Tinko – ٹنکو

kid-underwater

’’  ٹنکو ‘‘

( ایک غوطہ خور لڑکی اور ایک ایسے بچے کی کہانی جو سمندر کی تہہ میں پیدا ہوا اور سمندری مخلوق بن گیا)

          آخرکار وہ دن بھی آگیا جب ٹینا کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہونے جارہی تھی۔ آج وہ غوطہ خور کا نیا ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے جارہی تھی۔

          ٹینا کو بچپن سے ہی تیراکی کا شوش تھا۔ اس کے ممی ڈیڈی نے اس کے اس شوق کو پورا کرنے میں اس کی حوصلہ افزائی کی اس طرح وہ تیراکی کے میدان میں نئے ریکارڈ قائم کرتی رہی ۔ تیراکی اور سرفنگ اس کے لیے دنیا کا سب سے اہم کام تھا۔ اس کے اس خبط سے اس کے ممی ڈیڈی بعض اوقات اُکتا بھی جاتے تھے اور اسے سمجھانے کی بھی کوشش کرتے تھے کہ اس کے علاوہ بھی دنیا میں بہت سے خوبصورت کام ہیں جن سے وہ اپنا دل بہلا سکتی ہے، کیونکہ بہرحال یہ ایک خطرناک کام تھا۔ لیکن اُنہیں نہیں معلوم تھا کہ ان کی بیٹی تو اس سے بھی زیادہ خطرناک کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس دن وہ اور زیادہ حیران اور پریشان ہوئے جس دن ٹینا نے غوطہ خوری سیکھے کی خواہش ظاہر کی، جس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ وہ سمندر کے اندر کی دنیا دیکھنا چاہتی ہے۔

          اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ ایک دن غوطہ خوی کے کلب پہنچ گئی۔ ٹینا چوکہ ایک مشہور و معروف تیراک تھی اس لیے وہ غوطہ خوری کی تربیت کے لیے فوراً منتخب کرلی گئی۔ اس میں بھی اس نے بیحد محنت کی اور مرد غوطہ خوروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جب انسان اپنے کسی کام یا شوق کو جنون بنا لے اور اسے خلوص دل ، محنت اور لگن سے پورا کرے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اس میدان میں انسان کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہے اور دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جاتا ہے۔

          ایک دن ٹینا نے اخبار میں پڑھا کہ برطانیہ کا ایک بڑا مسافر بردار بحری جہاز جو پانچ سال پہلے کسی ٹکنیکی خرابی کی وجہ سے غرقاب ہوگیا تھا اور سمندر کی تہہ میں جا بیٹھاتھا، برطانوی غوطہ خور آج تک اس کا سراغ نہیں لگا سکے۔ بس اسی دن سے ٹینا کو یہ جنون سوار ہوگیا کہ یہ کام وہ خود کرے گی اور ایک نیا ورلڈ ریکارڈ قائم کرے گی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے ممی ڈیڈی اور اس کے دوستوں نے اس کو اس خطرناک کام سے کتنا روکا ہوگا ، مگر آخرکار ٹینا اپنے ممی ڈیڈی کو منانے میں اور یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ اس کام میں اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ پورے انتظام کے ساتھ جائے گی اور غوطہ خوروں کی ایک پوری ٹیم اس کے ساتھ ہوگی۔

          یہ کام اتنا آسان نہ تھا اس کے لیے اسے اعلیٰ حکام سے ملنا اور اجازت لینا پڑی اور مقامی انتظامیہ سے معاہدے کرنے پڑیاور آج ٹینا کی زندگی کا وہ اہم ترین دن آگیا تا جس کی اس کو آرزو تھی ۔ گو کہ پہلے وہ کئی سو بار سمندر کی گہرائی میں جا چکی تھی لیکن آج اسے لگ رہا تھا کہ وہ پہلے بار سمندر میں اُتر رہی ہے۔ وہ نئے جوش اور ولولے کے ساتھ جا رہی تھی ۔

          گہرے سمندر میں اُترنے کے لیے اسے ایک ایسی بھاری بیٹری کی ضرورت تھی جس میں مختلف گیسوں سے بھرے چھ ٹینک ہوتے ہیں گیسوں کے اس مرکب کو باری باری استعمال کرنا ہوتا ہے کیونکہ کسی گہرائی پر کوئی گیس زہریلی ہوے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کام میں پندرہ افراد کے عملے نے سمندر کی سطح پر اس کی مدد کی۔ عملے کے ساتھ ایک ایمرجنسی میڈیکل یونٹ بھی موجود تھا۔ اس کے علاوہ سمندر کی مختلف گہرائیوں میں آٹھ افراد ایمرجنسی کی صورت میں آکسیجن مہیا کرنے کے لیے موجود تھے۔

          بالآخر ٹینا نے اپنی زندگی کا وہ تاریخی غوطہ لگا دیا جس میں اس نے نیا ریکارڈ قائم کرنا تھا۔ اس غوطہ خوری میں ٹینا کو اس قدر زیادہ دبائو کا سامنا تھا کہ اس کا پانچ ملی میٹر موٹا غوطہ خوری کا لباس سکڑ کر صرف دو ملی میٹر کا رہ گیا۔ اس نے اتنے جوش سے غوطہ لگایا کہ صرف چار منٹ میں 525  فیٹ کی گہرائی میں اُتر گئی اور جہاز کو ڈھونڈ نکالا ۔ عام طور پر غوطہ خور اتنی گہرائی میں نہیں جاتے اس لیے وہ جہاز کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے تھے۔ جس وقت وہ تباہ شدہ جہاز کے ملبے پر پہنچی اس وقت وہ گیسوں کے ایسے مکسچر میں سانس لے رہی تھی جس میں 7  فیصد آکسیجن، 77  فیصد ہیلیم، اور 17 فیصد نائٹروجن شامل تھی ۔

          ٹینا جہاز کے ملبے کے پاس زیادہ دیر ٹھہرنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اسے احساس تھا کہ وہاں جہاز کے مسافروں کی لاشوں کے سوا اور کیا ہوگا۔ لیکن یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سمندر کی تہہ میں تو اس قدر خوبصورت اور حیرت انگیز دنیا آباد ہے جس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو خود اپنی آنکھوں سے اس کا نظارہ کرے۔ ٹینا کو لگ رہا تھا کہ وہ کسی دوسرے سیارے پر پہنچ گئی ہے۔ یقیناً یہ نظارہ ہماری دنیا سے قطعاً مختلف اور کہیں زیادہ خوبصورت اور پُرسکون تھا۔ اس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی اور ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت مچھلیوں کا غول جمع ہوگیا تھا وہ ٹینا کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ اس کے علاوہ بے شمار چھوٹی چھوٹی سمندری مخلوق ، پودے ، جڑی بوٹیاں، رنگ برنگی کائیاں ، سیپیاں ، مونگے ، گھونگے…..  ! ٹینا کے لیے یہ ایک بالکل نئی دنیا تھی۔ اس نے جہاز کو چاروں طرف سے گھوم گھوم کر دیکھا، اس پر بھی کائی کی دبیز تہہ جم چکی تھی۔ جہاز کے اندر جانے کی تو اسے ہمت نہیں ہوئی لہٰذا تھوڑی دیر ٹھہر کر اس نے واپس جانے کا ارادہ کیا۔

          جونہی ٹینا نے واپس جانے کا ارادہ کیا اچانک کوئی چیز جہاز سے نکل کر ٹینا کی ٹانگ سے چمٹ گئی، خوف سے اس کی چیخ بھی نہیں نکل سکی کیونکہ اس کے منہ میں گیس کا ماسک تھا۔ وہ جھک کر بھی نہیں دیکھ سکتی تھی کیونکہ اس کی پیٹھ پر کافی سامان موجود تھا اور ہاتھ سے چھو کر وہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی، تاہم اس کا اندازہ تھا کہ شاید کچھوا یا اسی قسم کی کوئی چیز ہے۔ اس نے کئی بار اپنی ٹانگ کو جھٹکا کر شاید وہ الگ ہوجائے لیکن جھٹکنے سے اس کی گرفت اور مظبوط ہوگئی۔ اب تو ٹینا بہت گھبرائی اور اوپر کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ جلد از جلد واپس پہنچ جانا چاہتی تھی ۔ اس جدوجہد میں اسے سخت تھکن کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ اس کی کمر پر تو پہلے ہی بوجھا تھا اور اب تو اس کی ٹانگ کے ساتھ بھی ایک بوجھ کا اضافہ ہوگیا تھا۔

          سطح آب پر آکر ٹینا نے وہاں اس کے انتظار میں کھڑی کشتی میں چھلانگ لگا دی۔ عملے کے لوگ جلدی جلدی اس کی مدد کے لیے آئے اور اس کے اوپر سے بیٹری ، ماسک اور فلیپر واغیرہ اتارنے لگے، اچانک ان کی نظر ٹینا کی ٹانگ پر پڑی تو وہ بھی ایک دم گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ جب ٹینا کے منہ پر سے ماسک ہٹ گیا تو اس نے بھی بے ساختہ چیخ ماری اور بولی ! ’’ اسے ہٹائو …..  پتا نہیں کیا چیز چمٹ گئی تھی؟ ‘‘

          وہاں بے شمار لوگ اس کے ورلڈ ریکارڈ بنے کی خوشی میں موجود تھے۔ جن میں اخباری رپورٹر، میڈیا کے لوگ، اس کے اپنے رشتہ دار ، ایمرجنسی میڈیکل کا عملہ …..  بھی ٹینا کی چیخ سن کر اس کی جانب متوجہ ہوکر دوڑے اور ٹینا کی ٹانگ سے چمٹی اس عجیب و غریب چیز کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ رپورٹر جلدی جلدی تصویریں اتارنے لگے۔لوگوں کا ہجوم اور کیمروں کی فلش سے گھبرا کر اس چیز نے ٹینا کی ٹانگ چھوڑ دی اور کشتی کے ایک کونے میں جا چھپی۔ اس کے حرکت کرنے اور چھپنے کے انداز سے تو لگ رہا تھا کہ وہ انسانی بچے سے مشابہ کوئی مخلوق ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ تھی کہ اس قسم کی مخلوق سمندر میں کیسے پہنچی اور اب تک زندہ کیسے تھی۔ بہرحال فوری طور پر تو اس کو ڈاکٹرز کی ٹیم اپنے ساتھ میڈیکل ریسرچ سینٹر میں مزید تحقیقات کے لیے لے گئی۔

          ان سب نے ٹینا کے کامیاب مشن پر شکر ادا کیاکہ وہ خود خیر خیریت سے لوٹ آئی اور نہ صرف جہاز کا کھوج لگا لیا بلکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ گہرائی میں جانے کا نیا ریکارڈ بھی قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی جو اس کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ سب لوگ اسی کا جشن منانے میں مصروف ہوگئے۔

          ایک ہفتے بعد اچانک ٹینا کو اس چیز کا خیال آیا جو اس کے ساتھ چمٹ کر آئی تھی ۔ اسی تجسس میں وہ متعلقہ میڈیکل سینٹر پہنچ گئی اور ڈاکٹر سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ ڈاکٹر اس کو ریسرچ سینٹر لے گیا جہاں وہ چیز اِنکوبیٹر میں رکھی ہوئی تھی ۔ ٹینا نے دیکھا کہ وہ ایک انسانی بچہ تھا جس کے ہاتھ پیر کسی کچھوے کی مانند مُڑے ہوئے تھے۔ بڑی دیر تک ٹینا منہ کھولے حیرت سے اس کو دیکھتی رہی، پھر بولی !

’’ ڈاکٹر صاحب …..  یہ تو انسانی بچہ ہے؟ مگر یہ سمندر میں پہنچا کیسے اور اب تک زندہ کیسے تھا؟ دیکھنے میں تو یہ دو ماہ کا بچہ لگتا ہے مگر اس کی گرفت اتنی مظبوط کیسے تھی کہ میں بہت کوشش کے باوجود اس سے پیچھا نہ چھڑا سکی بلکہ جتنا میں اسے جھٹکتی تھی اس کی گرفت اتنی ہی مضبوط ہوتی جاتی تھی اسی لیے میں خوفزدہ ہوکر وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی …..  کہیں یہ کسی بھوت کا بچہ تو نہیں؟ ‘‘ ٹینا نے مزید خوفزدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔ ’’ ارے نہیں…..  گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ بالکل انسانی بچہ ہے اور اس کی عمر اتنی نہیں جتنی دکھائی دیتی ہے۔ یہ کم از کم بھی پانچ سال کا ہے اور لگتا ہے کہ یہ جہاز کے مسافروں میں سے کسی کا بچہ ہے جو جہاز کے غرق ہوے کے بعد پیدا ہوا ہوگا۔ اس کی ماں اس کو جنم دینے کے بعد مرگئی ہوگی اور اس کی پرورش وہاں موجود کسی کچھوے نے کی ہوگی کیونکہ اس کے مُڑے ہوئے ہاتھ پیر دیکھ کر یہی اندالزہ ہوتا ہے۔ اسی کچھوے نے اب تک اس کو باقی گوشت خور جانوروں سے بھی بچا کر رکھا ہوگا ورنہ باقی تمام انسانوں کو تو اب تک جانور کھا کر ختم کرچکے ہوں گے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ دو ماہ کا دکھائی دیتا ہے تو اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس نے اپنی ماں کا دودھ تو نہیں پیا ہوگا جس جانور نے بھی اس کی پرورش کی تھی اس نے اپنے جیسی ہی غذا کھلا کر پالا ہوگا اور پھر مسلسل تیراکی کرنے کی وجہ سے اس کا وزن اس طرح تیزی سے نہیں بڑھ سکا جس طرح زمینی بچوں کا بڑھتا ہے۔ یہ قدرت کا ایک معجزہ ہے کہ یہ اس طرح سمندر میں زندہ رہا ۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اس کی آنکھوں اور کانوں پر ایک قدرتی جھلی ہے جس سے یہ کانوں میں پانی بھر جانے سے محفوظ رہا اور اتنے عرصے سمندر میں رہنے سے اور بھی کئی تبدیلیاں اس میں پیدا ہوگئی ہیں۔ یہ یقیناً کچھوئوں کی طرح تیرتا ہوگا۔ مگر ابھی یہ ماحول بدل جانے سے بار بار بے ہوش ہوجاتا ہے۔ ہم اسے کبھی پانی میں اور کبھی بغیر پانی کے رکھتے ہیں تاکہ یہ زمینی ماحول سے بھی مانوس ہوسکے ورنہ اس کا زندہ رہنا ناممکن ہے۔‘‘

’’ لیکن ڈاکٹر صاحب یہ مجھ سے کیوں چمٹ گیا تھا۔ اسے تو مجھ سے ڈرنا چاہیے تھا، یا ڈر کر مجھ سے اس لیے چمٹا تھا تاکہ میں اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکوں۔‘‘

’’ آخر یہ ایک انسانی بچہ ہے، ہوسکتا ہے کہ انسانی خوشبو پاکر تم سے چمٹا ہو، اور پھر چھوڑا بھی نہیں شاید قدرت اس طرح اسے زمین پر بھیجنا چاہتی ہو۔ قدرت بھی تو اسی طرح معجزے دکھا کر اپنے ہوے کا احساس دلاتی ہے نا۔ بہرحال ٹینا بیٹا یہ بھی تمہارا ایک کارنامہ ہے کہ اس طرح تم ایک انسان کو اس کی اصلی دنیا میں لانے کا موجب بنیں۔ یہ اس بچے پر تمہارا احسان ہے ورنہ تو یہ ساری عمر سمندری مخلوق کے ساتھ گزار دیتا یا پھر کسی شارک مچھلی کا لقمہ بن چکا ہوتا جو انسان کی دشمن ہے۔‘‘

’’ جی ہاں…..  شاید آپ درست کہہ رہے ہیں! لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس کی ماں…..  یعنی وہ جس کسی نے بھی اسے پالا ہے اس کو ڈھونڈ رہی ہو اور اگر کہیں وہ اس کو میرے ساتھ آتا دیکھ لیتی تو ہوسکتا ہے کہ مجھے نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کرتی۔‘‘ ٹینا سوچتے ہوئے بولی۔

’’ ہاں…..  ہوسکتا ہے، جو پالتا ہے اسے جدا ہوے کا دکھ تو ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس ماں نے اِسے خود تمہارے پیچھے لگایا ہو، جانور بے حد سمجھدار ہوتے ہیں وہ تو خوشبو سے ہی پہچان لیتے ہیں کہ کو کس نسل سے تعلق رکھتا ہے اور جب اس کی ماں نے تمہیں دیکھا ہوگا تو فوراً پہچان گئی ہوگی کہ یہ جو کوئی بھی ہے اس بچے کی ہی نسل سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا اسے اس کے ساتھ چلے جانا چاہیے اور اسی لیے اس بچے نے تمہارا پیچھا کسی صورت نہیں چھوڑا کیونکہ یہ اس کی ماں کا حکم ہوگا ورنہ ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کو چھوڑ کر اس طرح کسی کے پیچھے نہیں لگ سکتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس بچے کی اصلی ماں نے ہی اس کو تمہارے پیچھے لگایا ہو، سنا ہے کہ جو مائیں بچوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر مرجاتی ہیں ان کی روحیں اس وقت ک بھٹکتی رہتی ہیں جب تک کہ ان کے بچوں کو کوئی صحیح وارث نہ مل جائے۔ چلو جو بھی ہوا اس بچے کے لیے تو اچھا ہی ہوا اور ہم لوگوں کو بھی ریسرچ کا ایک نیا موضوع مل گیا۔‘‘

’’ ڈاکٹر صاحب…..  ! ڈرائیں تو مت، کہ میں دوبارہ سمندر میں جائوں ہی نہیں،‘‘ ٹینا خوفزدہ ہوتے ہوئے بولی،’’ ویسے ڈاکٹر صاحب مجھے تو اس کا زمین پر رہنا بھی ناممکن ہی لگتا ہے، اب تو یہ پانی کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ اس کے بغیر مر ہی جائے گا۔ ‘‘

’’ نہیں…..  ایک اُمید ابھی باقی ہے….. ! وہ یہ کہ یہ ابھی بچہ ہے اور بچے جلدی دوسرے ماحول میں ڈھل جاتے ہیں۔ ‘‘

’’ چلیں دیکھتے ہیں خدا کرے ایسا ہی ہو، لیکن ڈاکٹر صاحب آپ مجھے اس کے بارے میں باخبر ضرور رکھیے گا اور میں اس کے لیے کچھ کرسکوں تو ضرور بتائیے گا۔ ‘‘

          ٹینا جانے کے لیے مُڑی تکو پیچھے اِنکوبیٹر سے ’’ غائوں غائو ‘‘ کی سی آوازیں آنے لگیں۔ ڈاکٹر صاحب جلدی سے بچے کی جانب متوجہ ہوگئے اور اسسٹنٹ کو آرڈر کیا، ’’ بچے کو فوراً پانی کے ٹینک میں منتقل کرو۔ لگتا ہے پھر اس کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ ‘‘

’’ ڈاکٹر صاحب فکر کی تو کوئی بات نہیں….. !‘‘ ٹینا پریشان ہوکر بولی۔

’’ نہیں…..  پانی کے ٹنک میں ڈالنے سے بہتر ہوجائے گا۔ پانی میں جانے کے لیے بے چین ہو رہا ہے۔ ‘‘

’’ ڈاکٹر صاحب کیا ایک ہفتے سے آپ یہی سب کر رہے ہیں؟ ‘‘ ٹینا نے پوچھا

’’ ہاں …..  ہم اس کو مسلسل اسی طریقہ کار سے اسی لیے گزار رہے ہیں تاکہ یہ تھوڑا بہت خشکی کا بھی عادی ہوجائے۔‘‘

’’ پھر …..  کچھ فرق پڑا ؟ ‘‘

’’ ہاں کچھ فرق تو پڑا ہے، تم نے دیکھا جب سے تم یہاں موجود تھیں یہ مسلسل خشک اِنکوبیٹر میں تھا اور اب ایک گھنٹے کے بعد یہ بولا تھا‘‘

’’ ڈاکٹر صاحب یہ تو کافی وقفہ ہے…..  اس کا مطلب ہے کہ یہ جلد ہی عادی ہوجائے گا۔‘‘

’’ ہاں اُمید تو کافی ہے۔ ‘‘

’’ ڈاکٹر صاحب کیا یہ روتا بھی ہے؟ ‘‘ ٹینا نے تجسس سے پوچھا۔

’’ نہیں ابھی تک تو نہیں روتے دیکھا، شاید اس کو رونا آتا ہی نہیں ہے۔‘‘

’’ ویسے یہ اپنی ماں کو اور وہاں کے ماحول کو مِس تو بہت کرتا ہوگا آخر ہے تو بہت چھوٹا بچہ، کتنا کیوٹ ہے نا! پتا نہیں کس کا بچہ ہے‘‘ ۔  ٹینا کو افسوس ہورہا تھا۔

’’ اوہ واقعی! یہ بات تو تم نے بالکل صحیح کہی کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ اس کا کوئی نہ کوئی وارث تو ہوگا ہی دنیا میں! کیوں نہ پتا لاگایا جائے۔‘‘

’’ مگر ڈاکٹر صاحب…..  ! جب ہمیں اس کی ماں اور باپ کا ہی نہیں پتہ تو کسی اور وارث کا کیسے پتہ چلے گا؟ ‘‘ ٹینا حیرانی سے بولی۔

’’ ہوں ں ں …..  تم ٹھیک کہتی ہو۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بھی سوچتے ہوئے بولے، ’’ عام طور پر ایسی خواتین کو لمبا سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی پتا نہیں اس نے کیسے کرلیا۔ ویسے تمام اخبارات میں تو اس کے بارے میں خبریں شایع ہوچکی ہیں بہت لوگ اسے دیکھنے بھی آتے ہیں ہوسکتا ہے کہ کبھی نہ کبھی اس کا کوئی وارث نکل ہی آئے۔ ‘‘

’’ اور تب تک آپ مجھے ہی اس کا وارث سمجھیے گا۔ ویسے ڈاکٹر صاحب آپ نے ابھی تک اس کا کوئی نام نہیں رکھا؟

’’ بھئی تم ہی اسے یہاں لائی ہو، اور تم ہی اس کی وارث ہو لہٰذا تم ہی کوئی نام رکھ دو، ‘‘ ڈاکٹر صاحب بولے

’’ ہوںںںں….. ، ‘‘ ٹینا سوچتے ہوئے بولی، ’’ میرا ایک بھائی تھا جو پیدائش کے کچھ ماہ بعد ہی فوت ہوگیا تھا اس کا نام ٹنکو تھا۔ کیوں نہ اس کا نام ’’ٹنکو‘‘ رکھ دیا جائے۔؟‘‘

’’ بہت اچھا ہے! …..  ٹینا سے بھی ملتا جلتا ہے، چھوٹا سا پیارا سا نام ہے جیسا یہ خود ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے تائید کی۔

اچھا ڈاکٹر صاحب…..  اب میں چلتی ہوں، میری ضرورت ہو تو بتائیے گا۔ میں پھر آئوں گی ٹنکو سے ملنے۔ ‘‘ ٹینا دور سے ہی ٹنکو کو پیار بھرا بوسہ دے کر چلی گئی۔

          ٹینا ہر دوسرے تیسرے روز ٹنکو سے ملنے آتی لیکن کوئی خاص بہتری نظر نہیں آتی تھی۔ اسی طرح ایک ماہ گزر گیا۔

اب ٹینا غوطہ خوری بھی بھول گئی تھی اس کو د رات یہی خبط سوار تھا کہ کب ٹنکو ہماری طرح اس دنیا میں رہنے کے قابل ہکوگا۔ اس کی باقاعدہ فزیوتھراپی بھی ہوتی تھی تاکہ اس کے کچھوے کی طرح مُڑے ہوئے ہاتھ پائوں سیدھے ہوجائیں اور وہ انسانوں کی طرح چلنے پھرنے کے قابل ہوسکے۔ یہ ایک لمبا اور صبر آزما کام تھا پھر بھی بہتری کی کافی اُمید تھی ۔ ٹینا بھی بڑی لگن سے اس کام میں لگی ہوئی تھی۔ اس کے ممی ڈیڈی اس کے اس کام سے خوش تھے کہ چلو کسی طرح غوطہ خوری جیسے خطرناک کام سے تو اس کا دھیان ہٹا۔ جبکہ ٹینا کے ذہ میں کچھ اور ہی منصوبہ تھا۔ چھ ماہ گزر گئے ، ٹنکو ٹینا سے کافی مانوس ہوگیا تھا اور ٹینا کے ممی ڈیڈی بھی کبھی کبھی ٹنکو کو دیکھنے کے لیے آجاتے تھے۔ اس کے ہاتھ پائوں بھی کافی حد تک ٹھیک ہوگئے تھے اور اب وہ اپنے پیروں پر کھڑا بھی ہوجاتا تھا اور کچھ کچھ بولنے کی بھی کوشش کرتا تھا اور جو لوگ آس پاس بول رہے ہوتے تھے ان کی گفتگو کو بڑے غور سے سنتا تھا۔ اب تو ٹینا مکمل طور پر اس کی ٹیچر بن گئی تھی ۔ کبھی اس کو محض اشاروں سے سمجھاتی تو کبھی بول بول کر سکھاتی ۔

’’ ٹینا بیٹا ! تم تو ایک اچھی مونٹیسوری ٹیچر بن سکتی ہو!‘‘ ایک دن ڈاکٹر صاحب نے ٹینا کو سکھاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

’’ جی ہاں! میں بھی یہی سوچ رہی ہوں اگر ٹنکو کی ٹریننگ کامیاب ہوگئی تو پھر مستقبل میں یہی کام کروں گی۔‘‘ ٹینا ہنستے ہوئے بولی۔

’’ ویسے ڈاکٹر صاحب، آپ کا کیا خیال ہے میں اپنے اس مش میں کامیاب ہوجائوں گی؟‘‘

’’ سو فیصد …..  ارے بھئی تمہارا تو ریکارڈ ہے کہ جو بھی کام شروع کرتی ہو اس میں نئے ریکارڈ قائم کرتی ہو، یہ تو پھر اتنا مشکل کام نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بولے۔

’’ ڈاکٹر صاحب…..  آپ تو شرمندہ کر رہے ہیں۔ ویسے یہ زیادہ مشکل کام ہے۔ ‘‘ ٹینا بولی۔

’’ ہاں…..  یقیناً مشکل تو ہوگی، ایک ایسے انسان کی تربیت کرنا جو جانوروں میں پلا بڑھا ہو مگر تمہیں مشکل کام کرنے کا شوق جو ہے۔ اب جبکہ یہ کام بھی تم بے حد محنت اور لگن سے کر رہی ہو تو یقیناً یہاں بھی تمہیں کامیابی ہی ملے گی اور پھر یہ تو بہت بڑی نیکی کا کام ہے۔ ہم سب کی دعائیں بھی تمہارے ساتھ ہیں، بیسٹ آف لک۔ ‘‘

’’ تھینک یو ڈاکٹر صاحب! بہت بہت شکریہ۔ آپ لوگوں کی دعائیں ساتھ ہوں گی تو میں یہ کام آسانی سے کرلوں گی۔‘‘

’’ …..  ٹینا ! ‘‘ یہ آواز سن کر ٹینا اور ڈاکٹر صاحب نے بے اختیار پیچھے کی طرف مُڑ کر دیکھا اور دوڑ کر ٹنکو کے کاٹ کی طرف گئے جہاں ٹنکو اپنے کاٹ کی جالی کے سہارے کھڑا ٹینا کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہا تھا۔

’’ ڈاکٹر صاحب…..  آپ نے سنا! کیا یہ ٹنکو بولا تھا؟ ‘‘ ٹینا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اس نے جلدی سے ٹنکو کو گود میں لے لیا اور پیار کرنے لگی۔

’’ ارے بھئی بہت بہت مبارک ہو آج اس نے تمہارا نام بھی سیکھ لیا۔ جس طرح ایک بچہ سب سے پہلے اپنی ماں کا نام سیکھتا ہے۔‘‘

’’ مگر ڈاکٹر صاحب اس نے میرا نام سیکھا کیسے ؟ ‘‘ ٹینا ابھی تک حیران کھڑی تھی۔

’’ ارے ٹینا بیٹا…..  اس میں حیرت کی کیا بات ہے! ہم سب لوگ جو تمہارے آس پاس رہتے ہیں ہر وقت تو تمہارا نام لیتے رہتے ہیں وہی اس نے بھی سن سن کر سیکھ لیا۔ بچے اسی طرح تو سیکھتے ہیں۔ بھئی آج تو میری طرف سے تمہارے لیے ٹریٹ ہوگی آج ایک بہت بڑے کام کی ابتدا ہوئی ہے۔‘‘ بڈاکٹر صاحب بھی بے حد خوش تھے ۔

’’ جی ہاں ضرور…..  ممی ڈیڈی کو بھی انوائٹ کریں گے وہ بھی کس قدر خوش ہوں گے۔ ‘‘

’’ ٹینا ! ٹینا! ٹینا ….. ‘‘ ٹنکو نے ٹینا کا منہ پکڑ کر اپنی طرف کیا۔ جس کا مطلب تھا کہ میری بات بھی تو سنو۔ جس پر ٹینا اور ڈاکٹر صاحب کو بہت ہنسی آئی۔

’’ بھئی ٹینا پہلے اس کی بات سن لو میرا خیال ہے اسے بھوک لگی ہے۔ ہم اپنی ٹریٹ کی بات کر رہے تھے شاید اسی لیے اس کو بھی بھوک لگنے لگی۔‘‘

ٹینا جلدی سے فریج سے کچھ سمندری گھاس، کچی سبزیاں اور پھل نکال لائی۔ ویسے تو وہ کچھوئوں کی طرح صرف سمندری گھاس ہی کھانے کا عادی تھا لیکن ٹینا اس کو ساتھ ساتھ سبزیاں اور پھل کھانے کی بھی عادت ڈال رہی تھی، جس میں اس کو سب سے زیادہ کیلا پسند آیا تھا۔

ٹنکو نے جھپٹ کر کیلا لے لیا اور خود ہی چھیل کر کھانے لگا۔ اب تو اس کے ہاتھ پیر بھی کافی حد تک سیدھے ہوگئے تھے اس لیے چھوٹے چھوٹے کام بڑی آسانی سے کرلیتا تھا۔ اچھی خوراک کھانے کی وجہ س اس کی صحت بھی اچھی ہو رہی تھی اور وہ کچھ بڑا بھی لگنے لگا تھا، ورنہ تو وہ پانچ سال کا ہوکر بھی سائز میں دو تین ماہ کا ہی لگتا تھا۔ ٹینا کی خواہش تھی کہ ٹنکو جلد بڑا ہوجائے ، جلدی جلدی سارے کام سیکھ جائے۔ جب ٹنکو کافی حد تک خشکی پر رہنے کا عادی ہوگیا تو ٹینا اسے ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اپنے گھر لے گئی تاکہ وہ ہر وقت ساتھ رہ سکیں۔ گھر پر ٹینا کا کافی بڑا سوئمنگ پول تھا جس کو دیکھ کر ٹنکو بے حد خوش ہوا اور جاتے ہی اس نے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دی۔ ٹینا اس کو بھی اپنی طرح باقائدہ سوئمنگ اور غوطہ خوری سکھانا چاہتی تھی، گو کہ وہ تو پیدا ہی اس ماحول میں ہوا تھا لیکن پھر بھی پروفیشنل تربیت ضرور تھی ۔ ٹینا کے ممی ڈیڈی یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید وہ ٹنکو کو دیکھ کر اپنے تمام شوق بھول گئی ہے، جبکہ ٹینا کے کچھ اور ہی ارادے تھے جن کو اس نے ابھی تک کسی پر ظاہر نہیں کیا تھا۔ سمندر سے اس کا لگائو جنون کی حد تک تھا جس کو اس نے وقتی طور پر ملتوی ضرور کردیا تھا لیکن چھوڑا نہیں تھا۔

          ٹینا ، ٹنکو کو ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق فزیوتھراپی کے لیے بھی لے جاتی تھی تاکہ اس کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ جسمانی نشوونما بھی ہوتی رہے۔

          ایک دن جب ٹینا اور ٹنکو ریسرچ سینٹر پہنچے تو دیکھا کہ ایک اِنکوبیٹر میں ایک بڑا سا کچھا بیٹھا ہے، ٹنکو کی جب اس پر نظر پڑی تو وہ ’’ماں….. ماں ‘‘ کہتا ہوا کچھٹے کی طرف دوڑا ۔

’’ یہ ٹنکو کو کیا ہوا…..  ؟‘‘ ڈاکٹر صاحب حیرانی سے بولے۔

’’ اوہ میرے خدا…..  لگتا ہے یہ اسے اپنی ماں سمجھ رہا ہے….. ! ٹینا بھی حیرانی سے بولی

’’ سمجھ نہیں رہا…..  یقیناً یہ اس کی ماں ہی ہے…..  میرا مطلب ہے کہ یہ ضرور وہی کچھوا ہے جس نے ٹنکو کو ماں بن کر پالا تھا، کیونکہ یہ بھی اسی جگہ سے ملا ہے جہاں سے ٹنکو ملا تھا۔ ‘‘

’’ مگر …..  ڈاکٹر صاحب یہ یہاں کیسے ….. ؟ ‘‘ ٹینا نے مزید حیران ہوتے ہوئے پوچھا کیونکہ اب کچھوا بھی ٹنکو کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کچھوے کے یہاں پہنچنے کا حال بیان کرتے ہوئے بولے،

          ’’ ایک شخص ڈگلس رابرٹسن اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ سمندری سفر پر نکلا ۔ وہ بادبانی کشتی کے ذریعے کرہ ارض کے گرد چکر لگانا چاہتا تھا۔

          یہ لوگ سفر پر روانہ ہونے کے بعد بحرالکاہل کے اس علاقے میں پہنچے جہاں سے ساحل کا فاصلہ کئی ہزار کلومیٹر تھا۔ وہاں پہنچ کر اس کی کشتی ٹوٹ گئی۔ پھر اُنہیں وہ کشتی چھوڑ کر ایک چھوٹی کشتی میں سوار ہونا پڑا جو اس کشتی میں موجود تھی۔ ان کے پاس جتنا سامان تھا وہ بھی بہہ گیا، صرف پلاسٹک کے چند برتن جن میں پینے کا پانی بھرا ہوا تھا وہ اپنے ساتھ لاسکے تھے۔ کھانے پینے کا یہ سامان بھی تھوڑے دنوں میں ہی ختم ہوگیا اور وہ بھوکے ہوگئے، لیکن موسم چونکہ بارانی تھا ہر دو تین دن بعد بارش ہوجاتی تھی تو وہ لوگ پینے کے لیے پانی تو بھر لیتے تھے مگر کھانے کو کچھ موجود نہ تھا۔

          انہیں معلوم تھا کہ ایسی صورت حال میں عام طور پر مسافر پلائکٹن کھا کر گزارا کرلیتے ہیں( یہ چند خلیات پر مشتمل ایک جانور ہوتا ہے جو سطح آب پر رہتا ہے) ، لیکن جس راستے سے وہ گزر رہے تھے وہاں پر پلائکٹن کا وجود نہ تھا، جس کی وجہ سمندری آلودگی تھی ۔ یہاں پر اس کے علاوہ دو اور اقسام کی چیزیں پائی جاتی ہیں ایک تو ڈیو راڈ مچھلی اور دوسرا سمندری کچھوا۔ وہ ڈیو راڈ مچھلی کو کانٹے کے ذریعے شکار کرتے رہے لیکن ایک مچھلی وہ کانٹا لے کر ہی بھاگ گئی جس کی وجہ سے وہ لوگ ڈیو راڈ مچھلی کے شکار سے بھی محروم رہ گئے۔ اب صرف ایک ہی چیز رہ گئی تھی اور وہ تھا سمندری کچھوا ۔ جونہی کوئی کچھوا ان کی کشتی کے نزدیک آتا تھا ان میں سے کوئی پانی میں چھلانگ لگا کر اس کو پکڑ لیتا تھا اور پھر ساتھیوں کی مدد سے اسے کشتی میں لے آتا تھا اور سب اس کا گوشت کھاتے تھے۔ تقریباً چالیس دن تک وہ اسی طرح کچھوے کا گوشت کھاتے رہے۔

          پھر ایک ماہی گیر کی کشتی نے اُنہیں دیکھ لیا اور ساحل تک پہنچا دیا۔ ایک کچھوا جو کھانے سے بچ گیا تھا اس کو زندہ ہی اپنے ساتھ لے آئے۔ ساحل پر پہنچتے ہی یہ لوگ بیمار پڑگئے اور علاج کے لیے یہاں لائے گئے ۔ اس کچھوے کو بھی ہم نے تجربے کے لیے رکھ لیا۔

          ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ ان کے جسم میں پارے کی مقدار کافی بڑھ چکی ہے۔ ان کے ساتھ آنے والے کچھوے کے ٹیسٹ لیے گئے تو معلوم ہوا کہ اس کچھوے میں بھی پارے کی کافی مقدار موجود ہے، یعنی وہ کچھوے کھانے سے بیمار ہوئے تھے اور کچھوے چونکہ ساحل پر انڈے دیا کرتے ہیں اور اس ساحل کے کنارے بہت سے ایسے کارخانے ہیں جن سے پارہ نکل کر پانی میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ جس سے آس پاس رہنے والے تمام جاندار متاثر ہوتے ہیں اور پھر ان جانداروں کو کھانے والے انسانوں میں بھی یہ پارہ شامل ہوجاتا ہے۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.