

                سب ایک دوسرے کو حیرت سے اور سلو کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے۔ شوکی نے بتایا تھا کہ سلو کو تیز بخار ہے جو اس کے دماغ کو چڑھ گیا اس لیے بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے اس لیے ماں جی پھر پیار سے بولیں ؛

                ’’ وہ دیکھو بیٹا …..  وہ جو تمہارے ابا جی کھا رہے ہیں نا اسی کو کھانا کہتے ہیں۔ ‘‘ اور ابا جی کے ہاتھ کھانا کھاتے کھاتے وہیں رک گئے۔

                ’’ مگر …..  ماں جی وہ تو میں نے کبھی نہیں کھایا۔ ‘‘ ملیخا حیرت سے بولا۔

                ’’ کوئی بات نہیں بیٹا اب کھا لو  ‘‘ ماں جی بولیں

                ’’ نہیں۔۔۔۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے، میں کمرے میں جا رہا ہوں۔ ‘‘ ملیخا کی بجائے سلو بولا اور جلدی سے کمرے کی طرف جانے لگا۔ اسے واقعی کھانے کی حاجت نہ تھی کیونکہ وہ تو اب صرف روح تھا اور ملیخا بھی ہماری طرح کا کھانا تو نہیں کھاتا تھا اس لیے اس سے پہلے کہ ملیخا کوئی اور حماقت کرے وہ جلد از جلد اپنے کمرے میں چلے جانا چاہتا تھا۔

                ’’ اچھا بیٹا …..  پھر گرم گرم شہد ملا دودھ ہی پی لو وہ تو تمہیں بڑا پسند ہے۔‘‘ ماں جی شہد کی مٹھاس لہجے میں لاکر بولیں تو ملیخا پھر رک گیا اس بار اس نے انکار نہیں کیا۔ اس نے سوچا پی کر تو دیکھوں آخر ماں جی اتنے پیار سے دے رہی ہیں، پھر گرم دھواں اُٹھتا ہوا دودھ دیکھ کر بولا ؛

                ’’ ماں جی …..  گرم نہیں ٹھنڈا ٹھنڈا دیں …..  مجھے ٹھنڈی چیزیں بہت پسند ہیں….. ‘‘

                ’’ مگر بیٹا …..  پہلے تو تمہیں ٹھنڈی چیزوں سے ٹھنڈ لگ جاتی تھی اب کیسے پیو گے جبکہ تمہیں بخار بھی ہے….. ؟‘‘

                ’’پہلے کی بات چھوڑیں ماں جی …..  پہلے میں نالائق تھا اور مجھے کوئی بخار وخار بھی نہیں ہے اس شوکی کا تو دماغ چل گیا ہے‘‘ ، وہ ماں جی کے پاس ہی چارپائی پر بیٹھتا ہوا بولا۔ ابا جی نے بھی وہیں سے اشارہ کیا کہ جو کہتا ہے وہی کرو۔

                ’’ گلابو …..  او گلابو…..  بیٹا ادھر آ ذرا بھائی کو یہ دودھ ٹھنڈا کرکے دے۔ ‘‘ ماں جی نے وہیں بیٹھے بیٹھے بیٹی کو آواز دی جو اندر کسی کام میں مصروف تھی۔ گلابو نے آکر ماں سے دودھ کا کٹورا لیا اور دوسرے برتن میں ڈال کر ٹھنڈا کرنے لگی۔ ملیخا اسے بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا، اسے تو اس دنیا کا سبزہ اور پھول پھولواریاں ویسے ہی بہت پسند تھیں، وہ سوچ رہا تھا کہ دنیا کے تو انسان بھی پھول پھولواریوں سے کم نہیںہیں۔

                ’’ یہ تم اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہو…..  ؟ ‘‘ سلو نے اس کے کان میں کہا، اسے تو پہلے ہی ملیخا کر حرکتوں پر غصہ آرہا تھا۔

                ’’ کون میں ….. !‘‘ ملیخا چونک کر بولا، ’’ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری بہن کتنی اچھی ہے…..  ! ‘‘ ملیخا کی بات سن کر سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے….. ؟ تب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا ، وہ پھر بولا ؛ ’’ نہیں میرا مطلب ہے کہ میری…..  بہن …..  گلابو کتنی اچھی ہے…..  ! میرے لیے اپنا کام چھوڑ کر آئی ہے….. !‘‘

                ’’ مگر بھائی …..  ! پہلے تو تم نے کبھی میری تعریف نہیں کی بلکہ میرے ہر کام میں کیڑے نکالتے تھے، لگتا ہے تمہاری طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہے، ڈاکٹر چاچا کو بلانا ہی پڑے گا….. !‘‘ گلابو کو بھی حیرت ہو رہی تھی ۔

                ’’ نہیں گلابو …..  بہن ، ڈاکٹر چاچا کو مت بلانا ، آج سے میں روز اسی طرح تمہاری تعریفیں کیا کروں گا، ‘‘ گلابو مشکوک نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی ٹھنڈے دودھ کا کٹورا تھما کر پھر اندر چلی گئی۔ ملیخا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا ۔

                ’’ جلدی ٹھوسو یہ دودھ اور اندر چلو ۔ ‘‘ سلو پھر غصے سے اس کے کان میں بولا تو ملیخا نے بغیر سوچے سمجھے دودھ کا کٹورا منہ سے لگا لیا اور غٹاغٹ پینے لگا ۔ پورا پی کر اسے احساس ہوا کہ اس نے کیا پیا ہے،

                ’’ ماں جی …..  یہ تو بہت اچھی چیز تھی مجھے تو ٹھنڈ پڑگئی، ایک اور پلا دیں۔‘‘

                ’’ ہاں ہاں …..  میرا بیٹا دس بار پیو …..  او گلابو …..  ادھر آ بھائی کو ایک کٹورا دودھ اور ٹھنڈا کرکے دے…..  اوہو …..  پھر اندر چلی گئی…..  نہ جانے وہاں بیٹھی کیا کر رہی ہے…..  ! ‘‘ ماں جی اُٹھتے ہوئے بولیں۔

                ’’ رہنے دیں ماں جی …..  رہنے دیں گلابو کو …..  ہم خود اندر چلے جاتے ہیں۔‘‘ کیونکہ سلو اسے مسلسل گھور رہا تھا اس لیے ملیخا بھی اُٹھ گیا اور گلابو کے کمرے کی طرف جانے لگا۔ اُدھر نہیں اِدھر چلو وہ ماں جی کا کمرہ ہے میرا کمرہ اس طرف ہے۔

                وہ دونوں سلو کے کمرے میں چلے گئے۔ سلو بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا اور ملیخا کمرے میں موجود واحد چارپائی پر لیٹ گیا اور انگڑائیاں لینے لگا۔ یہ بھی اس کے لیے نیا تجربہ تھا کیونکہ وہ جسم تو سلو کا تھا جو سارا دن کا تھکا ہارا تھا لہٰذا لیٹتے ہی اسے نیند آنے لگی ، وہ بولا ؛

                ’’ یار سلو …..  تمہیں کیا پریشانی ہے تم بھی لیٹ جائو نا ۔ مگر تم کہاں لیٹو گے ….. ؟ یہاں تو ایک ہی چارپائی ہے، شاید تم اسی لیے پریشان ہو…..  کوئی بات نہیںتم بھی میرے ساتھ لیٹا جائو ،ویسے بھی تمہیں کون سی زیادہ جگہ چاہیے اب تو تم ہو ّ ا ہو اُس کھونٹی سے لٹک کر بھی سو سکتے ہو۔ ‘‘ ملیخا کو اس کی حالت پر ہنسی آرہی تھی۔

                ’’ تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے…..  ؟ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر ابا جی ڈاکٹر صاحب کو لے آئے تو کیا ہوگا۔ تمہاری حرکتیں دیکھ کر تو سب کو پکا پکا یقین ہوگیا ہوگا کہ واقعی بخار میرے دماغ کو چڑھ گیا ہے۔’’ سلو کو ملیخا کے اطمینان سے چڑ ہو رہی تھی۔

                ’’ اوہو اگر ڈاکٹر صاحب آ بھی گئے تو کیا ہوجائے گا …..  ؟ آنے دو …..  ! ‘‘ ملیخا پھر اطمینان سے بولا ۔

                ’’ ہاں …..  آنے دو …..  جب وہ تمہیں تھرمامیٹر لگا کر بخار چیک کریں گے تو تپش سے ان کا تھرمامیٹر پھٹ جائے گا اور تو کچھ نہیں ہوگا…..  ؟ پھر وہ تمہیں بخار کا ٹیکہ لگائیں گے اور دردکی کڑوی کڑوی گولیاں کھلائیں گے نا تو تمہارا یہ سب مذاق نکل جائے گا اور طرح طرح کے سوال الگ پوچھیں گے۔ ‘‘

                                سلو سخت پریشان تھا اور ملیخا کو اسے دیکھ دیکھ کر ہنسی آرہی تھی وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا ؛ ’’ بے وقوف انسان …..  ! ایک تو تم انسان بھی خواہ مخواہ کی ٹینشن لے لے کر اچھی بھلی زندگی اجیرن کر لیتے ہو اور اپنی لمبی زندگی کو آدھا کر لیتے ہو۔ ہم بگولوں کو دیکھو اتنی تھوڑی سی زندگی ملتی ہے پھر بھی ہنسی خوشی گزار دیتے ہیں اگر تم انسانوں جتنی لمبی زندگی ہمیں ملتی تو پتا نہیں ہم کتنی اور دنیائیں تلاش کرلیتے ۔ خدا کاشکر نہیں کرتے ۔۔۔۔۔ ناشکرے کہیں کے۔‘‘

                ’’ اچھا تو ٹھیک ہے پھر میری ٹینشن کم کرو اور بتائو کہ ڈاکٹر صاحب آگئے تو تم کیا کرو گے…..  ؟ ‘‘ سلو ذرا شرمندہ ہوکر بولا ۔

                ’’ میں کچھ بھی نہیں کروں گا …..  ! کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر صاحب نہیں آسکتے وہ آج شہر گئے ہوئے ہیں۔ ‘‘ ملیخا بولا ۔

                ’’ تمہیں کیسے پتا چلا …..  ؟ سلو حیرت سے اچھل پڑا ۔

                ’’تھوڑی دیر پہلے ابا جی کو کسی نے آکر بتایا تھا، تمہیں تو غصے میں کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔‘‘

                ’’اوہ واقعی۔۔۔۔؟ یار ملیخا تم نے تو میری بہت بڑی پریشانی ختم کردی ۔ اب یہ بھی بتا دو کہ جب صبح شو کی اور اس کے گھر والے میری تیمارداری کو آئیں گے تب ہم کیا کریں گے ۔۔۔ ؟ ‘‘ سلو نے خوش ہوکر پوچھا۔

                ’’ تم نے مجھے یار کہہ کر خوش کردیا…..  ! اس کا مطلب ہے کہ اب تم مجھے بھی اپنا دوست سمجھنے لگے ہو، فی الحال اتنا ہی کافی ہے صبح کی فکر صبح کریں گے اب سو جائو مجھے بہت نیند آ رہی ہے، ویسے بھی مجھے شوکی بالکل پسند نہیں میں اس کے بارے میں سوچ کر اپنی نیند خراب نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ ملیخا اطمینان سے سلو کا لحاف اوڑھ کر سو گیا۔

                سلو کمرے سے باہر نکل آیا  دوسرے کمرے میں گیا، دیکھا ابا جی ، ماں جی اور گلابو سبھی سو چکے تھے۔ ابا جی کے لحاف کا ایک کونہ ہٹا ہوا تھا، اسی کونے سے لحاف کے اندر گھس کر سلو بھی ابا جی کے ساتھ ہی سوگیا، اُنہیں احساس بھی نہ ہوا۔

                                صبح اچانک اذان کی آواز سن کر ملیخا کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے تو پہلی بار یہ آواز سنی تھی کیونکہ کسی انسانی بستی میں آنے کا اس کا یہ پہلا موقع تھا، اسے یہ آواز بہت بھلی لگی اور بیٹھ کر غور سے سننے لگا ۔ اذان ختم ہوئی تو اسے سلو کا خیال آیا، اس نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا کہیں نظر نہ آیا۔ باہر کچھ کھٹکا ہوا تو اس نے سوچا شاید باہر ہو، اس لیے باہر نکل آیا ۔ باہر آکر دیکھا تو ماں جی نماز کی تیاری کر رہی تھی اور گلابو ماں جی کو وضو کرا رہی تھی لیکن سلو کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ اسے کیا معلوم کہ سلو صبح بہت دیر سے اُٹھتا ہے۔ جب کام پر جانے کا وقت ہوتا ہے تب ماں جی زبردستی اُٹھاتی ہیں ، اور روز ابا جی سے نماز نہ پڑھنے پر ڈانٹ کھاتا ہے۔

                ’’ ارے سلو بیٹا …..  ! کیا رات کو نیند نہیں آئی …..  ؟ ‘‘ ماں جی ملیخا کو دیکھ کر حیرت سے بولیں کیونکہ سلو اپنی زندگی میں کبھی اتنی صبح نہیں اُٹھا تھا اور ماں جی کی حسرت تھی کہ وہ کبھی اُٹھ کر صبح کی نماز پڑھے۔ ملیخا کو احساس ہوا کہ اس نے باہر آکر غلطی کی۔

                ’’ سلو بھائی …..  ! طبیعت کیسی ہے…..  ؟ گلابو نے پاس آکر پوچھا ، ’’ ضرور بھوک لگی ہوگی آپ نے رات بھی کچھ نہیں کھایا تھا…..  !‘‘

                ’’ نن۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔! بالکل نہیں ۔ ‘‘ ملیخا نے بوکھلا کر جواب دیا

                ’’ تو پھر صبح صبح کیا نماز پڑھنے کے لیے اُٹھے ہو …..  ؟ جائے نماز لاکر دوں۔‘‘ گلابو طنزیہ مسکرائی۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور حماقت سرزد ہو ملیخا واپس کمرے میں چلا گیا۔ باتوں کی آواز سن کر سلو کی بھی آنکھ کھل گئی اور وہ جلدی سے اُٹھ کر ملیخا کے کمرے میں گیا۔

                ’’ کیا ہوا تھا…..  ؟ ‘‘ سلو نے پھر پریشان ہوکر پوچھا

                ’’ کچھ نہیں…..  ! تم کہاں تھے…..  ؟ ‘‘ ملیخا بولا، ’’ میں تو تمہیں دیکھنے کے لیے باہر گیا تھا، مگر تم نظر نہیں آئے اس لیے میں واپس آگیا۔ ‘‘

                ’’ تمہیں کس نے کہا تھا اس وقت باہر نکلنے کو …..  ؟ ‘‘ سلو غصے سے بولا

                ’’ کیوں …..  ! وقت کو کیا ہوا …..  ؟ اتنا سہانا وقت ہے مجھے تو چاند کی سرزمین یاد آگئی ۔ میرا تو باہر جاکر گھومنے کو دل چاہ رہا تھا مگر تمہارے بغیر نکل جاتا تو تم اور ناراض ہوتے اس لیے واپس آگیا۔

                ’’ سہانے وقت کے بچے…..  ! شکر کرو ابا جی نہیں ملے وہ نماز پڑھنے گئے ہوئے ہیں، ورنہ تمہیں سلو سمجھ کر نماز پڑھوا رہے ہوتے اور تم حسب عادت یہ کہہ کر کہ ’’ نماز کیا ہوتی ہے ؟ ‘‘ ان کے غصے کو دعوت دیتے اور وہ مجھ پر کفر کا فتویٰ لگا دیتے ۔ ‘‘

                ’’ اچھا تم سے تو پوچھ سکتا ہوں…..  ! نماز کیا ہوتی ہے…..  ؟ اور تھوڑی دیر پہلے بڑی تیز آواز آرہی تھی جس سے میری آنکھ کھلی تھی وہ کس کی تھی…..  ؟‘‘

                ’’ نماز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور عبادت کرنے کو کہتے ہیں جو ہر مسلمان پر فرض ہے اور وہ آذان کی آواز تھی جو ہمیں نماز کی طرف بلانے کے لیے دی جاتی ہے…..  ‘‘ سلو نے تفصیل سے بتایا ۔

                ’’ ہوں…..  ! خدا کی حمد و ثنا تو ہم بھی کرتے ہیں لیکن دوسرے طریقے سے ۔ کیا تم مسلمان نہیں ہو…..  ؟ ‘‘ ملیخا نے سوال کیا

                ’’ کیوں …..  ! ‘‘ سلو نے حیرانی سے پوچھا ۔

                ’’ سارا گھر نماز پڑھ رہا ہے…..   تم کیوں نہیں پڑھ رہے …..  ؟‘‘

                ’’ نماز کے بچے…..   زیادہ باتیں نہیں بنائو اور دوبارہ سو جائو ابھی صبح ہونے میں بہت وقت ہے۔‘‘

                ’’ میں تو اب نہیں سوئوں گا، پہلے ہی بہت سو لیا۔۔۔۔۔۔۔کئی دن کی نیند لے لی۔ ہم بگولے اتنا زیادہ نہیں سوتے۔ مجھے بھوک لگی ہے باہر جا کر کچھ کھائوں پیوں گا۔ پہلے بھی گلابو کھانے کا پوچھ رہی تھی ۔ اس کے بعد باہر جاکر سیر کروں گا تم نے چلنا ہے تو چلو ورنہ میں گلابو کے ساتھ چلا جاتا ہوں۔‘‘ ملیخا اطمینان سے بولا تو سلو اسے غصے سے گھور کر رہ گیا اور اُٹھ کر اس کے ساتھ باہر چل پڑا۔

                باہر آکر اُنہوں نے دیکھا ابھی تو ماں جی چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کر رہی تھیں اور گلابو پانی بھرنے کنویں پر گئی ہوئی تھی، لہٰذا سوچا کہ پہلے سیر کرلی جائے۔ ملیخا نے ماں جی کو بتایا کہ وہ باہر سیر کے لیے جا رہا ہے، پھر وہ دونوں گھر سے باہر نکل گئے۔ ماں جی حیرانی سے سلو کو باہر جاتا دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ سلو کو یہ کیسی بیماری لگی ہے جس سے یہ بالکل سدھر گیا ہے، صبح بھی اُٹھ گیا ہے اور سیر کرنے بھی چلا گیا ہے ورنہ یہ کام تو کبھی اس کے ابا جی کی ڈانٹ بھی نہیں کراسکی۔

                ’’ آہ …..  ! کتنا خوبصورت سماہے …..  !‘‘ ملیخا بڑے سُرور میں بولا، ’’ کتنی پیاری ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے…..  ! ایسی ہوا سے تو ہم بگولوں کی آگ اور بھڑک اُٹھتی ہے…..  ، بقول اقبال

؎   فضا نیلی نیلی ‘ ہوا میں سُرور    ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

                ’’ پھر ہم کیوں گھر میں بیٹھے رہیں۔ یار سلو ویسے میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ میں یہیں رہ جائوں …..  ! ‘‘

                ’’ کیا …..  ! کیا بکواس کر رہے ہو…..  ؟ اور میرا کیا ہوگا …..  ؟ ‘‘ سلو چیخا ، ’’ میں ایک ایک منٹ گن گن کر گزار رہا ہوں ۔ تم چاہتے ہو کہ میں ہمیشہ یونہی ہوّا میں معلق رہوں …..  ؟ ‘‘

                ’’ کیا ہرج ہے ! تم تو کہہ رہے تھے کہ انسان دوستی نبھانا خوب جانتے ہیں، بس یہی ہے تمہاری دوستی ؟ ‘‘

                ’’ ہاں بس یہی ہے ! اس سے زیادہ میں قربانی نہیں دے سکتا ، کوئی بھی نہیں دے سکتا ، کیا تم دے سکتے ہو  ؟‘‘

                ’’ ہاں۔۔۔۔!  یا شاید نہیں۔ پتا نہیں تم انسان کس قسم کی قربانی چاہتے ہو …..  ؟ ‘‘ ملیخا زِچ ہوکر بولا ۔

                ’’وہ دونوں باتیں کرتے کرتے سلو کے کھیت کی طرف نکل گئے وہاں گلابو کنویں پر پانی بھر رہی تھی، وہ بھی اسی طرف چل پڑے۔ اتنے میں اُنہوں نے دیکھا کہ سلو کے کھیت میں آگ لگ گئی۔

                ’’ ارے…..   میرے کھیت میں تو آگ لگی ہے …..  ! ‘‘ سلو چیخا

                ’’ لگتا ہے میرے ساتھی آگئے …..  ! ‘‘ ملیخا بولا، ’’ اچھا سلو میں فوراً جاتا ہوں…..   ورنہ وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے تمہارا سارا کھیت جلا دیں گے ۔‘‘

                یہ کہہ کر ملیخا سلو کے قالب سے نکلا اور بگولے کی شکل میں کھیت کی جانب بڑھا تاکہ اس کے ساتھی اسے دیکھ لیں۔ گلابو نے جو دیکھا کہ ایک آگ کا بگولا اس کے بھائی کے پاس بھی پہنچ گیا تو اس نے دوڑ کر پانی کا بھرا ہوا مٹکا بگولے پر ڈال دیا۔۔۔۔۔ اور بگولا وہیں بجھ گیا۔ باقی بگولوں نے جو اپنے ساتھی کا یہ حشر دیکھا تو وہیں سے واپس لوٹ گئے۔

                ’’ گلابو ۔۔۔! یہ تم نے کیا کیا۔۔۔۔۔ ؟‘‘ سلو وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ،وہ اب اپنے قالب میں واپس آچکا تھا،

                ’’ ملیخا ۔۔۔میرا دوست۔۔۔۔ ملیخا! میرے کھیت کو بچانے کے لیے قربان ہوگیا۔۔۔۔۔ اس نے تو مجھ سے بھی بڑی قربانی دے دی۔۔۔۔ !‘‘

                ’’ یار سلو …..   یہ تم کیا کہہ رہے ہو…..  ؟ کون ملیخا …..  ؟ کیا میرے علاوہ بھی تمہارا کوئی دوست تھا…..  ؟‘‘ شوکی سلو کو اُٹھاتا ہوا حیرت سے بولا جو اس کو ڈھونڈتا ہوا اِدھر نکل آیا تھا،

                ’’ لگتا ہے تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے، چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں، اب وہ واپس آچکے ہیں۔‘‘

                اور سلو چپ چاپ اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا ، اسے لگا کہ واقعی اب اسے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔

 

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.